Monday, 23 October 2017

امریکی جوکروں کا ٹولہ

امریکی جوکروں کا ٹولہ

از: ظفر اقبال


کیا امریکہ میں جوکروں کا ٹولہ برسراقتدار ہے؟ کیا اسے انٹرنیشنل اور بین الاقوامی قوانین سے واقفیت تک نہیں ہے یا اسے دنیا کا جغرافیہ بھی معلوم نہیں ہے۔ گزشتہ روز یعنی 22 اکتوبر 2017 کو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کا دورہ ریاض ہوا۔جہاں انہوں نے سعودی عرب کی اعلی قیادت سے ملاقات کی اور اس کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے ساتھ انہوں نے پریس کانفرنس کی ، جس پریس کانفرس میں انہوں نے شیعوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ بات کہی کہ اب عراق اور شام سے داعش کا خاتمہ ہوگیا ہے اس لئے شیعہ مسلح گروپ عراق اور شام سے نکل جائیں۔ ارے جاکے کوئی ٹیلرسن سے یاٹرمپ کو بتائے کہ شیعوں کو کیا ان کے گھر سے نکلنے کی بات کرتے ہو۔ کیا تمہیں جغرافیہ نہیں معلوم کہ شیعہ کے لئے دو متبرک جگہ کربلا اور نجف تو عراق میں ہیں اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا روضہ دمشق میں ہیں۔ کیا شیعوں کو کربلا ، نجف اور دمشق سے نکل جانے کی بات کرتے ہو، نہایت ہی احمقانہ بات ہے۔ امریکی جوکروں کے ٹولہ کی عرب ممالک میں جو لوگ ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت کا خاتمہ از حد ضروری ہوگیا ہے جب تک آل سعود برسراقتدار ہیں مشرق وسطی میں پائیدار امن کسی مجنوں کے خواب سے کم نہیں ہے۔جن جن راستوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ گذرا وہ تمام علاقے شیعوں کا ازل سے ہے۔ جہاں سے کوئی شیعوں کو نکال نہیں سکتا ہے ان امریکی جوکروں کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کربلا سے لے کر دمشق تک کا پورا علاقہ شیعہ ہارٹ لینڈ ہے۔ اسکے بارے میں ایسی بات ایک امریکی وزیر خارجہ کہہ رہا ہے جس کا مشرق وسطی سے کیا رشتہ؟ مشرق وسطی خالص مسلم ہارٹ لینڈ ہے۔ گیارہ ہزار کلومیٹر سے آیا ہوا کوئی ملک کا نمائندہ مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے لوگو ں کے بارے میں فیصلہ کرے، نہایت ہی احمقانہ بات ہے۔

فون: 9958361526


Sunday, 22 October 2017

اپنے مقاصد کے لئے انسانوں کا جنم

اپنے مقاصد کے لئے انسانوں کا جنم

از: ظفر اقبال


بہت جلد دنیا ایک ایسے مرحلہ میں داخل ہونے جارہی ہے بلکہ ایسی چیز اور اس طرح کے سسٹم کو بروکار لانے والی ہے جس سے انسانیت خطرے سے دوچار ہونے والی ہے۔ جو نیوکلیائی بموں سے زیادہ خطرناک ہے۔ وہ چیز ہے جینیک انجینئرنگ کے ذریعہ اپنے خاص مقاصد اور پہلے سے طے شدہ مقاصد کے لئے انسانوں کی پیدائش۔ ولادیمیر پوتن نے روس کے شہر سوچی میں طلبہ اور نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے آج انہوں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

صدر پوتن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتاہے تو انسانیت خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔ جنیتک انجینئر نگ کے ذریعہ اگر ہم موسیقار پیدا کرنا چاہتے ہیں تو صرف موسیقار پیدا ہوگا۔ اگر ہم انجینئر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انجینئر ہی پیدا ہوگا، اگر ہم ڈاکٹر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر ہی پیدا ہوگا، اگر ہم فوجی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو فوجی ہی پیدا ہوگا، یہ انسان ایسا ہوگا کہ جس کے اندر محسوسات کا مادہ ختم ہوجائے گا۔ ان کے اندر سوچنے اور خوف وہراس کی کیفیت بالکل نہیں رہے گی۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ گوشت پوست کا انسان تو ہوگا لیکن اس کی کارکردگی ربورٹ جیسی ہوگی۔
مسٹر پوتن کا مزید کہنا ہے کہ یہ چیز انسانی دماغ کے خلیوں میں کچھ تبدیلیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوجائے گا۔ ان کا مزید کہناہے کہ وہ وقت جلدآنے والا ہے۔
ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسٹر پوتن اگر اس طرح کے واقعات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اس شعبے میں کام تیزی کے ساتھ ہورہا ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں اسرار عالم صاحب تقریبا پچیس برس قبل اپنی متعدد کتابوں میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ صدر پوتن کے منھ سے اس طرح کی بات سننے کا مطلب یہ ہے کہ روس اور امریکہ اور بہت حد تک اسرائیل کے اندر اس طرح کے کام ہورہے ہیں۔ جو بہت جلد پائے تکمیل تک پہنچنے والے ہیں۔ روس کے بارے میں بہت پہلے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ بہت ہی پراسراسر ملک ہے۔ بلکہ جب روس نے 1957 میں خلامیں جب پہلا خلائی جہاز اسپٹنک بھیجا تھاتو امریکہ حیران رہ گیا کہ کیا یہ ممکن ہے ؟ اگر روس کے صدر ایسی بات کہہ رہے ہیں تو نہ ماننے کی ہمارے پاس کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔
فون: 9958361526


Saturday, 21 October 2017

ایران عالم اسلام کی قیادت کا متحمل




ایران عالم اسلام کی قیادت کا متحمل



از:ظفر اقبال



1923 میں جب سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا ہے تب سے ہی عالم اسلام بالکل بے سمتی کا شکار ہوگیا۔ پوری دنیا میں مسلم قیادت کا جو تصور تھا وہ ختم ہوگیا۔ متحدہ قیادت کے خاتمے کے بعد اب قیادت کے متعدد دعویدار پیدا ہوگئے۔ دشمن نے یہ سوچ کر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا کہ اس سے مسلمان منتشر ہوجائیں گے اور بالکل ختم ہوجائیں گے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مسلمان بہت ہی منتشر ہوگئے، دنیا میں بہت سے مسلم ممالک آزاد ہوگئے۔ مشرقی یورپ سے لے کر مشرق بعید تک کہ ممالک میں مسلم حکمراں ہیں لیکن ایک متحدہ قیادت نہ ہونے کی وجہ سے متعدد فرقہ تو پہلے سے ہی تھے اب متعدد تنطیمیں بن گئیں۔ ہر تنظیموں کا ایجنڈا بھی مختلف ہوتا گیا۔ جس سے پورا عالم اسلام انتشار کا شکار ہوگیا۔ ایک مرکزی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی مسلم گروپ کسی دوسرے گروپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ کوئی ایک دوسرے کی سننا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کا تو بہت نقصان ہوا ہی ساتھ ہی غیر جو اس بات سے بہت ہی خوش تھے کہ چلو مسلمانوں کی متحدہ کی قیادت جو خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی خاتمہ ہوگیا۔ جس سے غیر مسلم خاص طور سے پہلی جنگ عظیم کے حریف گروپ تو بہت ہی خوش تھے۔ خاص طور سے پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اسرائیل کے قیام عمل میں آیا جس سے مسلم ہارٹ لینڈ میں ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوگیا جس سے مسلمانوں کا بہت ہی نقصان ہوا۔ لاکھوں فلسطینی اپنی سرزمین سے بے دخل کردیئے گئے ، ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے۔ یہ تو ہوا ہی ساتھ اہی پوری دنیا ایک گہری کھائی میں جاگری۔ اس سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا اب خون کے آنسو رورہی ہے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں بہت ساری تنظیموں کا ظہور ہوگیا۔ کچھ تنظیمیں پرامن تھیں جیسے جماعت اسلامی، اخوان المسلمون اسی طرح انڈونشیا میں بھی بہت ساری تنظیموں کا قیام عمل میں آیا اور کچھ تنظیموں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جیسے القاعدہ،الجزائر کی متعدد تنظیمیں اسی طرح ابوسیاف گروپ، فلسطین کی حماس، پی ایل او اسی طرح، طالبان ، وسط ایشیا میں متعدد تنظیموں کا قیام عمل میں آیا جو کچھ پرامن طورپر اور کچھ مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔ان تمام تنظیموں کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح اپنے دشمنوں کو شکست دوچار کردیں اور اپنی حکومت کا قیام عمل میں لائیں۔ اس کی وجہ سے دنیا میں انارکی پیدا ہونا شروع ہوگئی جس سے عالم اسلام تو خاک وخون میں نہایا ہی ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا اس خونی تصادم سے متاثر ہوئی۔ کئی ممالک ان مسلح جدوجہد کی وجہ سے تباہ کردیئے گئے۔ شام اور عراق میں پراکسی وار متعدد ممالک چلارہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کافی عرصے سے پائیدار حکومت بننے میں پریشانی ہورہی ہے۔ لیکن اب ایران کی کوششوں کی وجہ سے عالم اسلام میں پائیدار حکومتیں بن رہی ہیں۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ایران کی اعلی قیادت آیت اللہ خامنہ ای کی سرکردگی میں ایک ایسی قیادت دنیا میں موجود ہے جس کی بات عالم اسلام کی ایک شاخ اہل شیعہ ان کی بات کو بہت ہی غور سے سنتی ہے۔ اگر انہوں نے کسی کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کرلیا تو ساری شیعہ قوم اس کو تسلیم کرے گی۔ خود ساری دنیا کی بھی اسی میں بھلائی ہے کہ ایران جو عالم اسلام کی نمائندگی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جس کی بات پورے عالم اسلام سنیں تب دنیا پرامن ہوسکتی ہے اور ساری غیر مسلم قیادت کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایران کو عالم اسلام کا ایک مرکز تسلیم کرلے تبھی دنیا ان کے لئے بھی فائدہ مند ہوسکتی نہیں تو دنیا کوکبھی پائیداری نصیب نہیں ہوگی۔کچھ لوگ یہ چاہتے ہوں کہ سعودی عرب ہی عالم اسلام کی قیادت کیوں نہیں کرسکتا تو اس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ سعودی عرب کی تشکیل میں جن ممالک کا اہم رول رہا ہے وہ خود برطانیہ ہے بعد میں امریکہ اس کی سرپرست کے طور پر سامنے آیا۔ ایسا ملک جو کسی دوسرے غیر مسلم ملک کی سرپرستی سے چل رہا ہے وہ خودکیسے قیادت کرسکتا ہے۔ رہی بات علمی پیش رفت کی عرب ممالک علمی ترقی میں بھی پستی سے دوچار ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عالم عرب عالم اسلام کی قیادت کی متحمل بالکل نہیں ہے۔ پہلے بھی خلافت عثمانیہ کی شکل میں ترکی عالم اسلام کی قیادت کررہا تھا اب ایران عالم اسلام کی قیادت کرسکتا ہے ۔ اس قیادت کو پوری دنیا بھی تسلیم کرلے گی۔ پوری دنیا کو ایران کی قیادت کو تسلیم کئے بنا چارا بھی نہیں ہے۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ ایران کو عالم اسلام کی نمائندہ کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے تو دنیا کبھی بھی تاریک کنویں سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ 2015 میں ایران کے ساتھ عالمی معاہدے سے امریکہ کی نکلنے کی کوششوں کی ساری دنیا نے مخالفت کی خود یوروپ اور اس کے ایشیائی حلیف جاپان اور کوریا اس کا سخت مخالف رہا ۔ خود امریکہ میں متعدد مقتدر شخصیوں نے ٹرمپ کی کوششوں کی سخت مخالفت کی جس کی وجہ سے ترمپ اور ان کی انتظامیہ اب نرم پڑنے لگی ہے۔ ساری دنیا ایک ایسی دنیا میں جینا چاہتی ہے جس میں عالم اسلام کے ساتھ بقائے باہم کے تعلقات ہوں۔ دنیا قتل وغارت گری سے تھک چکی ہے۔ عالم اسلام کی قیادت کے لئے ایران سے بہتر ملک ہمارے ذہن میں بالکل نہیں ہے۔
فون: 9958361526

