Friday, 28 July 2017

انسان زمین پر خلائی مہاجر: سائنسی تحقیق

انسان زمین پر خلائی مہاجر: سائنسی تحقیق


اب یہ بات پوری طرح پائے تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا تعلق اس موجودہ دنیا سے نہیں ہے۔ بلکہ قرآن میں دیئے گئے اطلاع کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حوا کو جنت سے نکال کر اس دنیا میں بھیجا گیا تاکہ نسل انسانی آگے بڑھ سکے۔نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی نے اس موضوع پر تحقیق کی کہ ’’انسانوں کی تخلیق جس عناصرسے ہوئی ہے، کیا وہ عناصر دنیا میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
ایک طویل تحقیق کے بعد سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانوں کابنیادی تعلق اس دنیا سے نہیں یعنی زمین انسانوں کی اولین جائے پیدائش نہیں ۔ کرہ ارض پر اس کی آمد کہیں اور سے ہوئی ہے۔یہ محض اب مذہبی دعویٰ نہیں بلکہ سائنسی تحقیق کا نتیجہ ہے۔
اس نہج پر امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ انسان کی تخلیق جن عناصر سے ہوئی ہے وہ زمین پر نہیں پائے جاتے۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انسان زمیں پر خلائی مہاجر ہیں۔ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یہ بھی بتا یا گیا کہ ہے انسانوں کی تخلیق جن عناصر سے ہوئی ہے وہ زمین سے اربوں میل دور تیرنے والی کہکشاں (مِلکی وے) سے تعلق رکھتے ہیں۔اس تحقیق کے نتائج جریدے منتھلی نوٹس آف دی رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی میں شائع ہوئے۔
تحقیق کے مطابق ہمارے ارگرد اور ملکی وے میں موجود سب کچھ ماورائے کہکشانی عناصر سے تخلیق پایا۔

Sunday, 23 July 2017

ہمارے پاس سورہ مریم ہے

ہمارے پاس سورہ مریم ہے

#surah_maryam_quran
از:ظفر اقبال



سورہ مریم قرآن کا وہ باب ہے جس کے ذریعہ مسلم امہ اور نصاری کے درمیان ایک متوازن رشتہ قائم ہوسکتا ہے،یہ سورہ وہ پل کا کام کرے گی جس سے ایک زمانے میں کافی فائدہ اٹھایا گیا لیکن عرصہ ہوا اب مسلمانوں کی یاد سے اس سورہ کی معنویت محو ہوگئی یا وہ اب تک سمجھ نہیں پارہی ہے کہ سورہ مریم محض ایک کہانی ہے یا اس کی معنویت بھی ہے جس سے امت مسلمہ کا نصاری سے تعلق قائم کرنے کے لئے ایک اہم پل کا کام بھی دے سکتا ہے جس سے امت مسلمہ کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔پورے قرآن میں دو تہائی حصوں میں یہودیوں کی مکاری کی داستان بیان کی گئی ہے،امت مسلمہ کا اصل تصادم موجودہ حالت میں اور مستقبل میں یہودیوں سے ہوگا، لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن میں بیان کئے گئے یہودیوں کی بدمعاشیوں کی جو داستان بیان کی گئی ہے وہ اب واضح طو رپر دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ ہاں نصاری کے تعلق سے کئی جگہ یہ باتیں کہی گئی ہے کہ نصاری نرم دل ہوتے ہیں۔آپ نصاری سے بہت سارے معاملات میں خوشگوار تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ابتدا میں جب مسلمانوں کی پہلی ہجرت حبشہ ہوئی تھی جس کو آج کل ایتھوپیا کہتے ہیں ، وہاں کے بادشاہ نجاشی نیک دل عیسائی بادشاہ تھے ان کے سامنے جب سورہ مریم کی تلاوت کی گئی تھی تو وہ سن کر رونے لگے تھے اور پھر مسلمان ہوگئے۔ جس سے اسلام کے چاہنے والوں کو کافی تقویت ملی ۔

مجھے احساس ہوتا ہے کہ سورہ مریم کی معنویت سے امت مسلمہ نے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا ۔ سورہ مریم ہمارے لئے وہ ہتھیار ہے جس سے ہم نصاری کو اپنے قریب لاسکتے ہے ۔فی الحال امت مسلمہ بہت سارے بحران سے دوچار ہے جس سے وہ باآسانی نکل سکتی ہے۔ہاں ادھر کچھ عرصوں سے اسی سورہ مریم کی برکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امت مسلمہ کی دوسری شاخ شیعہ خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے نصاری سے قریب ہورہے ہیں۔ خاص طور سے لبنان، شام اور عراق میں جتنے بھی نصاری ہیں سورہ مریم کی برکت کی وجہ سے امت مسلمہ کے قریب آچکے ہیں اور یہودیوں سے اعلانیہ برات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسی طرح یورپ کے نصاری بھی ایران سے قریب ہوچکے ہیں۔ انہیں ایران سے دوستی کرنے میں اب کوئی قباحت نہیں۔ ہاں امریکہ اب بھی یہودیوں کے پنجوں میں پھڑپھڑارہاہے ، جس دن امریکہ یہودیوں کے پنجے سے نکل جائے گا پھر وہ امت مسلمہ کے قریب آجائے گا۔ اسی  سورہ مریم نے ہمارے اور نصاری کے درمیان بہت سے گلے شکوہ کو دور کردیا ہے۔ یہودیوں نے جس طرح حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے کیریکٹر کو مجروح کرنے کی کوشش کی تھی جس کی قرآن نے یہودیوں کو بھر پورجواب دیتے ہوئے یہودیوں کی طرف سے عائد حضرت عیسی اور حضرت مریم علیہ السلام پر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کیا ہے ۔ تب سے یہودی دونوں یعنی امت مسلمہ اور نصاری دونوں کے دشمن بن گیا ۔ وہ ہر حال میں مسلمان اور عیسائیوں کو تباہ کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو آگے بڑھنا ہے تو نصاری کو قریب لانے کے لئے سورہ مریم وہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے جس سے اس امت مسلمہ نے اب تک فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔

فون: 9958361526

Thursday, 20 July 2017

ایران کو امریکہ سے جنگ کی تیاری کرنی چاہئے

ایران کو امریکہ سے جنگ کی تیاری کرنی چاہئے

#Iran_USA_war
ا
ز: ظفر اقبال

امریکہ کا کہنا ہے کہ میں دنیا کا سپرپاور ہوں اس کا مطلب میں اس دنیا کا تھانیدار ہوں۔ میں ہی ہر مسئلہ کا فیصلہ کروں گا۔ لیکں اب تک دنیا میں جتنے بھی تھانیدار گذرے ہیں۔ کم از کم ان سے یہ امید کی جاتی رہی ہے اور اب تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ اور جو بھی معاہدے کرتے تھے اس کی پاسداری کرنا اپنے لئے عین ایمان کا حصہ تصور کرتے تھے۔ لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد واحد سپرپاور ہے جو خود اپنے قول وقرار سے پھر گیا ہے۔ وہ قول وقرار جس نے ایران کے ساتھ ایک عالمی معاہدہ کیا ، جس معاہدے کی تائید سلامتی کونسل میں خود امریکہ نے کی۔ وہ معاہدہ 2015 میں ایران کے ساتھ ہوا جس میں ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک اور جرمنی کے درمیان ہوئے۔ IRAN-1+5 کے نام سے معروف ہے۔ جس میں ساری دنیا نے ایران سے ایک وعدہ کیا تھا کہ وہ کن کن ایشو میں ایران پر سے بتدریج پابندی ہٹائے گا اور اس کے عوض ایران کس کس مسئلہ پر عالمی قرار کی پابندی کرے گا۔ لیکن ساری دنیا خود اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری اور یوروپین یونین کی سیاسی امور کی سربراہ موگرینی ایران کی تعریف کر چکی ہیں ، وہ یہ کہ ساری دنیا کے ساتھ ایران مکمل طور سے معاہدے کی پاسداری کررہا ہے لیکن دنیا میں واحد خودساختہ سپرپاور خود اپنے کئے ہوئے وعدہ سے منحرف ہوچکا ہے اور مسلسل ایران کے خلاف سازشیں اور ایران کے مختلف افراد اورکمپنیوں پر پابندیوں پر پابندی لگارہا ہے،اب ایران کی فوج پاسداران انقلاب پر پابندی لگانے کی بات ہورہی ہے اور اس کو دہشت گرد قرار دینے پر امریکہ مصر نظر آرہا ہے۔ یہ سراسر اپنے وعدے سے انحرا ف ہے جو اس نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں کیا ہے۔ ایسا ساری دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی سپر پاور خود اپنی بات سے پھر جائے۔ یہ خود امریکی عوام اور ساری عالمی برادری کی توہین ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اس غنڈے کی طرح ہے جو خوف کی حالت میں کسی دوسرے سے اپنی جان بچانے کے لئے اس کی ہر بات مان لیتا ہے لیکن جب اسے محسوس ہوتا ہے اب وہ محفوظ ہے تو وہ اپنی بات سے پھر جاتا ہے۔ یہ سراسر گھٹیاپن ہے جس پر آپ کبھی بھی بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ناقابل بھروسہ ملک ہے، جو خود امریکہ اور عالمی برادری کے لئے خطرہ ہے۔ جس کا سد باب ضروری ہے۔
۔فون:9958361526

