Sunday, 25 November 2018

سپریم کورٹ بابری مسجد قضیہ پر کیوں فیصلہ نہیں سنانا چاہتی؟

سپریم کورٹ بابری مسجد قضیہ پر فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے؟

از:ظفر اقبال

بابری مسجد قضیہ کافیصلہ سپریم کورٹ کبھی نہیں سنائے گی، اس لئے سپریم کورٹ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو سلجھالیں۔ اس کو سپریم کورٹ مان لے گی۔ سپریم کورٹ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ واقعی ہندوستانی سپریم کورٹ بہت ہی بالغ ہے۔ سپریم کورٹ کی بلوغت سے کون انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کبھی بھی بابری مسجد کے قضیے پر فیصلہ نہیں سنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، تمام ثبوت مسلمانوں کے حق میں جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کی اکثریتی آبادی جو ہندو پر مشتمل ہے، ان کا اعتقاد بنادیا گیا ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ بنائی گئی ہے جس جگہ پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کی اکثریتی آبادی بضد ہے کہ کسی بھی طرح عظیم رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ جس دن بابری مسجد کو توڑی گئی اسی دن ایک عارضی رام مندر تو پہلے ہی بنادی گئی ہے، جہاں مسلسل پوجا ہورہی ہے، مسجد کی شکل تو اب بچی ہی نہیں ہے۔ہاں لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ہے جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی ، وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے مسجد کو ڈھاکر کر مندر یا گرجا گھر ہی کیوں نہیں بنادیا گیا ہو۔
اب مسئلہ ہے کہ سپریم کورٹ خود فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے ، اس کہ وجہ بہت ہی ٹھوس ہے اور وہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں کبھی مندر تھا جسے ڈھاکر یہ مسجد بنائی گئی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اگر عقیدہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ اکثریتی آبادی کے حق میں فیصلہ سنادیتی ہے تو اس سے سپریم کورٹ کا اعتبار ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ خطرے میں ہندوستان میں ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس کا خمیازہ انہیں بین الاقوامی سطح پر یو این او، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، ہیگ کی عدالت ہرجگہ ان کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان مسلمان اس کیس کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عالمی عدالت سے مدد حاصل کرسکتا ہے، اس چیز نے حکومت ہند اور سپریم کورٹ کوبے چین کررکھا ہے، اس بے چینی نے ہی انہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ زبردستی کسی معاہدہ پر پہنچنا چاہتے ہے۔ اگر یہاں کی مسلم قیادت کسی لالچ میں مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو ایک طرح سے یہاں کی پوری مسلم آبادی اللہ کی نظر میں مرتد ہوجائے گی، اللہ بھی یہاں کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدالت میں بھی ہم اپنے اوپر زیادتی کی فریاد بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے مسلم قیادت سے درخواست ہے کہ کسی بھی قیمت پر ہم اکثریتی آبادی سے اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرسکتے۔ چاہے بابری مسجد کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کو سونے کے محل بھی بناکر یہاں کی اکثریتی آبادی کیوں نہ دے دے۔
فون:9958361526

Sunday, 22 July 2018

امریکہ شیر کے دم سے کھیلنے سے باز رہے: صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی

امریکہ شیر کے دم سے کھیلنے سے باز رہے: صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی


از:ظفر اقبال


امریکہ شیر کے دم سے کھیلنے سے باز رہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو یہ تمام جنگوں کی ماں ہوگی۔ ایرانی صدر کا کہناہے کہ امریکہ کے لئے ایرا ن کے ساتھ امن ضروری ہے۔

ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا یہ بیان ولایت فقیہ وامر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کے ایک دن بعد آیا ہے جس میں آیت خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ اگر ایرانی برآمدات کو روکنے کی کوشش کی گئی تو ایران خلیجی ممالک سے ہونے والے برآمد ات کو روک دے گا۔

ایرانی صدر نے سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ ٹرمپ صاحب شیر کے دم سے نہ کھیلیں نہیں تو آپ کو بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے۔‘‘

صدر ایران نے یہ بھی کہا کہ ایران سے جنگ ’’تمام جنگوں کی ماں ہوگی۔‘‘
واضح رہے کہ رواں برس مئی میں ٹرمپ نے ایران سے ہوئے عالمی معاہدے سے یکطرفہ طور سے نکلنے کا اعلان کردیا تھا اور یہ بھی ٹرمپ نے اعلان کردیا تھا جو بھی ایران سے تجارت کرے گا اس پر امریکہ پابندی لگائے گا۔ ایران کی خاص تجارت تیل پر مکمل طور پر پابندی لگانے کا امریکہ اعلان کرچکا ہے۔اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے ایک دن قبل ہی یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ سے مذاکرات ایک فاش غلطی ہوگی۔انہوں نے ایرانی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ دنیا کی تمام حکومت سے اچھے تعلقات بنائے لیکن اس فہرست میں امریکہ کو ہرگز شامل نہ کیا جائے۔
فون:9958361526

Tuesday, 22 May 2018

امریکہ ایران سے بارہ مطالبات کرکے خود پھنس گیا

امریکہ ایران سے بارہ مطالبات کرکے خود پھنس گیا

از:ظفر اقبال

امریکہ کے وزیرخارجہ اور سابق سی آئی اے کے سربراہ  مائیک پومپیونے کل  ایران کے سامنے بارہ مطالبات  کی فہرست پیش کی ہے۔
 ان مطالبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کتنا طاقتور ہے۔ اتنی طاقت کے بعد اب ایران امریکہ کی گردن ہی کاٹ سکتا ہے۔ علاقے میں تعینات امریکی بحری بیڑے کو ڈبودینے کا وقت ایسا لگتا ہے آچکا ہے۔

وہ بارہ مطالبات حسب ذیل ہیں:

    ایران تمام جوہری سرگرمیاں بند کرے۔

    عالمی توانائی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو غیر مشروط طور پر تمام جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے۔

