امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنی صف بندی ایران کی قیادت میں کریں
Muslim_Umma_Iran#
از:ظفر اقبال
خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحادی فوجوں نے پہلی جنگ عظیم لڑی جس میں خلافت
عثمانیہ کے علاقوں کی بندر بانٹ کی گئی۔ جس کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا
علاقہ سمٹ کر محدود ہوگیا ۔ 1923میں کمال اتاترک کے ہاتھوں باقی ماندہ
خلافت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ نے امت مسلمہ جو یک
جان اور یک قالب تھی وہ منتشر ہوگئی۔ انہیں حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال
جیسی شخصیت مضطرب ہواٹھتی ہے۔ وہ بے ساختہ چینخ پڑتے ہیں اور فرماتے ہیں:
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریاہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
خلافت کے خاتمہ نے امت مسلمہ کو بالکل بے آسرا کردیا۔ خلافت کی شکل میں امت
مسلمہ کا جو ایک مرکز تھا وہ بکھر گیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ امت مسلمہ
یتیم ہوگئی۔اسی یتیم ہونے کے غم نے امت مسلمہ کے پژ مردہ جسموں میں روح
ڈالنے کے لئے بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں 1928میں مصر میں حسن البناکی
قیادت میں اخوان المسلموں کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹھیک 1941میں مولانا سید
ابوالاعلی مودودی کی قیادت میں برصغیر میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں
آیا، جو بعد میں جماعت اسلامی پاکستان، جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی
بنگلہ دیش کی شکل میں تین حصوں میں منقسم ہوگئی۔ اسی طرح انڈونیشیا،
ملائشیا اور دیگر بہت سارے ممالک میں اسلامی تحریکات مختلف شکلوں میں کام
کرنے لگی جس کا صرف ایک مقصد تھا کہ خلافت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے
امت مسلمہ کے اندر جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو کسی طرح پر کیا جائے۔ امت
مسلمہ خاص طور سے سنی مسلمان اپنی احیا کے لئے خلافت عثمانیہ کے بعد اپنے
ہی لوگوں کے درمیان احیا کی کوشش کرتے رہے اور اب بھی کررہے ہیں۔ لیکن
نتیجہ وہی صفر کا صفر نکلا۔ سنی دنیا کی نگاہیں عرب دنیا کے بادشاہوں کے
نظر کرم کی محتاج ہونے لگیں ، عرب دنیا کے وہی بادشاہ جو ان غاصب طاقتوں
برطانیہ اور امریکہ کی زیر سرپرستی تھے، انہیں کے زیر عاطفت چلی گئی، جس کی
وجہ سے امت مسلمہ کو کوئی کامیابی نہیں ملی اور امت مسلمہ مزید تاریکی میں
جاتی رہی ۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، جس طرح یہودیوں نے اللہ سے
مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے لئے ایک ایسا حکمراں بھیج دیجئے جس کی قیادت میں
ہم اپنی ایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھیں ۔ ان کی دعائیں بارگاہ الہی میں
قبول ہوئیں لیکن ان یہودیوں کی خواہشوں کے برعکس حضرت طالوت کا انتخاب اللہ
نے کردیا۔حضرت طالوت کے انتخاب کے بعد یہودی بہت ہی پریشان ہوگئے اور
بغاوت پر اترآئے کہ ہم نے تو طالوت جیسے بے حیثیت آدمی کے انتخاب کی بات
نہیں کی تھی ہمیں اس سے بہتر اور من پسند آدمی کی تلاش تھی۔ لیکن جب اللہ
کا انتخاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ بات ہوکر رہتی ہے ۔ پھر انہوں نے فلسطین میں
اپنی طاقتور حکومت قائم کی۔ خلافت عثمانیہ کے بعد امت مسلمہ کے نیک اور
صالح افراد نے بھی بہت دعائیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کیں ۔ اے اللہ
اس امت مسلمہ جو بے اثر اور سمندر میں جھاگ کی مانند ہے اس کو عزت عطا کر
اور دنیا میں کھویا ہوا مقام عطا کر۔ اللہ نے امت مسلمہ کی دعا قبول کرتے
ہوئے اس کی سوچ سے ٹھیک برعکس ایران کو اپنے مقصد کے لئے منتخب کیا ، وہی
ایران جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب سے ہمکنار
ہوا۔ ایران امت مسلمہ کو بے پناہ درد دینے والے برطانیہ اور امریکہ کے خلاف
مسلسل مقابلہ کررہا ہے۔ لیکن امت مسلمہ جن کا تعلق سنی مسلمانوں سے ہے وہ
شیعہ ایران کو قبول کرنے سے انکار کررہا ہے۔ٹھیک اسی یہودیوں کی طرح جس نے
اللہ کے انتخاب حضرت طالوت کا انکار کردیا تھا۔ لیکن اللہ کی سنت ہے کہ وہ
جب کوئی فیصلہ لے لیتا ہے تو پھر اس کے فیصلے کو نافذ کرنے سے دنیا میں
کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ہم امت مسلمہ کو ایران کے امام خمینی کے قوم کے
ہاتھوں ہی وہ عزت ملے گی جس کے لئے ہم تقریبا ایک صدی سے اللہ کے حضور صف
بستہ دعاگو ہیں۔ اللہ کی سنت نہ کبھی بدلی ہے اور نہ بدلے گی۔ اس لئے سنی
مسلمانوں کو چاہئے کہ ایران کی قیادت میں اپنی صف بندی کرے۔ اللہ اس امت
مسلمہ کو ضرور سرفرازی سے ہم کنار کرے گا۔
فون:9958361526
No comments:
Post a Comment