Saturday, 8 July 2017

نریندر مودی کا دورہ اسرائیل اور رام مندر

نریندر مودی کا دورہ اسرائیل اور رام مندر


از: ظفر اقبال


وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہیں،وزیراعظم نریندر مودی کا اسرائیل نے جس طرح خیر مقدم کیا ہے اور جس جذبے کا اظہار کیا ہے، یہ چیز اسرائیل کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ نہرو کے عہد سے اب تک ہندوستان میں جتنی بھی حکومتیں تھیں انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ جب بھی ہندوستان کا کوئی وزیر اسرائیل کے دورہ پر جاتا تھا تو وہ فلسطین بھی ضرور جاتا تھا لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے اس تین روزہ دورے میں صرف انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اب یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ اب ہندوستان کا مطمح نظر بدل چکا ہے، اب اسے فلسطین کے مظلوم لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں رہا اب ہندوستان کے وزیراعظم اسرائیل کے خلاف انسانیت کے جرائم میں مکمل طور سے حمایت کرنے کا عہد لے کر وہاں سے لوٹے ہیں۔
یوں تو ہندوستان کی حکومت تو نہ سہی لیکن یہاں کی مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہ وقتا فوقتا اسرائیل کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ جیسے جے پرکاش نرائن اور آر ایس ایس کے تو کیا کہنے، ان کی دلی خواہش اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی ہمیشہ سے رہی ہے۔اس دورہ کی خاص بات یہ رہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح اسرائیل کی تعریف کی وہ غیر معمولی ہے۔نریندر مودی اسرائیل کی اعلی ٹکنالوجی سے بہت ہی متاثر نظر آرہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے دشمنوں سے گھرے ہونے کے باوجود جس طرح اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اپنی طاقتوں کو ناقابل تسخیر بھی بنالیا ہے۔ چاہے دفاعی شعبوں میں ہو یا زرعی یا مختلف طرح کی سائنسی شعبوں میں اسرائیل کی ترقی قابل دید ہے، جس کی ہمیں جتنی تعریف کرنی چاہئے وہ کم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل نے 1962 میں ہوئے ہند۔چین جنگ میں ہماری مدد کی اسی طرح 1965، 1971، 1999 کی ہندوپاک جنگ میں اسرائیل نے ہماری مدد کی اس لئے اسرائیل ہمارے لئے برادر ملک سے بڑھ کر بہت ہی قریبی دوست ہے، جس کا ہم ہر طرح سے اور ہر موقع پر اس کا ساتھ دیں گے۔
ہم بھی اسرائیل کی اس سلسلے میں تعریف کریں گے کہ ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس نے کس طرح ہر شعبوں میں ترقی کرکے اپنی اہلیت کو ثابت کیا ہے۔ خاص طور اسرائیل کی دفاعی ترقی سے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی بہت ہی متاثر نظر آتے ہیں، انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل سے مختلف طرح کے ہتھیار حاصل کرکے وہ ہندوستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناسکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا جنازہ تو اسی دن نکل گیا تھا جب حزب اللہ کے ساتھ 2006 میں 33 روزہ جنگ ہوئی تھی، جس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کے مشہورزمانہ ٹینک ’مرکاوا‘ ٹینک کا جنازہ نکال دیا تھا، جس جنگ میں اسرائیل کے پچاسوں ٹینکوں کو حزب اللہ نے تباہ کردیا تھا۔ حزب اللہ کے میزائیل کے سامنے اسرائیل جس طرح بے بس نظر آیا تھا، حزب اللہ کی تعریف ہندوستان کی میڈیا کو چھوڑ کر ساری دنیا کی میڈیا نے کی تھی۔ جس جنگ میں اسرائیل کوئی ہدف حاصل نہیں کرسکاتھا، حزب اللہ کے نام سے اب اسرائیل پر خوف طاری ہوجاتا ہے، اسی طرح حماس سے اسرائیل کی تین جنگیں ہوچکی ہیں لیکن حماس کے خلاف بھی اسرائیل اب تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ بلکہ اب اسرائیل پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھا، کب اسرائیل کا وجود ہی ختم ہوجائے جس کی گارنٹی اب امریکہ بھی نہیں دے سکتا۔
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات 1992 کے وسط میں قائم ہوئے تھے ٹھیک اسی سال 6 دسمبر 1992کو بابری مسجدشہید کردی گئی، ٹھیک اسی طرح 4 جولائی 2017 کو مودی کے دورہ اسرائیل کے دن تین ٹرکوں پر لدے ہوئے پتھر راجستھان سے اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام تک پہنچایا گیا۔ دونوں میں ایک طرح سے باہم تعلق ہے، اسرائیل دراصل تخریب اور انارکی کی نشانی ہے، اسرائیل جب جب کسی کی مدد کو آگے آتا ہے دراصل اسرائیل تخریب اور انارکی میں ہی ساتھ دینے کے لئے آگے آتا ہے،اس نے جس جس ملک کی مدد کی وہ ملک یقیناًافراتفری کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی آر ایس ایس پارٹی دونوں نے فیصلہ لے لیا ہے کہ وہ ہر حال میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر رواں برس کے آخر تک یا اگلے سال ضرور کریں گے۔ کیا ہندوستان کی اکثریتی آبادی ہندوستان کی سب سے بڑی دو سو ملین کی اقلیتی مسلم آبادی کو ذلیل ورسوا کرکے اور ذہنی اذیت میں مبتلا کرکے رام مندر تعمیر کرے گی؟ کیا عالمی برادری ، اقوام متحدہ (یو این او) اور تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) اسی طرح تماشادیکھتی رہے گی۔اسی طرح ہندوستان میں پھر سے خاک وخون کی ندی بہے گی جس طرح 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر بہائی گئی تھی۔ 1992 میں نہ کسی طرح کا سوشل میڈیا جیسی کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی سیٹلائٹ چینل وغیرہ تھے، لیکن اب سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ چینل کا عہد ہے، کیا اس عہد میں آر ایس ایس اور ہندو تنظیمیں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اعلانیہ کرے گی، کیاہندوستان کی عدلیہ، انتطامیہ، مقننہ تماشہ دیکھتی رہے گی، اس سے دنیا میں ہندوستان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، ہندوستان کیا دنیا میں بدنا م نہیں ہوجائے گا کہ ہندوستان میں قانون ، انتظامیہ اور عدلیہ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔کیا ہندوستان کی صدیوں برسوں کی عزت خاک میں نہیں مل جائے گی، کیا ہندوستان کی سیکولر ڈھانچہ جو ہندوستان میں ہندو مسلم ایکتا اور ہندوستان میں ہر عہد میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں باہمی محبت سے رہتے رہیں ہیں، ایک غلط نظیر قائم نہیں ہوجائے گی؟ اب خود یہاں کی حکومت اور عوام اور خاص طور سے ہندو دانشوروں کو سوچنا چاہئے کہ ہندوستان کی حکومت اکثریتی افراد کے جذبات سے چلے گی یا قانون کے ذریعہ چلائے جائیں گے، یہاں کے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کے ذہن کو جس طرح خفیہ اور اعلانیہ طور سے پراگندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیا یہ ہندوستان کے مفاد میں ہوگا؟ ان تما م پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ہوئے ہم ہندوستانیوں کو صحیح فیصلے پر پہنچ کرکے سماج کو توڑنے اور ایک بڑی اقلیتی کو رسوا کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment