Friday, 31 March 2017

मोदी सरकार से भारतीय मुसलमानों को क्यों बात करनी चाहिए?

मोदी सरकार से भारतीय मुसलमानों को क्यों बात करनी चाहिए?

#modi_govt_muslim

जफर इकबाल

मौजूदा भारतीय प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी जो हिंदू पसमनजर रखते हैं और अतीत में वह आरएसएस के प्रचारक भी हुआ करते थे। उनका अभूतपूर्व व्यक्ति भारत की एक बड़ी आबादी को अपने प्रभाव  में ले चुका  है। उनकी ग्लैमर व्यक्ति से भारत का बहुसंख्यक बड़ी बड़ी उम्मीदें बांध चुका, यहाँ बहुसंख्यक आबादी को लगता है कि उनके नेतृत्व में भारत एक अभूतपूर्व और दुनिया में अपना वह खोया हुआ स्थान प्राप्त कर सकता है जो अपने विश्वास के अनुसार भारत हजारों साल पहले हुआ करता था।
अब भारत के प्रधानमंत्री दामोदर दास मोदी हैं जो भारत को हिन्दू राष्ट्र बनाने के मिशन पर निकले हैं, क्या ऐसे हालात में भारत के अल्पसंख्यक विशेष कर मुसलमान क्या करें? नरेंद्र मोदी को प्रधानमंत्री बने लगभग तीन साल हो चुके हैं लेकिन मुझे लगता है कि भारत के मुसलमान भाजपा सरकार से अलग थलग  हैं और इस समय का इंतजार कर रहे हैं कि भारत में फिर धर्मनिरपेक्ष सरकार बने तब हम उस सरकार से बात करें। लेकिन यूपी के नये चुनाव परिणाम ने पूरी तरह स्पष्ट कर दिया है कि भारत में मुस्लिम वोटरो की हैसीयत किया है। मोदी जो भाजपा के नामित प्रधानमंत्री हैं, उन्होंने यह पूरी तरह साबित कर दिया है कि वह बड़ी अल्पसंख्यक आबादी के वोट के बिना भी भारत के शासक बन सकते हैं। क्या भारतीय मुसलमान अपने मुद्दों को लेकर कब तक उदासीन रह सकते हैं। सरकार जिन टैक्स के पैसों से चलती है उनके टैक्स के पैसों में मुसलमानों का एक बड़ा हिस्सा है। भारतीय मुसलमान यहाँ  के संसाधनों के उपयोग से कैसे दूर रह सकते हैं। उन्हें संसाधनों में क्यों हिस्सा नहीं चाहिए। उनका मौलिक अधिकार है कि भारत के सभी संसाधनों में उनका हिस्सा हो।
अब श्री नरेंद्र मोदी को प्रधानमंत्री बने हुए लगभग तीन साल हो चुके हैं। लेकिन मुसलमान अभी यही तय नहीं कर सका कि उनसे बात कैसे की जाए? अपने मुद्दों उनके सामने रखकर कैसे हल किए जाएँ. आरएसएस पृष्ठभूमि रखने वाले प्रधानमंत्री इस्लामी दुनिया के कई देशों का दौरा कर चुके हैं जैसे सऊदी अरब, पाकिस्तान, ईरान, संयुक्त अरब अमीरात आदि और भारत के अंदर कश्मीरी मुसलमान को इस से कोई फर्क नहीं पड़ता कि मोदी सरकार से वार्ता हो।
सऊदी अरब की सरकार ने प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी को ऑर्डर ऑफ़ द अबदुल अजीज से सम्मानित किया था और जब मोदी ईरान के दौरे पर गए थे तो उन्होंने वहां के राष्ट्रपति के लिए कुलियाते ग़ालिब के फ़ारसी कलाम का विशेष संग्रह तैयार कराकर उनके लिए ले गए थे और कलिला दीमना का फारसी संस्करण भी प्रधानमंत्री अपने साथ ले गए थे। इसी तरह ईरान के विलायत फकीह आयतुल्लाह ख़ामेनई के लिए रज़ा लाइबरेरी, रामपुर में मौजूद हज़रत अली राः के हाथों से लिखा कुरान मौजूद है जिसकी नकल उन्हें पेश किया गया था। जब उन मुस्लिम शासकों को नरेंद्र मोदी के प्रधानमंत्री बनने पर कोई फर्क नहीं पड़ता तो हम को भी फर्क नहीं पड़ना चाहिए। वह सारे भारत के प्रधानमंत्री हैं तो वह हमारे भी प्रधानमंत्री हुए। उनकी जिम्मेदारी है कि वह देश के सभी नागरिकों के साथ न्याय करें। ऐसा इतिहास में बार बार हुआ हे कि जिन से आप नफरत करतें हैं ऐसे लोग सत्ता में आते हैं लेकिन उनसे बातचीत किए जाते हैं। यह एक ऐतिहासिक सत्य है। लेकिन हिंदुस्तानी मुसलमान अब तक रूठा बैठा है और उस समय की प्रतीक्षा कर रहा है कि कब मोदी सरकार जाति है और कांग्रेस या थर्ड फ्रंट की सरकार आएगी तब उनसे बात करेंगे तो 2019 के चुनाव में भी मोदी प्रधानमंत्री ही रहते हैं तब यहाँ के मुसलमान कब तक हाथ पर हाथ धरे बैठे रहेंगे और नुकसान उठाते रहेंगें। इन सभी दलीलों की रोशनी में हम कह सकते हैं कि भारतीय नेतृत्व चाहे मौलाना अरशद मदनी, महमूद मदनी, मौलाना अहमद बुखारी या मौलाना कल्बे सादिक आदि प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी से बातचीत क्यों नहीं कर सकते? कुछ तो यहां के मुसलमानों के हालात बेहतर होंगे। मोदी भी भारत की संतान हैं और हम भी भारतीय नागरिक हैं। यहां के मुसलमानों को जमीनी हकीकत स्वीकार करनी चाहिए।

फोन: 9958361526

Thursday, 30 March 2017

مودی حکومت سے ہندوستانی مسلمانوں کو کیوں بات کرنی چاہئے؟


مودی حکومت سے ہندوستانی مسلمانوں کو کیوں بات کرنی چاہئے؟


#Modi_muslim_Government

از :ظفر اقبال

موجودہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی جو ہندو انتہاپسندانہ پس منظر رکھتے ہیں اور ماضی میں وہ آر ایس ایس کے پرچارک بھی ہوا کرتے تھے۔ ان کی بے مثال شخصیت نے ہندوستان کی ایک بڑی آبادی کو اپنے حلقہ اثر میں لے چکی ہے۔ ان کی مسحور کن شخصیت سے ہندوستان کا اکثریتی طبقہ بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرچکاہے، یہاں کی اکثریتی آبادی کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زیر قیادت ہندوستان ایک بے مثال اور دنیا میں اپنا وہ کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتا ہے جو ان کے عقیدہ کے مطابق ہندوستان ہزاروں برس قبل ہوا کرتا تھا۔
اب ہندوستان کے وزیراعظم دامودر داس مودی ہیں جو ہندوستان کو ہندو راشٹربنانے کے اس مشن پر نکلے ہیں، کیا ایسے حالات میں ہندوستان کا اقلیتی طبقہ خاص طور سے مسلمان کیا کریں؟ نریندر مودی کو وزیراعظم بنے تقریبا تین برس ہوچکے ہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بی جے پی حکومت سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں اور اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ ہندوستان میں پھر سیکولر حکومت تشکیل پائے تب ہم ان حکومت سے بات کریں۔ لیکن یو پی کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے پوری طرح واضح کردیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم ووٹوں کی قدر کیا ہے۔ وزیراعظم مودی جو بی جے پی کے نامزد وزیراعظم ہیں، انہوں نے یہ پوری طرح ثابت کردیا ہے کہ وہ بڑی اقلیتی آبادی کے ووٹ کے بغیر بھی ہندوستان کے حکمراں بن سکتے ہیں ۔ کیا ہندوستانی مسلمان اپنے مسائل کے تعلق سے کب تک لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ حکومت جن ٹیکس کے پیسوں سے چلتی ہے ان ٹیکس کے پیسوں میں مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ہندوستانی مسلمان یہاں کے وسائل کے استعمال سے کیسے دور رہ سکتے ہیں۔ انہیں مراعات کیوں نہیں چاہئے۔ ان کا بنیادی حق ہے کہ ہندوستان کے تمام وسائل میں ان کا حصہ ہو۔ 
اب مسٹر نریندر مودی کو وزیراعظم بنے ہوئے تقریبا تین برس ہوچکے ہیں۔ لیکن مسلمان ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کرسکیں کہ ان سے بات کیسے کی جائے؟ اپنے مسائل ان کے سامنے رکھ کر کس طرح حل کئے جائیں۔آر ایس ایس پس منظر رکھنے والے وزیراعظم اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔جیسے سعودی عرب، پاکستان، ایران، متحدہ عرب امارات وغیرہ اور ہندوستان کے اندر کشمیری مسلمان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مودی حکومت سے مذاکرات کریں۔
سعودی عرب کی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کو آرڈر آف دی عبدالعزیز سے نوازا تھا اور جب مودی ایران کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے وہاں کے صدر کے لئے کلیاب غالب کے فارسی کلام کا خاص مجموعہ تیار کراکے ان کے لئے لے گئے تھے اور کلیہ ودمنہ کا فارسی ایڈیشن بھی وزیراعظم  اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اسی طرح ایران کے ولایت فقیہ آیت اللہ خامنہ ای کے  لئے رضالائبریری، رام پور میں موجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے لکھا ہوا قرآن  موجود ہے جس کی نقل ان کو پیش کیا گیا تھا۔جب ان مسلم حکمرانوں کو نریندر مودی کے وزیراعظم بننے پر کوئی فرق نہیں  پڑتا تو ہم کو بھی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ وہ اب سارے ہندوستان کے وزیراعظم تو وہ ہمارے بھی وزیراعظم ہوئے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے انصاف کا برتاؤ کریں۔۔
ایسا تاریخ میں بار با ہوا کہ جس سے آپ نفرت کرتے ہیں ایسے لوگ برسراقتدار آتے ہیں لیکن ان سے مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی سچائی ہے۔ لیکن ہندوستان مسلمان اب تک روٹھا بیٹھا ہے اور اس وقت کا انتظار کررہا ہے کہ کب مودی حکومت جاتی ہے اور کانگریس یا تھرڈ فرنٹ کی حکومت آئے گی تب ان سے بات کریں گے اگر ۲۰۱۹ کے الیکشن میں بھی مودی وزیراعظم ہی رہتے ہیں تو یہاں کے مسلمان کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ان تمام دلیلوں کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی قیادت چاہے مولانا ارشد مدنی، محمود مدنی، مولانا احمدبخاری یا مولانا کلب صادق وغیرہ وزیراعظم نریندر مودی سے مل کر بات چیت کیوں نہیں کرسکتے؟ کچھ تو یہاں کے مسلمانوں کے حالات بہتر ہوں گے۔ وزیراعظم مودی بھی ہندوستان کے فرزند ہیں اور ہم بھی اسی ہندوستانی کے شہری ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کو زمینی حقیقت تسلیم کرنی چاہئے۔
فون:9958361526

Tuesday, 28 March 2017

یمنی عدالت کی منصوری ہادی سمیت 6 افراد کو سزائے موت کا حکم

یمنی عدالت کی منصوری ہادی سمیت 6 افراد کو سزائے موت کا حکم


Yemen#Mansoor_Hadi_Death_sentence

از: ظفر اقبال


یمن کے ببرک کارمل جس کو دنیا مفرور اور مستعفی منصور ہادی کے نام سے جانتی ہے، اس کو اور ان کے کابینہ کے چھ افراد کو یمن کی عدالت نے ان کی غیر موجودگی میں سزاموت سنائی ہے۔ ابلاغ نیوز کے  ذرائع کے مطابق منصور ہادی، فرانس میں یمن کے سابق سفیر، سابق یمنی وزیراعظم ریاض یاسین ،امریکہ میں یمن کے سابق سفیر احمد عوض بن مبارک اور ان کے نائب ،سول سروسز کے سابق وزیرعبدالعزیز جباری، ہادی کے مشیر سلطان العتوانی اور عبدالوہاب آلانس ،اور سابق یمنی فوجی سلامتی ادارے کے سربراہ جنرل علی حسن الاحمدی کو ملک کے ساتھ غداری کا مرتک قرار دیتے ہوئے ان تمام افراد کو سزائے موت سنا دی ہے اور یمن میں ان افراد کے تمام جائیداد کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کردئے ہیں۔

واضح رہے کہ یمن میں عوامی انقلاب کی کامیابی کے بعد منصور ہادی سعودی عرب فرارہوگئے تھے جہاں انہوں نے سعودی عرب اور دیگر ممالک سے یمن میں اپنی حکومت بحال کرنے کی خاطر ملک پر حملہ کرنے کو کہا وہ حملہ جسے آج 2 سال گزر چکے ہیں. جن کی غداری کی وجہ سے ہی ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ہے۔ ملک کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ مسلسل دو برسوں سے بمباری کرنے کے باوجود سعودی عرب اور ان کا اتحاد جس کی نکیل امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ہے، کوئی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ملک بھوک مری کا شکار ہے، ملک کی سرحدوں کی ناکہ بندی کردی گئی ہے جس سے کوئی بھی غذائی اجناس ملک کے اندر نہیں پہنچ پارہا ہے، طبی امداد محدود ہوگئی ہے، ہزاروں افراد جس میں بچوں اور خواتین کی بہت زیادہ ہے، ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن یو این او اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ یہ دنیا جسے ہم خودساختہ مہذب سماج ہی کہنا چاہوں گا جو لاشوں پر تجارت کررہی ہے اور ایک ملک جو اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا ٹھیکیدار بھی کہلاتا ہے، اپنی تیل کی دولت کے بل پر نہتے عوام کو بھوکمری پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ خانہ کعبہ کا ٹھیکدار کو اس بھکمری سے دوچار ملک دکھائی نہیں دے رہا ہے اور حج اور عمرہ سے کمائی ہوئی دولت جس سے وہ بے شمار ہتھیار کافر حکومتوں سے خرید رہا ہے اور ان ہتھیاروں کو یمن کے مفلوک الحال عوام کے خلاف بے دریغ استعمال کررہا ہے۔

Sunday, 26 March 2017

سعودی عرب کا یمن پر حملے کو دو برس آج مکمل ہوئے

سعودی عرب کا یمن پر حملے کو دو برس آج مکمل ہوئے


#Saudi_Arabia_Yemen_attack

از:ظفر اقبال

آج 26 مارچ 2017 کو سعودی عرب کے نام ونہاد اتحاد کی جانب سے یمن کے نہتے عوام پر حملے کو دو برس ہوچکے ہیں اور یہ اتحاد یمن پر مسلسل بمباری کررہا ہے۔ لیکن سعودی عرب کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکا۔ سعودی عرب نے جو خواب دیکھا تھا کہ یمن کے لوگ رسول اللہ کی حدیث کے بقول نرم دل اور نرم خوں ہوتے ہیں۔ گھوڑے پالنے اور اونٹ پالنے والے عربوں نے یہ سمجھا کہ اپنے تکبراور نخوت کو یمنیوں پر تھوپنا آج اکیسویں صدی میں بہت ہی آسان ہے۔ یمن کے نرم دل لوگوں کا ملک ہے۔ جس کی گواہی خود رسول اللہ کی متعدد حدیثوں سے واضح ہے۔ لیکن ان دو برسوں میں ٓآل سعود نے کیا حاصل کیا ہے؟ سوائے یمن کی عورتوں اور بچوں کے خون بہانے اور وہاں کے ملکی انفرااسٹرکچر کی تباہی کے علاوہ انہوں نے کیا حاصل کیا۔ یمن میں قحط کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ جنگ مسلسل جاری ہے۔ تمام فیکٹری تباہ کردی گئی ہیں۔ بڑی تعداد میں مسجدوں اور امام بارگاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس جنگ سے سعودی عرب کیا حاصل کرنا چاہتا ہے سوائے اپنی برتری کو یمن پر تھوپنا چاہتا ہے۔ ان سعودیوں کو یمن کی تاریخ اچھی طرح پڑھ لینی چاہئے کہ خلافت عثمانیہ جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا جب انہوں نے سولہویں صدی کے تیسرے عشرے میں یمن پر اپنی 80 ہزار آزمودہ فوج سے یمن پر حملہ کیا تو ان یمنیوں نے ستر ہزار ترک فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا اور چند برسوں کے اندر ہی ان کو یمن چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنی پڑی تھی۔ ان ترکوں کو ناکوں چنے جبوائے جن کے گھوڑے کی ٹاپؤوں کی آوازوں سے مشرقی یوروپ کے حکمران لرزتے تھے۔ اس عہد میں یمنیوں نے ترکوں کا یہ حشر کیا تھا۔ اب خود آل سعود طے کرلے کہ ان میں کتنی طاقت ہے۔ یمن کی سمندری اور زمینی ناکہ بندی مسلسل جاری ہے۔ کیا وہ پوری قوم کو بھوکوں مار کر آل سعود جنگ جیتنا چاہتا ہے۔ جس طرح یزید کی فوجوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کو پیاسے اور بھوکے مارنے کا جو نسخہ آزمایا تھا وہی نسخہ یہ آل سعود آزمارہا ہے۔ سب سے بڑی بے حسی کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی بھی خاموش تماشائی ہے۔ جب انسانی بربریت کی تاریخ وقت کا مؤرخ لکھے گا تو یمن پر تھوپی جانے والی بھوکمری کی تاریخ بھی اسے لکھنی چاہئے تاکہ آنے والی نسلیں بھی آل سعود کی بربریت کی تاریخ پڑھ سکے۔
فون: 9958361526

Friday, 24 March 2017

سپریم کورٹ بابری مسجد قضیہ پرکبھی فیصلہ نہیں سنائے گی


سپریم کورٹ بابری مسجد قضیہ پرکبھی فیصلہ نہیں سنائے گی


#SC_India_Babri_Masjid

از:ظفر اقبال

بابری مسجد قضیہ کافیصلہ سپریم کورٹ کبھی نہیں سنائے گی، اس لئے سپریم کورٹ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو سلجھالیں۔ اس کو سپریم کورٹ مان لے گی۔ سپریم کورٹ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ واقعی ہندوستانی سپریم کورٹ بہت ہی بالغ ہے۔ سپریم کورٹ کی بلوغت سے کون انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کبھی بھی بابری مسجد کے قضیے پر فیصلہ نہیں سنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، تمام ثبوت مسلمانوں کے حق میں جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کی اکثریتی آبادی جو ہندو پر مشتمل ہے، ان کا اعتقاد بنادیا گیا ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ بنائی گئی ہے جس جگہ پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کی اکثریتی آبادی بضد ہے کہ کسی بھی طرح عظیم رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ جس دن بابری مسجد کو توڑی گئی اسی دن ایک عارضی رام مندر تو پہلے ہی بنادی گئی ہے، جہاں مسلسل پوجا ہورہی ہے، مسجد کی شکل تو اب بچی ہی نہیں ہے۔ہاں لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ہے جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی ، وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے مسجد کو ڈھاکر کر مندر یا گرجا گھر ہی کیوں نہیں بنادیا گیا ہو۔
اب مسئلہ ہے کہ سپریم کورٹ خود فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے ، اس کہ وجہ بہت ہی ٹھوس ہے اور وہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں کبھی مندر تھا جسے ڈھاکر یہ مسجد بنائی گئی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اگر عقیدہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ اکثریتی آبادی کے حق میں فیصلہ سنادیتی ہے تو اس سے سپریم کورٹ کا اعتبار ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ خطرے میں ہندوستان میں ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس کا خمیازہ انہیں بین الاقوامی سطح پر یو این او، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، ہیگ کی عدالت ہرجگہ ان کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان مسلمان اس کیس کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عالمی عدالت سے مدد حاصل کرسکتا ہے، اس چیز نے حکومت ہند اور سپریم کورٹ کوبے چین کررکھا ہے، اس بے چینی نے ہی انہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ زبردستی کسی معاہدہ پر پہنچنا چاہتے ہے۔ اگر یہاں کی مسلم قیادت کسی لالچ میں مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو ایک طرح سے یہاں کی پوری مسلم آبادی اللہ کی نظر میں مرتد ہوجائے گی، اللہ بھی یہاں کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدالت میں بھی ہم اپنے اوپر زیادتی کی فریاد بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے مسلم قیادت سے درخواست ہے کہ کسی بھی قیمت پر ہم اکثریتی آبادی سے اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرسکتے۔ چاہے بابری مسجد کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کو سونے کے محل بھی بناکر یہاں کی اکثریتی آبادی کیوں نہ دے دے۔
فون:9958361526

Tuesday, 21 March 2017

بابری مسجد قیامت تک مسجد ہی رہے گی

بابری مسجد قیامت تک مسجد ہی رہے گی

بابری مسجد قیامت تک مسجد ہی رہے گی. مجھے یقین ہے کہ یہاں کی مسلم قیادت نے مسجد کے تعلق سے کسی طرح کی سودے بازی کی کوشش کی تو ایک بڑی آبادی ہلاک ہوجائے گی. اللہ کا عزاب یہاں کے مسلمانوں پر نازل ہو جائے گا.  اللہ کی نظر میں پوری مسلم آبادی مرتد ہوجائے گی. یہاں کی اکثریتی آبادی اگر بابری مسجد کے عوض سونے کے محل بھی بناکر دے تب بھی بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے لئے مسلم راضی نہیں ہوسکتے. اللہ ہمیں اس آزمائش سے بچائے.

Sunday, 5 March 2017

عرب لیگ کا ممبر ملک صومالیہ قحط کا شکار

عرب لیگ کا ممبر ملک صومالیہ قحط کا شکار

Arab_league_Saudi_Arabia_Somalia_drought

از:ظفر اقبال

عرب لیگ کا سب سے غریب ملک صومالیہ قحط سے دوچار ہوچکا ہے۔ وہاں بھوک اور بیماری سے بی بی سے کے بقول اڑتالیس گھنٹوں میں 110 افراد مرچکے ہیں۔ بہت سارے علاقوں میں جانور مرے پڑے ہوئے ہیں۔ جانوروں کے لئے چارہ ختم ہوچکا ہے۔ صومالیہ جو ’ہورن آف افریقہ‘ کے نام سے بھی موسوم ہے۔ عرب لیگ کے ٹھیکیدار اور بارسوخ ملک سعودی عرب کیا کررہا ہے، فی الحال سعودی عرب کے بادشاہ اپنے شہزادوں اور معاونوں کی فوج ظفر موج لے کر مشرقی بعید کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں، تقریبا دس ممالک کے دورے پر ہیں، یہ دورہ تقریبا ایک مہینے پر محیط ہے، وہ بالی میں دس روز گذاریں گے، بالی انڈونیشیا کا تفریحی مقام ہے جہاں خوب خوب دادوعیش دیئے جائیں گے، سینکڑوں ٹن سامانوں اور لکژری گاڑیوں کے ساتھ یہ قافلہ عیش کی دنیا فتح کرنے کے لئے نکلا ہے لیکن عرب لیگ کا سب سے غریب ملک صومالیہ جو عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے ہی ساتھ ہی بھوک وافلاس نے ان کے گھروں پر ڈیرہ جمالیا ہے، یہ صومالیہ سعودی عرب کے ٹھیک سامنے ہے، صومالیہ کی کوئی بھی ملک مدد کے لئے نہیں آرہا ہے، صومالیہ بھوک اور افلاس سے دوچار ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ افریقہ میں غم خانہ بن چکا ہے، لیکن یہ سعودی عرب ہی تھا جو چند مہنے قبل صومالیہ کی حکومت کو پچاس لاکھ ڈالر رشوت کے عوض ایران سے اپنا سفیر واپس بلوالیا تھا، واہ رے سعودی عرب جو سنی دنیا کا ٹھیکیدار بھی بنا پھرتا ہے اور عمرہ اور حج کی ساری کمائی خود ہڑپ کرلیتا ہے، عمرہ وحج سے سعودی کو سالانہ تقریبا چالیس بلین ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے، جو ایک خطیر رقم ہے ساتھ ہی پٹرول تو ہے جو بے حساب ہے، عرب لیگ کا رکن ملک اور سنی ملک صومالیہ زبردست قحط سے دوچار ہے، صومالیہ کی غریب عوام مٹھی بھر اناج سے محروم ہیں اور تل تل مررہے ہیں۔ ْحج وعمرہ کی کمائی کا اگر پانچ فیصد بھی وہ صومالیہ کی بھلائی کے لئے اور ان کے ملک کی تعمیر وترقی کے لئے خرچ کردے اس سے صومالیہ کی ترقی ہوجائے گی، لیکن سعودی عرب اس ساہوکار کی طرح ہے جو غریب سنی مسلمان کو زندہ تو رکھتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے استعمال کرسکے۔







Saturday, 4 March 2017

مبارک ہے ایسی ماں جس نے جنرل قاسم سلیمانی جیسے بیٹے کو جنم دیا

 مبارک ہے ایسی ماں جس نے جنرل قاسم سلیمانی جیسے بیٹے کو جنم دیا

#qasim_suleimani_Iran_General


از: ظفر اقبال


جنرل قاسم سلیمانی جسے میں خالد بن ولید ثانی تصور کرتا ہوں، جنہوں نے اپنی 35 سالہ فوجی خدمات میں کبھی بھی کوئی محاذ نہیں ہارا ہے۔ قاسم سلیمانی کی پیدائش کرمان میں 1957 میں ہوئی۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی آرم فورس میں سینئر ہونے کے ساتھ ایک زیرک اور متقی جنرل ہیں جنہوں نے اسلام کی سرپلندی کے لئے بہت ہی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔  انہوں نے القدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے بیرون ملک جو خدمات انجام دی ہیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔  
جنرل قاسم سلیمانی نے افغانستان، عراق، شام اور لبنان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ جس کی وجہ سے دشمن کو وہ عبرت ناک شکست ملی ہے جس کو دشمن عشروں تک یاد رکھے گا۔ اگر دنیا میں کوئی ملک سب سے زیادہ محفوظ ہے وہ ایران ہے جہاں اب تک کوئی بھی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا، دنیا میں کوئی ملک اس طرح کا دعوی نہیں کرسکتا لیکن ایران یہ دعوی کرسکتا ہے کہ ان کے ملک کی سرحد دہشت گردوں کے تمام حربوں کے باوجود محفوظ بلکہ سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ دشمن امریکہ، اسرائیل اور اس کے  حامی منافق طاقتوں نے جس طرح  ایران کو تہ وبالا کرنے کے لئے جس طرح کے حربوں کا استعمال کیا تھا ، اگر ایران کی وہ طاقت نہ ہوتی تو ایران دشت گردوں سے تہران اور اصفہان میں نبرد آزما ہورہا ہوتا، لیکن جنرل قاسم کی وہ حکمت عملی جس کے باعث دشمن کو عراق اور شام  اور لبنان کی سرزمین پر شکست دی گئی، اس کے باوجود دشمن مسلسل اپنی سازشیں کررہا ہے۔ 
امریکہ کے مشہور اخبار ’’واشنگٹن ٹائمز‘‘ نے جنرل قاسم سلیمانی کے خلاف جس طرح منفی پروپیگنڈہ کررہا ہے  وہ دشمنوں کی جھنجھلاہٹ کی دلیل ہے۔
 ’واشنگٹن ٹائمز‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ایرانی پاسداران انقلاب کی بیرون ملک سرگرم عسکری تنظیم ’فیلق القدس‘ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو انتہائی خطرناک اور دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس پر پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔واشنگٹن ٹائمز میں شائع کینتھ ٹیمرمن کی رپورٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنرل سلیمانی کے اثاثوں پر پابندی عاید کرنے کے ساتھ فیلق القدس کے ساتھ مالی تعاون کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے خلاف بھی کارروائی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سلیمانی پر عالمی سفری پابندیاں عاید کی جائیں اور فیلق القدس کو دہشت گرد گروپ قرار دے کر اسے بلیک لسٹ کیا جائے۔جنرل سلیمانی کو عالمی دہشت گرد قراردینے کا سبب ان کا عراق، یمن اور شام میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کرنا ہے۔ اگرچہ سلیمانی کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب ممالک میں انسداد دہشت گردی میں سرگرم ہیں مگرعملا وہ خود دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہوئے عرب ممالک کو کمزور کررہے ہیں۔ادھر واشنگٹن انسٹیٹیوٹ نامی ایک تھینک ٹینک نے بھی جنرل سلیمانی کے خطرات پر انتباہ کرتے ہوئے بتایا سلیمانی لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ پر اپنا اثرونفوذ کس طرح بڑھا رہے ہیں۔‘‘
یہ تمام باتیں جو واشنگٹن ٹائمز نے تحریر کی ہے وہ ان کی شکست خوردگی کی دلیل ہے، ان کی جھنجھلاہٹ اس بات کی غماز ہے کہ وہ کس قدر پریشان ہیں۔
مغرب اور عرب میڈیا نے کئی مرتبہ یہ بات پھیلائی کہ جنرل قاسم  حلب کے محاذ پر شدید زخمی ہوگئے ہیں اور تہران میں ان کا علاج ہورہا ہے، حالانکہ بعد میں تمام باتیں جھوٹی ثابت ہوئی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب اور عرب ممالک جنرل قاسم کی اہلیت کے سامنے کس قدر بے بس نظر آرہے ہیں، دشمن طاقتیں ان کی موت کی متمنی نظر آرہی ہے۔  جنرل قاسم نے  شام میں روس کو ہوائی حملہ کرنے کے لئے آمادہ کرنا ان کا ایک بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہی  بشار الاسد کی مشکلیں کافی کم ہوگئیں اور ان کا اقتدار بہت حد تک محفوظ ہوگیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والے جنرل قاسم سلیمانی ہی اگر جنرل قاسم کی وہ خدمات نہ ہوتی تو شام، عراق اورلبنان ابلیسی تباہ کاریوں کے چنگل میں پھنس چکا ہوتا جس سے سب سے زیادہ اگر کسی کو فائدہ ہوتا تو وہ اسرائیل ہوتا، جس سے اسرائیل مکمل طور سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
فون:9958361526