    جوہری وار ہیڈ لے جانے والے بیلسٹک میزائل تیار کرنا بند کرے۔

    دہشت گردی کی حمایت بالخصوص حماس، حزب اللہ اور اسلامی جہاد کی مدد سے باز آئے۔

    جوہری اسلحہ سازی کی ماضی کی کوششوں کو سامنے لائے۔

    حوثی باغیوں اور خطے میں دوسرے دہشت گردوں کی پشت پناہی ترک کرے

    شام میں موجود اپنی فورس کو وہاں سے نکالے۔

    افغانستان میں طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی مدد بند کرے۔

    القاعدہ کے جنگجوؤں کی میزبانی سے باز آئے۔

    پڑوسی ملکوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔

    ایران میں گرفتار تمام امریکیوں کو رہا کیا جائے۔

    سائبرحملوں کا سلسلہ روکا جائے۔

ان امریکی مطالبات کے آجانے کے بعد ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا زبردست بیان آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کون ہوتا ہے ہمیں حکم دینے والا۔
امریکہ   دراصل اپنی شکست سے  ذہنی توازن  کھوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ اسی پاگل پن کی دلیل ہے یہ مطالبات۔امریکی غنڈے جس کو امریکی حدود میں ہونا چاہئے وہ کیا کررہا ہے خلیج فارس اور مشرق وسطی میں۔ اس کا کیا کام ہے۔ سوائے غنڈہ گردی کرنے۔ اس لئے مشرق وسطی کے ممالک کو چاہئے کہ امریکی غنڈہ گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے ایک ساتھ امریکہ اور اس کے پچھلگو ریاست اسرائیل کو مشرق وسطی سے نکال باہر کرے۔ اس کے  علاوہ  ان کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں بچا ہے۔

Saturday, 28 April 2018

مودی کا دورہ چین غیر معمولی اہمیت کا حامل

مودی کا دورہ چین غیر معمولی اہمیت کا حامل


از:ظفراقبال


وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ چین خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہواہے جس وقت دنیا میں غیر معمولی تبدیلی آرہی ہے۔ علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی دستک سنائی دے رہی ہے اور بلکہ یہ دستک اب طبل جنگ میں بدلنے والی ہے۔وزیراعظم کا دورہ چین غیر رسمی ملاقات کے آڑ میں ہوئی ہے۔ دنیا میں تیزی کے ساتھ عالمی استعماری طاقت امریکہ اور اسکے حوارین کے خلاف ایک محاذ تیار کرنے کی تیاری کے سلسلہ کا حصہ ہے۔ گزشتہ دن یعنی 27اپریل 2018 کو دونوں کوریا شمالی اور جنوبی کوریا جو 1953میں کئی سالوں پر محیط طویل جنگ جھیل چکے تھے۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے کوریائی خطے میں نیوکلیائی جنگ کا خطرہ جس تیزی سے ساتھ بڑھا تھا اسی تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کو کل پہنچ گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے۔باہم دشمنی اب دوستی میں بدل چکی ہے۔ بلکہ 1953سے قبل دونوں ممالک ایک ہی ملک ہوا کرتے تھے۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان باہم رشتہ داریاں بھی ہیں۔ اسی دشمنی کی آڑ لے کر امریکہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے باوجود اسی علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنائے ہوا تھا۔ لیکن کل کے معاہدے کے بعد امریکی فوج کا انخلا شروع ہوجانا چاہئے۔ اب کوریائی خطے میں امریکی فوجیوں کا کیا کام ہے۔ امکان ہے کہ کل کے بعد چین اور ہندوستان کے درمیان جنوبی چینی سمندر کے تعلق سے جو تنازعہ چل رہا تھا اس میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس طرح چین کا جھگڑا افغانستان میں اپنے اپنے مفادات کے تعلق سے تھا اس مسئلہ پر بھی چین اور ہندوستان کے درمیان بہت حد تک قربت واقع ہوگئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چین نے امریکہ سے عالمی محاذ آرائی کے مقصد کے تحت ہندوستان کا امریکہ کے خلاف اپنے خیمے میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طرح مشرق وسطی میں ایران، روس، ترکی ، عراق، شام، لبنان اور یمن کا ایک محاذ بن رہا ہے جس کے تحت ہندوستان کے ساتھ ساتھ روس نے پاکستان کو بھی اپنے محاذ کا حصہ بنالیا ہے۔ ابھی کل ہی سوچی میں پاکستان اور ایران اور روس کے درمیان سیکورٹی کونسل کے سربراہ کی میٹنگ ہوئی ہے۔ ایک خاص بات اس عرصے میں اور ہوئی ہے کہ ہندوستان کے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر روس ہندوستان کو ایس۔400 دفاعی میزائل سسٹم فروخت کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ رواں برس ہی ہندوستان اور روس کے درمیان ایس۔400 کے تعلق سے معاہدہ ہوجائے گا۔ جس معاہدے کے بعد ہندوستان کو سیکورٹی کے تعلق سے جو خدشات تھے وہ ختم ہوجائے گا۔ امریکہ کے خلاف جو عالمی صف بندی ہورہی ہے کہ اس میں ہندوستان کی شمولیت یقینی ہورہی ہے ۔ ایران کے ساتھ چاہ بہار کا معاہدہ بھی اسی صف بندی کا حصہ ہے۔ ان ممالک کا ایک ہی مقصد ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ اور اس کے حوارین کو ایشیا ، افریقہ اور مشرقی بعید کے ممالک سے نکال باہر کرنا ہے اور اسے امریکی سرحد تک محدود کرنا ہے۔ اندازہ ہے کہ ایران اور روس کے درمیان یقینی طور پر یہ بھی معاہدہ ہوچکا ہے کہ جس معاہدے کے تحت اسرائیل کا مکمل طور سے خاتمہ اور فلسطین نام کی سلطنت کا قیام بھی ہے۔