Tuesday, 3 October 2017

بی جے پی کا ہندوستان ہندووانہ شناخت کی تلاش میں

بی جے پی کا ہندوستان ہندووانہ شناخت کی تلاش میں


از :ظفر اقبال


برازیل یا ارجنٹینا کا پانچویں کلاس کا کوئی بچہ تاج محل کی تصویر دیکھتا ہے تو وہ کہتاہے کہ یہ انڈیا ہے، جس طرح ہمارے ملک میں جب پانچویں کلاس کا بچہ ایفل ٹاور ، پیسا کا مینار یا دیوار چین کی تصویر دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ تمام چیزیں بالترتیب فرانس، اٹلی اور چین کی ہیں۔ تاج محل کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ جب آر ایس ایس یا بی جے پی یا کسی بھی شخص جو دل میں ہندوتو کا شدت پسندانہ جذبہ رکھتا ہے اسے اس بات پر غصہ آجاتاہے کہ ہندوستان جہاں اکثریتی آبادی ہندوؤں کی ہے اور حکومت بھی انہیں کی ہے اور یہاں مسلمان آئینی اعتبار سے اقلیت میں ہیں اس کے باوجود ہندوستان کی شناخت عالمی سطح پر تاج محل کی وجہ سے ہی پہچانی جارہی ہے، جب مذکورہ ممالک میں جب کوئی ہندوستانی جو انتہاپسندانہ پس منظررکھنے والا ہندو جاتا ہے تب لوگ کہتے ہیں کہ اچھا آپ کا تعلق اس ملک سے ہے جہاں تاج محل ہے، اگلا سوال ان کا یہ ہوتاہے کہ کیا وہ مسلم ملک ہے؟ اس طرح کے سوالات سے ہندوتو کے حامی اشخاص بیرون ملک میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ آر ایس ایس کے سربراہ یا وچارک جب بیرون ملک جاتے ہوں گے تو دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جو ہندوستانی پس منظر نہیں رکھتے ہیں۔ ان سے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ گھبراہٹ کے شکار ہوجاتے ہیں کہ ہندوستان 70 برسوں سے ہندو اکثریتی ملک ہوچکا ہے لیکن ابھی تک مسلم شناخت برقرار ہے۔

اترپردیش میں آدتیہ ناتھ یوگی جو بی جے پی کے وزیراعلی ہیں انہوں نے ریاست کی سیاحت کی لسٹ سے تاج محل کو نکال دیا ہے اوراس کی جگہ گورکھپور کے مندر جس کے وہ خودد پروہت ہیں گورکھ ناتھ مندر اس کو جگہ دی ہے، تاکہ وہ دنیا والے کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان اب ہندو اسٹیٹ بن چکا ہے۔ بلکہ وزیراعظم نریندر مودی جب بیرون ملک جاتے ہیں یااندروں ملک کوئی مہمان آتا ہے تو پہلے تاج محل میمونٹو کی شکل میں دیئے جاتے تھے لیکن اب بھگوت گیتا پیش کئے جارہے ہیں۔ جس سے دنیا والے کو معلوم ہوسکے کہ ہندوستان ہندو اسٹیٹ ہوچکا ہے اور اس ملک کی شناخت مسلم مینار یا گنبد نہ ہوکہ بھگوا پہچان بن سکے۔
یو پی اے کے دور حکومت کے دوران جب جارج ڈبلیو بش ہندوستان کے تین روزہ دورے پر آئے تھے تو ہندوستان میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا ہندوستان کی انٹلی ایجنس نے سیکورٹی کی وجہ سے وگیان بھون کا انتخاب کیا تھا لیکن امریکی انٹلی ایجنسی ایف بی آئی نے پرانا قلعہ کا انتخاب کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکی شہری جو امریکہ میں اپنے صدر کا براہ راست ایڈریس کو سنیں تو انہیں معلوم بھی ہو کہ ہمارے صدر ہندوستان میں ہی تقریر کررہے ہیں اور ہندوستان کی پہچان عالمی سطح پر صرف مینار اور گنبد ہے چاہے تاج محل کا مینار ہو یا قطب مینار یا لال قلعہ یہ ہندوستان کی پہچان ہے۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے ہندوتو نظریہ کے حامی لوگ پریشان ہیں کہ اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی ہندوستان کو ہندووانہ شناخت نہیں مل سکی۔اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہندوستان کو ہندووانہ شناخت ہر حال میں مل سکے۔ ہم لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ آر ایس ایس اور ان سے تعلق رکھنے والے اشخاص کو کس قدر کامیابی مل پاتی ہے۔
فون: 9958361526