Tuesday, 11 July 2017

سواستک اور اسٹار آف ڈیوڈ کا رشتہ کیا گل کھلائے گا

سواستک اور اسٹار آف ڈیوڈ کا رشتہ کیا گل کھلائے گا؟

#swastik_star_of_david
از: ظفر اقبال

اسرائیل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لئے دوسری قوم کو تباہ کردینا اس کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے۔ اسرائیل کو سب سے پہلے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اس کے مفادات کے راستے میں جو بھی آئے گا اس کو تباہ کردینا ان کی خاص صفت رہی ہے۔ اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے ان کی خاصی تعداد یورپ میں رہتی تھی اور اب بھی اچھی خاصی تعداد یورپ میں ہیں۔لیکن ان کی بڑی تعداد امریکہ میں رہتی ہے ، یوروپ میں ان کو جب عیسائیوں کی جانب سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے یوروپ سے دور ایک ایسی دنیا کو دریافت کیا جو بالکل نیا نیا تھا جہاں ان کے مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لئے باآسانی امریکہ ان کے قبضے میں آگیا۔اسرائیلیوں کی ذہانت سے کون انکار کرسکتاہے، یہودیوں کو ہمیشہ اپنی ذہانت پر غرور رہا ہے۔ واقعی وہ قوم بہت ہی محنت کرنے والی ہے اور ان کو اس بات کا صدیوں سے تجربہ رہا ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی وہ کس طرح اپنی شناخت پوشیدہ رکھ کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے بارے میں جاننا ہو تو اسے یہودی قوم کی تاریخ پڑھنی چاہئے۔ بہت ذہین ہونے کی وجہ سے وہ ہر مقام اور ہر جگہ اپنی ضرورت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جدید سائنس میں ازاک نیوٹن سے لے کر آئین اسٹائن تک بیشتر بڑے سائنس داں یہودی ہی رہے ہیں۔ اسی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے اس دنیا میں کافی عزت کمائی ، یقیناًاہل علم کی عزت ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم سے ہو۔لیکن یہودیوں کے تعلق سے ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ جس پلیٹ میں کھاتا کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے میں ان کو امتیاز حاصل رہا ہے۔ جرمنی کی مثال آپ کے سامنے ہے ، انہوں نے اپنی ذہانت کے بل پر پورے جرمن قوم کو ایک طرح سے غلام بنالیا تھا، اسی چیز نے اڈولف ہٹلر کو اس بات کی طرف راغب کیا کہ کسی طرح یہودیوں کے پنجہ سے جرمن قوم کونکالا جائے۔ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جو ظلم کیا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ کسی قوم سے انتقام اس طرح نہیں لیا جاتا ہے کہ تمام لوگوں کو ختم کردیا جائے۔ہٹلر کا یہ کام انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔
Theodor Herzl جو صیہونیت کا بانی ہے ، جس نے یہودی قوم کے لئے ایک مملکت کا خواب دیکھا ۔ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Der Judenstaat جو 1896 میں آئی اس کتاب میں اسرائیل کے لئے ایک ہوم لینڈ کا نظریہ پیش کیا، جس نظریہ کے تحت فلسطین میں 1948 میں اسرائیل نام کی ایک سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ صیہونی ریاست کی بنیاد رکھنے کی راہ میں سب سے پہلے خلافت عثمانیہ حائل ہوئی، کس طرح خلافت عثمانیہ کو ختم کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، پہلی جنگ عظیم ہی اس لئے اس لئے لڑی گئی تاکہ Ottomon empire (خلافت عثمانیہ) کو ختم کردیا جائے تاکہ اسرائیل مملکت کے لئے راستہ ہموار ہوسکے، 1917 میں بالفور اعلامیہ کے تحت فلسطین کو برطانیہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بالآخر دھیرے دھیرے ساری دنیا سے یہودیوں کو لاکر یہاں سے بسایا گیا اس طرح 1948 میں صیہونی مملکت کی بنیاد پڑی۔ اسرائیل نے ابتدا سے ہی مقامی آبادی فلسطینوں کے ساتھ طلم کو روا رکھا اور مسلسل فلسطینیوں کو زبردستی ان کو اپنی زمینوں سے بے دخل کررہا ہے، اس کے لئے انہیں متعدد جنگیں بھی لڑیں تاکہ اپنی مملکت کو توسیع دے سکیں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی بی جے پی حکومت جو آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے وہ یہودیوں کے فریب میں آگئی ہے، ایک چیز آرایس ایس اور اسرائیل میں مشترک بات یہ ہے کہ دونوں کے لئے مسلمان ایک مسئلہ ہے، دونوں کا ٹکراؤ مسلمانوں سے ہی ہورہا ہے، شاید اس چیز نے ان دونوں کو قریب کردیا ہے، تاکہ دونوں مل کر مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کردیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی ہندو حکومت یہ بھول گئی ہے کہ ہندوؤں کی ایک مذہبی شناخت سواستک ہے جو آرین کی نشانی ہے، جو ہندوستان میں پوجا کے وقت اکثر استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح جرمنی کی نازی پارٹی کا شناختی نشان بھی سواستک ہے، یہودیوں کو سواستک کے نشان سے سخت نفرت ہے۔ سواستک سے نفرت کی ایک مثال میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ میں بحریہ کے لئے ایک عمارت 2007 میں تعمیر کی گئی تھی اتفاق کی بات ہے کہ اس کا نقشہ سواستک کے نقشہ پر بن گیا جس کی وجہ سے بالآخر اس عمارت میں جزوی تبدیلی کرنی پڑی تاکہ مکمل سواستک کا نشان باقی نہ رہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہودی کسی بھی صورت میں اس سمبل کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے والے کو تو ہرگز نہیں۔ اسرائیل مودی حکومت کے قریب صرف اس لئے آئی ہے کہ وہ اپنے بداثرات کو کم کرسکے، وہ بداثرات یہ ہے کہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ پڑرہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرے اور وہ فلسطین نام کی مملکت بننے کے لئے راضی ہوجائے لیکن اسرائیل تو پورا فلسطین ہی ہڑپنا چاہتا ہے۔ اس بدنامی میں وہ ہندوستان کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو بطور دوست پیش کرسکے کہ دیکھئے ہندوستان میں بھی تو مسلمانوں پر گائے کے نام پر حملے ہورہے ، گوا میں عیسائیوں کے قبرستان کوتوڑا جارہا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اوپرپڑنے والے بین الاقوامی دباؤ کو وہ ہندوستان منتقل کرنا چاہتا ہے۔اس کی ایک واضح مثال میں دینا چاہتا ہوں کہ بقول ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو پاکستانی ایٹم بم کے خالق بھی ہیں، وہ روزنامہ جنگ میں شائع شدہ اپنے کالم میں رقم طراز ہیں کہ ’’ہم نے شمالی کوریا کوبیلسٹک میزائل کی تکنالوجی کے عوض ایٹمی اسلحہ بنانے کی ٹکنالوجی اس لئے دی تاکہ امریکی دباؤ جو ہم پر پڑرہا تھا اس کو کم کیا جاسکے۔‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن کو مختلف محاذوں پر مصروف رکھنے کے لئے کس طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل بھی اسی حربے کے تحت وہ ہندوستان کو قریب کرکے وہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ مودی کی زیرقیادت والی حکومت کا جس طرح اسرائیل سے فی الحال جو قربت ہوگئی ہے وہ ان کے لئے وبال جان نہ بن جائے۔ اس لئے اسرائیل جس طرح اینٹی مسلم کام کررہا ہے اسی طرح مودی حکومت بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چل کرمسلمانوں کے خلاف حملے کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ دونوں کے لئے تباہی کا باعث نہ بن جائے ۔ اس لئے ہندوستان کی حکومت کو بہت سوچ سمجھ کر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مساوات کا رویہ اپنانا چاہئے۔اسی میں ہندوستانی حکومت کی بھلائی ہے، نہیں تو ہندوستان جو گنگا جمنی تہذیب کا حامل ملک ایک غلط سمت پر نہ چلا جائے جو خود ملک کے لئے نقصاندہ ہو۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment