مودی حکومت سے ہندوستانی مسلمانوں کو کیوں بات کرنی چاہئے؟
#Modi_muslim_Government
از :ظفر اقبال
موجودہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی جو ہندو انتہاپسندانہ پس منظر رکھتے
ہیں اور ماضی میں وہ آر ایس ایس کے پرچارک بھی ہوا کرتے تھے۔ ان کی بے
مثال شخصیت نے ہندوستان کی ایک بڑی آبادی کو اپنے حلقہ اثر میں لے چکی ہے۔
ان کی مسحور کن شخصیت سے ہندوستان کا اکثریتی طبقہ بڑی بڑی امیدیں وابستہ
کرچکاہے، یہاں کی اکثریتی آبادی کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زیر قیادت
ہندوستان ایک بے مثال اور دنیا میں اپنا وہ کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتا ہے
جو ان کے عقیدہ کے مطابق ہندوستان ہزاروں برس قبل ہوا کرتا تھا۔
اب ہندوستان کے وزیراعظم دامودر داس مودی ہیں جو ہندوستان کو ہندو
راشٹربنانے کے اس مشن پر نکلے ہیں، کیا ایسے حالات میں ہندوستان کا اقلیتی
طبقہ خاص طور سے مسلمان کیا کریں؟ نریندر مودی کو وزیراعظم بنے تقریبا تین
برس ہوچکے ہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بی جے پی
حکومت سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں اور اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ
ہندوستان میں پھر سیکولر حکومت تشکیل پائے تب ہم ان حکومت سے بات کریں۔
لیکن یو پی کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے پوری طرح واضح کردیا ہے کہ
ہندوستان میں مسلم ووٹوں کی قدر کیا ہے۔ وزیراعظم مودی جو بی جے پی کے
نامزد وزیراعظم ہیں، انہوں نے یہ پوری طرح ثابت کردیا ہے کہ وہ بڑی اقلیتی
آبادی کے ووٹ کے بغیر بھی ہندوستان کے حکمراں بن سکتے ہیں ۔ کیا ہندوستانی
مسلمان اپنے مسائل کے تعلق سے کب تک لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ حکومت جن ٹیکس کے
پیسوں سے چلتی ہے ان ٹیکس کے پیسوں میں مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔
ہندوستانی مسلمان یہاں کے وسائل کے استعمال سے کیسے دور رہ سکتے ہیں۔ انہیں
مراعات کیوں نہیں چاہئے۔ ان کا بنیادی حق ہے کہ ہندوستان کے تمام وسائل
میں ان کا حصہ ہو۔
اب مسٹر نریندر مودی کو وزیراعظم بنے ہوئے تقریبا تین برس ہوچکے ہیں۔ لیکن
مسلمان ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کرسکیں کہ ان سے بات کیسے کی جائے؟ اپنے
مسائل ان کے سامنے رکھ کر کس طرح حل کئے جائیں۔آر ایس ایس پس منظر رکھنے
والے وزیراعظم اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔جیسے سعودی
عرب، پاکستان، ایران، متحدہ عرب امارات وغیرہ اور ہندوستان کے اندر کشمیری
مسلمان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مودی حکومت سے مذاکرات کریں۔
سعودی عرب کی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کو آرڈر آف دی عبدالعزیز سے نوازا تھا اور جب مودی ایران کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے وہاں کے صدر کے لئے کلیاب غالب کے فارسی کلام کا خاص مجموعہ تیار کراکے ان کے لئے لے گئے تھے اور کلیہ ودمنہ کا فارسی ایڈیشن بھی وزیراعظم اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اسی طرح ایران کے ولایت فقیہ آیت اللہ خامنہ ای کے لئے رضالائبریری، رام پور میں موجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے لکھا ہوا قرآن موجود ہے جس کی نقل ان کو پیش کیا گیا تھا۔جب ان مسلم حکمرانوں کو نریندر مودی کے وزیراعظم بننے پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہم کو بھی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ وہ اب سارے ہندوستان کے وزیراعظم تو وہ ہمارے بھی وزیراعظم ہوئے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے انصاف کا برتاؤ کریں۔۔
ایسا تاریخ میں بار با ہوا کہ جس سے آپ نفرت کرتے ہیں ایسے لوگ برسراقتدار آتے ہیں لیکن ان سے مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی سچائی ہے۔ لیکن ہندوستان مسلمان اب تک روٹھا بیٹھا ہے اور اس وقت کا انتظار کررہا ہے کہ کب مودی حکومت جاتی ہے اور کانگریس یا تھرڈ فرنٹ کی حکومت آئے گی تب ان سے بات کریں گے اگر ۲۰۱۹ کے الیکشن میں بھی مودی وزیراعظم ہی رہتے ہیں تو یہاں کے مسلمان کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ان تمام دلیلوں کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی قیادت چاہے مولانا ارشد مدنی، محمود مدنی، مولانا احمدبخاری یا مولانا کلب صادق وغیرہ وزیراعظم نریندر مودی سے مل کر بات چیت کیوں نہیں کرسکتے؟ کچھ تو یہاں کے مسلمانوں کے حالات بہتر ہوں گے۔ وزیراعظم مودی بھی ہندوستان کے فرزند ہیں اور ہم بھی اسی ہندوستانی کے شہری ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کو زمینی حقیقت تسلیم کرنی چاہئے۔
سعودی عرب کی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کو آرڈر آف دی عبدالعزیز سے نوازا تھا اور جب مودی ایران کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے وہاں کے صدر کے لئے کلیاب غالب کے فارسی کلام کا خاص مجموعہ تیار کراکے ان کے لئے لے گئے تھے اور کلیہ ودمنہ کا فارسی ایڈیشن بھی وزیراعظم اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اسی طرح ایران کے ولایت فقیہ آیت اللہ خامنہ ای کے لئے رضالائبریری، رام پور میں موجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے لکھا ہوا قرآن موجود ہے جس کی نقل ان کو پیش کیا گیا تھا۔جب ان مسلم حکمرانوں کو نریندر مودی کے وزیراعظم بننے پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہم کو بھی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ وہ اب سارے ہندوستان کے وزیراعظم تو وہ ہمارے بھی وزیراعظم ہوئے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے انصاف کا برتاؤ کریں۔۔
ایسا تاریخ میں بار با ہوا کہ جس سے آپ نفرت کرتے ہیں ایسے لوگ برسراقتدار آتے ہیں لیکن ان سے مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی سچائی ہے۔ لیکن ہندوستان مسلمان اب تک روٹھا بیٹھا ہے اور اس وقت کا انتظار کررہا ہے کہ کب مودی حکومت جاتی ہے اور کانگریس یا تھرڈ فرنٹ کی حکومت آئے گی تب ان سے بات کریں گے اگر ۲۰۱۹ کے الیکشن میں بھی مودی وزیراعظم ہی رہتے ہیں تو یہاں کے مسلمان کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ان تمام دلیلوں کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی قیادت چاہے مولانا ارشد مدنی، محمود مدنی، مولانا احمدبخاری یا مولانا کلب صادق وغیرہ وزیراعظم نریندر مودی سے مل کر بات چیت کیوں نہیں کرسکتے؟ کچھ تو یہاں کے مسلمانوں کے حالات بہتر ہوں گے۔ وزیراعظم مودی بھی ہندوستان کے فرزند ہیں اور ہم بھی اسی ہندوستانی کے شہری ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کو زمینی حقیقت تسلیم کرنی چاہئے۔
فون:9958361526
No comments:
Post a Comment