Thursday, 2 March 2017

گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


#Ghali_iqbal_Goethe

از:ظفر اقبال

مرزا اسد اللہ خان غالب (1869-1797) کی شخصیت ہمارے لئے محتاج تعارف نہیں ہے۔ غالب جیسا شاعر اردو دنیا اب تک پیدا نہیں کرسکی۔ اگر کوئی غالب کے ہمسر ہونے کا دعوی کرسکتا ہے تو وہ خود علامہ اقبال ہوسکتے ہیں۔ جس طرح غالب نے اپنے افکار کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے خود ہی الفاظ اختراع کئے ٹھیک اسی طرح علامہ اقبال نے اپنے افکار کو پیش کرنے کے لئے خود نئے نئے الفاظ کو وضع کیا۔
علامہ اقبال نے اپنے پہلے اردو مجموعے ’بانگ درا‘ کی ترتیب میں چوتھی نظم ’’مرزا غالب‘‘ کے عنوان سے رکھی ہے۔ اس نظم کو اقبال کی جانب سے مرزا غالب کی شان میں شاندار عقیدت سے آپ اسے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں مرزا غالب کا جو مقام ہے مرتبہ ہے وہ آپ ان کی نظم میں دیکھ سکتے ہیں۔’’مرزا غالب‘‘ کے عنوان سے یہ نظم آپ ملاحظہ کریں:
فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پرمرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفل ہستی تری بربط سے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر
آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے! اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سرزمین
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
اے جہاں آباد، اے گہوارہ علم وہنر
ہیں سراپا نالہ خاموش تیرے بام ودر
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس وقمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کو صحیح معنوں میں اگر کسی نے پہچانا ہے توہ علامہ اقبال ہی تھے، ہاں مولانا الطاف حسین حالی نے’یادگار غالب‘‘ لکھ کر جس طرح غالب کے ایک فرما بردار شاگرد ہونے کا حق ادا کیا۔ وہ یقیناًلائق دید ہے، لیکن اقبال کی غالب سے نسبت استاذ وشاگرد والی نہیں تھی ۔ لیکن غالب کو اگر کسی نے ان کے شایان شایان پہچانا وہ اقبال جیسی عبقری شخصیت تھی۔ اقبال نے غالب کی زبان دانی کی تعریف جن الفاظ میں کی ہے وہ پڑھنے لائق ہے:
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر
 لیکن اقبال نے جس طرح غالب کی نکتہ رس تخیل کو ڈھونڈ نکالاوہ صرف انہیں اقبال کا ہی خاصہ تھا۔ انہوں نے غالب کا موازنہ جرمنی کے مشہور مفکر اور فلاسفر گوئٹے سے موازنہ کیا، جس طرح کی گوئٹے میں وہ خوبیاں موجود تھیں وہ خوبی غالب میں موجود تھی۔ گوئٹے (1832-1749) غالب کے ہم عصر تھے۔ ہاں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ گوئٹے ایک ترقی یافتہ قوم کا نمائندہ تھا لیکن غالب ایک غلام ہندوستان کا نمائندہ تھا۔ یہ غالب کی بدقسمتی تھی۔ اسی پر اقبال نے کہا ہے کہ
 آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
ویمر جرمنی کا ایک شہر ہے، جہاں گوئٹے مدفون ہیں۔ اسی طرف اقبال کا اشارہ ہے کہ تو تو اجڑی ہوئی دہلی میں مدفون ہے لیکن تیر ہمنوا اور تری فکر کا ساتھی ایک زندہ قوم اور ترقی یافتہ شہر میں مدفون ہے۔ تیری بدقسمتی ہے تیرا تعلق ایک غلام قوم سے ہے۔جب یہ نظم اقبال کی چھپ کر آئی تو گوئٹے سے غالب کے موازنے نے لوگوں کو اس قدر پسند آئی اور ان کا جو مقام اقبال نے ایک طرح سے متعین کردیا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے عبدالرحمان بجنوری نے ان کا موازنہ گوئٹے سے اپنی تخلیق کردہ کتاب ’’محاسن کلام غالب‘‘ میں کیا۔
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
اقبال نے کہا کہ اس کے بعد اردو کی ترقی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے لوگوں کی اور ضرورت ہے جو زبان اردو کو بام عروج پر پہنچا سکے۔ ابھی اردو کے تعلق سے بہت کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اقبال کے شاعری نے زبان اردو کو بام عروج پر پہنچا نے میں نمایاں کردار ادا کیا، جس کے بعد اردو زبان اس قابل ہوگئی کہ اپنی تمام تر تخیلات کو اردو کا جامہ باآسانی پہنایا جاسکتا ہے۔ اردو زبان آپ کا مکمل ساتھ دے گی۔ کہیں آپ محسوس نہیں کریں گے کہ اردو آپ کا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔ تشنگی تو ہرگز آپ محسوس نہیں کریں گے۔
ہم پورے شرح صدر سے یہ بات کہہ سکتے ہیں اقبال نے غالب کو ایک مفکر کی حیثیت جو شناخت دی یہ انہیں کا خاصہ ہے۔ حالانکہ اب تک لوگ طوائفوں کے کوٹھے پر ہی غالب کی شاعری کو سنتے تھے۔ اقبال کے اس نظم کے آنے کے بعد ہی غالب کے پرستار جنہوں نے غالب پر سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ امتیاز علی خان عرشی غالب کی جانب متوجہ ہوئے اور انہوں نے اقبال کے دیئے ہوئے ان اصولوں اور شناخت کی بنیاد پرہی اپنی تحقیق مکمل کی ۔
فون: 9958361526


No comments:

Post a Comment