غیر المغضوب علیھم کا مطلب آج پتہ چلا
Israel_fire-palestine#
از: ظفر اقبال
غیر المغضوب علیھم کا مطلب صحیح معنوں میں مجھے آج معلوم ہوا کہ عام لوگ خاص طور سے اس دنیا میں بسنے والے مسلمان جن کی تعداد ایک سو ساٹھ کروڑ سے زیادہ ہے،یہودیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے یہاں جب کسی کی مکاری دیکھی جاتی ہے تو یہ کہاجاتا ہے کہ یہودیوں کی طرح مکاری کررہا ہے۔آج اسرائیل میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس آگ نے جو تباہی مچائی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ 80 ہزار سے زیادہ افراد کے مکانات مع سامان جل کر خاک ہوچکے ہیں۔ ان یہودیوں کو بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنی پڑر ہی ہے۔ یہ سب ان کے خود کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ان لوگوں نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کا انجام تو یہی ہونا چاہئے۔ ان یہودیوں نے ساری دنیا سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسایا اور فلسطینیوں کے مکانات کو ڈھاکر اپنے گھر تعمیر کئے۔ ایسا واقعہ تو پوری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملے گی۔ اس کے بعد بھی یہودی اپنے آپ کو بہت مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ قرار دیتے ہیں۔ لیکں آج بھی یہودی کم از کم ایشیا میں خوف کے سایہ میں ہی جیتے ہیں۔ جن جن ممالک میں یہودیوں کی کچھ تعداد موجود بھی ہے وہ وہاں اپنی شناخت کو چھپا کر جیتے ہیں، وہ ایک خوف کے سایہ میں ہمہ دم جیتے ہیں کب ان کو موت اچک لے۔اس کے باوجود وہ اپنی مکاری اور عیاری سے بعض آنے سے رہے۔ یہودیوں کی تباہی پر عام مسلمانوں کو خوش ہونے کا حق ہے کیوں نہ خوش ہوں جن کے بھائیوں کے مکانات کو مسمار کرکے اپنے آشیانے تعمیر کرے وہ ان آشیانوں میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں جن آشیانوں کے نیچے مسلمانوں کی لاشیں مدفون ہیں۔اب اسرائیل ساری دنیا سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے کسی طرح ملک میں لگی ہوئی آگ بجھ جائے۔ یوروپ ، امریکہ اور ترکی پہلے ہی آگ بجھانے میں پیش پیش ہیں۔ ان فلسطینیوں سے مدد کی اپیل کررہے ہیں جن کو وہ لائق اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ یہ وہ ملک ہے جو خود اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ وہ ساری دنیامیں تکنالوجی کے اعتبار سے سب سے برتر ملک ہے۔ آج وہ جس طرح لاچار نظر آرہا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔ ابھی چند قبل ہی فلسطین میں مسجدوں میں اذان دینے پر پابندی کا قانون پارلیمنٹ میں پاس کیا گیا۔یہ توحد ہوگئی۔یہ تومذہبی آزادی سے جڑا ہوا نہایت ہی حساس معاملہ ہے۔جب یہ خبر آئی تو مجھے اسرائیل کی جسارت اور ہمت پر حیرت اور تعجب بھی ہوا تھا۔ اس اسرائیل کی اوقات کیا ہے اگر پورا عالم اسلام اس پر ایک ایک بالٹی پانی ڈال دے تو وہ سیلاب میں بہہ جائے۔اسرائیل جلد ازجلد اس علاقے کو خالی کرکے بھاگ جائے اسی میں اس کی عافیت ہے۔ اب اس کو کسی فلسطینی کے زمین کو غصب کرنے کی جسارت سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسرائیل میں جتنے یہودی رہتے ہیں ان کے پاس کم از کم دو ممالک کے پاسپورٹ بھی ضرور اپنے ساتھ رکھتے ہیں وہ ممالک ہیں امریکہ اور برطانیہ۔ تمام اسرائیل امریکی اور برطانوی پاسپورٹ پر پورے عالم اسلام میں بے دھڑک سفر بھی کرتے ہیں لیکن جہاں اسرائیلی پاسپورٹ کی بات آتی ہے وہیں معاملہ اٹک جاتا ہے۔اب اسرائیل جیسے ناسور کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اسرائیل اس تباہی کے لئے کسی کو ذمہ دار گرداننے سے زیادہ خود اپنے مظالم پر غور کرے کہ وہ کس طرح فلسطینیوں پر ظلم ڈھارہا ہے اور اللہ کے عذاب کا مشاہدہ کررہا ہے جس سے اس کی آنکھیں بھی نہیں کھل رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment