Tuesday, 16 January 2018

بی جے پی والے ہندوستان کا مسیحا نیتن یاہو

بی جے پی والے ہندوستان کا مسیحا نیتن یاہو

India_BJP_Netanyahu#


از ؛ظفر اقبال



ہندوستان کی بی جے پی حکومت کے لئے ٹرمپ اور نیتن یاہو کسی مسیحا سے کم نہیں۔ آج کل اسرائیل کے وزیراعظم ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ ان کے دورے کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیل ہمارے لئے کس قدر اہم ہے۔ اسرائیل سے ہمیں ہر شعبے میں جدید تکنالوجی حاصل ہوسکتی ہے اور زراعت میں وہ ہمیں اہم رہنمائی کرسکتا ہے جس سے ہماری معیشت بہت ہی مستحکم ہوجائے گی ۔ خاص طور سے دفاع کے معاملے میں اس کی تکنالوجی کا جواب تو ساری دنیا میں نہیں ہے۔ 
ہندوستان کی بی جے پی حکومت اور زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اسرائیل کو مظلوم کے طور پر پیش کررہا ہے کہ اسرائیل عرب مسلمانوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔ جن عربوں نے اسرائیل کی زندگی تنگ کردی ہے اور ہر وقت اسرائیل کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔کئی دنوں سے زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اسی طرح کی بکواس کئے جارہاہے۔ مشرق وسطی کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ 14جنوری 2017کو اسرائیل کے وزیراعظم جب ہندوستان کے دورے پر آئے تو ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی ائر پورٹ سے سیدھے ترمورتی چوک لے گئے جہاں اس چوک کا نام بدل کر ترمورتی حیفہ چوک کا نام رکھ دیاگیا ہے۔ کمال ہوشیاری کی بات یہ ہے کہ حیفہ اسرائیل( مقبوضہ فلسطین )کا ایک شہر ہے جو فی الحال اسرائیل کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے برطانوی نے چھین لیا تھا۔ اس جنگ میں پندرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں نے برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس جنگ سے ہندوستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ میں ترکی، جرمنی اور اٹلی محوری طاقت تھے۔ دو سال قبل جب وزیراعظم نریندر مودی صاحب جرمنی کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے جرمنی کے چانسلر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے اپنے پہلے ہی جملے میں پہلی جنگ عظیم میں پندرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں کی موجودگی کے سلسلے میں جرمن قوم سے معافی مانگتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اس جنگ سے ہم ہندوستانیوں کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ ہم برطانیہ کے غلام تھے اور ہمیں زبردستی اس جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن اب ہمارے وزیراعظم نریندر مودی خم ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی فوجیوں نے ترکی سے یہ علاقہ چھین کر اسرائیل کے حوالہ کیا اسرائیل کی جنگ آزادی میں ہندوستان نے اسرائیل کی مدد کی۔ اس طرح کی باتیں ٹی وی چینلوں کے ذریعہ مسلسل پھیلائی جارہی ہے۔ ویسے وزیراعظم اپنی تضاد باتوں کے لئے مشہور ہیں۔ اس چیز کو وہ برا بھی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اسے ہنر سمجھتے ہیں۔ 
13جنوری 2017کو لوک سبھا ٹی وی پر ہندوستان۔ اسرائیل پر ایک مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے سابق نائب آرمی چیف کادیان نے ایک اہم بات کہی تھی کہ ہندوستان اور اسرائیل کارشتہ اس قدر گہرا ہے کہ 1984میں جب پاکستان ایٹمی اسلحہ تیار کررہا تھا تو اس وقت اسرائیل نے جام نگر ہوائی اڈے ہندوستان سے مانگا تھا تاکہ وہ پاکستان کے نیوکلیائی پلانٹ پر حملہ کرسکے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن اس کی بھنک سی آئی اے کو لگ گئی، سی آئی اے نے اس کی اطلاع پاکستان کی حکومت کو دے دی۔ پاکستان نے ہندوستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل ایسا کرتا ہے تو وہ وہ ممبئی میں واقع بھابھا ایٹمی ریکٹر کو تباہ کردے گا ۔ جس کے بعد ہندوستان نے جام نگر ہوائی اڈے کے استعمال سے اسرائیل کو روک دیا۔ واضح رہے کہ 1984میں پاکستان امریکہ کے لئے ایک اہم کارنامہ انجام دے رہا تھا وہ تھا روس کے خلاف افغان جنگ میں وہ ایک جنگی بیس کے طور پر امریکہ کے لئے کام کررہا تھا۔ ایسے میں اگرپاکستان کے ایٹمی ریکٹر پر اسرائیل کا حملہ ہوتا تو روس کے خلاف امریکہ کے لئے پاکستان ایک بیس کے طور پر استعمال ہورہا تھا اس کی نوعیت بدل جاتی اور یہ جنگ ہندوستان اور اسرائیل کے خلاف ہوجاتی اور پاکستان کا دھیان روس سے ہٹ جاتا جس سے امریکہ کا جو مقصد تھا کہ روس کو شکست دینے کا وہ ادھورا رہ جاتا ہے اس لئے سی آئی اے نے پاکستان کی اس سلسلے میں مدد کی۔ 
فی الحال امریکہ میں ٹرمپ ایک ایسے صدر کے طور پر اپنی پہچان بنارہے ہیں جس کو خود امریکی پسند نہیں کررہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کا عشق لائق دید ہے۔ شاید ہندوستان کی بی جے پی اور آر ایس ایس زہنیت رکھنے والے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ہم ہندوستان میں یہاں کے مسلمانوں کے دشمن ہیں اسی طرح امریکہ اور اسرائیل بیرون ملک میں مسلمانوں کا دشمن ہے۔ اس طرح ہم دونوں ایک کشتی کے سوار ہیں۔ بی جے پی کو یہ بات معلوم نہیں ہونی چاہئے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ہندو ملک نہیں ہے۔ یہاں دو سو ملین مسلم آبادی رہتی ہے جس کو دبایا نہیں جاسکتا۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment