Sunday, 24 December 2017

یروشلم کے تعلق سے ترکی کے صدر کے خدشات حقیقت کا روپ لے سکتے ہیں

یروشلم کے تعلق سے ترکی کے صدر کے خدشات حقیقت کا روپ لے سکتے ہیں


#Jerusalem_President_Turkey

از:ظفر اقبال

ترکی کے صدر رجب طیب ارودگان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ سے بیت المقدس نکل گیا تو حرمین الشریفین بھی نہیں بچے گا۔ ان کی باتوں میں دم ہے۔ کچھ عرب ممالک کے حکمرانوں جیسے کے سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو لگتا ہے کہ فلسطین کو اسرائیل کے حوالے کردیا جائے۔ بلکہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ سازش بھی کررہا ہے کہ فلسطین کو فلسطین سے نکال کر انہیں مصر کے سینا کے علاقے میں بسادیا جائے، تاکہ اسرائیل کی یہ پریشانی بھی ختم ہوجائے کہ فلسطینیوں کی اتنی بڑی آبادی کو کیسے کنٹرول کیا جائے ۔ ہم اس کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ مصر کو تقسیم کرکے فلسطین کو مصر کے اندر ہی سینا کے ایک علاقے میں بسادیا جائے۔ واہ رہے سازش کرنے والے عرب ممالک کے حکمراں تمہیں اس بات کی پرواہ ہو نہ ہو لیکن ہم عجم کو تم سے زیادہ بیت المقدس کی پرواہ ہے کہ ہم القدس کی آزادی کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کا بھی تعلق عجم سے ہی تھا۔ یروشلم کے تعلق سے اسرائیل کا دعوی ہے کہ ان کے بادشاہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کی حکومت فلسطین میں قائم کی تھی اور ان کی حکومت کی راجدھانی یروشلم تھی ، اس لئے ہمارا حق ہے کہ اسرائیل نام کی ایک سلطنت ہو جس کی راجدھانی یروشلم ہو۔ یہ چیز تو بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ یروشلم تک ہی محدود معاملہ ہے، لیکن معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ 
مدینہ میں تین قبائل بنوقریظہ، بنو قنیقاع اور بنو نضیر تھے۔ یہ یہودی قبائل سینکڑوں برسوں سے آباد تھے۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہودی جتنا عرصہ فلسطین میں نہیں رہے اس سے زیادہ عرصے سے یہ تین قبائل مدینہ میں آباد تھے ۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاملہ صرف یروشلم تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ مدینہ اور مکہ تک پھیل جائے گا۔ اس لئے ہم ترکی کے صدر طیب ارودگان کے فکر مندی میں پوری طرح شامل ہیں اور اس کا تدارک اگر جلد از جلد نہ کیا گیا تو امت مسلمہ ایک عظیم تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔ یروشلم کے محاذ پر دنیا کی مسلم عجمی حکومت کو ہی وہ عظیم قربانی پیش کرنی ہوگی باقی خلیج فارس کے ممالک تو امت مسلمہ کے نام پر دھبہ ہیں۔ 
فون:9958361526

Thursday, 21 December 2017

یروشلم جلد آزاد ہوگا



یروشلم جلد آزاد ہوگا


Jerusalem_independence_Iran#

از: ظفر اقبال


افکار ملی، نئی دہلی کے مدیر ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کا مضمون’’یروشلم میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان‘‘ پڑھنے کے بعد بڑی مایوسی ہاتھ لگی۔ انہوں نے مشرق وسطی کا جس طرح کا نقشے کھینچنے کی کوشش کی ہے جو ان کی مایوسی کی عکاس لگ رہی ہے۔ انہوں نے حماس اور فلسطینیوں کو جس طرح کا مشورہ دیا ہے وہ بہت ہی بھیانک ہے ، جو صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے اور مکمل غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جس کی ہم پوری طرح مذمت کرتے ہیں ۔ان کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں اس دین کا ایک ہی مقصد ہے کہ باطل سے صرف مزاحمت نسل در نسل کرنے کا نام ہے۔ جب تک دنیا باقی ہے تب تک ہمیں مزاحمت ہی کرنی ہے۔ مایوس ہونایا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جینا اور برے حالات کو قبول کرنا مؤمن کا کبھی طریقہ نہیں رہا ہے۔ اگر فلسطینی سو برسوں سے مسلسل مزاحمت کررہے ہیں یہ ان کی عزیمت ہے جس کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر عرب ممالک کے راجہ مہاراجہ اگر ہمیں غلامی کا درست دیتے ہیں کہ ہم اسرائیل کی ہر بات مان لیں اور بیت المقدس پر اغیار کا قبضہ ہوجائے اور بالآخر بیت المقدس بابری مسجد کی طرح ڈھادی جائے۔ کیا یہ چیز امت مسلمہ کو مکمل تباہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ امت مسلمہ اللہ کے سامنے ذلیل ورسوا نہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن ہم کیا منھ دکھائیں گے۔
میں آپ کو ایک خوشخبری سناتا ہوں اور میں یہ خوشخبری سنانا فرض عین سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام ابھی جتنا طاقتور ہے ان دو سو برسوں میں کبھی نہیں رہا ہے۔ مشرق وسطی میں ایران کا ابھرنا غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایران نے عراق، سیریا، لبنان، یمن میں اس کا طاقتور ہوجانا غیر معمولی واقعہ ہے، یہ دراصل امریکہ اور اوا س کے حلیف کی شکست ہے۔ ہم باطل کے حلیف کے طور پر خلیج فارس کے سنی ممالک کے راجہ مہاراجہ کو مانتا ہوں۔ عراق، شام ، یمن اور لبنان کے فاتح جو جہاد کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ جنہوں نے شام ، عراق ، لبنان اور یمن میں کامیابی حاصل کی ہے ۔لاکھوں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان عسکری تربیت حاصل کرچکے ہیں اور اسلحوں کے معاملے میں ایران اور اس کی ملیشیا خود کفیل ہے۔ ایسی شاندار صورت حال ان دو سو برسوں میں عالم اسلام میں کبھی نہیں رہی۔ فلسطین کا ایک گروپ حماس جو ایک طاقتور عسکری صلاحیت رکھتا ہے جس نے گزشتہ اسرائیل کے ساتھ تین جنگوں میں اپنے دشمنوں کو ناکامی سے دوچار کردیا ہے اور حزب اللہ کا خوف تو اسرائیل پر 2006 سے اس قدر طاری ہے جو اترنے کا نا م ہی نہیں لے رہا ہے۔ ان شااللہ اب جو جنگ ہوگی اس میں اسرائیل کی نابودی طے ہے۔ فلسطین میں صرف ایک حکومت ہوگی وہ صرف فلسطین کی ہوگی۔ خود بین الاقوامی سطح پر فلسطین کو ایسی حمایت آج تک نہیں ملی۔ برطانیہ، فرانس ہمیشہ ہی اسرائیل کا حامی اور ساتھی رہا ہے لیکن وہ دونوں ممالک کی زبان بھی بدل چکی ہے۔ یہ تمام کامیابیاں ایران نے اپنے بل بوتے پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای ، ولی امرمسلمین کی قیادت میں حاصل کی ہے۔دیگر قومیں آپ کا اس وقت ساتھ دیتی ہیں جب آپ خود طاقتور ہوں۔ پاکستان جوہری ملک ہے لیکن اس کو بھیک اور مدد لینے کی عادت پڑگئی ہے جس سے اس کی عزت نفس دنیا کی نظروں میں گرچکی ہے۔ بھیک لینے والے بڑے کارنامے انجام نہیں دیتے ہیں۔ جن کی خود کوئی عزت نہ ہوں وہ عزت کی تعریف کیا سمجھے گا۔ لیکں ایران پر یہ بھی الزام عرب ممالک لگاتے ہیں کہ وہ Persian Empire بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ ان کی باتوں میں دم ہے۔ طاقتور ہی لوگ اس طرح کے خواب دیکھا کرتے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلام فقط چند مراعات کے لئے ہی جیتے ہیں۔ ہم یقیناًآیت اللہ خامنہ ای کی قیادت والے ایران اور اس کے اثر والی دنیا میں باعزت زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان کا خود کہنا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہیں اور جن جن ممالک میں مسلماں اقلیت ہیں ان کو میں باعزت اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں۔
اس لئے غطریف صاحب مایوس بالکل نہ ہوں اور نہ ہی یہ اس دنیا کے سنی مسلمان مایوس ہوں ۔ ہمیں اس دنیا میں باعزت مقام صرف شیعہ دنیا ہی اس وقت دلائے گا اور اسرائیل اور امریکی کی جو حکومت اس دنیا پر چل رہی ہے اس کا خاتمہ جل ہی ہونے والا ہے۔ دنیا اس کا نظارہ جلد کرنے والی ہے۔
فون:9958361526

Monday, 18 December 2017

مولانا جلال الدین رومی سے وراٹ کوہلی اور انوشکا شرما زبردست متاثر

مولانا جلال الدین رومی سے وراٹ کوہلی اور انوشکا شرما زبردست متاثر

Rumi_Anuska_Virat#

از:ظفر اقبال


گزشتہ رو ز 17دسمبر کومولانا جلال الدین رومی کی یوم پیدائش پورے دھوم دھام سے منایا گیا خاص طور سے قونیا (ترکی) میں شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ مولانا جلال الدین رومی کی شاعری زیادہ تر فارسی میں ہے۔ فارسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے عربی، ترکی اور یونانی میں بھی اپنے کلام پیش کئے ہیں۔ ان کی مثنوی ’مثنوی مولانا روم ‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ یہ مثنوی دنیا کی تقریبا زیادہ تر قابل ذکر زبانوں میں ترجمہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ جس کی پذیر ائی صرف مسلمانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی ان کی شاعری نے کافی متاثر کیا ہے۔ ان کی مقبولیت بیسویں صدی میں امریکہ اور یوروپ میں بہت زیادہ ہوئی۔ جس کے اثرات اب جنوبی ایشیا کی غیر مسلم آبادی کو بھی متاثر کرنے لگی ہے۔ ابھی چند دن قبل جب ہندوستانی کرکٹ کے مایہ ناز کپتان وراٹ کوہلی اور بالی ووڈ کی مشہور فلمی اداکارہ انوشکا شرما کی شادی ہوئی تو انہوں نے شادی میں مہمان شرکاکے لئے مولانا روم کی شاعری کا ڈیلکس ایڈیشن تیار کروایا تھا، جو انہو ں نے مہمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا۔ اسی طرح ہندوستانی خاتون کرکٹ کی کپتان متالی راج جو چھ ہزار رن بنانے والی دنیا کی پہلی خاتون کرکٹر ہے ۔ وہ میچ کے درمیان جب بھی انہیں وقت ملتا ایک کتاب بار بار پڑھ رہی تھیں تو لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کون سی کتاب پڑھ رہی ہیں۔ متالی راج نے کہا کہ میں ’مثنوی مولانا روم‘ پڑھ رہی ہوں ، یہ کتاب میرے کوچ نے مجھے پڑھنے کے لئے دی تھی، یہ کتاب میری زندگی میں غیر معمول تبدیلی لائی ہے۔ مولانا روم کی شاعری نے صرف مسلموں کو ہی نہیں غیر مسلموں کو بھی زبردست متاثر کیا ہے۔

واضح رہے کہ مولانا جلال الدین رومی علامہ اقبال کے روحانی استاذ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تم مرشد تلاش کرو اگر کوئی مرشد تمہیں نہ ملے تو مولانا روم کو اپنا مرشد بنالو تمہاری زندگی کامیاب رہے گی۔
فون: 9958361526

Sunday, 17 December 2017

یروشلم جل رہا ہے اور سعودی عرب کے عوام مدہوش ہورہے ہیں

یروشلم جل رہا ہے اور سعودی عرب کے عوام مدہوش ہورہے ہیں

#Jerusalem_saudi_Arabia_People

از:ظفر اقبال

پورا عالم اسلام اور خاص طور سے مشرق وسطی یروشلم کے مسئلے پر ابل رہا ہے ۔ لیکن ان دنوں سعودی عرب کے عوام اگلے برس ان لمحات کا انتظا کررہے ہیں جب انہیں ملک میں سینما دیکھنے کو ملے گا اور یہ سوچ سوچ کر خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں کہ کتنا مزا آئے گا ، کتنی پرلطف زندگی ہوگی جب اپنے ملک میں سینما دیکھیں گے ۔ اب تک ہم صرف موبائل یا لیپ ٹاپ پر ہی دیکھ پارہے تھے۔ خاص طور سے نوجوانوں کا جوش تو قابل دید ہے۔الحرمین الشریفین کے امام بھی اس تاک میں ہوں گے کہ ہم بھی جاکر اپنی فیملی کے ساتھ سینما دیکھیں گے۔ ادھر سعودی عرب کی مائیں بھی بہت ہی پرجوش نظر آرہی ہیں۔ وہ اس لئے کہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ فلم کو دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہے اور ساتھ ہی خود سے کار چلاکر جائیں گے۔ خواتین کو اب موٹر سائیکل اور کاریں چلانے کا لائسنس جاری کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی زیادہ تر عوام تو خوش حال تو ہے ہی اب ان کی نظر نیٹ پر ہے جہاں مختلف کمپنیوں کی کاروں کی لسٹ اور تصاویر بھی دیکھی جارہی ہیں اور امریکہ اور یوروپ کی نئی نئی کمپنیاں خواتین کو ذہن میں رکھ کر نئی نئی کاریں ڈیزائن بھی کررہی ہیں تاکہ اگلے برس جب خواتین گاڑیاں خریدنے مارکیٹ میں جائیں تو مارکیٹ میں وافر تعداد میں خواتین کے لئے رنگ برنگی اور قیمتی گاڑیاں دستیاب ہوں۔
واہ رہے حکمراں کی ساحری ٹھیک ایسے وقت جب یروشلم کی حیثیت امریکہ اور اسرائیل طے کررہا تھا اسی وقت ہمارے جعلی اور فراڈ خادم الحرمین الشریفین اپنے عوام کو سینما اور ملک کی خواتین کو گاڑی چلانے کا لائسنس بانٹ رہے ہیں۔ عالم اسلام اور خاص طور سے مشرق وسطی جنگ کی آگ میں جل رہا ہے اور ابھی تو اصل جنگ شروع ہوئی ہیں کہاں؟ جنگ تو اب شروع ہوگی جس میں کئی  حکومتیں اور ممالک اس جنگ کا ایندھن بنیں گی۔
فون: 99583615226


Thursday, 14 December 2017

تنظیم اسلامی کانفرنس کا اعلامیہ بکواس

تنظیم اسلامی کانفرنس کا اعلامیہ بکواس

OIC_resolution#

اسرائیل نام کی کوئی سلطنت دنیا میں نہیں ہونی چاہیے ـ گڈ نیوز نہیں ہےـ اسرائیل کا وجود فلسطین کے ساتھ غداری ہےـ اس 
اعلامیہ میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہےـ جو سراسر فلسطین کے ساتھ غداری ہےـ

