Friday, 2 December 2016

نوٹ بندی مگر عجلت میں

نوٹ بندی مگر عجلت میں

#demonetisation_india_govt

از:ظفر اقبال

نوٹ بندی کے فوائد کے تعلق سے برسراقتدار افراد جس طرح کے فوائد گنوارہے ہیں اور برسراقتدار پارٹی کے حامی جس طرح حکومتی فیصلے کی گن گارہے ہیں لیکن زمینی حقیقت ٹھیک اس کے برعکس ہے جس کے تعلق سے ہمیں بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے نہیں تو ہم ایسے دلدل میں پھنس جائیں گے جس سے نکلنا ہم ہندوستانیوں کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ نوٹ بندی کے تعلق سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس سے کالا دھند رکھنے والوں سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔ لیکن جس طرح کی خبریں آرہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ کالا دھن رکھنے والے تو پکڑ میں آنے سے رہے بلکہ کالا دھن سفید بنانے میں پوری تندہی سے لگے ہوئے ہیں یہ الگ بات ہے جن کے پاس کالا دھن دس کروڑ روپے رہا ہوگا وہ گھٹ کر چھ کروڑ پر آگیا ہے۔ لیکن پانچ دس برس میں پھر وہی صورت حال ہوجائے گی جس طرح پہلے تھی۔لیکن نوٹ بندی میں سب سے زیادہ کوئی پس رہا ہے وہ ہے عام آدمی جس کا کالا دھن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ وہ غریب عوام جو دو وقت کی روٹی بہ مشکل جٹاپاتی ہے۔چھوٹے چھوٹے کارخانے جو بہت سارے بند ہوچکے ہیں اور باقی جو بچے ہیں وہ بند ہونے کے کگار پر پہنچ چکے ہیں۔ملک میں ایک طرح سے انارکی پھیل چکی ہے۔ روزنامہ بینکوں کے لائن میں لگ کر اپنے پیسے دو دو ہزار روپے کرکے نکالنے پڑرہے ہیں۔ یہ صورت حال بہت ہی تکلیف دہ ہے ۔
ملک کو جدید طرز پر استوار ہونا چاہئے بلکہ یوروپ اور آس پاس کی ریاستوں کی خوبیوں کو اپنے میں سمونا چاہئے۔ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کیا یہاں کی عوام پیٹ بھر کر کھانا کھاپاتی ہے؟ کیا ہہاں صحت اور تعلیم کا نظام درست ہوچکا ہے؟ لیکن معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ ہندوستان میں تعلیم اور صحت کا نظام سرکاری طور پر ہے ہی نہیں۔ کیا ہندوستان کے ہر شہر اور بلاک میں سرکاری اور مفت میں بہترین اسپتال قائم ہوچکے ہیں۔ جگہ جگہ میڈیکل کالج موجود ہیں۔ کیا ہندوستان کے ہر قصبے اور پنچایت میں اسکول اور کالج موجود ہیں جو بحسن وخوبی کام کررہے ہیں؟ یہ بات میں سرکاری انفرااسٹرکٹر کے تعلق سے کہہ رہا ہوں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جس ملک پر جو لوگ برسراقتدار ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کی عوام صحت مند ہو یہاں کی عوام تعلیم یافتہ ہو اور اس ملک کی عوام پیٹ بھر کھانا کھاسکتے ہوں۔ وہ اس لئے کہ اسی عوام کے درمیان سے ہمیں ڈاکٹر، سائنٹسٹ، انجینئر، مفکر، سپاہی اور سیاست داں آتے ہیں۔ جب ہمارا معاشرہ صحت مند، تعلیم یافتہ اور شکم سیر عوام ہوگی تب ہی کوئی قوم اچھی طرح نشوونما ہوسکتی ہے۔ کیا صحت سے عاری عوام، جہالت میں لت پت عوام اور خالی پیٹ عوام کوئی ڈھنگ سے کوئی فیصلے لے سکتی ہے۔ ہرگز نہیں ؟اس لئے اس نوٹ بندی سے پہلے ہمیں سب سے پہلے تین کام کرنے چاہئے تھے۔ اب بھی ہمارے پاس وقت ہے سب سے پہلے ہم تین کام کرلیں تو اس قوم کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سب سے پہلے میں اس بھوکی قوم کے تعلق سے مشورے دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں اناجوں میں سے ایک اناج گیہوں جو آٹے کی شکل میں ہوپانچ روپے کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے جو ہر راشن کی دکان میں موجود ہو جہاں سے ہرکوئی اسی ریٹ پر خرید سکتے اس میں کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہ ہو جو سب کے لئے ہواور ایک سبزی جس میں میں آلو کا انتخاب کرتا ہوں جو دیرپا سبزی ہے جو جلد خراب نہیں ہوتی اس کی قیمت دو روپے ہونی چاہئے۔ بس اناج میں صرف آٹا اور آلو کو حکومت ہند80 فیصددوکانداروں کو سبسڈی دے جس سے ہندوستان کی عوام کسی بھی صورت میں بھر پیٹ کھانا کھاسکے ، ہندوستان کا کوئی شہری بھوکا نہ رہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔ اب میں صحت اور تعلیم کی طرف آتا ہوں کہ ہندوستان کی حکومت پانچ سالہ منصوبہ بنائے جس میں ان پانچ برسوں میں حکومت کا ایک ہی مقصد ہوگا کہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرنے ہیں اور بڑے بڑے اسپتال بنانے ہیں۔ ہر گاؤں اور ہر شہر میں ہمیں تعلیمی ادارے اور جگہ جگہ اسپتال بنانے ہیں ۔ دیکھئے جو قوم صحت مند اور پڑھی لکھی ہوگی وہ قوم کس طرح آگے بڑھتی ہے۔
فون:9958361526


No comments:

Post a Comment