Monday, 25 September 2017

راکھین ایک نیا افغانستان بننے کی راہ پر


راکھین ایک نیا افغانستان بننے کی راہ پر


از: ظفر اقبال

روہنگیا مسلمانوں کا جس طرح میانمار کی حکومت قتل عام کررہی ہے اور اسے بنگالی مسلمان کہہ کر ان مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف کھدیڑرہی ہے۔ لاکھوں روہنگیائی اس وقت بنگلہ دیش آچکے ہیں اور وہ لوگ بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کی تقریبا چالیس ہزار تعداد ہندوستان میں بھی رہ رہی ہے۔ جس کو حکومت ہند میانمار بھیجنے کی تیاری کررہی ہے۔ 
واضح رہے کہ میانمار کی حکومت ان روہنگیائی مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری بھی تسلیم نہیں کررہی ہے اور ان کے گاؤں کوآگ لگارہی ہے اور عورتوں ، بچوں اور مردوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان ایک پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں کی حکومت مظلوموں کا ساتھ نہ دے کر میانمار کی ظالم اور جابر آنگ سانگ سوچی کی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔ یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔کیاہم اسی طرح میانمار میں فوج کے ہاتھوں رہنگیائی لوگوں کا قتل عام ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ ابتدا میں بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکومت بھی روہنگیائی مسلمانوں کو ساتھ دینے سے کترارہی تھی لیکن اب ان کا ضمیر جاگ چکا ہے اور وہ کھلے دل سے اس بات کا اعلان کرچکی ہیں کہ وہ ہر حالت میں روہنگیائی مسلمانوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم جب سولہ کروڑ لوگوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں تو چھ سات لاکھ لوگوں کا بھی پیٹ بھر سکتے ہیں۔ ان کے لئے دو ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی گئی جس میں انہیں پختہ مکان بناکر دیئے جائیں گے۔ خود ایران، ترکی اسی طرح بہت سارے ممالک کی طرف سے وہاں امداد بھیجی جارہی ہے اسی طرح ہندوستان کی حکومت نے کسی حدتک امداد روہنگیا مسلمانوں کے لئے بھیجوائی ہے، جو کہ ایک احسن قدم ہے۔ ہم ہندوستان کی حکومت سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کی جو تعداد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رہ رہی ہے اس کو میانمار نہ بھگا کر پناہ گزیں کا درجہ دے۔ ہندوستان کی حکومت اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ میانمار کی حکومت جس کو خود اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتی ہے ، اسے ہندوستان کی حکومت ان روہنگیالوگوں کو کہاں بھیجوائے گی، سمجھ سے بالاترہے۔ 
روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت عالمی مسئلہ بن چکا ہے ، اقوام متحدہ میں ترکی کے ساتھ ساتھ ایران کے صدر اپنی تقریر میں او رایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی سی این این کے ساتھ اپنے انٹرویو کے درمیان شدت کے ساتھ اس مسئلہ کو اٹھاچکے ہیں۔ او آئی سی اور اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کی کارروائی کی مذمت کرچکی ہے۔ لیکن چند دن قبل آنگ سانگ سوچی کی تقریر جو انہوں نے پارلیمنٹ میں کی، عالمی برادری کے لئے بالکل واضح پیغام تھا کہ میانمار کی حکومت عالمی دباؤ کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گی اور ان روہنگیا مسلمانوں کو گھر واپسی کے حق کو بالکل تسلیم نہیں کرے گی۔
اب کیا لگتا کہ میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کھدیڑ کر سکون سے رہ سکتی ہے؟ کیا ہندوستان کی حکومت سوچی حکومت کی جس طرح حمایت کررہی ہے ان کی حکومت میانمار میں مسلمانوں کی زندگی تنگ کرکے کیسے سکون سے رہ سکتی ہے؟ آپ چند لوگوں کو بے دست وپا کرسکتے ہیں کہ لیکن لاکھوں مسلمانوں کو بے دست وپا نہیں کرسکتے۔ ان روہنگیا ئی مسلمانوں کو ان کے وطن سے بے وطن ہی نہیں کیا گیا بلکہ جولوگ وطن سے بے وطن ہوتے ہیں ان کو ایسامحسوس ہوتا کہ ان کے لئے دنیا تاریک ہوگئی، وہ لوگ اپنے لوگوں کی قربانی دے کر بنگلہ دیش کی سرحد میں داخل ہوئے، ان کے درد کو سننے کے بعد ہی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی زندگی کس قدر کربناک ہے۔ 
مجھے محسوس ہوتا ہے یہ صورتحال زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گی بلکہ ایسی صورت حال تصادم کو جنم دیں گے۔ میانمار کی حکومت کو ایک گوریلا جنگ لڑنے کی تیاری کرلینی چاہئے۔ اسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے گوریلا بنگلہ دیش کا رخ کریں گے اور یقیناًشیخ حسینہ واجد کی حکومت ان گوریلا ؤں کا ساتھ دینے کے لئے مجبور ہوگی۔ جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی صورت حال ایک نئے عہد میں داخل ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد روہنگیائی مسلمانوں کو انصاف دلائے نہیں تو دنیا ایک نئے تصادم کا شکار ہوجائے گی۔ جس کے بعد مسئلہ کا حل نہ میانمار کی حکومت کے ہاتھ میں ہوگا نہ اقوام متحدہ کے ہاتھ میں رہے گا۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ایک نیا افغانستان جنم لے سکتا ہے۔ جس کی مدد کے لئے بنگلہ دیش ایک بیس کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے، جس کی سرحد مسلم اکثریتی علاقہ راکھین سے لگی ہوئی ہے۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment