Saturday, 24 February 2018

شام کی جنگ آخری مرحلے میں داخل

شام کی جنگ آخری مرحلے میں داخل

Syria_Ghouta_war#

از: ظفر اقبال


شام کی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حلب ، حما ۃ کی آزادی کے بعد اب دمشق کے مضافات غوطہ کے علاقے میں دہشت گردوں کی حمایت یافتہ ممالک کی جانب سے تھوپی گئی جنگ جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام جو اسرائیل کے مدمقابل ایک دیوار ہے جس کو ڈھانے کے لئے اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر عرب ممالک 2011سے جنگوں کا جو لامتناہی سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس جنگ کی وجہ سے عراق اور شام کا بیشتر علاقہ کھنڈروں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے اشارے پر ناچنے والے عرب ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے دہشت گردوں کو جس طرح مسلح کیا اور اپنے خزانے ان دہشت گردو ں کے لئے کھول دیئے تاکہ شام کا حامی ملک ایران جو حقیقت میں اسلام کا قلعہ ہے جو باطل طاقتو ں کے سامنے 39 برسوں سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط کھڑا ہے۔ اس کا انہدام یقینی ہوجائے۔ لیکن ایران اور شیعہ دنیا کے ناقابل یقین حد تک مستحکم قیادت اور بالغ عوام نے دشمنوں کے ہر سازش کو ناکام بناتے ہوئے اپنے خون سے تاریخ میں وہ ناقابل یقین جنگی تاریخ لکھ ہی ہے جس پر عالم اسلام کی آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔

شیعہ دنیا نے شام اور عراق کے لئے خون کے وہ نذرانے پیش کئے ہیں اگر آیت اللہ سیستانی اور ولایت فقیہ ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کی وہ لاجواب قیادت نہ ہوتی تو عرب دنیا خاک وخون میں نہانے کے بعد یوروپ اور امریکہ کی جولان گاہ بن چکا ہوتا۔ سنی دنیا ایران اور خاص طور سے شیعہ طاقتوں کے تعلق سے بہت ہی پش وپیش کی شکار ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ ایران اور شیعہ امریکہ اور اسرائیلی کے اشارے پر کام کررہے ہیں، جو لایعنی باتیں ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو ایران اور شیعہ دنیا نے خود عراق اور شام میں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اب وہ خود اس آگ کی حدت تل ابیب میں محسوس کررہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل سب سے زیادہ پریشان لبنان اور شام کی حکومت سے ہے ۔ جس نے حالیہ دنوں اسرائیل کو جو جھٹکا دیا ہے جب گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا ایف۔16 جنگی جہاز مار گرایا۔۔ اس کے بعد اسرائیل شام اور لبنان میں کسی طرح کی مہم جوئی سے بچنے کی کوشش کررہا ہے۔ حزب اللہ کے اندازا ڈیڑھ لاکھ میزائل اور ایران کی غیر معمولی طاقتوں کے سامنے امریکہ اور اسرائیل پر سکتہ طاری ہے۔ اسرائیل کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ ایران اور شیعہ دنیا اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ پر تنگ کئے جارہا ہے۔ ایران دراصل اسرائیل کو اس بات کے لئے مجبور کررہا ہے کہ وہ لبنان یا شام یا ایران پر حملہ کردے۔ اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ ایران وہ کچھ کرنے کی تیاری کرچکاہے جس کا وہ بارہا اعلان کرچکا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹادینا ہے۔ صرف فلسطین ایک ملک رہے گا اسرائیل کا نام ونشان مٹادیا جائے گا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے عروج کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ایران اور شیعوں کے تعلق سے مثبت رویہ اپنائیں نہ کہ انہیں دشمن گردانیں۔ اگر ہم اس حقیقت سے آنکھ چرانے کی کوشش بھی کریں گے اس پر سنی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
فون: 9958361526

Tuesday, 6 February 2018

اے سنی دنیا کے حکمرانو! امریکہ کے تلوے چاٹنا بند کرو

اے سنی دنیا کے حکمرانو! امریکہ کے تلوے چاٹنا بند کرو


Sunni_world_USA#

از:ظفر اقبال


عراق سے امریکی فوج جوتے چھوڑ کر بھاگ رہی ہے وہ اس لئے کے عراقی حکومت نے امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ اپنی فوج عراق سے نہیں نکالتی ہے تو اس پر حملے کئے جائیں گے۔ لیکن سنی دنیا خاص طور سے عرب دنیا امریکی فوج کی موجودگی کوسیکورٹی کی ضمانت سمجھتی ہے۔ جو امریکہ دنیا کے سارے مسلمانوں کی مصیبتوں کی جڑ ہے اسی سے اپنی سیکورٹی کی بھیک مانگتی ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار اے سنی دنیا۔ حزب اللہ عراق کا کہنا ہے کہ اگر امریکی فوج نہ بھاگی تو عراق میں جینا حرام کردیں گے۔ شیعوں کے انتقام سے امریکہ اچھی طرح واقف ہے۔ امریکہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے جب 1983 تک لبنان میں امریکی بحری اڈہ ہوا کرتا تھا لیکن حزب اللہ نے ان امریکیوں سے وہ انتقام لیا، جس حملے میں امریکہ کے 281 میریز مارے گئے تھے جس کے بعد لبنان کا نام سن کر امریکہ پر وحشت طاری ہوجاتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے امریکی حکومت کی خصلت کے بارے میں کیا خوب بات کہی تھی کہ ’’امریکہ اس کتے کی طرح ہے جس سے تم اگر ڈروگے تو وہ تمہارے پیچھے لگ جائے گا اور ڈراؤگے تو دم دبا کر بھاگ جائے گا۔‘‘

فون: 9958361526

Sunday, 4 February 2018

یمن کی جنگ عرب اتحاد کے گلے کی ہڈی

یمن کی جنگ عرب اتحاد کے گلے کی ہڈی

#Yemen_Arab_allaince_Houthi

از: ظفر اقبال

یمن کی صورت حال سے عرب اتحادی بظاہر خوش نظر آرہے ہیں لیکن اس درد کے پیچھے ان کی تباہی چھپی ہوئی ہے۔ جو جلد ہی وہ اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ عدن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کرائے کے غنڈے آپس میں لڑ گئے ہیں اور متحدہ عرب امارات کا ایک طرح سے عدن پر کنٹرول ہوگیا ہے۔حوثی تین برسوں سے اس جنگ کا مقابلہ کررہے ہیں جو ان پر تھوپی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی قیادت اس قدر مضبوط ہے جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ سابق صدر عبداللہ صالح یقینا وہ اس طرح کے مزاج کے حامل رہے ہیں کہ جس کا پلڑا بھاری ہو وہ اسی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سعودی کے فریب میں آکر اپنے کیفرکردار کو پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح یمن پر ایک طرح سے مکمل طور پر حوثیوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔
یمن کے قبرستان حوثی شہداء کی لاشوں سے بھرگئے ہیں اور سعودی عرب اس بات سے خوش ہے کہ اس نے اس قدر یمنی شہریوں کو ہلاک کیا۔ ارے کرمنل عرب اتحادی فورسز تم کیا جانوں شہادت کیا ہوتی ہے جو قومیں زیادہ شہادتیں پیش کرتی ہیں وہ زیادہ طاقتور قوم ہوتی ہے۔ جو اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن باطل اور جارح طاقت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر عرب اتحاد کے نیوز چینل العربیہ اردو مسرت کا اظہار کررہے ہیں کہ ہم نے اس قدر یمنی جوانوں کو شہید کیا ہے۔ اب تک تین برس ہوگئے ہیں اس کمزور عرب ملک پر حملہ کرتے ہوئے لیکن سوائے پشیمانی کے تم نے حاصل کیا ہے۔ یمنی اب اپنے فوجیوں اور عوام کی شہادتوں کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوکر ابھرے ہیں۔ ان کو جنگ کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔





Friday, 2 February 2018

راشد شاز

راشد شاز

rashid_shaz_thougths

از:ظفر اقبال


ڈاکٹرراشد شاز ہندوستان میں ایک ابھرتے ہوئے دانشور ہیں جو فی الحال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ان کی کتاب جاذب نظر بھی اورکتاب صوری اور معنوی اعتبار سے دیدہ زیب بھی نظر آتی ہے۔ کتاب کی ظاہری شکل دیکھنے کے بعد آپ ان کی کتاب کو پڑھنے کے لئے مجبور ہوں گے ۔ ان کی کتاب جو کافی مقبول ہوئی وہ کتاب ’ادراک زوال امت ‘ ہے ۔ یہ کتاب کافی ضخیم ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوگا کہ انہوں نے عالم اسلام کے زوال کی جن جن وجوہات کو بیان کیا ہے وہ بہت ساری درست ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ کہ ان کی چودہ کتابیں آنے کے باوجود اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے صرف سوال اٹھائیں ہیں۔ مسئلہ سوال اٹھانے کے بعد مصنف پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ کسی بھی عمارت کو ڈھانے سے قبل اس کی تعمیر نو کا بھی ارادہ کرنا چاہئے۔ ہم صرف ڈھانے پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن تعمیر نو کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ یہ تو اس سے بھی زیادہ بربادی کی بات ہوگی۔ وہ اسی طرح بات ہوگی کہ ہم اپنے بوسیدہ گھر کو ڈھادیں لیکن نئی عمارت کی تعمیر کا ہمارا کوئی ارادہ نہ ہو۔ یہ تو سراسر تشویش کی بات ہوگی کہ ہم کھلے جگہ پر آجائیں۔ اب جبکہ راشد شاز نے چودہ کتابیں صرف ا س لئے لکھ ڈالی ہیں کہ تاکہ امت میں پھیلی ہوئی جہالت اور کنفوزن جو ہے اس کا ادراک یہ امت کرلے۔ ان برسوں کے بعد اب محسوس ہوتا ہے کہ راشد شاز اب امت کے مسائل کی تدارک کا حل بھی پیش کریں، نہیں تو ان کی بات محض صدائے بصحراہی رہے گی۔

فون:9958361526