Sunday, 28 January 2018

شیطان کا سایہ ہندوستان پر

شیطان کا سایہ ہندوستان پر


Devil_Israel_India

از:ظفر اقبال

اسرائیل کے وزیراعظم کے جاتے ہی ہندوستان آگ اور خون میں نہارہا ہے۔ ہندوستان میں کاس گنج جیسے فسادات بہت زیادہ ہوں گے ابھی پچھلے ہفتے ہی عالمی دہشت گرد ملک اسرائیل کا وزیراعظم ہندوستان کے 6 روزہ دورے کے بعد واپس اسرائیل پہنچتے ہی ہندوستان میں دہشت اور تباہی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس طرح اسرائیل دنیا میں تباہی پھیلانا چاہتا ہے تاکہ خود اپنے ملک میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے اس کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے اور دوسرے ممالک میں دہشت گردی میں اس قدر اضافہ کیا جائے تاکہ وہ عالمی رہنماؤں کو گمراہ کرسکے کہ صرف ہمارے ملک میں ہی دہشت گردی اور تباہی نہیں ہورہی ہے بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے ارباب واقتدار اسرائیلی وزیراعظم کے فریب میں آچکی ہے اور خود اپنے ملک میں ہی تباہی و بربادی کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع کرنا چاہ رہی ہے۔ جو خود ہندوستان کے امیج کو دنیا کے سامنے سفاکانہ طور پر اسرائیل پیش کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دنیا میں یہ پیش کرسکے کہ صرف مسئلہ ہمارے یہاں ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں بھی اقلیتوں کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جارہا ہے اور یہاں کی اقلیت خوف میں جی رہی ہے۔ جب تباہی بہت زیادہ مچ چکی ہوگی تب شاید ہندوستان کی حکومت کو اس بات کا احساس ہوگا کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوچکی ہے۔ اسرائیل کسی کا بھی نہیں ہے بلکہ وہ ہندوستان کی حکومت کو استعمال کررہی ہے اور بعد میں وہ ٹشو کی طرح استعمال کرکے پھینک دینے میں وہ ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرے گی۔
فون:9958361526

Saturday, 20 January 2018

امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنی صف بندی ایران کی قیادت میں کریں

امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنی صف بندی ایران کی قیادت میں کریں


Muslim_Umma_Iran#



از:ظفر اقبال



خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحادی فوجوں نے پہلی جنگ عظیم لڑی جس میں خلافت عثمانیہ کے علاقوں کی بندر بانٹ کی گئی۔ جس کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا علاقہ سمٹ کر محدود ہوگیا ۔ 1923میں کمال اتاترک کے ہاتھوں باقی ماندہ خلافت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ نے امت مسلمہ جو یک جان اور یک قالب تھی وہ منتشر ہوگئی۔ انہیں حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال جیسی شخصیت مضطرب ہواٹھتی ہے۔ وہ بے ساختہ چینخ پڑتے ہیں اور فرماتے ہیں:

مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریاہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
خلافت کے خاتمہ نے امت مسلمہ کو بالکل بے آسرا کردیا۔ خلافت کی شکل میں امت مسلمہ کا جو ایک مرکز تھا وہ بکھر گیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ امت مسلمہ یتیم ہوگئی۔اسی یتیم ہونے کے غم نے امت مسلمہ کے پژ مردہ جسموں میں روح ڈالنے کے لئے بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں 1928میں مصر میں حسن البناکی قیادت میں اخوان المسلموں کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹھیک 1941میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی قیادت میں برصغیر میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا، جو بعد میں جماعت اسلامی پاکستان، جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی شکل میں تین حصوں میں منقسم ہوگئی۔ اسی طرح انڈونیشیا، ملائشیا اور دیگر بہت سارے ممالک میں اسلامی تحریکات مختلف شکلوں میں کام کرنے لگی جس کا صرف ایک مقصد تھا کہ خلافت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے امت مسلمہ کے اندر جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو کسی طرح پر کیا جائے۔ امت مسلمہ خاص طور سے سنی مسلمان اپنی احیا کے لئے خلافت عثمانیہ کے بعد اپنے ہی لوگوں کے درمیان احیا کی کوشش کرتے رہے اور اب بھی کررہے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی صفر کا صفر نکلا۔ سنی دنیا کی نگاہیں عرب دنیا کے بادشاہوں کے نظر کرم کی محتاج ہونے لگیں ، عرب دنیا کے وہی بادشاہ جو ان غاصب طاقتوں برطانیہ اور امریکہ کی زیر سرپرستی تھے، انہیں کے زیر عاطفت چلی گئی، جس کی وجہ سے امت مسلمہ کو کوئی کامیابی نہیں ملی اور امت مسلمہ مزید تاریکی میں جاتی رہی ۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، جس طرح یہودیوں نے اللہ سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے لئے ایک ایسا حکمراں بھیج دیجئے جس کی قیادت میں ہم اپنی ایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھیں ۔ ان کی دعائیں بارگاہ الہی میں قبول ہوئیں لیکن ان یہودیوں کی خواہشوں کے برعکس حضرت طالوت کا انتخاب اللہ نے کردیا۔حضرت طالوت کے انتخاب کے بعد یہودی بہت ہی پریشان ہوگئے اور بغاوت پر اترآئے کہ ہم نے تو طالوت جیسے بے حیثیت آدمی کے انتخاب کی بات نہیں کی تھی ہمیں اس سے بہتر اور من پسند آدمی کی تلاش تھی۔ لیکن جب اللہ کا انتخاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ بات ہوکر رہتی ہے ۔ پھر انہوں نے فلسطین میں اپنی طاقتور حکومت قائم کی۔ خلافت عثمانیہ کے بعد امت مسلمہ کے نیک اور صالح افراد نے بھی بہت دعائیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کیں ۔ اے اللہ اس امت مسلمہ جو بے اثر اور سمندر میں جھاگ کی مانند ہے اس کو عزت عطا کر اور دنیا میں کھویا ہوا مقام عطا کر۔ اللہ نے امت مسلمہ کی دعا قبول کرتے ہوئے اس کی سوچ سے ٹھیک برعکس ایران کو اپنے مقصد کے لئے منتخب کیا ، وہی ایران جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب سے ہمکنار ہوا۔ ایران امت مسلمہ کو بے پناہ درد دینے والے برطانیہ اور امریکہ کے خلاف مسلسل مقابلہ کررہا ہے۔ لیکن امت مسلمہ جن کا تعلق سنی مسلمانوں سے ہے وہ شیعہ ایران کو قبول کرنے سے انکار کررہا ہے۔ٹھیک اسی یہودیوں کی طرح جس نے اللہ کے انتخاب حضرت طالوت کا انکار کردیا تھا۔ لیکن اللہ کی سنت ہے کہ وہ جب کوئی فیصلہ لے لیتا ہے تو پھر اس کے فیصلے کو نافذ کرنے سے دنیا میں کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ہم امت مسلمہ کو ایران کے امام خمینی کے قوم کے ہاتھوں ہی وہ عزت ملے گی جس کے لئے ہم تقریبا ایک صدی سے اللہ کے حضور صف بستہ دعاگو ہیں۔ اللہ کی سنت نہ کبھی بدلی ہے اور نہ بدلے گی۔ اس لئے سنی مسلمانوں کو چاہئے کہ ایران کی قیادت میں اپنی صف بندی کرے۔ اللہ اس امت مسلمہ کو ضرور سرفرازی سے ہم کنار کرے گا۔
فون:9958361526




Tuesday, 16 January 2018

بی جے پی والے ہندوستان کا مسیحا نیتن یاہو

بی جے پی والے ہندوستان کا مسیحا نیتن یاہو

India_BJP_Netanyahu#


از ؛ظفر اقبال



ہندوستان کی بی جے پی حکومت کے لئے ٹرمپ اور نیتن یاہو کسی مسیحا سے کم نہیں۔ آج کل اسرائیل کے وزیراعظم ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ ان کے دورے کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیل ہمارے لئے کس قدر اہم ہے۔ اسرائیل سے ہمیں ہر شعبے میں جدید تکنالوجی حاصل ہوسکتی ہے اور زراعت میں وہ ہمیں اہم رہنمائی کرسکتا ہے جس سے ہماری معیشت بہت ہی مستحکم ہوجائے گی ۔ خاص طور سے دفاع کے معاملے میں اس کی تکنالوجی کا جواب تو ساری دنیا میں نہیں ہے۔ 
ہندوستان کی بی جے پی حکومت اور زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اسرائیل کو مظلوم کے طور پر پیش کررہا ہے کہ اسرائیل عرب مسلمانوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔ جن عربوں نے اسرائیل کی زندگی تنگ کردی ہے اور ہر وقت اسرائیل کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔کئی دنوں سے زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اسی طرح کی بکواس کئے جارہاہے۔ مشرق وسطی کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ 14جنوری 2017کو اسرائیل کے وزیراعظم جب ہندوستان کے دورے پر آئے تو ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی ائر پورٹ سے سیدھے ترمورتی چوک لے گئے جہاں اس چوک کا نام بدل کر ترمورتی حیفہ چوک کا نام رکھ دیاگیا ہے۔ کمال ہوشیاری کی بات یہ ہے کہ حیفہ اسرائیل( مقبوضہ فلسطین )کا ایک شہر ہے جو فی الحال اسرائیل کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے برطانوی نے چھین لیا تھا۔ اس جنگ میں پندرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں نے برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس جنگ سے ہندوستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ میں ترکی، جرمنی اور اٹلی محوری طاقت تھے۔ دو سال قبل جب وزیراعظم نریندر مودی صاحب جرمنی کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے جرمنی کے چانسلر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے اپنے پہلے ہی جملے میں پہلی جنگ عظیم میں پندرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں کی موجودگی کے سلسلے میں جرمن قوم سے معافی مانگتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اس جنگ سے ہم ہندوستانیوں کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ ہم برطانیہ کے غلام تھے اور ہمیں زبردستی اس جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن اب ہمارے وزیراعظم نریندر مودی خم ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی فوجیوں نے ترکی سے یہ علاقہ چھین کر اسرائیل کے حوالہ کیا اسرائیل کی جنگ آزادی میں ہندوستان نے اسرائیل کی مدد کی۔ اس طرح کی باتیں ٹی وی چینلوں کے ذریعہ مسلسل پھیلائی جارہی ہے۔ ویسے وزیراعظم اپنی تضاد باتوں کے لئے مشہور ہیں۔ اس چیز کو وہ برا بھی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اسے ہنر سمجھتے ہیں۔ 
13جنوری 2017کو لوک سبھا ٹی وی پر ہندوستان۔ اسرائیل پر ایک مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے سابق نائب آرمی چیف کادیان نے ایک اہم بات کہی تھی کہ ہندوستان اور اسرائیل کارشتہ اس قدر گہرا ہے کہ 1984میں جب پاکستان ایٹمی اسلحہ تیار کررہا تھا تو اس وقت اسرائیل نے جام نگر ہوائی اڈے ہندوستان سے مانگا تھا تاکہ وہ پاکستان کے نیوکلیائی پلانٹ پر حملہ کرسکے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن اس کی بھنک سی آئی اے کو لگ گئی، سی آئی اے نے اس کی اطلاع پاکستان کی حکومت کو دے دی۔ پاکستان نے ہندوستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل ایسا کرتا ہے تو وہ وہ ممبئی میں واقع بھابھا ایٹمی ریکٹر کو تباہ کردے گا ۔ جس کے بعد ہندوستان نے جام نگر ہوائی اڈے کے استعمال سے اسرائیل کو روک دیا۔ واضح رہے کہ 1984میں پاکستان امریکہ کے لئے ایک اہم کارنامہ انجام دے رہا تھا وہ تھا روس کے خلاف افغان جنگ میں وہ ایک جنگی بیس کے طور پر امریکہ کے لئے کام کررہا تھا۔ ایسے میں اگرپاکستان کے ایٹمی ریکٹر پر اسرائیل کا حملہ ہوتا تو روس کے خلاف امریکہ کے لئے پاکستان ایک بیس کے طور پر استعمال ہورہا تھا اس کی نوعیت بدل جاتی اور یہ جنگ ہندوستان اور اسرائیل کے خلاف ہوجاتی اور پاکستان کا دھیان روس سے ہٹ جاتا جس سے امریکہ کا جو مقصد تھا کہ روس کو شکست دینے کا وہ ادھورا رہ جاتا ہے اس لئے سی آئی اے نے پاکستان کی اس سلسلے میں مدد کی۔ 
فی الحال امریکہ میں ٹرمپ ایک ایسے صدر کے طور پر اپنی پہچان بنارہے ہیں جس کو خود امریکی پسند نہیں کررہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کا عشق لائق دید ہے۔ شاید ہندوستان کی بی جے پی اور آر ایس ایس زہنیت رکھنے والے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ہم ہندوستان میں یہاں کے مسلمانوں کے دشمن ہیں اسی طرح امریکہ اور اسرائیل بیرون ملک میں مسلمانوں کا دشمن ہے۔ اس طرح ہم دونوں ایک کشتی کے سوار ہیں۔ بی جے پی کو یہ بات معلوم نہیں ہونی چاہئے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ہندو ملک نہیں ہے۔ یہاں دو سو ملین مسلم آبادی رہتی ہے جس کو دبایا نہیں جاسکتا۔
فون: 9958361526