سپریم کورٹ بابری مسجد قضیہ پر فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے؟
از:ظفر اقبال
بابری مسجد قضیہ کافیصلہ سپریم کورٹ کبھی نہیں سنائے گی، اس لئے سپریم کورٹ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو سلجھالیں۔ اس کو سپریم کورٹ مان لے گی۔ سپریم کورٹ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ واقعی ہندوستانی سپریم کورٹ بہت ہی بالغ ہے۔ سپریم کورٹ کی بلوغت سے کون انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کبھی بھی بابری مسجد کے قضیے پر فیصلہ نہیں سنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، تمام ثبوت مسلمانوں کے حق میں جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کی اکثریتی آبادی جو ہندو پر مشتمل ہے، ان کا اعتقاد بنادیا گیا ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ بنائی گئی ہے جس جگہ پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کی اکثریتی آبادی بضد ہے کہ کسی بھی طرح عظیم رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ جس دن بابری مسجد کو توڑی گئی اسی دن ایک عارضی رام مندر تو پہلے ہی بنادی گئی ہے، جہاں مسلسل پوجا ہورہی ہے، مسجد کی شکل تو اب بچی ہی نہیں ہے۔ہاں لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ہے جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی ، وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے مسجد کو ڈھاکر کر مندر یا گرجا گھر ہی کیوں نہیں بنادیا گیا ہو۔
اب مسئلہ ہے کہ سپریم کورٹ خود فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے ، اس کہ وجہ بہت ہی ٹھوس ہے اور وہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں کبھی مندر تھا جسے ڈھاکر یہ مسجد بنائی گئی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اگر عقیدہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ اکثریتی آبادی کے حق میں فیصلہ سنادیتی ہے تو اس سے سپریم کورٹ کا اعتبار ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ خطرے میں ہندوستان میں ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس کا خمیازہ انہیں بین الاقوامی سطح پر یو این او، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، ہیگ کی عدالت ہرجگہ ان کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان مسلمان اس کیس کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عالمی عدالت سے مدد حاصل کرسکتا ہے، اس چیز نے حکومت ہند اور سپریم کورٹ کوبے چین کررکھا ہے، اس بے چینی نے ہی انہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ زبردستی کسی معاہدہ پر پہنچنا چاہتے ہے۔ اگر یہاں کی مسلم قیادت کسی لالچ میں مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو ایک طرح سے یہاں کی پوری مسلم آبادی اللہ کی نظر میں مرتد ہوجائے گی، اللہ بھی یہاں کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدالت میں بھی ہم اپنے اوپر زیادتی کی فریاد بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے مسلم قیادت سے درخواست ہے کہ کسی بھی قیمت پر ہم اکثریتی آبادی سے اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرسکتے۔ چاہے بابری مسجد کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کو سونے کے محل بھی بناکر یہاں کی اکثریتی آبادی کیوں نہ دے دے۔
فون:9958361526
از:ظفر اقبال
بابری مسجد قضیہ کافیصلہ سپریم کورٹ کبھی نہیں سنائے گی، اس لئے سپریم کورٹ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو سلجھالیں۔ اس کو سپریم کورٹ مان لے گی۔ سپریم کورٹ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ واقعی ہندوستانی سپریم کورٹ بہت ہی بالغ ہے۔ سپریم کورٹ کی بلوغت سے کون انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کبھی بھی بابری مسجد کے قضیے پر فیصلہ نہیں سنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، تمام ثبوت مسلمانوں کے حق میں جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کی اکثریتی آبادی جو ہندو پر مشتمل ہے، ان کا اعتقاد بنادیا گیا ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ بنائی گئی ہے جس جگہ پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کی اکثریتی آبادی بضد ہے کہ کسی بھی طرح عظیم رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ جس دن بابری مسجد کو توڑی گئی اسی دن ایک عارضی رام مندر تو پہلے ہی بنادی گئی ہے، جہاں مسلسل پوجا ہورہی ہے، مسجد کی شکل تو اب بچی ہی نہیں ہے۔ہاں لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ہے جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی ، وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے مسجد کو ڈھاکر کر مندر یا گرجا گھر ہی کیوں نہیں بنادیا گیا ہو۔
اب مسئلہ ہے کہ سپریم کورٹ خود فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے ، اس کہ وجہ بہت ہی ٹھوس ہے اور وہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں کبھی مندر تھا جسے ڈھاکر یہ مسجد بنائی گئی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اگر عقیدہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ اکثریتی آبادی کے حق میں فیصلہ سنادیتی ہے تو اس سے سپریم کورٹ کا اعتبار ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ خطرے میں ہندوستان میں ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس کا خمیازہ انہیں بین الاقوامی سطح پر یو این او، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، ہیگ کی عدالت ہرجگہ ان کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان مسلمان اس کیس کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عالمی عدالت سے مدد حاصل کرسکتا ہے، اس چیز نے حکومت ہند اور سپریم کورٹ کوبے چین کررکھا ہے، اس بے چینی نے ہی انہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ زبردستی کسی معاہدہ پر پہنچنا چاہتے ہے۔ اگر یہاں کی مسلم قیادت کسی لالچ میں مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو ایک طرح سے یہاں کی پوری مسلم آبادی اللہ کی نظر میں مرتد ہوجائے گی، اللہ بھی یہاں کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدالت میں بھی ہم اپنے اوپر زیادتی کی فریاد بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے مسلم قیادت سے درخواست ہے کہ کسی بھی قیمت پر ہم اکثریتی آبادی سے اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرسکتے۔ چاہے بابری مسجد کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کو سونے کے محل بھی بناکر یہاں کی اکثریتی آبادی کیوں نہ دے دے۔
فون:9958361526