Friday, 3 March 2017

حزب اللہ اور حماس سے اسرائیل پریشان

حزب اللہ اور حماس سے اسرائیل پریشان


#Hizbullah_Hamas_Israel

از: ظفر اقبال


اسرائیل کے فوجی انٹلی جنس جن کی زبان اور چہرے کے تاثرات ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ ان کی زبان کچھ اور بول رہی اور چہرے کے تاثرات کسی اور چیز کو ظاہر کررہے ہیں۔ اسرائیل کے فوجی انٹلی جنس کے سربراہ ھرزل ہلاوی کے چہرے کو بغور دیکھیں اور ان کے بیان کو پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اسرائیل کس قدر پریشان اور درماندہ ہوچکا ہے اور ایران کا پروردہ حزب اللہ اور حماس کس قدر جری ہوچکے ہیں۔ حماس کے زیر کنٹرول علاقے غزہ کی عوام بہت پریشان ہے، دس برسوں سے زائد عرصوں سے اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے اور تمام عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، ترکی، قطر اور اردن اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔

اسرائیل کے  فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ ہرزل ہیلوی  کا کہنا ہے کہ ’’حزب اللہ اور حماس مستقبل قریب میں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی عسکری مقابلے کی خواہش مند نظر نہیں آتے ہیں۔ عبرانی زبان کے اخبار "ہآریٹز" کے مطابق ہیلوی نے یہ بات اسرائیلی پارلیمنٹ میں خارجہ امور اور دفاع کی کمیٹی کے اجلاس میں کہی۔

ہیلوی نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ حزب اللہ شام کی جنگ میں اپنے بھاری جانی نقصان کے سبب شکست خوردہ ہو چکی ہے۔ اُس کو اپنی ملیشیاؤں کے لیے نوجوانوں کی بھرتی میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے جب کہ اس کے ارکان کی اکثریت 60 برس کی عمر کے قریب پہنچ رہی ہے۔ ہیلوی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کا عسکری مقابلہ شام کی جنگ ختم ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔

ہیلوی نے مغربی کنارے کی صورت حال سے بھی خبردار کیا جہاں فلسطینیوں نے اگر امید کا دامن چھوڑ دیا تو وہ بپھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ ہیلوی کے مطابق اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کسی معاہدے کے طے پانے کی صورت میں بھی اقتصادی ترقی کے لیے اقدامات کیے جانا چاہیں تاکہ سیاسی خلاء سے جنم لینے والی جھنجلاہٹ کو کم کیا جا سکے۔‘‘
اسرائیل کی فوجی انٹلی جنس کے سربراہ ہرزل ہیلوی کے مذکورہ بالا بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے تاثرات کچھ اور اور ان کی زبان کوئی اور کہانی سنارہی ہے۔ یعنی مذکورہ بالا تمام باتیں جھوٹ پر مبنی ہے، اسرائیل سب سے زیادہ اگر پریشان ہے تو وہ خاص طور سے حزب اللہ سے ہے، وہ اس لئے اب تک حزب اللہ سرنگوں میں گھس کر لڑاکرتی تھی لیکن شام کی لڑائی نے ان کے تجربات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے، پہلے وہ دفاعی لڑائی لڑاکرتے تھے لیکں ان کو اقدامی لڑائی کرنے کا تجربہ حاصل ہوچکا ہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ جب کوئی فاتح فوج ہوتی ہے تو اس کا سب لوگ ساتھ دیتے ہیں ہاں شکست خوردہ لوگوں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے، حزب اللہ خاص طور پر شیعہ گوریلاؤں کی تحریک ہے جس کو ایران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، چاہے اسلحہ سازی اور سائنٹفک ریسرچ میں ایران حزب اللہ کا بھرپور تعاون کررہا ہے۔ یہ تصویر اسی وقت کی ہے جب ہیلوی پارلیمنٹ میں حزب اللہ اور حماس کے تعلق سے بیان دے رہے تھے۔ تصویر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ہیکڑی کو حزب اللہ اور حماس نے ختم کردی ہے۔ اگر مستقبل میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ہوتی ہے تو دنیا دیکھی گی کہ حزب اللہ اسرائیل کا کیا حشر کرتا ہے، حزب اللہ شیبا فارم سے لے کر ایلات کی بندرگاہ تک جو تباہی مچائے گا، جس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملے گی۔ فلسطین سے ہمدردی رکھنے والے حریت پسند اقوام کو حزب اللہ خوشی کا وہ نذرانہ پیش کرے گی جس سے حریت پسند خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔

فون:9958361526


Image may contain: 1 person

Thursday, 2 March 2017

گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


#Ghali_iqbal_Goethe

از:ظفر اقبال

مرزا اسد اللہ خان غالب (1869-1797) کی شخصیت ہمارے لئے محتاج تعارف نہیں ہے۔ غالب جیسا شاعر اردو دنیا اب تک پیدا نہیں کرسکی۔ اگر کوئی غالب کے ہمسر ہونے کا دعوی کرسکتا ہے تو وہ خود علامہ اقبال ہوسکتے ہیں۔ جس طرح غالب نے اپنے افکار کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے خود ہی الفاظ اختراع کئے ٹھیک اسی طرح علامہ اقبال نے اپنے افکار کو پیش کرنے کے لئے خود نئے نئے الفاظ کو وضع کیا۔
علامہ اقبال نے اپنے پہلے اردو مجموعے ’بانگ درا‘ کی ترتیب میں چوتھی نظم ’’مرزا غالب‘‘ کے عنوان سے رکھی ہے۔ اس نظم کو اقبال کی جانب سے مرزا غالب کی شان میں شاندار عقیدت سے آپ اسے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں مرزا غالب کا جو مقام ہے مرتبہ ہے وہ آپ ان کی نظم میں دیکھ سکتے ہیں۔’’مرزا غالب‘‘ کے عنوان سے یہ نظم آپ ملاحظہ کریں:
فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پرمرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفل ہستی تری بربط سے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر
آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے! اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سرزمین
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
اے جہاں آباد، اے گہوارہ علم وہنر
ہیں سراپا نالہ خاموش تیرے بام ودر
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس وقمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کو صحیح معنوں میں اگر کسی نے پہچانا ہے توہ علامہ اقبال ہی تھے، ہاں مولانا الطاف حسین حالی نے’یادگار غالب‘‘ لکھ کر جس طرح غالب کے ایک فرما بردار شاگرد ہونے کا حق ادا کیا۔ وہ یقیناًلائق دید ہے، لیکن اقبال کی غالب سے نسبت استاذ وشاگرد والی نہیں تھی ۔ لیکن غالب کو اگر کسی نے ان کے شایان شایان پہچانا وہ اقبال جیسی عبقری شخصیت تھی۔ اقبال نے غالب کی زبان دانی کی تعریف جن الفاظ میں کی ہے وہ پڑھنے لائق ہے:
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر
 لیکن اقبال نے جس طرح غالب کی نکتہ رس تخیل کو ڈھونڈ نکالاوہ صرف انہیں اقبال کا ہی خاصہ تھا۔ انہوں نے غالب کا موازنہ جرمنی کے مشہور مفکر اور فلاسفر گوئٹے سے موازنہ کیا، جس طرح کی گوئٹے میں وہ خوبیاں موجود تھیں وہ خوبی غالب میں موجود تھی۔ گوئٹے (1832-1749) غالب کے ہم عصر تھے۔ ہاں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ گوئٹے ایک ترقی یافتہ قوم کا نمائندہ تھا لیکن غالب ایک غلام ہندوستان کا نمائندہ تھا۔ یہ غالب کی بدقسمتی تھی۔ اسی پر اقبال نے کہا ہے کہ
 آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
ویمر جرمنی کا ایک شہر ہے، جہاں گوئٹے مدفون ہیں۔ اسی طرف اقبال کا اشارہ ہے کہ تو تو اجڑی ہوئی دہلی میں مدفون ہے لیکن تیر ہمنوا اور تری فکر کا ساتھی ایک زندہ قوم اور ترقی یافتہ شہر میں مدفون ہے۔ تیری بدقسمتی ہے تیرا تعلق ایک غلام قوم سے ہے۔جب یہ نظم اقبال کی چھپ کر آئی تو گوئٹے سے غالب کے موازنے نے لوگوں کو اس قدر پسند آئی اور ان کا جو مقام اقبال نے ایک طرح سے متعین کردیا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے عبدالرحمان بجنوری نے ان کا موازنہ گوئٹے سے اپنی تخلیق کردہ کتاب ’’محاسن کلام غالب‘‘ میں کیا۔
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
اقبال نے کہا کہ اس کے بعد اردو کی ترقی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے لوگوں کی اور ضرورت ہے جو زبان اردو کو بام عروج پر پہنچا سکے۔ ابھی اردو کے تعلق سے بہت کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اقبال کے شاعری نے زبان اردو کو بام عروج پر پہنچا نے میں نمایاں کردار ادا کیا، جس کے بعد اردو زبان اس قابل ہوگئی کہ اپنی تمام تر تخیلات کو اردو کا جامہ باآسانی پہنایا جاسکتا ہے۔ اردو زبان آپ کا مکمل ساتھ دے گی۔ کہیں آپ محسوس نہیں کریں گے کہ اردو آپ کا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔ تشنگی تو ہرگز آپ محسوس نہیں کریں گے۔
ہم پورے شرح صدر سے یہ بات کہہ سکتے ہیں اقبال نے غالب کو ایک مفکر کی حیثیت جو شناخت دی یہ انہیں کا خاصہ ہے۔ حالانکہ اب تک لوگ طوائفوں کے کوٹھے پر ہی غالب کی شاعری کو سنتے تھے۔ اقبال کے اس نظم کے آنے کے بعد ہی غالب کے پرستار جنہوں نے غالب پر سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ امتیاز علی خان عرشی غالب کی جانب متوجہ ہوئے اور انہوں نے اقبال کے دیئے ہوئے ان اصولوں اور شناخت کی بنیاد پرہی اپنی تحقیق مکمل کی ۔
فون: 9958361526