فون: 9958361526


Monday, 9 April 2018

ایران کی طاقت سے امریکہ لرزہ براندام

ایران کی طاقت سے امریکہ لرزہ براندام


از:ظفر اقبال

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے 2013 میں یہ بات کہی تھی کہ ہم ساری دنیا کے دہشت گردوں کو شام میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کا وہ حشر کریں گے جس طرح مولا علی نے خیبر میں مرحب کا کیا تھا۔۔
واقعی حزب اللہ اور ایران نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انہوں نے باطل سے لوہا لے کر اس کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ حالت ہے کہ ایران، شام اور حزب اللہ کی طاقت سے امریکہ، اسرائیل اور منافق طاقتیں لرزہ براندام ہیں۔ کل رات شام میں میزائلوں سے حملہ کیا گیا، اب امریکہ کی یہ حالت ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہے۔ سب سے پہلی تردید امریکی کی آئی، پھر فرانس کی آئی اور اسرائیل اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ لیکن روس کا کہنا ہے کہ لبنان کے فضائی حدود سے شام میں داخل ہونے بغیر شام پر میزائل فائر کیا گیا، اسرائیل نے آٹھ میزائل فائر کئے جس میں پانچ میزائلوں کو شام کی ائر ڈیفنس نے ناکارہ بنادیا۔
ویسے مشرق وسطی ایک بڑی جنگ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس جنگ میں امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل ایران اوراس کے ساتھیوں کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں۔ امریکہ کے لئے بھی دو ہی راستہ بچا ہے، یا تو مشرق وسطی چھوڑ کر بھاگ جائے یا ایران سے جنگ کرے اس کے علاوہ کوئی آپشن اس کے پاس نہیں ہے۔ اب امریکہ کے لئے اپنی عزت بچا کر مشرق وسطی سے بھاگنا مشکل ہوگیا ہے۔ اب وائٹ ہاؤس اور پنٹاگن میں اب ایسا کوئی مشیر نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو اس دلدل سے نکال سکے۔ یمن میں امریکہ اور سعودی عرب اپنی ناکامی پر پہلے سے ہی ماتم کناں ہے۔ یمن میں دراصل سعودی عرب سے زیادہ امریکہ جنگ لررہا ہے۔ لیکن اب تک امریکہ اور سعودی عرب کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ جیسے جیسے جنگ دراز ہوتا جارہا ہے اسی طرح حوثی مجاہدین اسی قدر طاقتور سے طاقتورتر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے حوارین سے ایران کی بھرپور جنگ ہوتی ہے تو سارے مشرق وسطی کے ملیٹری بیسیز کو ایران اسی طرح تباہ کردے گا جس طرح کھیتوں میں ہل جوتے جاتے ہیں۔ اس چیز نے امریکہ کو پریشان کررکھا ہے اور پنٹاگن کے جنرل اور امریکی فوج کے مشیران پھونک پھونگ کر قدم اٹھارہے ہیں۔ اب مشرق وسطی کی یہ حالت ہے کہ یا تو اسرائیل رہے گا یا سعودی عرب میں آل سعود برسراقتدار رہے گا۔ اب دونوں کو جانا ہوگا۔ اس لئے یہ جنگ اسرائیل کی بقا کی جنگ ہے اس لئے جنگ کی نوعیت بہت ہی سنگین ہوگی۔
ان شاء اللہ اس جنگ میں ایران اور اس کے دوست فاتح ہوں گے اور امریکہ کی شکست اور اسرائیل کی نابودی اور آل سعودی کی تباہی پر منتج ہوگی۔
فون: 9958361526

Monday, 26 March 2018

یمن پر آل سعوداورامریکی یلغار

یمن پر آل سعوداورامریکی یلغار

از: ظفر اقبال

گزشتہ رات یمن کے حوثیوں نے ریاض کے علاوہ متعدد اہداف پر سات میزائلوں کی بارشوں سے سعودی عرب کے علاوہ اس کے حوارین میں بے چینی پھیلادی ہے۔ یمن کا اپنے ملک پر مسلط کردہ تین سالہ جنگ کے موقع پر آل سعود اور امریکہ کو سعودی عرب پر ایک زبردست حملہ کرکے حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ آل سعود اور خلیج فارس کے عرب ممالک سمجھتے ہیں کہ آسانی سے ہم یمن پر حملہ کرکے یمن پر قبضہ کرلیں گے اور حوثیوں کو ان کے اقتدار سے بے دخل کردیں گے۔ یہ خواب ان کا شرمندہ تعبیر کبھی نہیں ہوسکے گا۔ آج سے تین سال قبل جب عربوں نے حملہ کیا تھا تو سوچا تھاکہ یہ ننگے بھوکے اور جن کے پیر میں معقول چپل بھی نہیں ہے کس طرح ہمارے جیسے توانا توند والو ں کا مقابلہ کرسکیں گے جس کے ساتھ امریکہ ، اسرائیل، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی ٹکنالوجی میسر ہو لیکن یمن کے اخلاق اور جفا کشی کی تعریف جب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے تب ان شیطانوں کا اتحاد کیسے ان کوتباہ کرسکتا ہے۔ ہاں ان عربوں نے یمن کی فضائی، بحری اور بری ناکہ بندی کرکے ان کی طرح جانے والے امدادی سامانوں کو روک رکھا ہے ، خاص طور سے ایران ان یمنیوں کی کوئی مدد نہیں کرپارہا ہے ۔ہاں اس کے باوجود ان یمنیوں نے ایران کے سائنسدانوں اور حزب اللہ کے ماہرین کی مدد سے اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ امریکی اور یوروپین ٹکنالوجی کا بھرپور دفاع کرسکیں۔ اب تو دشمن پر مایوسی طاری ہورہی ہے۔ یمن میں لاکھوں غریب عوام سعودی عرب کی انا کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اللہ رحم کرے ان حوثیوں پر اور انہیں استقامت عطا کرے ، یہ میری دعا ہے۔
فون:9958361526

Monday, 5 March 2018

ایران کے مایہ ناز جنرل اور خالد بن ولید ثانی قاسم سلیمانی تجھے سلام

ایران کے مایہ ناز جنرل اور خالد بن ولید ثانی قاسم سلیمانی تجھے سلام


از: ظفر اقبال


جنرل قاسم سلیمانی جسے میں خالد بن ولید ثانی تصور کرتا ہوں، جنہوں نے اپنی 35 سالہ فوجی خدمات میں کبھی بھی کوئی محاذ نہیں ہارا ہے۔ قاسم سلیمانی کی پیدائش کرمان میں 1957 میں ہوئی۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی آرمس فورس میں سینئر ہونے کے ساتھ ایک زیرک اور متقی جنرل ہیں جنہوں نے اسلام کی سرپلندی کے لئے بہت ہی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے القدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے بیرون ملک جو خدمات انجام دی ہیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ 
جنرل قاسم سلیمانی نے افغانستان، عراق، شام اور لبنان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ جس کی وجہ سے دشمن کو وہ عبرت ناک شکست ملی ہے جس کو دشمن عشروں تک یاد رکھے گا۔ دشمن امریکہ، اسرائیل، سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور اس کے حامی منافق طاقتوں نے جس طرح ایران کو تہ وبالا کرنے کے لئے جس طرح کے حربوں کا استعمال کیا تھا ، اگر ایران کی وہ طاقت نہ ہوتی تو ایران دشت گردوں سے تہران اور اصفہان میں نبرد آزما ہورہا ہوتا، لیکن جنرل قاسم کی وہ حکمت عملی جس کے باعث دشمن کو عراق اور شام اور لبنان کی سرزمین پر شکست دی گئی، اس کے باوجود دشمن مسلسل اپنی سازشیں کررہا ہے۔ 
’واشنگٹن ٹائمز‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ایرانی پاسداران انقلاب کی بیرون ملک سرگرم عسکری تنظیم ’فیلق القدس‘ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو انتہائی خطرناک اور دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس پر پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔واشنگٹن ٹائمز میں شائع کینتھ ٹیمرمن کی رپورٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنرل سلیمانی کے اثاثوں پر پابندی عاید کرنے کے ساتھ فیلق القدس کے ساتھ مالی تعاون کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے خلاف بھی کارروائی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سلیمانی پر عالمی سفری پابندیاں عاید کی جائیں اور فیلق القدس کو دہشت گرد گروپ قرار دے کر اسے بلیک لسٹ کیا جائے۔جنرل سلیمانی کو عالمی دہشت گرد قراردینے کا سبب ان کا عراق، یمن اور شام میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کرنا ہے۔ 
اگرچہ سلیمانی کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب ممالک میں انسداد دہشت گردی میں سرگرم ہیں مگرعملا وہ خود دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہوئے عرب ممالک کو کمزور کررہے ہیں۔ادھر واشنگٹن انسٹیٹیوٹ نامی ایک تھینک ٹینک نے بھی جنرل سلیمانی کے خطرات پر انتباہ کرتے ہوئے بتایا سلیمانی لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ پر اپنا اثرونفوذ کس طرح بڑھا رہے ہیں۔‘‘
یہ تمام باتیں جو واشنگٹن ٹائمز نے تحریر کی ہے وہ ان کی شکست خوردگی کی دلیل ہے، ان کی جھنجھلاہٹ اس بات کی غماز ہے کہ وہ کس قدر پریشان ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب اور عرب ممالک جنرل قاسم کی اہلیت کے سامنے کس قدر بے بس نظر آرہے ہیں، دشمن طاقتیں ان کی موت کی متمنی نظر آرہی ہے۔ جنرل قاسم کا شام میں روس کو ہوائی حملہ کرنے کے لئے آمادہ کرنا ان کا ایک بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہی بشار الاسد کی مشکلیں کافی کم ہوگئیں اور ان کا اقتدار بہت حد تک محفوظ ہوگیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والے جنرل قاسم سلیمانی ہی ہیں۔ اگر جنرل قاسم کی وہ خدمات نہ ہوتی تو شام، عراق اورلبنان ابلیسی تباہ کاریوں کے چنگل میں پھنس چکا ہوتا جس سے سب سے زیادہ اگر کسی کو فائدہ ہوتا تو وہ اسرائیل ہوتا، جس سے اسرائیل مکمل طور سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
فون:9958361526


مجوزہ تصویر میں جنرل قاسم سلیمانی خاکی یونیفارم میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے حامی فوجی ان کی طرف متوجہ ہیں۔

Thursday, 1 March 2018

سنی مسلماں شیعوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے

سنی مسلماں شیعوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے


از: ظفر اقبال

ساری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والا امریکہ اور اسرائیل ہے۔ ساری دنیا بلکہ ساری مظلوم قوم اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ساری مصیبتوں کی جڑ امریکہ ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، صومالیہ اور ویتنام میں امریکہ اور اس کے حوارین نے کیا کیا۔ لیکن ہائے بدنصیب سنی مسلمان جو تیرا قاتل ہے اسی کو تو مسیحا سمجھتا ہے۔ ابھی فلسطین کا مسئلہ چل رہا ہے۔ امریکہ ساری دنیا کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔ فلسطین اور ساری دنیا کے مسلمان خون کے آنسو رو رہے ہیں ایک تو ہے کہ امریکہ کے تلوے چاٹنے والے عرب ممالک کا ساتھی بنا پھر رہا ہے۔ وہ اس لئے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کا دشمن ہے۔ مجھے اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ سنی مسلمان بغیر کسی مطلب کے، بغیر کسی ثبوت کے شیعوں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔ شیعوں نے سنیوں کا کیا بگاڑا ہے۔ سوائے چند فقہی اختلافات کے۔

Saturday, 24 February 2018

شام کی جنگ آخری مرحلے میں داخل

شام کی جنگ آخری مرحلے میں داخل

Syria_Ghouta_war#

از: ظفر اقبال


شام کی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حلب ، حما ۃ کی آزادی کے بعد اب دمشق کے مضافات غوطہ کے علاقے میں دہشت گردوں کی حمایت یافتہ ممالک کی جانب سے تھوپی گئی جنگ جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام جو اسرائیل کے مدمقابل ایک دیوار ہے جس کو ڈھانے کے لئے اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر عرب ممالک 2011سے جنگوں کا جو لامتناہی سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس جنگ کی وجہ سے عراق اور شام کا بیشتر علاقہ کھنڈروں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے اشارے پر ناچنے والے عرب ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے دہشت گردوں کو جس طرح مسلح کیا اور اپنے خزانے ان دہشت گردو ں کے لئے کھول دیئے تاکہ شام کا حامی ملک ایران جو حقیقت میں اسلام کا قلعہ ہے جو باطل طاقتو ں کے سامنے 39 برسوں سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط کھڑا ہے۔ اس کا انہدام یقینی ہوجائے۔ لیکن ایران اور شیعہ دنیا کے ناقابل یقین حد تک مستحکم قیادت اور بالغ عوام نے دشمنوں کے ہر سازش کو ناکام بناتے ہوئے اپنے خون سے تاریخ میں وہ ناقابل یقین جنگی تاریخ لکھ ہی ہے جس پر عالم اسلام کی آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔

شیعہ دنیا نے شام اور عراق کے لئے خون کے وہ نذرانے پیش کئے ہیں اگر آیت اللہ سیستانی اور ولایت فقیہ ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کی وہ لاجواب قیادت نہ ہوتی تو عرب دنیا خاک وخون میں نہانے کے بعد یوروپ اور امریکہ کی جولان گاہ بن چکا ہوتا۔ سنی دنیا ایران اور خاص طور سے شیعہ طاقتوں کے تعلق سے بہت ہی پش وپیش کی شکار ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ ایران اور شیعہ امریکہ اور اسرائیلی کے اشارے پر کام کررہے ہیں، جو لایعنی باتیں ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو ایران اور شیعہ دنیا نے خود عراق اور شام میں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اب وہ خود اس آگ کی حدت تل ابیب میں محسوس کررہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل سب سے زیادہ پریشان لبنان اور شام کی حکومت سے ہے ۔ جس نے حالیہ دنوں اسرائیل کو جو جھٹکا دیا ہے جب گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا ایف۔16 جنگی جہاز مار گرایا۔۔ اس کے بعد اسرائیل شام اور لبنان میں کسی طرح کی مہم جوئی سے بچنے کی کوشش کررہا ہے۔ حزب اللہ کے اندازا ڈیڑھ لاکھ میزائل اور ایران کی غیر معمولی طاقتوں کے سامنے امریکہ اور اسرائیل پر سکتہ طاری ہے۔ اسرائیل کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ ایران اور شیعہ دنیا اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ پر تنگ کئے جارہا ہے۔ ایران دراصل اسرائیل کو اس بات کے لئے مجبور کررہا ہے کہ وہ لبنان یا شام یا ایران پر حملہ کردے۔ اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ ایران وہ کچھ کرنے کی تیاری کرچکاہے جس کا وہ بارہا اعلان کرچکا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹادینا ہے۔ صرف فلسطین ایک ملک رہے گا اسرائیل کا نام ونشان مٹادیا جائے گا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے عروج کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ایران اور شیعوں کے تعلق سے مثبت رویہ اپنائیں نہ کہ انہیں دشمن گردانیں۔ اگر ہم اس حقیقت سے آنکھ چرانے کی کوشش بھی کریں گے اس پر سنی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
فون: 9958361526

Tuesday, 6 February 2018

اے سنی دنیا کے حکمرانو! امریکہ کے تلوے چاٹنا بند کرو

اے سنی دنیا کے حکمرانو! امریکہ کے تلوے چاٹنا بند کرو


Sunni_world_USA#

از:ظفر اقبال


عراق سے امریکی فوج جوتے چھوڑ کر بھاگ رہی ہے وہ اس لئے کے عراقی حکومت نے امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ اپنی فوج عراق سے نہیں نکالتی ہے تو اس پر حملے کئے جائیں گے۔ لیکن سنی دنیا خاص طور سے عرب دنیا امریکی فوج کی موجودگی کوسیکورٹی کی ضمانت سمجھتی ہے۔ جو امریکہ دنیا کے سارے مسلمانوں کی مصیبتوں کی جڑ ہے اسی سے اپنی سیکورٹی کی بھیک مانگتی ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار اے سنی دنیا۔ حزب اللہ عراق کا کہنا ہے کہ اگر امریکی فوج نہ بھاگی تو عراق میں جینا حرام کردیں گے۔ شیعوں کے انتقام سے امریکہ اچھی طرح واقف ہے۔ امریکہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے جب 1983 تک لبنان میں امریکی بحری اڈہ ہوا کرتا تھا لیکن حزب اللہ نے ان امریکیوں سے وہ انتقام لیا، جس حملے میں امریکہ کے 281 میریز مارے گئے تھے جس کے بعد لبنان کا نام سن کر امریکہ پر وحشت طاری ہوجاتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے امریکی حکومت کی خصلت کے بارے میں کیا خوب بات کہی تھی کہ ’’امریکہ اس کتے کی طرح ہے جس سے تم اگر ڈروگے تو وہ تمہارے پیچھے لگ جائے گا اور ڈراؤگے تو دم دبا کر بھاگ جائے گا۔‘‘

فون: 9958361526

Sunday, 4 February 2018

یمن کی جنگ عرب اتحاد کے گلے کی ہڈی

یمن کی جنگ عرب اتحاد کے گلے کی ہڈی

#Yemen_Arab_allaince_Houthi

از: ظفر اقبال

یمن کی صورت حال سے عرب اتحادی بظاہر خوش نظر آرہے ہیں لیکن اس درد کے پیچھے ان کی تباہی چھپی ہوئی ہے۔ جو جلد ہی وہ اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ عدن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کرائے کے غنڈے آپس میں لڑ گئے ہیں اور متحدہ عرب امارات کا ایک طرح سے عدن پر کنٹرول ہوگیا ہے۔حوثی تین برسوں سے اس جنگ کا مقابلہ کررہے ہیں جو ان پر تھوپی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی قیادت اس قدر مضبوط ہے جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ سابق صدر عبداللہ صالح یقینا وہ اس طرح کے مزاج کے حامل رہے ہیں کہ جس کا پلڑا بھاری ہو وہ اسی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سعودی کے فریب میں آکر اپنے کیفرکردار کو پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح یمن پر ایک طرح سے مکمل طور پر حوثیوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔
یمن کے قبرستان حوثی شہداء کی لاشوں سے بھرگئے ہیں اور سعودی عرب اس بات سے خوش ہے کہ اس نے اس قدر یمنی شہریوں کو ہلاک کیا۔ ارے کرمنل عرب اتحادی فورسز تم کیا جانوں شہادت کیا ہوتی ہے جو قومیں زیادہ شہادتیں پیش کرتی ہیں وہ زیادہ طاقتور قوم ہوتی ہے۔ جو اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن باطل اور جارح طاقت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر عرب اتحاد کے نیوز چینل العربیہ اردو مسرت کا اظہار کررہے ہیں کہ ہم نے اس قدر یمنی جوانوں کو شہید کیا ہے۔ اب تک تین برس ہوگئے ہیں اس کمزور عرب ملک پر حملہ کرتے ہوئے لیکن سوائے پشیمانی کے تم نے حاصل کیا ہے۔ یمنی اب اپنے فوجیوں اور عوام کی شہادتوں کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوکر ابھرے ہیں۔ ان کو جنگ کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔





Friday, 2 February 2018

راشد شاز

راشد شاز

rashid_shaz_thougths

از:ظفر اقبال


ڈاکٹرراشد شاز ہندوستان میں ایک ابھرتے ہوئے دانشور ہیں جو فی الحال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ان کی کتاب جاذب نظر بھی اورکتاب صوری اور معنوی اعتبار سے دیدہ زیب بھی نظر آتی ہے۔ کتاب کی ظاہری شکل دیکھنے کے بعد آپ ان کی کتاب کو پڑھنے کے لئے مجبور ہوں گے ۔ ان کی کتاب جو کافی مقبول ہوئی وہ کتاب ’ادراک زوال امت ‘ ہے ۔ یہ کتاب کافی ضخیم ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوگا کہ انہوں نے عالم اسلام کے زوال کی جن جن وجوہات کو بیان کیا ہے وہ بہت ساری درست ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ کہ ان کی چودہ کتابیں آنے کے باوجود اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے صرف سوال اٹھائیں ہیں۔ مسئلہ سوال اٹھانے کے بعد مصنف پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ کسی بھی عمارت کو ڈھانے سے قبل اس کی تعمیر نو کا بھی ارادہ کرنا چاہئے۔ ہم صرف ڈھانے پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن تعمیر نو کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ یہ تو اس سے بھی زیادہ بربادی کی بات ہوگی۔ وہ اسی طرح بات ہوگی کہ ہم اپنے بوسیدہ گھر کو ڈھادیں لیکن نئی عمارت کی تعمیر کا ہمارا کوئی ارادہ نہ ہو۔ یہ تو سراسر تشویش کی بات ہوگی کہ ہم کھلے جگہ پر آجائیں۔ اب جبکہ راشد شاز نے چودہ کتابیں صرف ا س لئے لکھ ڈالی ہیں کہ تاکہ امت میں پھیلی ہوئی جہالت اور کنفوزن جو ہے اس کا ادراک یہ امت کرلے۔ ان برسوں کے بعد اب محسوس ہوتا ہے کہ راشد شاز اب امت کے مسائل کی تدارک کا حل بھی پیش کریں، نہیں تو ان کی بات محض صدائے بصحراہی رہے گی۔

فون:9958361526

Sunday, 28 January 2018

شیطان کا سایہ ہندوستان پر

شیطان کا سایہ ہندوستان پر


Devil_Israel_India

از:ظفر اقبال

اسرائیل کے وزیراعظم کے جاتے ہی ہندوستان آگ اور خون میں نہارہا ہے۔ ہندوستان میں کاس گنج جیسے فسادات بہت زیادہ ہوں گے ابھی پچھلے ہفتے ہی عالمی دہشت گرد ملک اسرائیل کا وزیراعظم ہندوستان کے 6 روزہ دورے کے بعد واپس اسرائیل پہنچتے ہی ہندوستان میں دہشت اور تباہی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس طرح اسرائیل دنیا میں تباہی پھیلانا چاہتا ہے تاکہ خود اپنے ملک میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے اس کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے اور دوسرے ممالک میں دہشت گردی میں اس قدر اضافہ کیا جائے تاکہ وہ عالمی رہنماؤں کو گمراہ کرسکے کہ صرف ہمارے ملک میں ہی دہشت گردی اور تباہی نہیں ہورہی ہے بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے ارباب واقتدار اسرائیلی وزیراعظم کے فریب میں آچکی ہے اور خود اپنے ملک میں ہی تباہی و بربادی کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع کرنا چاہ رہی ہے۔ جو خود ہندوستان کے امیج کو دنیا کے سامنے سفاکانہ طور پر اسرائیل پیش کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دنیا میں یہ پیش کرسکے کہ صرف مسئلہ ہمارے یہاں ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں بھی اقلیتوں کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جارہا ہے اور یہاں کی اقلیت خوف میں جی رہی ہے۔ جب تباہی بہت زیادہ مچ چکی ہوگی تب شاید ہندوستان کی حکومت کو اس بات کا احساس ہوگا کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوچکی ہے۔ اسرائیل کسی کا بھی نہیں ہے بلکہ وہ ہندوستان کی حکومت کو استعمال کررہی ہے اور بعد میں وہ ٹشو کی طرح استعمال کرکے پھینک دینے میں وہ ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرے گی۔
فون:9958361526

Saturday, 20 January 2018

امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنی صف بندی ایران کی قیادت میں کریں

امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنی صف بندی ایران کی قیادت میں کریں


Muslim_Umma_Iran#



از:ظفر اقبال



خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحادی فوجوں نے پہلی جنگ عظیم لڑی جس میں خلافت عثمانیہ کے علاقوں کی بندر بانٹ کی گئی۔ جس کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا علاقہ سمٹ کر محدود ہوگیا ۔ 1923میں کمال اتاترک کے ہاتھوں باقی ماندہ خلافت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ نے امت مسلمہ جو یک جان اور یک قالب تھی وہ منتشر ہوگئی۔ انہیں حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال جیسی شخصیت مضطرب ہواٹھتی ہے۔ وہ بے ساختہ چینخ پڑتے ہیں اور فرماتے ہیں:

مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریاہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
خلافت کے خاتمہ نے امت مسلمہ کو بالکل بے آسرا کردیا۔ خلافت کی شکل میں امت مسلمہ کا جو ایک مرکز تھا وہ بکھر گیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ امت مسلمہ یتیم ہوگئی۔اسی یتیم ہونے کے غم نے امت مسلمہ کے پژ مردہ جسموں میں روح ڈالنے کے لئے بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں 1928میں مصر میں حسن البناکی قیادت میں اخوان المسلموں کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹھیک 1941میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی قیادت میں برصغیر میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا، جو بعد میں جماعت اسلامی پاکستان، جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی شکل میں تین حصوں میں منقسم ہوگئی۔ اسی طرح انڈونیشیا، ملائشیا اور دیگر بہت سارے ممالک میں اسلامی تحریکات مختلف شکلوں میں کام کرنے لگی جس کا صرف ایک مقصد تھا کہ خلافت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے امت مسلمہ کے اندر جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو کسی طرح پر کیا جائے۔ امت مسلمہ خاص طور سے سنی مسلمان اپنی احیا کے لئے خلافت عثمانیہ کے بعد اپنے ہی لوگوں کے درمیان احیا کی کوشش کرتے رہے اور اب بھی کررہے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی صفر کا صفر نکلا۔ سنی دنیا کی نگاہیں عرب دنیا کے بادشاہوں کے نظر کرم کی محتاج ہونے لگیں ، عرب دنیا کے وہی بادشاہ جو ان غاصب طاقتوں برطانیہ اور امریکہ کی زیر سرپرستی تھے، انہیں کے زیر عاطفت چلی گئی، جس کی وجہ سے امت مسلمہ کو کوئی کامیابی نہیں ملی اور امت مسلمہ مزید تاریکی میں جاتی رہی ۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، جس طرح یہودیوں نے اللہ سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے لئے ایک ایسا حکمراں بھیج دیجئے جس کی قیادت میں ہم اپنی ایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھیں ۔ ان کی دعائیں بارگاہ الہی میں قبول ہوئیں لیکن ان یہودیوں کی خواہشوں کے برعکس حضرت طالوت کا انتخاب اللہ نے کردیا۔حضرت طالوت کے انتخاب کے بعد یہودی بہت ہی پریشان ہوگئے اور بغاوت پر اترآئے کہ ہم نے تو طالوت جیسے بے حیثیت آدمی کے انتخاب کی بات نہیں کی تھی ہمیں اس سے بہتر اور من پسند آدمی کی تلاش تھی۔ لیکن جب اللہ کا انتخاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ بات ہوکر رہتی ہے ۔ پھر انہوں نے فلسطین میں اپنی طاقتور حکومت قائم کی۔ خلافت عثمانیہ کے بعد امت مسلمہ کے نیک اور صالح افراد نے بھی بہت دعائیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کیں ۔ اے اللہ اس امت مسلمہ جو بے اثر اور سمندر میں جھاگ کی مانند ہے اس کو عزت عطا کر اور دنیا میں کھویا ہوا مقام عطا کر۔ اللہ نے امت مسلمہ کی دعا قبول کرتے ہوئے اس کی سوچ سے ٹھیک برعکس ایران کو اپنے مقصد کے لئے منتخب کیا ، وہی ایران جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب سے ہمکنار ہوا۔ ایران امت مسلمہ کو بے پناہ درد دینے والے برطانیہ اور امریکہ کے خلاف مسلسل مقابلہ کررہا ہے۔ لیکن امت مسلمہ جن کا تعلق سنی مسلمانوں سے ہے وہ شیعہ ایران کو قبول کرنے سے انکار کررہا ہے۔ٹھیک اسی یہودیوں کی طرح جس نے اللہ کے انتخاب حضرت طالوت کا انکار کردیا تھا۔ لیکن اللہ کی سنت ہے کہ وہ جب کوئی فیصلہ لے لیتا ہے تو پھر اس کے فیصلے کو نافذ کرنے سے دنیا میں کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ہم امت مسلمہ کو ایران کے امام خمینی کے قوم کے ہاتھوں ہی وہ عزت ملے گی جس کے لئے ہم تقریبا ایک صدی سے اللہ کے حضور صف بستہ دعاگو ہیں۔ اللہ کی سنت نہ کبھی بدلی ہے اور نہ بدلے گی۔ اس لئے سنی مسلمانوں کو چاہئے کہ ایران کی قیادت میں اپنی صف بندی کرے۔ اللہ اس امت مسلمہ کو ضرور سرفرازی سے ہم کنار کرے گا۔
فون:9958361526




Tuesday, 16 January 2018

بی جے پی والے ہندوستان کا مسیحا نیتن یاہو

بی جے پی والے ہندوستان کا مسیحا نیتن یاہو

India_BJP_Netanyahu#


از ؛ظفر اقبال



ہندوستان کی بی جے پی حکومت کے لئے ٹرمپ اور نیتن یاہو کسی مسیحا سے کم نہیں۔ آج کل اسرائیل کے وزیراعظم ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ ان کے دورے کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیل ہمارے لئے کس قدر اہم ہے۔ اسرائیل سے ہمیں ہر شعبے میں جدید تکنالوجی حاصل ہوسکتی ہے اور زراعت میں وہ ہمیں اہم رہنمائی کرسکتا ہے جس سے ہماری معیشت بہت ہی مستحکم ہوجائے گی ۔ خاص طور سے دفاع کے معاملے میں اس کی تکنالوجی کا جواب تو ساری دنیا میں نہیں ہے۔ 
ہندوستان کی بی جے پی حکومت اور زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اسرائیل کو مظلوم کے طور پر پیش کررہا ہے کہ اسرائیل عرب مسلمانوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔ جن عربوں نے اسرائیل کی زندگی تنگ کردی ہے اور ہر وقت اسرائیل کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔کئی دنوں سے زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اسی طرح کی بکواس کئے جارہاہے۔ مشرق وسطی کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ 14جنوری 2017کو اسرائیل کے وزیراعظم جب ہندوستان کے دورے پر آئے تو ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی ائر پورٹ سے سیدھے ترمورتی چوک لے گئے جہاں اس چوک کا نام بدل کر ترمورتی حیفہ چوک کا نام رکھ دیاگیا ہے۔ کمال ہوشیاری کی بات یہ ہے کہ حیفہ اسرائیل( مقبوضہ فلسطین )کا ایک شہر ہے جو فی الحال اسرائیل کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے برطانوی نے چھین لیا تھا۔ اس جنگ میں پندرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں نے برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس جنگ سے ہندوستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ میں ترکی، جرمنی اور اٹلی محوری طاقت تھے۔ دو سال قبل جب وزیراعظم نریندر مودی صاحب جرمنی کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے جرمنی کے چانسلر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے اپنے پہلے ہی جملے میں پہلی جنگ عظیم میں پندرہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں کی موجودگی کے سلسلے میں جرمن قوم سے معافی مانگتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اس جنگ سے ہم ہندوستانیوں کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ ہم برطانیہ کے غلام تھے اور ہمیں زبردستی اس جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن اب ہمارے وزیراعظم نریندر مودی خم ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی فوجیوں نے ترکی سے یہ علاقہ چھین کر اسرائیل کے حوالہ کیا اسرائیل کی جنگ آزادی میں ہندوستان نے اسرائیل کی مدد کی۔ اس طرح کی باتیں ٹی وی چینلوں کے ذریعہ مسلسل پھیلائی جارہی ہے۔ ویسے وزیراعظم اپنی تضاد باتوں کے لئے مشہور ہیں۔ اس چیز کو وہ برا بھی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اسے ہنر سمجھتے ہیں۔ 
13جنوری 2017کو لوک سبھا ٹی وی پر ہندوستان۔ اسرائیل پر ایک مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے سابق نائب آرمی چیف کادیان نے ایک اہم بات کہی تھی کہ ہندوستان اور اسرائیل کارشتہ اس قدر گہرا ہے کہ 1984میں جب پاکستان ایٹمی اسلحہ تیار کررہا تھا تو اس وقت اسرائیل نے جام نگر ہوائی اڈے ہندوستان سے مانگا تھا تاکہ وہ پاکستان کے نیوکلیائی پلانٹ پر حملہ کرسکے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن اس کی بھنک سی آئی اے کو لگ گئی، سی آئی اے نے اس کی اطلاع پاکستان کی حکومت کو دے دی۔ پاکستان نے ہندوستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل ایسا کرتا ہے تو وہ وہ ممبئی میں واقع بھابھا ایٹمی ریکٹر کو تباہ کردے گا ۔ جس کے بعد ہندوستان نے جام نگر ہوائی اڈے کے استعمال سے اسرائیل کو روک دیا۔ واضح رہے کہ 1984میں پاکستان امریکہ کے لئے ایک اہم کارنامہ انجام دے رہا تھا وہ تھا روس کے خلاف افغان جنگ میں وہ ایک جنگی بیس کے طور پر امریکہ کے لئے کام کررہا تھا۔ ایسے میں اگرپاکستان کے ایٹمی ریکٹر پر اسرائیل کا حملہ ہوتا تو روس کے خلاف امریکہ کے لئے پاکستان ایک بیس کے طور پر استعمال ہورہا تھا اس کی نوعیت بدل جاتی اور یہ جنگ ہندوستان اور اسرائیل کے خلاف ہوجاتی اور پاکستان کا دھیان روس سے ہٹ جاتا جس سے امریکہ کا جو مقصد تھا کہ روس کو شکست دینے کا وہ ادھورا رہ جاتا ہے اس لئے سی آئی اے نے پاکستان کی اس سلسلے میں مدد کی۔ 
فی الحال امریکہ میں ٹرمپ ایک ایسے صدر کے طور پر اپنی پہچان بنارہے ہیں جس کو خود امریکی پسند نہیں کررہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کا عشق لائق دید ہے۔ شاید ہندوستان کی بی جے پی اور آر ایس ایس زہنیت رکھنے والے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ہم ہندوستان میں یہاں کے مسلمانوں کے دشمن ہیں اسی طرح امریکہ اور اسرائیل بیرون ملک میں مسلمانوں کا دشمن ہے۔ اس طرح ہم دونوں ایک کشتی کے سوار ہیں۔ بی جے پی کو یہ بات معلوم نہیں ہونی چاہئے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ہندو ملک نہیں ہے۔ یہاں دو سو ملین مسلم آبادی رہتی ہے جس کو دبایا نہیں جاسکتا۔
فون: 9958361526