Saturday, 30 September 2017

چین میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی

چین میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی


از:ظفر اقبال


چین کے تعلق سے برطانوی اور امریکی میڈیا مسلسل غلط خبریں پھیلا رہے ہیں کہ چین میں مسلمانوں کو کوئی مذہبی آزادی نہیں ہے، چین کی سرزمین پر مسلمانوں کی زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ ان کے مساجد میں تالے لگائے جارہے ہیں اور ان سے قرآن جمع کرنے کے لئے کہا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں محض بکواس اور مسترد کردیئے جانے کے قابل ہے۔ دراصل اس طرح کی افواہیں پھیلانے کا کام مغربی میڈیا اس لئے کررہا ہے تاکہ چین اور مسلمانوں کے درمیان ایک نئی جنگ کی ابتدا کی جائے جس سے مسلمانوں اور چین کی حکومت کو شدید نقصان پہنچے ، چین جو ایشیا میں طلوع ہوتا ہواسورج ہے جس کو نقصان پہنچایا جائے اور چین کے عروج کو گہن لگ جائے اور چین سے مسلمانوں کے لڑوانے کا مقصد مسلمانوں کو تباہ کرنا بھی ہی ہے جس سے مسلماں مزید کمزور سے کمزور تر ہوجائیں۔برطانوی اور امریکی پروپیگنڈے میں ہمارے کچھ نام ونہاد مسلم اتحادی ممالک بھی شامل ہیں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ بھی متعدد ممالک ہیں جو مغربی پروپیگنڈے کا حصہ بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان عرب ممالک کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہے عوام کی امنگیں بھاڑ میں جائے اس میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مشرق وسطی میں داعش دم توڑ رہاہے جس سے مغرب اوراس کے نام ونہاد مسلم اتحادی ممالک پریشان ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ ایران جو مشرق وسطی کا ابھرتا ہوا ستارہ ہے اس سے کس طرح نمٹا جائے اس لئے نت نئے مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں ان نئے فتنے میں کردستان میں آزادی کے لئے ووٹنگ کرانا بھی ایک اہم واقعہ ہے جس ریفرنڈم کو صرف اعلانیہ طور پر صرف اسرائیل نے ہی حمایت کی ہے۔ ایران اور بہت سارے مسلم ممالک سے چین اور روس کی دوستی بہت گہری ہوتی جارہی ہے جس سے برطانیہ اور امریکہ اور اس کے اتحادی بہت ہی پریشان ہیں۔ چین سلامتی کونسل کا مستقل ممبربھی ہے جس کی وجہ سے اپنے ویٹو کا استعمال بھی خوب کررہا ہے۔ چین معاشی کے ساتھ ساتھ عسکری طور پر بھی دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں اس کا شمار ہونے لگا ہے۔ پچھلے سال ہی کاشغر(سنکیانگ ) کے دورے پر جماعت اسلامی پاکستان کا ایک وفد گیا تھا ، یہ وفد اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے گیا تھا کہ واقعی چین کی حکومت مسلمانوں کو مذہبی آزادی پر پابندی لگارکھی ہے۔ لیکن جب جماعت اسلامی پاکستان کا وفد دورے کے بعد جو رپورٹ دی اس میں کہا گیا کہ یہ محض افواہ ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے برس ہی چینی صدر زی جنپنگ کاشغر کی جامع مسجد کا دورے کرچکے ہیں ، یہ ووڈیو چینی نیوز چینل سی سی ٹی وی کے ذریعہ دنیا بھر میں ریلیز کی جاچکی ہے۔یہ تمام باتیں بکواس ہے جو چین کے تعلق سے مسلسل پھیلائی جارہی ہے۔ جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ شیطان برطانیہ اور بڑے شیطان امریکہ اور چھوٹے شیطان اسرائیل کی کارستانی ہے۔ جس سے ہمیں مسلسل محتاط رہنا ہوگا۔ واضح رہے کہ جس طرح پورے چین میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں اسی طرح مسلم اکثریتی چینی علاقے سنکیانگ میں مسلسل ترقی ہورہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ مسلم علاقہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو ترقی نہیں دی جارہی ہے۔
فون: 9958361526
Image may contain: outdoor

Thursday, 28 September 2017

اے اہل ایران! آپ کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے

اے اہل ایران! آپ کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے


از: ظفر اقبال


اے اہل ایران آپ کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے۔ اس دنیا میں آپ کے لئے سکون کا ایک پل بھی نہیں ہے۔ مسلسل آپ کو جنگ لڑنا ہے۔اس امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیافت کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ نے اپنے مقصد کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ جن لوگوں کا انتخاب اللہ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے کرتا ہے اس کے لئے سکون کہا ں؟ سکون صرف اللہ کے یہاں ہی جنت میں ہی حاصل ہوگا۔ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ ابلیس جس نے اللہ کو براہ راست چیلنج پیش کرتے ہوئے کہاتھاکہ آپ نے آدم کو خلافت کے اعلی مدارج پر فائز کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے میں آپ کے فیصلہ کو غلط ثابت کردوں گا۔ حضرت آدم کی شکست اللہ کی شکست ہے۔ ابلیس دراصل آدم کی ناکامی کو اللہ کی ناکامی میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دشمن مسلسل اور لامتناہی آزمائش میں امت مسلمہ کو صدیوں سے مبتلا کرتا چلار ہاہے ۔ اس امت کے ذی شعور حکمرانوں نے ہمیشہ ہی اپنے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے ، اس دنیا میں امت مسلمہ کا دبدبہ ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ لیکن گزشتہ تین صدیوں کی غلامی نے اس امت کے اعصاب کواضمحلال کا شکار کردیا ہے جس سے امت مسلمہ خاص طور سے سنی مسلمانوں میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگئی ہے۔ یہاں اگر کوئی امت مسلمہ کی بھلائی کے لئے کوئی کارنامہ انجام دینے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسی غلامانہ سوچ اسے مسلکی جھگڑوں میں الجھادیتا ہے۔ جس سے امت مسلمہ کے مخلص افراد کچھ کرنے کی سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ میں ایک مثال کے لئے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ سرسید احمد خان جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، اس یونیورسٹی کیوجہ سے ہی ہندوستان میں ایک پڑھا لکھا طبقہ پیدا ہوا جس سے ہندوستانی مسلمانوں کا کسی حد تک وقار بحال ہوا۔ لیکن سرسید جنہوں نے یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ بھی بہت سارے شعبوں میں ایک نظیر پیش کی جیسے تحقیق، اردو نثر کی ارتقا میں ان کا بنیاد ی رول وغیرہ دیگر بہت سارے کام ہیں جس کی ابتدا صرف سرسید کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکی لیکں ان کے عقائد پر کچھ سوالات اٹھا کر ان کے سارے کاموں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو اس امت مسلمہ کے ذہنی دیوالیہ پن کے علاوہ اور کیا کچھ ہوسکتا ہے۔

اے اہل ایران! آپ نے جو ذوالفقار تلوار چند برسوں سے اٹھارکھی ہے یہ تلوار اس وقت تک اٹھی رہنی چاہئے جب تک اس دنیا میں تمام مظلموں کو انصاف اور ظالموں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ہے، اس کے لئے نسلوں کی قربانی دینی پڑتی ہے، جو آپ کو دینی ہوگی۔ یہ ناانصافی جو وینزویلا سے لے کر مشرقی تیمور تک اور سری لنکا سے لے کر منگولیا تک کے علاقے میں مسلسل ہورہی ہے۔ جہاں مسلمانوں اور مقہپور قوموں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ جہاں ناانصافی مسلسل ہورہی ہے۔ ظالم طاقتیں مسلسل عوامی امنگوں کو کچل رہی ہیں۔ جس سے انسانیت شرمسار ہورہی ہے۔
اے اہل ایران کی قیادت آپ کے لئے آزمائش مسلسل آتی رہے گی کبھی داعش کی شکل میں، کبھی آپ کے حلیفوں کو خطرے میں ڈال کر ، کبھی کرد کی آزادی کے نام پر ایک فتنہ جو دشمن مسلسل پھیلا رہا ہے، ایک فتنہ ختم ہوتا نہیں ہے کہ دوسرا فتنہ شروع ہوجاتا ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ابلیس سے تحالف کررکھا ہے وہ لوگ آپ پر مسلسل کاری ضرب لگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہر ضرب کا جواب آپ کو اسی طرح دینا ہوگا جس طرح داعش کے خلاف فوری ایکشن لے کر دیا ہے۔
فون: 995836152

Monday, 25 September 2017

راکھین ایک نیا افغانستان بننے کی راہ پر


راکھین ایک نیا افغانستان بننے کی راہ پر


از: ظفر اقبال

روہنگیا مسلمانوں کا جس طرح میانمار کی حکومت قتل عام کررہی ہے اور اسے بنگالی مسلمان کہہ کر ان مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف کھدیڑرہی ہے۔ لاکھوں روہنگیائی اس وقت بنگلہ دیش آچکے ہیں اور وہ لوگ بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کی تقریبا چالیس ہزار تعداد ہندوستان میں بھی رہ رہی ہے۔ جس کو حکومت ہند میانمار بھیجنے کی تیاری کررہی ہے۔ 
واضح رہے کہ میانمار کی حکومت ان روہنگیائی مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری بھی تسلیم نہیں کررہی ہے اور ان کے گاؤں کوآگ لگارہی ہے اور عورتوں ، بچوں اور مردوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان ایک پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں کی حکومت مظلوموں کا ساتھ نہ دے کر میانمار کی ظالم اور جابر آنگ سانگ سوچی کی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔ یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔کیاہم اسی طرح میانمار میں فوج کے ہاتھوں رہنگیائی لوگوں کا قتل عام ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ ابتدا میں بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکومت بھی روہنگیائی مسلمانوں کو ساتھ دینے سے کترارہی تھی لیکن اب ان کا ضمیر جاگ چکا ہے اور وہ کھلے دل سے اس بات کا اعلان کرچکی ہیں کہ وہ ہر حالت میں روہنگیائی مسلمانوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم جب سولہ کروڑ لوگوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں تو چھ سات لاکھ لوگوں کا بھی پیٹ بھر سکتے ہیں۔ ان کے لئے دو ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی گئی جس میں انہیں پختہ مکان بناکر دیئے جائیں گے۔ خود ایران، ترکی اسی طرح بہت سارے ممالک کی طرف سے وہاں امداد بھیجی جارہی ہے اسی طرح ہندوستان کی حکومت نے کسی حدتک امداد روہنگیا مسلمانوں کے لئے بھیجوائی ہے، جو کہ ایک احسن قدم ہے۔ ہم ہندوستان کی حکومت سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کی جو تعداد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رہ رہی ہے اس کو میانمار نہ بھگا کر پناہ گزیں کا درجہ دے۔ ہندوستان کی حکومت اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ میانمار کی حکومت جس کو خود اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتی ہے ، اسے ہندوستان کی حکومت ان روہنگیالوگوں کو کہاں بھیجوائے گی، سمجھ سے بالاترہے۔ 
روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت عالمی مسئلہ بن چکا ہے ، اقوام متحدہ میں ترکی کے ساتھ ساتھ ایران کے صدر اپنی تقریر میں او رایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی سی این این کے ساتھ اپنے انٹرویو کے درمیان شدت کے ساتھ اس مسئلہ کو اٹھاچکے ہیں۔ او آئی سی اور اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کی کارروائی کی مذمت کرچکی ہے۔ لیکن چند دن قبل آنگ سانگ سوچی کی تقریر جو انہوں نے پارلیمنٹ میں کی، عالمی برادری کے لئے بالکل واضح پیغام تھا کہ میانمار کی حکومت عالمی دباؤ کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گی اور ان روہنگیا مسلمانوں کو گھر واپسی کے حق کو بالکل تسلیم نہیں کرے گی۔
اب کیا لگتا کہ میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کھدیڑ کر سکون سے رہ سکتی ہے؟ کیا ہندوستان کی حکومت سوچی حکومت کی جس طرح حمایت کررہی ہے ان کی حکومت میانمار میں مسلمانوں کی زندگی تنگ کرکے کیسے سکون سے رہ سکتی ہے؟ آپ چند لوگوں کو بے دست وپا کرسکتے ہیں کہ لیکن لاکھوں مسلمانوں کو بے دست وپا نہیں کرسکتے۔ ان روہنگیا ئی مسلمانوں کو ان کے وطن سے بے وطن ہی نہیں کیا گیا بلکہ جولوگ وطن سے بے وطن ہوتے ہیں ان کو ایسامحسوس ہوتا کہ ان کے لئے دنیا تاریک ہوگئی، وہ لوگ اپنے لوگوں کی قربانی دے کر بنگلہ دیش کی سرحد میں داخل ہوئے، ان کے درد کو سننے کے بعد ہی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی زندگی کس قدر کربناک ہے۔ 
مجھے محسوس ہوتا ہے یہ صورتحال زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گی بلکہ ایسی صورت حال تصادم کو جنم دیں گے۔ میانمار کی حکومت کو ایک گوریلا جنگ لڑنے کی تیاری کرلینی چاہئے۔ اسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے گوریلا بنگلہ دیش کا رخ کریں گے اور یقیناًشیخ حسینہ واجد کی حکومت ان گوریلا ؤں کا ساتھ دینے کے لئے مجبور ہوگی۔ جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی صورت حال ایک نئے عہد میں داخل ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد روہنگیائی مسلمانوں کو انصاف دلائے نہیں تو دنیا ایک نئے تصادم کا شکار ہوجائے گی۔ جس کے بعد مسئلہ کا حل نہ میانمار کی حکومت کے ہاتھ میں ہوگا نہ اقوام متحدہ کے ہاتھ میں رہے گا۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ایک نیا افغانستان جنم لے سکتا ہے۔ جس کی مدد کے لئے بنگلہ دیش ایک بیس کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے، جس کی سرحد مسلم اکثریتی علاقہ راکھین سے لگی ہوئی ہے۔
فون: 9958361526

Saturday, 16 September 2017

کم جونگ ان امریکی نخوت کو خاک میں ملانا والا تاناشاہ

کم جونگ ان امریکی نخوت کو خاک میں ملانا والا تاناشاہ

از: ظفر اقبال


کم جونگ ان (Kim Jong Un) کی مجوزہ تصویر کا آپ بغور مشاہدہ کریں اور اس کے علاوہ دیگر تصاویر جو کم جونگ ان کی آتی ہے، ان تصاویر کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب اور اسکی معاون میڈیا جس طرح کم جونگ ان کے کردار کو مشکوک بناکر پیش کرتی ہے اور اسے ایک ڈکٹیٹر اور تاناشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن ہمیں مختلف تصاویر کو بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کم جونگ ان کی شبیہ جان بوجھ کر بگاڑ کی پیش کی جارہی ہے، معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔شمالی کوریا کی عوام اس کو بہت بہت چاہتی ہے اور شمالی کوریا کی عوام کے ذہن ودماغ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نفرت بھرگئی ہے، شمالی کوریا نے جس طرح امریکیوں کی وجہ سے تکلیف کے وہ ایام گزاریں ہیں جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ 1949سے قبل جنوبی کوریا اور شمالی کوریا دونوں ایک ہی ملک ہوا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں خانہ جنگی کے بعد شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے اپنا راستہ الگ اختیار کرلیا۔ جنوبی کوریا امریکی اتحاد کا حصہ بن گیا اور شمالی کوریا چین اور روس کے قریب چلاگیا۔ لیکن آج شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان دشمنی اپنے کلائمکس پر ہے۔شمالی کوریا پر جتنی بھی پابندی لگائی گئی وہاں کی عوام نے ایک جٹ ہوکر بے اثر کردیا جس سے امریکہ خاص طورسے بوکھلایا ہوا ہے۔ اس کی چودھراہٹ کو چیلنج کرتے ہوئے وہ ایٹمی اور پھر ہائیڈروجن بم کا مالک بن چکا ہے۔ جس سے امریکہ کے اعصاب جواب دینے لگے ہیں۔ اب تک امریکہ کا مقابلہ ایسے ہی ملک سے ہوتا رہا ہے جو کافی کمزور رہے ہیں اور اس پر امریکہ کا یہ طرہ کہ وہ ممالک کا اتحاد بنا کر اس چھوٹے سے ملک پر حملہ کرتا ہے، جس کی مثال ہم عراق، افغانستان اور ویتنام کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔شمالی کوریا کے ساتھ امریکہ نے جو مظالم ڈھائے ہیں اور خاص طور سے وہاں کی عوام کو بھوکے مارے ہیں جس کی نظیر کم ہی ملے گی، وہ جنوبی کوریا جو معیشت کے اعتبار سے دنیا کا اہم ملک شمار ہوتا ہے، جہاں کی سمسنگ، ایل جی اور ہندوئی کمپنیوں سے دنیا واقف ہے، لیکن وہ شمالی کوریاجس پر ایک سازش کے تحت امریکہ نے بھوک اور افلاس تھوپ دی، جہاں کم ہی بارش ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کے جانب جو بادل جاتا ہے اس کو امریکہ سمندر میں ہی کیمیکل ری ایکشن کرکے گرادیتا ہے جس سے وہاں فصل بہت کم ہوپاتی ہے، امریکہ اس بات کے لئے شمالی کوریا کو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ تم میری برتری اور میری خدائی تسلیم کرو نہیں تو ہم تمہیں بھوکوں مار کر ہلاک کردیں گے۔ لیکن وہاں کی عوام پوری طرح اپنے حکمراں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ ہمیشہ سے شمالی کوریا کے معاملے میں ناکام ثابت ہوجاتاہے۔ دراصل شمالی کوریا کی عوام اپنے حکمراں سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں اور کم جونگ ان کے پرائڈ کو اپنا پرائڈ تصور کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ہر حال میں اپنے ملک پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اگر کم جونگ ان صحیح معنوں میں اپنی قوم کے لئے ڈکٹیٹر ہوتا تو وہ بھیڑ بھاڑ سے دور ہی رہتا ہے اسے ہمیشہ یہ خوف بھی ستانے لگتی ہے کہ کب کوئی ہم میں سے کوئی اسے قتل کردے لیکں کم جونگ ان ہمیشہ ہی عوام کے درمیان دیکھا گیا ہے اور اپنے فوجیوں کے درمیان رہتا ہے۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے نخوت کو خاک میں ملانے والے شمالی کوریا امریکہ کے لئے کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ اگر امریکہ شمالی کوریا کے سامنے ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی عزت خاک میں ملتی دیر نہیں لگے گی۔
فون : 9958361526
Show more reactionsComment

Tuesday, 12 September 2017

آدھی رات کا جشن

آدھی رات کا جشن

از: ظفر اقبال
ومل کمار کے اس شعری مجموعہ "آدھی رات کا جشن" دراصل 2014 میں بنی نریندر مودی حکومت کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر مبنی حالات کی داستاں ہے. جو زیادہ تر مودی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرتی ہے. انہوں نے طنز و مزاح کا انداز اپناتے ہوئے مودی حکومت پر اپنی شاعری کے توسط سے بہت ہی زوردار حملے کئے ہیں. جو پڑھنے لائق ہے. 
اس شعری مجموعے میں 134 نظمیں ہیں. ہر نظمیں مختلف واقعات کی عکاس ہے. 
واضح رہے کہ ومل کمار جی یو این آئی کے ہندی سروس وارتا میں سینئر صحافی ہیں۔
آپ اس کتاب کو درجہ زیل پتے سے حاصل کرسکتے ہیں.
زونل پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ. 26 - اے/2. چندر وہار. منڈاؤلی. فضل پور دہلی. نئی دہلی-110092
فون: 08586934944

Saturday, 9 September 2017

اے سنی دنیا تم کب ہوش میں آؤ گے

اے سنی دنیا تم کب ہوش میں آؤ گے


از: ظفر اقبال

اسلام کے نام پر اور کلمہ طیبہ کے نام پر  تشکیل پانے والے ملک پاکستان میں 30 اگست 2017 کو ایک 9ویں کلاس کے ایک  عیسائی اقلیت طالب علم شمرون مسیح کو اس اسکول کے طلبہ نے اپنے اساتزہ کی موجودگی میں اجتماعی طور پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا. وہ اس وجہ سے کہ اس نے مسلمان طلبہ کے پینے والے خاص گلاس کو چھولیا تھا.
لعنت ہے ایسی سوسائٹی پر جو ملک اسلام کے نام پر اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر تشکیل پائے. اس ملک کی عوام اس قدر ظالم ہوسکتی ہے.  ہم نے اس دنیا کو کیا پیغام دیا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں اقلیت محفوظ نہیں. اسی لئے تو برما میں مسلم اقلیت کا یہ حشر کیا جارہا ہے. ایک ملک دنیا میں ایسا بھی ہے جہاں یہودی اقلیت سب سے زیادہ محفوظ ہیں. میری مراد ایران سے ہے.  اس حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل حامی ہے.  ایسے بدنصیب قوم کا اللہ ہی حافظ ہے. جو رسول اللہ کے اسوا کو اپنائے وہ اسلام سے خارج نظر آتا ہے. ہائے سنی دنیا کی بد نصیبی. عراق. ایران. یمن. شام اور لبنان یہ وہ ممالک ہیں جہاں شیعہ دنیا بہت حاوی ہیں. وہاں کی اقلیت کس قدر محفوظ ہے. کچھ چیزیں ہم سنیوں کو شیعوں سے بھی سیکھ لینی چاہیے. وہ کس قدر سر بلند ہورہے ہیں. فی الحال شیعہ قوم اپنے اخلاق اور اعلی اقدار کے ساتھ ساتھ شمشیر کی نوک سے تاریخ رقم کررہی ہے.

فون:9958361526

Tuesday, 5 September 2017

امت مسلمہ کو بودھوں سے پہلے معافی مانگنی چاہئے

امت مسلمہ کو بودھوں سے پہلے معافی مانگنی چاہئے

#Budh_Muslim_Ummah

از : ظفر اقبال


طالبان کی شرعی حکومت نے جب 1997 میں ملا عمر کے حکم سے بامیان میں ساری دنیا کے احتجاج کے باوجود گوتم بودھ کے دو مجسموں کو توپ کے زریعہ اڑادی گئی تھی. اس وقت امت مسلمہ کی مجرمانہ خاموشی نے اس بات کی تائید کی ہے کہ طالبان نے جو کیا وہ بہت اچھا کام تھا. اسی واقعہ کے بعد بودھ دھرم کے لوگ خاص طور سے میانمار میں لوگ بھڑک گئے. اسی کا نتیجہ میانمار کا قتل عام ہمارے سامنے ہے. ہم امت مسلمہ کے علماء نے طالبان کے ان کرتوتوں کی کبھی مزمت نہیں کی. خاص طور سے ملا عمر کے استاز سمیع الحق نے اس سلسلے میں بولنے کا کوئی حق نہیں رکھتا. اس آدمی کے سر پر لاکھوں مسلمانوں کو قتل کروانے کا بوجھ ہے. اس آدمی نے پاکستان میں خون کی ندیاں بہائیں. آج بھی پاکستان میں شیعوں کو کافر قرار دےکر قتل عام کیا جارہا ہے. یہی سعودی عرب کی حکومت اس مرتبہ جو حج کی سہولت ایرانی حاجی کو دی اس کی نظیر ماضی ميں کبھی نہیں ملے گئی. ان گدہی اور مکار قیادت کو معلوم ہونی چاہیے کہ سعودی عرب میں وہابی قیادت ہے. جو اب ایران کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوئی ہے . اس لئے شیعوں کے خلاف تمام فتوے جعلی ہیں.یہ تمام فتوے سیاسی ہوتے ہیں. ان بے وقوف عالم کو معلوم ہونا چاہئے کہ دوسروں کی دل آزاری کی جاتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے. اب تمام دنیا کے مسلمان میانمار کے قتل عام کو دیکھ کر زہنی ازیت سے دوچار محسوس کررہے ہیں. امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد بودھ دھرم کے لوگوں سے طالبان کی کرتوتوں کی معافی مانگے. 

فون : 9958361526