Saturday, 28 April 2018

مودی کا دورہ چین غیر معمولی اہمیت کا حامل

مودی کا دورہ چین غیر معمولی اہمیت کا حامل


از:ظفراقبال


وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ چین خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہواہے جس وقت دنیا میں غیر معمولی تبدیلی آرہی ہے۔ علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی دستک سنائی دے رہی ہے اور بلکہ یہ دستک اب طبل جنگ میں بدلنے والی ہے۔وزیراعظم کا دورہ چین غیر رسمی ملاقات کے آڑ میں ہوئی ہے۔ دنیا میں تیزی کے ساتھ عالمی استعماری طاقت امریکہ اور اسکے حوارین کے خلاف ایک محاذ تیار کرنے کی تیاری کے سلسلہ کا حصہ ہے۔ گزشتہ دن یعنی 27اپریل 2018 کو دونوں کوریا شمالی اور جنوبی کوریا جو 1953میں کئی سالوں پر محیط طویل جنگ جھیل چکے تھے۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے کوریائی خطے میں نیوکلیائی جنگ کا خطرہ جس تیزی سے ساتھ بڑھا تھا اسی تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کو کل پہنچ گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے۔باہم دشمنی اب دوستی میں بدل چکی ہے۔ بلکہ 1953سے قبل دونوں ممالک ایک ہی ملک ہوا کرتے تھے۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان باہم رشتہ داریاں بھی ہیں۔ اسی دشمنی کی آڑ لے کر امریکہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے باوجود اسی علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنائے ہوا تھا۔ لیکن کل کے معاہدے کے بعد امریکی فوج کا انخلا شروع ہوجانا چاہئے۔ اب کوریائی خطے میں امریکی فوجیوں کا کیا کام ہے۔ امکان ہے کہ کل کے بعد چین اور ہندوستان کے درمیان جنوبی چینی سمندر کے تعلق سے جو تنازعہ چل رہا تھا اس میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس طرح چین کا جھگڑا افغانستان میں اپنے اپنے مفادات کے تعلق سے تھا اس مسئلہ پر بھی چین اور ہندوستان کے درمیان بہت حد تک قربت واقع ہوگئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چین نے امریکہ سے عالمی محاذ آرائی کے مقصد کے تحت ہندوستان کا امریکہ کے خلاف اپنے خیمے میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طرح مشرق وسطی میں ایران، روس، ترکی ، عراق، شام، لبنان اور یمن کا ایک محاذ بن رہا ہے جس کے تحت ہندوستان کے ساتھ ساتھ روس نے پاکستان کو بھی اپنے محاذ کا حصہ بنالیا ہے۔ ابھی کل ہی سوچی میں پاکستان اور ایران اور روس کے درمیان سیکورٹی کونسل کے سربراہ کی میٹنگ ہوئی ہے۔ ایک خاص بات اس عرصے میں اور ہوئی ہے کہ ہندوستان کے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر روس ہندوستان کو ایس۔400 دفاعی میزائل سسٹم فروخت کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ رواں برس ہی ہندوستان اور روس کے درمیان ایس۔400 کے تعلق سے معاہدہ ہوجائے گا۔ جس معاہدے کے بعد ہندوستان کو سیکورٹی کے تعلق سے جو خدشات تھے وہ ختم ہوجائے گا۔ امریکہ کے خلاف جو عالمی صف بندی ہورہی ہے کہ اس میں ہندوستان کی شمولیت یقینی ہورہی ہے ۔ ایران کے ساتھ چاہ بہار کا معاہدہ بھی اسی صف بندی کا حصہ ہے۔ ان ممالک کا ایک ہی مقصد ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ اور اس کے حوارین کو ایشیا ، افریقہ اور مشرقی بعید کے ممالک سے نکال باہر کرنا ہے اور اسے امریکی سرحد تک محدود کرنا ہے۔ اندازہ ہے کہ ایران اور روس کے درمیان یقینی طور پر یہ بھی معاہدہ ہوچکا ہے کہ جس معاہدے کے تحت اسرائیل کا مکمل طور سے خاتمہ اور فلسطین نام کی سلطنت کا قیام بھی ہے۔

فون: 9958361526


Monday, 9 April 2018

ایران کی طاقت سے امریکہ لرزہ براندام

ایران کی طاقت سے امریکہ لرزہ براندام


از:ظفر اقبال

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے 2013 میں یہ بات کہی تھی کہ ہم ساری دنیا کے دہشت گردوں کو شام میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کا وہ حشر کریں گے جس طرح مولا علی نے خیبر میں مرحب کا کیا تھا۔۔
واقعی حزب اللہ اور ایران نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انہوں نے باطل سے لوہا لے کر اس کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ حالت ہے کہ ایران، شام اور حزب اللہ کی طاقت سے امریکہ، اسرائیل اور منافق طاقتیں لرزہ براندام ہیں۔ کل رات شام میں میزائلوں سے حملہ کیا گیا، اب امریکہ کی یہ حالت ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہے۔ سب سے پہلی تردید امریکی کی آئی، پھر فرانس کی آئی اور اسرائیل اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ لیکن روس کا کہنا ہے کہ لبنان کے فضائی حدود سے شام میں داخل ہونے بغیر شام پر میزائل فائر کیا گیا، اسرائیل نے آٹھ میزائل فائر کئے جس میں پانچ میزائلوں کو شام کی ائر ڈیفنس نے ناکارہ بنادیا۔
ویسے مشرق وسطی ایک بڑی جنگ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس جنگ میں امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل ایران اوراس کے ساتھیوں کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں۔ امریکہ کے لئے بھی دو ہی راستہ بچا ہے، یا تو مشرق وسطی چھوڑ کر بھاگ جائے یا ایران سے جنگ کرے اس کے علاوہ کوئی آپشن اس کے پاس نہیں ہے۔ اب امریکہ کے لئے اپنی عزت بچا کر مشرق وسطی سے بھاگنا مشکل ہوگیا ہے۔ اب وائٹ ہاؤس اور پنٹاگن میں اب ایسا کوئی مشیر نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو اس دلدل سے نکال سکے۔ یمن میں امریکہ اور سعودی عرب اپنی ناکامی پر پہلے سے ہی ماتم کناں ہے۔ یمن میں دراصل سعودی عرب سے زیادہ امریکہ جنگ لررہا ہے۔ لیکن اب تک امریکہ اور سعودی عرب کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ جیسے جیسے جنگ دراز ہوتا جارہا ہے اسی طرح حوثی مجاہدین اسی قدر طاقتور سے طاقتورتر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے حوارین سے ایران کی بھرپور جنگ ہوتی ہے تو سارے مشرق وسطی کے ملیٹری بیسیز کو ایران اسی طرح تباہ کردے گا جس طرح کھیتوں میں ہل جوتے جاتے ہیں۔ اس چیز نے امریکہ کو پریشان کررکھا ہے اور پنٹاگن کے جنرل اور امریکی فوج کے مشیران پھونک پھونگ کر قدم اٹھارہے ہیں۔ اب مشرق وسطی کی یہ حالت ہے کہ یا تو اسرائیل رہے گا یا سعودی عرب میں آل سعود برسراقتدار رہے گا۔ اب دونوں کو جانا ہوگا۔ اس لئے یہ جنگ اسرائیل کی بقا کی جنگ ہے اس لئے جنگ کی نوعیت بہت ہی سنگین ہوگی۔
ان شاء اللہ اس جنگ میں ایران اور اس کے دوست فاتح ہوں گے اور امریکہ کی شکست اور اسرائیل کی نابودی اور آل سعودی کی تباہی پر منتج ہوگی۔
فون: 9958361526