Monday, 27 November 2017

منافقوں کا اتحاد

منافقوں کا اتحاد

Islami_alliance#

از:ظفر اقبال

گزشتہ روز 26 نومبر 2017 کو ریاض میں اکتالیس مسلم ممالک کی کانفرنس ہوئی، جس میں دہشت گردی کے تعلق سے بہت سارے فیصلے کیے گئے کہ دہشت گردی کو ہم لوگ مل کر جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ جو مسلم ممالک دہشت گردی سے متاثر ہیں اس میں عسکری کارروائی کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔ ریاض میں گزشتہ روز بہت ہی رونق تھی۔ اکتالیس ممالک کی نمائندگی وہاں ہورہی تھی، تو یقیناًوہاں گہماگہمی تو ہوگئی ہی۔ واضح رہے کہ اس اجلاس میں عالم اسلام کا ہیرو ملک ایران اور ایران کے قریب ترین ممالک عراق اور شام کو کوئی دعوت ہی نہیں دی گئی ، ہاں لبنان کو دعوت دی گئی لیکن لبنان کی حکومت نے اس دعوت نامہ کو ہی مسترد کردیا اور قطر بے چارہ جو خود ان دہشت گرد گروپوں کا شکار ہے اس کو بھی دعوت نہیں دی گئی۔

یہ کیسا اسلامی اتحاد ہے جس کا سرغنہ سعودی عرب دہشت گردی کو فروغ دینے میں کلیدی رول ادا کررہا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ متحدہ عرب امارات کے دو افسران ان میں ایک دوبئی کے سابق پولس ڈائرکٹر جنرل خلفان کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے ہیڈکوارٹر کو بمباری کرکے تباہ کردینا چاہئے۔ یہ کیسے عرب ممالک ہیں جن کے یہاں اختلاف کا احترام کی بو تک نہیں پہنچی ہے۔ ہر اختلاف کرنے والے شخص یا ادارے کو یہ عرب ممالک تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ قطرکا صرف اس لئے بائی کاٹ کررکھا ہے کہ وہ اپناآزاد خارجہ پالیسی بنا رکھا ہے۔ بھائی ساری دنیا خود اقوام متحدہ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ ہر کوئی آزاد ملک وہ خود آزادانہ خارجہ پالیسی بناسکتی ہے۔ کس ملک سے اپنے تعلقات رکھنے ہیں اس ملک کی حکومت کو فیصلہ کرنا ہے۔ اسی طرح یمن جو عرب ممالک کا سب سے غریب ملک ہے اس پر ڈھائی سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے سعودی عرب حملہ آ ور ہے۔ ہزاروں افراد اب تک سعودی غنڈہ گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین جو غنڈہ گردی مچارہے ہیں اور اسلام کی شبیہ کو سخت نقصان پہنچارہے ہیں۔ جس کا تدارک جلد از جلد نہ کیا گیا تو اسلام کی شبیہ کو دنیا میں زبردست نقصان پہنچے گا۔لیکن اسلام کا ٹھیکدار غنڈہ جو اتفاق سے خادم الحرمین الشریفین بھی ہے۔وہ نام ونہاد اسلامی ممالک کا گروپ بناکر غنڈہ گردی مچارہا ہے، سعودی عرب کی اس غنڈہ گردی کو امریکہ اور اسرائیل کی زبردست حمایت حاصل ہے۔

ان نام ونہاد اسلامی ممالک کے اتحاد کو شرم آنی چاہئے کہ مشرق وسطی میں ایک ہی ناجائز ریاست ہے وہ اسرائیل ہے اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ بلکہ الٹا یہ ہورہا ہے کہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اور اسرائیل سے برسرپیکار حماس ، حزب اللہ اور اخوان المسلمین کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔یہ کس طرح کے لوگ ہیں جو اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں جو اسلام کو بدنام کرنے اور رسوا کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔پورے عالم اسلام میں صرف ایران اور اس کے اتحادی ہی ہیں جو اس دنیا میں امن قائم رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ باقی یہ کریمنل ریاستیں جو خود کو اسلامی ٹھیکیدار بنتے ہیں اور اپنے پٹرول کی دولت کے بل پر مختلف ممالک کو بلیک میل کرکے بھی کچھ ممالک کو ہمنوا بنارکھا ہے۔ یہ اسلام کے ٹھیکدار اسلامی اتحاد میں اگر دم ہے تو سب سے پہلے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کرے پھر سارا عالم اسلام بشمول ایران بھی اس جنگ کا حصہ بننا اپنے لئے باعث افتخار سمجھے گا۔
فون: 9958361526

Thursday, 23 November 2017

یروشلم میں ہمیں ایرانی پاسداران انقلاب کے بوٹوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے

یروشلم میں ہمیں ایرانی پاسداران انقلاب کے بوٹوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے

#Jerusalem_Iran_IRG

از:ظفر اقبال

شام اور عراق سے داعش کا خاتمہ ہوچکا ہے۔اب بشار الاسد کی حکومت بچ چکی ہے، شاید اگلے برس یا کچھ زائد عرصہ کے بعد شام میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہوہی جائے گا۔ شام میں کوئی خاص اپوزیشن پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے بشار الاسد کا دوبارہ صدر بننا تقریبا طے ہی سمجھئے۔ بشار الاسد کی ایک بات کی ہم تعریف کریں گے بلکہ دشمن بھی تعریف کرے بنانہیں رہے گا کہ واقعی وہ حافظ الاسد کا ڈاکٹر بیٹا ہے۔ جس کے اندر نہ خوف نہ ہراس ، اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ لندن یا امریکہ یا ماسکو یا پیرس میں شام کی حکومت چھوڑ کر سیاسی پناہ لے چکا ہوتا۔ لیکن بشار الاسد کی ہمت کی داد دیئے بنا میں نہیں رہ سکا۔ 
گزشتہ دن روس کے شہر سوچی میں روس ،ایران اور ترکی کے درمیان شام کے مستقبل کے تعلق سے میٹنگ ہوئی، جہاں تینوں ممالک کے سربراہ مملکت کم از کم ایک نقطہ پر پہنچے کہ اب داعش اور اس کے حامیوں کو علاقے میں قدم جمنے نہیں دیا جائے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ داعش کے خلاف جنگ اور بشار الاسد کے خلاف سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کے پالتو جہادی جو فری سیرین آرمی، النصرہ فرنٹ اور القاعدہ وغیرہ کے ناموں سے شام کی حکومت کی الٹنے کی جو کوشش کی اس کے محرکوں کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے۔اب ساری دنیا یہ محسوس کرتی ہے کہ مشرق وسطی میں دو طاقتیں اسرائیل اور سعودی عرب ایسی ہے جو ایران دشمنی میں ہر طرح کی تباہی مچانے اور اور ملک کے ملک تاراج کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتی ہیں۔ اس لئے دنیا کو پرامن رکھنے کے لئے فلسطین کی آزادی ضروری ہوچکی اور فلسطین کی آزادی اسرائیل کے ناجائز حکومت کے خاتمہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سنی دنیا کا نام و نہاد ٹھیکدار سعودی عرب کو کس نے سنی دنیا کی قیادت سونپ دی ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے وہ ایران کی دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ بلکہ سرزمین حرمین کو مسلسل اسرائیلی اور امریکیوں کی خوشنودی کے لئے پامال کررہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی فلسطین کی سرحد سے قریب ہزاروں کلومیٹر میں پھیلے ہی علاقے میں مکاؤ کے طرز پر دنیا کا سب سے بڑا جدید شہر بنانے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ جہاں جوئے خانے بھی ہوں گے اور عیاشیوں کے تمام جدید سامان بھی مہیا کرایا جائے گا۔ اس علاقے پر سعودی عرب کا ملکی قانون بھی نافذ نہیں ہوگا۔ اب یہ علاقہ جو جزیرہ العرب کا علاقہ ہے کس طرف جارہا ہے۔ جہاں علانیہ زناکاری کی جائے گا اور جسے خادمین الحرمین الشریفین کا تحفظ بھی حاصل رہے گا۔ یہ چیز سوچ کر میں خود کو آگ میں جلتا ہو امحسوس کررہا ہوں۔
اب وقت آگیا ہے کہ روس، ایران اور سنی ملک جو خلافت عثمانیہ کا حقیقی وارث ترکی کی متحدہ قوت یروشلم کی آزادی کے لئے مارچ کرے اور ان علاقوں کو یہود اور آل سعود کے ناپاک وجودسے پاک کرے۔ سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت کے خاتمہ کے بعد عام انتخابات کرایا جائے اور وہاں کی حکومت وہاں کی جمہوری عمل سے منتخب کی گئی پارٹی کے حوالے کردی جائے اور حرمین شریفین کا منیجمنٹ تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی)سنبھال لے۔یہی سب سے کے لئے بہتر ہے۔
فون: 9958361526

Tuesday, 21 November 2017

ہندوستان کا اسرائیل سے دفاعی سودا منسوخ کرنا ایک شاندار فیصلہ

ہندوستان کا اسرائیل سے دفاعی سودا منسوخ کرنا ایک شاندار فیصلہ

از:ظفر اقبال

ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ ہوئے دفاعی معاہدے کو منسوخ کرکے جو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی ہمیں تعریف کرنی چاہئے کہ ایک ناجائز ریاست اسرائیل جو فلسطین کی زمین کو ہڑپ کرکے بنائی گئی ہے۔ اس کا مخالف اب بی جے پی کا ہندوستان بھی ہوگیا ہے۔ گاندھی جی بھی اسرائیل کے وجود کے مخالف تھے۔ ہندوستانی حکومت کا مؤقف لائق تحسین ہے۔ جس کی ہمیں بھرپور ستائش کرنی چاہئے ۔
گزشتہ چند مہینے قبل ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی ہندوستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہین جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا، جہاں اسرائیل کے وزیراعظم نے بہت کی شاندار اور پرتپاک خیر مقدم کیا تھا۔ اور ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان اینٹی ٹینک میزائل کے 500 ملین ڈالر کا سودا ہوا تھا۔ یہ سودا ایسا تھا کہ ہندوستان کے اندر ہی اسرائیل کو اینٹی ٹینک میزائل بناکر ہندوستان کے حوالے کرنے تھے۔ حیدرآباد میں اس کارخانے نے اپنا کام بھی شروع کردیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ہندوستان نے دو دن قبل اس سودے کو منسوخ کرکے بہت ہی احسن کام انجام دیا ہے۔
 ادھر چند برسوں سے ہندوستان اور اسرائیل میں جس طرح قربت بڑھ تھی جس سے ہندوستان کے سیکولر ذہن رکھنے والے شہریوں کو کافی تکلیف دے رہی تھی۔ لیکن مودی حکومت کے شاندار فیصلے کی وجہ سے اسرائیل کے حامی حیرت میں مبتلا ہیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف بولنے والے لوگوں کے دلوں کو تھوڑا سکون بھی ملا ہے۔ سیکولر ذہن کے حامی لوگ جو فلسطین کے حامی ہیں وہ  زیادہ خوش ہیں کہ ہندوستان نے واقعی بہترین فیصلہ کیا ہے۔یہی ہمارے لئے بہتر بھی ہے۔ 
فون: 9958361526

Tuesday, 14 November 2017

حوثی میزائل سے امریکہ اور آل سعود سکتے میں

حوثی میزائل سے امریکہ اور آل سعود سکتے میں


از: ظفر اقبال

چند دن قبل ریاض پر یمن کے حقیقی وارث حوثی ملیشیا نے برکان۔2 نامی ایک بیلسٹک میزائل فائر کیا جس سے ریاض کے کنگ خالد ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔ جس سے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی پریشان ہے۔
عالمی جوکر امریکہ ابھی بھی فیصلہ نہیں کرسکا کہ یہ میزائل کس ملک کا بنا ہوا ہے، اگر ایران کا بنا ہوا ہے تو یہ اسمگل ہوا کیسے؟ ہم نے تو پوری ناکہ بندی کررکھی ہے، اگر حوثی نے خود بنالیا ہے تو یہ تو اور بھی خطرناک بات ہے جس سے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی سکتے میں آسکتے ہیں۔
برطانوی ادارے "گلوبل رِسک اِنسائٹس" کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایران کی جانب سے مشرق وسطی بالخصوص یمن ، عراق اور شام میں غلبہ پانے کے لیے کس طرح "حزب اللہ" ملیشیا کا ماڈل پھیلایا گیا۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نے ایران کے رسوخ کے حوالے سے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان واقعات میں یمن میں باغی حوثی ملیشیا کا سعودی عرب پر میزائل داغنا اور لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا مستعفی ہونا شامل ہے۔
یہ بات بھی باور کرائی گئی ہے کہ داعش تنظیم کے خلاف جنگ پر توجہ اور خطے میں تہران کے تخریبی کردار کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ بغداد اور دمشق کے ذریعے ایرانی غلبے میں اضافے اور بحیرہ روم تک اس کی پیش قدمی کی صورت میں سامنے آیا۔ عراق ، شام اور لبنان ایرانی عسکری اور اقتصادی قوت کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ میں فرنٹ لائن بن گئے۔
اب تو ایران مشرق وسطی کا کنگ بن چکا ہے۔ بس موجودہ مشرق وسطی کے جعلی کنگس کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
فون: 9958361526

Saturday, 4 November 2017

عراق اور شام کی حکومت کو داعش کی تباہی مبارک ہو

عراق اور شام کی حکومت کو داعش کی تباہی مبارک ہو

از:ظفر اقبال


ایران اور روس کی مدد سے خلافت عباسیہ کا دارالخلافہ بغداد اور بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق بالترتیب عراق اور شام کی حکومت محفوظ ہوگئی ، عراقی اور شامی حکومت کو یہ کامیابی مبارک ہو۔ دیر الزور پر گزشتہ روز شامی حکومت کے قبضہ کےبعد شام اور عراق سے داعش کا مکمل طور سے خاتمہ ہوگیا۔ اب امریکہ اور اس کے عرب اتحادی مزید اور سازشیں کریں گے۔ اب ایران اور اس کے اتحادیوں کا اگلا ہدف القدس یعنی فلسطین کی آزادی ہونی چاہئے۔ ایران اور اس کے حامیوں کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے، دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بنیادی ہدف ہونا چاہئے۔ فلسطین کی آزادی کے بعد ہمیں سیدۃ النسا حضرت فاطمہ الزہرا اور ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری کے روضہ کی تعمیر بھی تو کرنی ہے جس کو آل سعود نے 1926 میں ڈھادی تھی، یہ ہدف بھی پیش رہنی چاہئے۔

فون: 9958361526



Image may contain: 1 person, standing

Thursday, 2 November 2017

بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ پر عدالت فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے؟

بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ پر عدالت فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے؟


از: ظفر اقبال


بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تناز ع کا عدالت سے باہر حل تلاش کرنے کے متعلق حالیہ مبینہ کوششوں کے درمیان آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے واضح کیاکہ وہ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ بابری مسجد کی جگہ عرش تا فرش قیامت تک کے لئے مسجد کے حکم میں ہے اور اس تنازع میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اسے منظور ہوگا۔ بورڈ کی طرف سے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاپنے اس موقف پر قائم ہے کہ بابری مسجد کی جگہ عرش تا فرش قیامت تک کے لئے مسجد کے حکم میں ہے اور آج بھی بورڈ اسی موقف پر قائم ہے، اور بورڈ کا یہ بھی متفقہ فیصلہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو منظور ہوگا۔
بیان کے مطابق مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کہا کہ اس وقت جو خبریں مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف منسوب کرکے کہی جارہی ہیں کہ درپردہ کوئی سازش چل رہی ہے اور ہندومذہب کے روحانی پیشوا شری شری روی شنکر سے ٹیلیفون یا بالمشافہ کوئی بات چیت ہوئی ہے یہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت خبر ہے ا سکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بابری مسجد قضیہ کافیصلہ سپریم کورٹ کبھی نہیں سنائے گی، اس لئے سپریم کورٹ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو سلجھالیں۔ اس کو سپریم کورٹ مان لے گی۔ سپریم کورٹ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ واقعی ہندوستانی سپریم کورٹ بہت ہی بالغ ہے۔ سپریم کورٹ کی بلوغت سے کون انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کبھی بھی بابری مسجد کے قضیے پر فیصلہ نہیں سنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، تمام ثبوت مسلمانوں کے حق میں جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کی اکثریتی آبادی جو ہندو پر مشتمل ہے، ان کا اعتقاد بنادیا گیا ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ بنائی گئی ہے جس جگہ پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کی اکثریتی آبادی بضد ہے کہ کسی بھی طرح عظیم رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ جس دن بابری مسجد کو توڑی گئی اسی دن ایک عارضی رام مندر تو پہلے ہی بنادی گئی ہے، جہاں مسلسل پوجا ہورہی ہے، مسجد کی شکل تو اب بچی ہی نہیں ہے۔ہاں لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ہے جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی، وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے مسجد کو ڈھاکر کر مندر یا گرجا گھر ہی کیوں نہیں بنادیا گیا ہو۔
اب مسئلہ ہے کہ سپریم کورٹ خود فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے، اس کہ وجہ بہت ہی ٹھوس ہے اور وہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں کبھی مندر تھا جسے ڈھاکر یہ مسجد بنائی گئی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اگر عقیدہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ اکثریتی آبادی کے حق میں فیصلہ سنادیتی ہے تو اس سے سپریم کورٹ کا اعتبار ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ خطرے میں ہندوستان میں ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس کا خمیازہ انہیں بین الاقوامی سطح پر یو این او، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، ہیگ کی عدالت ہرجگہ ان کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان مسلمان اس کیس کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عالمی عدالت سے مدد حاصل کرسکتا ہے، اس چیز نے حکومت ہند اور سپریم کورٹ کوبے چین کررکھا ہے، اس بے چینی نے ہی انہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ زبردستی کسی معاہدہ پر پہنچنا چاہتے ہے۔ اگر یہاں کی مسلم قیادت کسی لالچ میں مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو ایک طرح سے یہاں کی پوری مسلم آبادی اللہ کی نظر میں مرتد ہوجائے گی، اللہ بھی یہاں کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدالت میں بھی ہم اپنے اوپر زیادتی کی فریاد بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے مسلم قیادت سے درخواست ہے کہ کسی بھی قیمت پر ہم اکثریتی آبادی سے اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرسکتے۔ چاہے بابری مسجد کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کو سونے کے محل بھی بناکر یہاں کی اکثریتی آبادی کیوں نہ دے دے۔
فون: 9958361526