Tuesday, 12 December 2017

ایران۔ روس۔ ترکی کا اتحاد فلسطین کی آزادی کی ضمانت




ایران۔ روس۔ ترکی کا اتحاد فلسطین کی آزادی کی ضمانت

Iran_Palestine_russia_turkey-Unit#

از:ظفر اقبال


امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے والے اعلان سے جہاں مسلم دنیا میں ایک طوفان برپا ہے وہیں ساری دنیا میں ناانصافی کے خلاف ایک مشترکہ آواز بلند ہورہی ہے کہ اسرائیل کی راجدھانی امریکہ کی جانب سے یروشلم کو قرار دینا یہ سراسر فلسطینیو ں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جو اقوام متحدہ کے قرارداد کے خلاف بھی ہے۔ سلامتی کونسل میں اور اقوام متحدہ میں بحث کے دوران امریکہ کے علاوہ کسی نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن امریکہ بھی بضد ہے اور ساری دنیا کو ایک طرح سے گالی دے رہا ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کے ساتھ تفریق کا رویہ اپنارہی ہے۔ چور خود دنیا کے انصاف پسند ممالک کو گالی دے رہا ہے۔ امریکہ کب اقوام متحدہ کی بات کو مانتا ہے۔ امریکہ کے لئے اقوام متحدہ محض طوائف کیہے۔ جب چاہے اسے استعمال کرتا ہے اور جب چاہے اس کے خلاف جاکر اقدام کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے۔ وہ اب تک اسی زعم میں ہے کہ دنیا ہمارا کیابگاڑ لے گی۔ آج کل مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے وزیراعظم بھی بائبل ہاتھ میں لئے یورپ کا چکر کاٹ کررہے ہیں کہ کسی طرح یوروپی یونین ان کی بات کو تسلیم کرلے اور یروشلم کو اسرائیل کی بلاشرکت غیر راجدھانی تسلیم کرلے۔ لیکن وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ پہلے فرانس اور برطانیہ کا رویہ بھی اسرائیل کی حمایت میں ہوتے تھے لیکن اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے اور تباہی کو خود دعوت دے رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اس وقت دنیا میں بالکل تنہا ہوگئے ہیں۔

فلسطین اس وقت جل رہا ہے اور خاص طور سے عالم اسلام میں زبردست اسرائیل کے خلاف نفرت پائی جارہی ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ یہ زبردست نفرت مسلح تصادم میں بدل جائے گا ۔ جہاں اس جنگ کا نتیجہ نکلے گا غالب امکان ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کا خاتمہ ہوجائے۔ شام ، عراق اور لبنا ن کو تباہ کرنے کی اسرائیلی اور امریکہ سازش کو جس طرح ایران، روس اور ترکی نے ناکام کردیا ہے ۔ اب تینوں جگہوں پر دہشت گردوں کا تقریبا صفایا کردیا گیا ہے۔چند دن قبل میں ای ٹی وی اردو کے تحت ’’عالمی منظرنامہ اسپیشل ‘‘ کے نام سے ایک پروگرام دیکھ رہا ہے جس میں میجر جنرل سہگل اور دو اور اشخاص تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی جو صورت حال ہے وہ عالمی جنگ کی طرف جائے گا اور روس بھرپور کردار کرے گا۔ اس جنگ میں جس طرح۱۹۹۰ کی دہائی میں روس گورباچیف کی قیادت میں ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہوگیا تھا اسی طرح امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ روس کے سابق صدر گوربا چیف ثابت ہوں گے اور امریکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ میجر جنرل(ر) سہگل کا کہنا تھا روس نے ایک ایسی بریگیڈ بنارکھی ہے جو عربی زبان میں بات کرتی ہے ااور جو داڑھی بھی رکھتی اور نماز بھی پڑھتی ہے۔
میں نے مسٹر سہگل کی بات سے اندازہ لگایا کہ ان کا اشارہ چیچنیا کی بریگیڈ سے ہے جو اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے بالکل تیار ہے۔ چیچنیائی مسلمان بھی ہیں اور جہاد کے جذبہ سے سرشار بھی ہیں۔ ایران۔ روس اور ترکی کا اتحاد فلسطین کی آزادی میں موثر رول ادا کرسکتا ہے۔اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا وقت آگیا ہے اور فلسطین ہی ایک ایسی سلطنت ہوگی جس کی راجدھانی یروشلم ہوگی۔ جب تک مشرق وسطی میں اسرائیل نام کی سلطنت ہے اس وقت تک مشرق وسطی کو چین کہاں ۔ اس لئے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ضروری ہوگیا ہے۔
فون:9958361526

Sunday, 3 December 2017

امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستان کا کردار

امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستان کا کردار

USA_India_independence#

از:ظفر اقبال


امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستان کے رول کے تعلق سے آپ کسی سے سنیں گے تو آپ کو ہنسی آئے گی کہ ہندوستان نے امریکہ کی جنگ آزاد ی میں کس طرح مدد کی، جو خود نواستعماریات کا شکار ہورہا تھا اس وقت ہندوستان نے اس کی کس طرح مدد کی۔ اس طرح کے مختلف سوالات آپ کے ذہن میں آسکتے ہیں اور آنے بھی چاہئیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے امریکہ کی جنگ آزادی میں بہت ہی زبردست رول ادا کیا۔ جس کا احساس ہمیں نہ ہو لیکن خود امریکہ کو ہے۔ ان کے کئی مورخوں نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اب ہم اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔ ہندوستانیوں اور خاص طور سے میسور کے حکمراں حیدرعلی کے عہد میں برطانوی فوج اور میسور کی فوج میں دومرتبہ جنگ ہوئی ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ جنگیں اسی درمیاں ہوئی جس وقت امریکہ میں جنگ آزادی کی لہر بہت تیزی سے چل رہی تھی اور امریکہ جو برطانوی نواستعماریت کا شکار تھا وہ آزادی کے نغمے گانے کے لئے بے تاب نظر آرہا ہے۔ میسور اور انگریزوں کے درمیان 69۔1767کے درمیان پہلی جنگ ہوئی، دوسری 84۔1780کے درمیان ہوئی۔
واضح رہے کہ حیدر علی (پ:1720، م:1782) کے دور حکمرانی کے درمیان دو جنگیں ہوئیں جس جنگ نے برطانیہ کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ اپنے بیرونی دباؤ کو زبردست محسوس کرتے ہوئے امریکہ کی آزادی پر مہر تصدیق ثبت کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں جنگوں میں جو حیدر علی کی فوج اور انگریزوں کے فوج کے درمیان ہوئی، جن جنگوں میں حیدرعلی نے فرانس کی فوج کے تعاون سے انگریزوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔جس میں انہیں بہت کچھ کھونا پڑگیا۔ ٹھیک اسی وقت امریکہ میں برطانیہ اور امریکی انقلابیوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ برصغیر میں انگریزوں کو زبردست شکست کی وجہ سے برطانیہ دباؤ میں آگیا جس کی وجہ سے وہ امریکہ کو آزادی دینے پر مجبور ہوگیا۔
واضح رہے کہ امریکہ نے 4جولائی 1776کو اپنی آزادی کا اعلان کردیا جس کے بعد وہ خونی تصادم شروع ہوا جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں امریکہ وہ پہلا ملک ہے جہاں نواستعماریت کے خلاف پہلی جدوجہد آزادی کے ابتدائی ہوئی۔ جس نے برطانیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ بالآخر امریکہ کی آزادی کو 3ستمبر 1783کو پیرس معاہدہ میں تسلیم کرلیا گیا اور 21جون 1788کو امریکی آئین کا نفاذ ہوا۔
یہ ہندوستانی دباؤ خاص طور سے میسور کے حیدر علی کی فوج کی جانب سے دیئے گئے وہ زخم تھے جس نے برطانیہ کو مجبور کیا کہ اپنے اوپر فوجی دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے اس نے امریکہ کی آزادی کو تسلیم کرلیا ۔ اس لئے امریکیوں کو ہندوستان کے مسلمانوں سے بہت ہی دلچسپی ہے اور کس طرح وہ بہت ہی محبت کی نظر سے ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے چند دن قبل جب امریکہ کے سابق صدر بارک حسین اوبامہ نے ہندوستان ٹائمز کے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے یہاں کی حکومت اور یہاں کی عوام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانون کی قدر کریں۔یہاں کے مسلمانوں کے اندر عزم اور خود اعتمادی بہت زیادہ ہے۔ جس سے آپ کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہندوستان میں بہت سارے مذاہب ہیں جس کا احترام ہونا چاہئے۔ اوبامہ ایک مفکرانہ ذہن کے حامل صدر ہیں جنہوں نے اپنے عہد صدارت میں کچھ بہت ہی اچھے فیصلے بھی کئے ہیں جن کی ساری دنیا میں تعریف بھی ہوتی ہے اور وہ بیدار مغز بھی ہیں ، ان کے اندر انسانیت بھی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کسی پر نکتہ چینی کرنے اور کسی کو برادرانہ مشورہ دینے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ مسٹر اوبامہ نے یہاں کے مسلمانوں کے حفاظت کے لئے اس لئے فکر مند ہیں کہ امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستانی دباؤنے جو کام انجام دیا کہ وہ ایک طرح سے اس احسان کو بھی چکانا چاہتے ہیں۔
فون:9958361526