Tuesday, 11 July 2017

سواستک اور اسٹار آف ڈیوڈ کا رشتہ کیا گل کھلائے گا

سواستک اور اسٹار آف ڈیوڈ کا رشتہ کیا گل کھلائے گا؟

#swastik_star_of_david
از: ظفر اقبال

اسرائیل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لئے دوسری قوم کو تباہ کردینا اس کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے۔ اسرائیل کو سب سے پہلے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اس کے مفادات کے راستے میں جو بھی آئے گا اس کو تباہ کردینا ان کی خاص صفت رہی ہے۔ اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے ان کی خاصی تعداد یورپ میں رہتی تھی اور اب بھی اچھی خاصی تعداد یورپ میں ہیں۔لیکن ان کی بڑی تعداد امریکہ میں رہتی ہے ، یوروپ میں ان کو جب عیسائیوں کی جانب سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے یوروپ سے دور ایک ایسی دنیا کو دریافت کیا جو بالکل نیا نیا تھا جہاں ان کے مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لئے باآسانی امریکہ ان کے قبضے میں آگیا۔اسرائیلیوں کی ذہانت سے کون انکار کرسکتاہے، یہودیوں کو ہمیشہ اپنی ذہانت پر غرور رہا ہے۔ واقعی وہ قوم بہت ہی محنت کرنے والی ہے اور ان کو اس بات کا صدیوں سے تجربہ رہا ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی وہ کس طرح اپنی شناخت پوشیدہ رکھ کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے بارے میں جاننا ہو تو اسے یہودی قوم کی تاریخ پڑھنی چاہئے۔ بہت ذہین ہونے کی وجہ سے وہ ہر مقام اور ہر جگہ اپنی ضرورت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جدید سائنس میں ازاک نیوٹن سے لے کر آئین اسٹائن تک بیشتر بڑے سائنس داں یہودی ہی رہے ہیں۔ اسی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے اس دنیا میں کافی عزت کمائی ، یقیناًاہل علم کی عزت ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم سے ہو۔لیکن یہودیوں کے تعلق سے ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ جس پلیٹ میں کھاتا کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے میں ان کو امتیاز حاصل رہا ہے۔ جرمنی کی مثال آپ کے سامنے ہے ، انہوں نے اپنی ذہانت کے بل پر پورے جرمن قوم کو ایک طرح سے غلام بنالیا تھا، اسی چیز نے اڈولف ہٹلر کو اس بات کی طرف راغب کیا کہ کسی طرح یہودیوں کے پنجہ سے جرمن قوم کونکالا جائے۔ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جو ظلم کیا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ کسی قوم سے انتقام اس طرح نہیں لیا جاتا ہے کہ تمام لوگوں کو ختم کردیا جائے۔ہٹلر کا یہ کام انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔
Theodor Herzl جو صیہونیت کا بانی ہے ، جس نے یہودی قوم کے لئے ایک مملکت کا خواب دیکھا ۔ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Der Judenstaat جو 1896 میں آئی اس کتاب میں اسرائیل کے لئے ایک ہوم لینڈ کا نظریہ پیش کیا، جس نظریہ کے تحت فلسطین میں 1948 میں اسرائیل نام کی ایک سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ صیہونی ریاست کی بنیاد رکھنے کی راہ میں سب سے پہلے خلافت عثمانیہ حائل ہوئی، کس طرح خلافت عثمانیہ کو ختم کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، پہلی جنگ عظیم ہی اس لئے اس لئے لڑی گئی تاکہ Ottomon empire (خلافت عثمانیہ) کو ختم کردیا جائے تاکہ اسرائیل مملکت کے لئے راستہ ہموار ہوسکے، 1917 میں بالفور اعلامیہ کے تحت فلسطین کو برطانیہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بالآخر دھیرے دھیرے ساری دنیا سے یہودیوں کو لاکر یہاں سے بسایا گیا اس طرح 1948 میں صیہونی مملکت کی بنیاد پڑی۔ اسرائیل نے ابتدا سے ہی مقامی آبادی فلسطینوں کے ساتھ طلم کو روا رکھا اور مسلسل فلسطینیوں کو زبردستی ان کو اپنی زمینوں سے بے دخل کررہا ہے، اس کے لئے انہیں متعدد جنگیں بھی لڑیں تاکہ اپنی مملکت کو توسیع دے سکیں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی بی جے پی حکومت جو آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے وہ یہودیوں کے فریب میں آگئی ہے، ایک چیز آرایس ایس اور اسرائیل میں مشترک بات یہ ہے کہ دونوں کے لئے مسلمان ایک مسئلہ ہے، دونوں کا ٹکراؤ مسلمانوں سے ہی ہورہا ہے، شاید اس چیز نے ان دونوں کو قریب کردیا ہے، تاکہ دونوں مل کر مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کردیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی ہندو حکومت یہ بھول گئی ہے کہ ہندوؤں کی ایک مذہبی شناخت سواستک ہے جو آرین کی نشانی ہے، جو ہندوستان میں پوجا کے وقت اکثر استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح جرمنی کی نازی پارٹی کا شناختی نشان بھی سواستک ہے، یہودیوں کو سواستک کے نشان سے سخت نفرت ہے۔ سواستک سے نفرت کی ایک مثال میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ میں بحریہ کے لئے ایک عمارت 2007 میں تعمیر کی گئی تھی اتفاق کی بات ہے کہ اس کا نقشہ سواستک کے نقشہ پر بن گیا جس کی وجہ سے بالآخر اس عمارت میں جزوی تبدیلی کرنی پڑی تاکہ مکمل سواستک کا نشان باقی نہ رہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہودی کسی بھی صورت میں اس سمبل کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے والے کو تو ہرگز نہیں۔ اسرائیل مودی حکومت کے قریب صرف اس لئے آئی ہے کہ وہ اپنے بداثرات کو کم کرسکے، وہ بداثرات یہ ہے کہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ پڑرہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرے اور وہ فلسطین نام کی مملکت بننے کے لئے راضی ہوجائے لیکن اسرائیل تو پورا فلسطین ہی ہڑپنا چاہتا ہے۔ اس بدنامی میں وہ ہندوستان کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو بطور دوست پیش کرسکے کہ دیکھئے ہندوستان میں بھی تو مسلمانوں پر گائے کے نام پر حملے ہورہے ، گوا میں عیسائیوں کے قبرستان کوتوڑا جارہا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اوپرپڑنے والے بین الاقوامی دباؤ کو وہ ہندوستان منتقل کرنا چاہتا ہے۔اس کی ایک واضح مثال میں دینا چاہتا ہوں کہ بقول ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو پاکستانی ایٹم بم کے خالق بھی ہیں، وہ روزنامہ جنگ میں شائع شدہ اپنے کالم میں رقم طراز ہیں کہ ’’ہم نے شمالی کوریا کوبیلسٹک میزائل کی تکنالوجی کے عوض ایٹمی اسلحہ بنانے کی ٹکنالوجی اس لئے دی تاکہ امریکی دباؤ جو ہم پر پڑرہا تھا اس کو کم کیا جاسکے۔‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن کو مختلف محاذوں پر مصروف رکھنے کے لئے کس طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل بھی اسی حربے کے تحت وہ ہندوستان کو قریب کرکے وہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ مودی کی زیرقیادت والی حکومت کا جس طرح اسرائیل سے فی الحال جو قربت ہوگئی ہے وہ ان کے لئے وبال جان نہ بن جائے۔ اس لئے اسرائیل جس طرح اینٹی مسلم کام کررہا ہے اسی طرح مودی حکومت بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چل کرمسلمانوں کے خلاف حملے کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ دونوں کے لئے تباہی کا باعث نہ بن جائے ۔ اس لئے ہندوستان کی حکومت کو بہت سوچ سمجھ کر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مساوات کا رویہ اپنانا چاہئے۔اسی میں ہندوستانی حکومت کی بھلائی ہے، نہیں تو ہندوستان جو گنگا جمنی تہذیب کا حامل ملک ایک غلط سمت پر نہ چلا جائے جو خود ملک کے لئے نقصاندہ ہو۔
فون: 9958361526

Saturday, 8 July 2017

نریندر مودی کا دورہ اسرائیل اور رام مندر

نریندر مودی کا دورہ اسرائیل اور رام مندر


از: ظفر اقبال


وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہیں،وزیراعظم نریندر مودی کا اسرائیل نے جس طرح خیر مقدم کیا ہے اور جس جذبے کا اظہار کیا ہے، یہ چیز اسرائیل کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ نہرو کے عہد سے اب تک ہندوستان میں جتنی بھی حکومتیں تھیں انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ جب بھی ہندوستان کا کوئی وزیر اسرائیل کے دورہ پر جاتا تھا تو وہ فلسطین بھی ضرور جاتا تھا لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے اس تین روزہ دورے میں صرف انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اب یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ اب ہندوستان کا مطمح نظر بدل چکا ہے، اب اسے فلسطین کے مظلوم لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں رہا اب ہندوستان کے وزیراعظم اسرائیل کے خلاف انسانیت کے جرائم میں مکمل طور سے حمایت کرنے کا عہد لے کر وہاں سے لوٹے ہیں۔
یوں تو ہندوستان کی حکومت تو نہ سہی لیکن یہاں کی مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہ وقتا فوقتا اسرائیل کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ جیسے جے پرکاش نرائن اور آر ایس ایس کے تو کیا کہنے، ان کی دلی خواہش اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی ہمیشہ سے رہی ہے۔اس دورہ کی خاص بات یہ رہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح اسرائیل کی تعریف کی وہ غیر معمولی ہے۔نریندر مودی اسرائیل کی اعلی ٹکنالوجی سے بہت ہی متاثر نظر آرہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے دشمنوں سے گھرے ہونے کے باوجود جس طرح اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اپنی طاقتوں کو ناقابل تسخیر بھی بنالیا ہے۔ چاہے دفاعی شعبوں میں ہو یا زرعی یا مختلف طرح کی سائنسی شعبوں میں اسرائیل کی ترقی قابل دید ہے، جس کی ہمیں جتنی تعریف کرنی چاہئے وہ کم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل نے 1962 میں ہوئے ہند۔چین جنگ میں ہماری مدد کی اسی طرح 1965، 1971، 1999 کی ہندوپاک جنگ میں اسرائیل نے ہماری مدد کی اس لئے اسرائیل ہمارے لئے برادر ملک سے بڑھ کر بہت ہی قریبی دوست ہے، جس کا ہم ہر طرح سے اور ہر موقع پر اس کا ساتھ دیں گے۔
ہم بھی اسرائیل کی اس سلسلے میں تعریف کریں گے کہ ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس نے کس طرح ہر شعبوں میں ترقی کرکے اپنی اہلیت کو ثابت کیا ہے۔ خاص طور اسرائیل کی دفاعی ترقی سے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی بہت ہی متاثر نظر آتے ہیں، انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل سے مختلف طرح کے ہتھیار حاصل کرکے وہ ہندوستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناسکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا جنازہ تو اسی دن نکل گیا تھا جب حزب اللہ کے ساتھ 2006 میں 33 روزہ جنگ ہوئی تھی، جس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کے مشہورزمانہ ٹینک ’مرکاوا‘ ٹینک کا جنازہ نکال دیا تھا، جس جنگ میں اسرائیل کے پچاسوں ٹینکوں کو حزب اللہ نے تباہ کردیا تھا۔ حزب اللہ کے میزائیل کے سامنے اسرائیل جس طرح بے بس نظر آیا تھا، حزب اللہ کی تعریف ہندوستان کی میڈیا کو چھوڑ کر ساری دنیا کی میڈیا نے کی تھی۔ جس جنگ میں اسرائیل کوئی ہدف حاصل نہیں کرسکاتھا، حزب اللہ کے نام سے اب اسرائیل پر خوف طاری ہوجاتا ہے، اسی طرح حماس سے اسرائیل کی تین جنگیں ہوچکی ہیں لیکن حماس کے خلاف بھی اسرائیل اب تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ بلکہ اب اسرائیل پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھا، کب اسرائیل کا وجود ہی ختم ہوجائے جس کی گارنٹی اب امریکہ بھی نہیں دے سکتا۔
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات 1992 کے وسط میں قائم ہوئے تھے ٹھیک اسی سال 6 دسمبر 1992کو بابری مسجدشہید کردی گئی، ٹھیک اسی طرح 4 جولائی 2017 کو مودی کے دورہ اسرائیل کے دن تین ٹرکوں پر لدے ہوئے پتھر راجستھان سے اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام تک پہنچایا گیا۔ دونوں میں ایک طرح سے باہم تعلق ہے، اسرائیل دراصل تخریب اور انارکی کی نشانی ہے، اسرائیل جب جب کسی کی مدد کو آگے آتا ہے دراصل اسرائیل تخریب اور انارکی میں ہی ساتھ دینے کے لئے آگے آتا ہے،اس نے جس جس ملک کی مدد کی وہ ملک یقیناًافراتفری کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی آر ایس ایس پارٹی دونوں نے فیصلہ لے لیا ہے کہ وہ ہر حال میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر رواں برس کے آخر تک یا اگلے سال ضرور کریں گے۔ کیا ہندوستان کی اکثریتی آبادی ہندوستان کی سب سے بڑی دو سو ملین کی اقلیتی مسلم آبادی کو ذلیل ورسوا کرکے اور ذہنی اذیت میں مبتلا کرکے رام مندر تعمیر کرے گی؟ کیا عالمی برادری ، اقوام متحدہ (یو این او) اور تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) اسی طرح تماشادیکھتی رہے گی۔اسی طرح ہندوستان میں پھر سے خاک وخون کی ندی بہے گی جس طرح 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر بہائی گئی تھی۔ 1992 میں نہ کسی طرح کا سوشل میڈیا جیسی کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی سیٹلائٹ چینل وغیرہ تھے، لیکن اب سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ چینل کا عہد ہے، کیا اس عہد میں آر ایس ایس اور ہندو تنظیمیں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اعلانیہ کرے گی، کیاہندوستان کی عدلیہ، انتطامیہ، مقننہ تماشہ دیکھتی رہے گی، اس سے دنیا میں ہندوستان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، ہندوستان کیا دنیا میں بدنا م نہیں ہوجائے گا کہ ہندوستان میں قانون ، انتظامیہ اور عدلیہ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔کیا ہندوستان کی صدیوں برسوں کی عزت خاک میں نہیں مل جائے گی، کیا ہندوستان کی سیکولر ڈھانچہ جو ہندوستان میں ہندو مسلم ایکتا اور ہندوستان میں ہر عہد میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں باہمی محبت سے رہتے رہیں ہیں، ایک غلط نظیر قائم نہیں ہوجائے گی؟ اب خود یہاں کی حکومت اور عوام اور خاص طور سے ہندو دانشوروں کو سوچنا چاہئے کہ ہندوستان کی حکومت اکثریتی افراد کے جذبات سے چلے گی یا قانون کے ذریعہ چلائے جائیں گے، یہاں کے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کے ذہن کو جس طرح خفیہ اور اعلانیہ طور سے پراگندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیا یہ ہندوستان کے مفاد میں ہوگا؟ ان تما م پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ہوئے ہم ہندوستانیوں کو صحیح فیصلے پر پہنچ کرکے سماج کو توڑنے اور ایک بڑی اقلیتی کو رسوا کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
فون: 9958361526

Monday, 3 July 2017

جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں

جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں 


از:ظفر اقبال

جمہوریت ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ جمہوریت میں پوری عوام کو اگر آپ تعلیم یافتہ کردیتے ہیں تو یہ جمہوریت یقینا کامیاب ہوگی۔ علامہ اقبال نے جمہوریت کے تعلق سے یہ بات کہیں تھی کہ: جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ درجہ ذیل باتیں علامہ اقبال نے اس وقت کہی تھی جب ہندوستان میں محض دس فیصد ہی لوگ پڑھے لکھتے تھے۔ خود تصور کرسکتے ہیں کہ اس وقت کے ماحول میں علامہ اس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ جمہوریت تمام خامیوں کے باوجود بہت بہتر ہے۔ قوم کو اپنی زمین کے تئیں مخلص تو ہونا چاہئے۔ جو افراد پیسوں اور عہدوں کے لالچ میں اپنے ملک کو بیچ دیتے ہیں۔ وہ زیادہ تر پڑھے لکھے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے جمہوریت کو گالی دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس بادشاہت کا آپشن ہے۔ یہ تو اور برا ہے۔ کوئی ملک ایک آدمی کو اپنے قبضے میں کرلے اور پورے ملک کو اپنے اشاروں پرنچائے جیسا کہ امریکہ اور اسرائیل جہاں جمہوریت بہت ہی قوی تر ہے لیکن وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ ممالک کو اپنے اشارے پر نچارہا ہے۔ وہاں اسے بادشاہت اور آمریت بہت پیارے لگ رہے ہیں۔ اگر ان ممالک میں جمہوریت ہوتی تو امریکہ اور اسرائیل ہرگز اس ملک کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا تھا، وہ مسلسل اپنے اشارے پر نہیں نچاسکتا۔ جمہوریت میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ کوئی بھی حکمراں مسلسل حکمران نہیں رہ سکتا۔ یہ جمہوریت کی خاصیت ہے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ ہمیں بولنے کی آزادی ہے۔ ہمیں لکھنے کی آزادی ہے۔ ہمیں سوچنے کی آزادی ہے، اسی سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ جن قوموں نےان آزادیوں کو برقرار رکھا ہے وہ ملک دیکھئے کس قدر ترقی کررہا ہے۔ بادشاہت اسلام کی ضد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہما تک وہ لوگ بادشاہ نہیں تھے بلکہ عوام کی امنگوں کی تکمیل کرنے والے حکمراں تھے۔ جہاں بولنے اور اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی تھی۔ ہاں یہ بات ہوسکتی ہے ملک کے آئین اور اسپرٹ کے خلاف کوئی کلام نہیں کرسکتا یہ دوسری چیز ہے۔
فون: 9958361526