Sunday, 31 July 2016

انسانیت کی خدمت

انسانیت کی خدمت

#iqbal_Humanity

علامہ اقبال کا وہ خط جس میں انہوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے قریبی نوجوان دوست مسٹر راغب احسن کو اس بات کی تحریک دی ہے کہ انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑی خدمت ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت اور سوشلزم کے فروغ کو ہندوازم کی موت قرار دیا ہے۔ وہ خط ملاحظہ ہو۔
ذرا مسٹر راغب احسن صاحب کے تعلق سے جان لیں کہ وہ کون ہیں، راغب احسن صاحب کا تعلق بہار کے گیا ضلع سے ہے، ان کی پیدائش 1904 میں ہوئی تھی۔ علامہ اقبال اس نوجوان سے بہت متاثر تھے اور مستقبل کے تعلق سے ان سے کافی پرامید تھے۔
مسٹر راغب احسن مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح بھی ان سے کافی متاثر تھے۔ محمد علی جناح ان سے وقتا فوقتا مشورہ بھی کیا کرتے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ محمد علی جناح نے ان کے نام تین سو خطوط تحریر کئے ہیں۔ وہ 1947 میں پاکستان ہجرت کرگئے تھے، ان کا انتقال 1975 میں کراچی میں ہوا تھا۔

Friday, 29 July 2016

جمہوریت

جمہوریت

Democracy# 

جمہوریت ہی میں تمام انسانیت کی عافیت ہے، یہ اسی جمہوریت کا تسلسل ہے جس کی ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جو جمہوریت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ہوتے ہوئے یوروپ اور دیگر ممالک پہنچی۔ اس لئے کہ جمہوریت میں کوئی بھی سربراہ ہو اس کو حریف سے کوئی خاص خوف نہیں ہوتا ہے، اس لئے دونوں کو حکومت کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں۔ دونوں طرح کی پارٹیوں کے رہنما عوام کی بھلائی اور کاز کے لئے کام کرتے ہیں۔ لیکن بادشاہت میں حریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ حریف کو ہر حال میں ہلاک کردیتے ہیں یا ان حریفوں کو دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑتی ہے۔
جمہوریت میں عوام پوری طرح حکومت میں شراکت دار ہوتے ہیں۔ جمہوریت پاکستان میں ناکام ہوگئی یا کردی گئی اس کا مطلب ہر گزیہ نہیں کہ دیگر ممالک میں بھی ناکام ہوگئی۔ شخصی حکمرانی یا ڈکٹیٹرشپ جو عالم اسلام میں زیادہ تر ممالک میں رائج ہے یہ سراسر اسلام مخالف ہے۔ اس عہد میں جمہوریت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔جمہوریت تمام خامیوں کے باوجود سب سے بہتر نظام حکومت ہے۔ اگر کوئی ظالم برسراقتدار آگیا تو وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال یا چار سال تک ہی برسراقتدار رہے گا۔ لیکن بادشاہت یا ڈکٹیٹرشپ میں تازندگی بلکہ کئی نسلوں تک عوام کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اگر آپ کو اس ظالم حکمرانی کا مشاہدہ کرنا ہے توخلیج عرب میں اور مصر میں اس ڈکٹیٹرشپ کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کا مشاہدہ کرنا ہے تو آپ کو یورپ اور ہندوستان کی طرف دیکھنا چاہئے جہاں کتنی آسانی کے ساتھ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔

Thursday, 28 July 2016

عورت اور مرد دونوں شعور کے اعتبار سے یکساں صلاحیت کے مالک

عورت اور مرد دونوں شعور کے اعتبار سے یکساں صلاحیت کے مالک

#women_and_men_equal# 

مردوعورت یکساں صلاحیت کے مالک ہیں، دنیا میں مسلم علماء کی جانب سے جتنی بھی باتیں آئیں ہیں، ا ن علما کی باتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت مرد کے مقابل ناقص العقل ہوتی ہیں، ان کو قیادت کی ذمہ داری نہیں دی جاسکتی وغیرہ۔ یہ معاملہ صرف مسلم خواتین کے تعلق سے ہیں اگر دنیا پرنظر ڈالی جائے تو اس وقت دنیا کےمتعدد اہم عہدوں کی سربراہ خواتین ہیں جو کئی برسوں سے بحسن خوبی قیادت کررہی ہیں، پہلی مثال یوروپی یونین کی پولیٹیکل سربراہ موگرینی فیڈرک ، دوسری آئی ایم ایف کی سربراہ لوگارٹ اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور خود ہندوستان میں اندرا گاندھی اور ماٖضی بعید میں رضیہ سلطانہ دہلی کی تخت پر متمکن رہ چکی ہیں۔
جب مولانا مودودی نے پاکستان میں 1967 کے الیکشن کے دوران جنرل ایوب خان کے بالمقابل فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کیا تو اس وقت کے متعد د علما نے اس نام ونہاد مفروضے کا سہارا لے کر اس کی سخت مخالفت کی۔جیسے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اسی مسئلے پر جماعت سے علیحدگی اختیار کی۔
عورت کے ناقص العقل ہونے کے اس مفروضے سے امت کب نکلے گی ، اس سلسلے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اللہ نے صرف قرآن میں ایک جگہ کہا ہے کہ جب ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلادے، اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔
اس بھولنے کی عادت کی وجہ سے حضرت عائشہ (رضی) سے بھی ایک بھول ہوئی جس کی وجہ سے جنگ جمل کا واقعہ پیش آیا تھا۔جب وہ حضرت علی (رضی) کے خلاف خروج کے لئے نکلی ،ان کو بروقت حضرت محمد صلعم کی یہ بات یاد آجاتی کہ بنی کلاب کی کتے جب بھونکنے لگے تو سمجھنا کہ تم ناحق ہو، ان کے اس بھول کی وجہ سے سینکڑوں صحابی مارے گئے۔عورت اور مرد دونوں کی عقل برابر ہے ، اس لئے دونوں کو یکساں مواقع ملنے چاہئے تو دیکھئے یہ قوم کس قدر آگے جاتی ہے۔
مختلف حدیثوں سے یہ باتیں ثابت ہیں کہ بچوں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے، یہ اس امت کا المیہ ہے کہ اس امت کی مائیں صدیوں سے جاہل ہی رہیں انہیں علما کے فتوؤں کے باعث خواتین کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔اس امت کی جو حالت ہونی تھیں وہ سب کے سامنے ہے۔
کیامسلمانوں کی خواتین ہی ناقص العقل ہوتی ہیں غیر مسلموں کی خواتین ناقص العقل نہیں ہوتی ہیں، مجھے ان علماء کے بصیرت پر شرم آتی ہے جو عورت کو ناقص العقل بھی کہتے ہیں لیکں ماضی قریب تک ایک عالم جو ایک تنظیم کے سربراہ بھی ہیں، ایک عورت سونیا گاندھی کے سامنے اپنا دکھرا سنانے پہنچ جاتے تھے، جو تصویریں اخباروں کی زینت بھی بنتی تھیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

عربوں کی بے غیرتی اور فلسطین

عربوں کی بے غیرتی اور فلسطین

Arab_Palestine#

بیت المقدس چودہ سو برسوں کی اسلامی تاریخ میں دو مرتبہ غیر وں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہے۔ پہلی مرتبہ سن 1099عیسوی میں صلیبیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا تھا۔ بیت المقدس اس وقت یرغمال بنا تھا جب عربوں کی حکمرانی تھی لیکن کرد جنرل سلطان صلاح الدین ایوبی (رح)کے ہاتھوں تقریبا 88سالوں کے بعد 1187عیسوی میں بیت المقدس آزاد ہوا۔ جب ترکوں کے ہاتھوں میں بیت المقدس کا منیجمنٹت آیا توبیت المقدس پوری طرح محفوظ ہوگیا۔ ترکوں نے خلافت عثمانیہ کی صورت میں ہر قیمت پر بیت المقدس کی حفاظت کی۔
پہلی عالمی جنگ جو دراصل خلافت عثمانیہ کو توڑنے کے لئے ہی لڑی گئی تھی جس کا خاص مقصد بیت المقدس کو خلافت عثمانیہ سے چھین کریہودیوں کو دیا جانا تھا۔ عربوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں اور یہودیوں کا بھرپور ساتھ دیا، 1948میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیااس وقت اسرائیل کی بیت المقدس پر حکومت نہیں تھی، بلکہ بیت المقدس اردن کا حصہ تھا۔ لیکن 1967کی جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا،۔ تاریخ میں پھر یہ بات لکھ دی گئی کہ عرب مسلماوں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ، بلکہ عجمی حکومت ہی اس کی اہلیت رکھتی ہیں کہ وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کرسکیں۔
اب ایران حزب اللہ اور حماس کی بھرپور مدد کررہا ہے، حماس کی عزیز الدین قسام بریگیڈ جو غزہ میں اسرائیل سے برسرپیکار ہے ، حماس نے تین جنگوں میں اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا ہے۔ حماس کی یہ جیت صرف ایران کی مدد کے باعث ہی ممکن ہوسکی۔ حزب اللہ تو خیر ایران کا اعلانیہ حلیف ہے، ۔ حزب اللہ کا استحکام صرف ایران کی مرہون منت ہے۔ ان شا ء اللہ جلد ہی ایران کے ہاتھوں فلسطین کی آزاد کی نوید آپ سنیں گے۔
ترکی کے صدر طیب ارودگان صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ وہ ترکی جو فلسطین سے بظاہر ہمدردی دکھاتا ہیں لیکن اسرائیل سے سفارتی تعلقات کررکھا ہے۔ اگر دم ہے تو ایران کی طرح سفارتی تعلقات اسرائیل سے توڑکر دیکھے۔ واضح رہے کہ ایران عالم اسلام کا واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے شاہ کے زمانہ میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا لیکن امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد 1979 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے، تب سے دونوں میں دشمنی جاری ہے۔
فون:9958361526

صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ اور ایران کا عروج

صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ اور ایران کا عروج

Saddam_Hussain_government_Iran#

از:ظفر اقبال

ٹونی بلیر کا عراق پر حملے کے تعلق سے معافی مانگنا کہ عراق پر حملہ ہماری سب سے بڑی غلطی اور امریکہ کی جانب سے یہ اعتراف کے عراق پر حملہ ہماری سب سے بڑی غلطی تھی۔ چند مہینے پہلے اس عہد کے مغرب کے سب سے بڑے مفکروں میں سے ایک نوم چومسکی نے عراق کے تعلق سے یہ بات کہی ہے کہ مغرب ممالک کی جانب سے عراق پر حملہ سنچری کی سب سے بڑی غلطی ہے۔
اس طرح کے بیانات دراصل ان کی پشیمانی کا اظہار ہے ، مغرب اس بات سے اور ان عواقب سے بے خبر تھا بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے بے خبر رکھنا مقصود تھاکہ اس نے ایران کے ازلی دشمن صدام حسین کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے ختم کردیا۔ دراصل اللہ تعالی ان کے ہاتھوں خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی ترغیب دی، جو منجانب اللہ تھا۔ صدام حسین عراق کی شیعی اکثریتی ملک پر ایک آمر کی طرح قابض تھا۔جب امریکہ اور ان کے حواری نے صدام حسین کا خاتمہ کردیا۔ یہ عہد جمہوریت کا ہے الیکشن تو ہونے ہی تھے۔ شیعی اکثریتی ملک ہونے کے باعث شیعی حکومت بننی ہی تھی۔ ایک جانب ایران کا ازلی دشمن ختم ہوگیا اور عراق شیعی اکثریتی ملک ہونے کے باعث ایرا ن سے قریب تر ہوگیا۔ اس طرح ایران کا ایک طاقتور علاقائی ملک کی حیثیت سے ظہور ہوگیا۔ 2006 میں اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی جنگ دراصل اسی طاقت کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ جس میں اسرائیل کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح حماس سے ہوئے اسرائیل کی تین جنگوں میں کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ جس سے مغرب کے ساتھ ساتھ عرب ممالک بھی خوف میں مبتلا ہوگئے۔ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دونوں گروپ حزب اللہ اور حماس ایران کے پروردہ ہیں۔ جو ایران کی عسکری مدد کی بدولت ہی اسرائیل سے برسرپیکار ہونے کی طاقت حاصل کرسکے ۔
اب ایراین تیزی سے علاقائی تو کیا عالمی طاقتوں کی صف میں کھڑے ہونے کے قریب ہوگیا ہے۔ اب مشرق وسطی کے تعلق سے کوئی فیصلہ تہران کے بغیر ممکن نہیں۔ چاہے یمن کا مسئلہ ہو، شام کا مسئلہ ہے یا بحرین کا مسئلہ ہو۔ ہندوستان نے ایران کے ساتھ چابہار پورٹ کے تعلق سے جو معاہدہ کیا ہے اور اب ہندوستانی سامان ایران کے راستے وسط ایشیا کے ممالک اور افغانستان تک پہنچ سکے گا جس سے دوطرفہ کیا سہ طرفہ اور چوطرفہ تجارت کو زبردست فروغ حاصل ہوگا۔ اس معاہدے سے ایران کے دشمن ممالک سکتے میں ہیں۔ اس وقت ایرانی جنرل فلوجہ سے لے کر شام کے حلب اور رقہ تک جنگوں کی قیادت کررہے ہیں۔ بلکہ پہلے تو اقرار اور انکار کے درمیان باتیں ہوتی تھیں اب تو اعلانیہ اس عہد کے خالد بن ولید ثانی جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں شام داعش کے خلاف اور اپوزیشن گروپوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑرہا ہے۔
فون:9958361526

آل سعود اور وہابی شیطانی گروہ

آل سعود اور وہابی شیطانی گروہ

Al_saudi_wahabis_satanic_group#

از:ظفر اقبال

مشکوۃ شریف، باب ذکر الیمن والشام وذکر اویس القرنی، حدیث نمبر:6009
وعن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوایا رسول اللہ وفی نجدنا قال اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوا یارسول اللہ و فی نجدنا فاظنہ قال فی الثالثۃ ھناک الزلازل والفتن وبہا یطلع قرن الشیطن (رواہ البخاری)
ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:اے اللہ! ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں آپ نے دعا فرمائی اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں میرے خیال میں آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا گروہ نکلے گا(رواہ البخاری)
یہ حدیث اس بات کی غماز ہے آل سعود اور محمد بن عبدالوہاب جن کا تعلق نجد سے ہے۔ مذکورہ حدیث میں انہیں کے تعلق سے یہ باتیں کہیں گئی ہیں۔ نجد سے تعلق رکھنے والے شیطا ن کا گروہ ایک پولیٹیکل اسٹبلشمنٹ ہے اور دوسراے مذہبی اسٹبلشمنٹ جن کا تعلق اسی نجد علاقے سے ہے۔ ان دونوں کے سنگم نے جو تباہی مچائی ہے، اس فتنے کا تعلق یمن اور شام سے ہے اور زمانہ بھی دونوں کا ایک ہے اور یہ شیطانی گروہ بیک وقت شام اور یمن میں جو خونی کھیل کھیل رہے ہیں اور جو تباہی مچارہے ہیں یہ شیطانی عمل اورانسانی سوز عمل ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ملکوں کے تعلق سے دعا فرمائی ہے اس دعاؤں کی برکت سے ہی دونوں ممالک کو آل سعود اور ان کے حواری شکست نہیں دے سکے اگر ان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو ان کی جارحیت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس طرح کی بیرونی سازش کو ماضی میں کبھی برداشت نہیں کرسکی ہے۔ ان دونوں قوموں کی استقامت کودنیا سلام کہتی ہے۔ مزاحمت کی تاریخ ان کی شجاعت کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
فون:9958361526


ذاکر نائیک تباہی کے دیوتا

ذاکر نائیک تباہی کے دیوتا

#Zakir_naik_leader_of_Satanic

ذاکر نائیک کے نزدیک خودکش حملے جائزہے، ذاکر نائیک امت مسلمہ کو تباہ کر ہی دم لے گا، ذاکر نائیک سے امت مسلمہ جس قدر جلد نجات حاصل کرلے وہ بہتر ہے۔
آج ذاکر نائیک نے 15جولائی 2016 کو اسکائپ کے ذریعہ جو پریس کانفرنس کی ہے اس میں سوسائڈ اٹیک کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سوسائیڈ اٹیک جنگ میں جائز ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اب جنگ کی نوعیت بدل چکی ہے۔ اب جنگ پہلے کی جنگوں کی طرح طلوع آفتاب کے ساتھ شروع نہیں ہوتی ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ اب جنگ برسوں پر محیط ہوتی ہے اور جنگ کی نوعیت بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ اب ایسے حالات میں ذاکر نائک نے خودکش حملے کے جواز کا جو فتوی دیا ہے۔ اس کی سزا اب ساری دنیا کے لوگ مزید بھگتیں گے۔ اس لئے جہاں تہاں دشمن کو زچ کرنے کے لئے کاروں اور ٹرکوں کے ذریعہ سوسائڈ اٹیک کئے جاتے رہیں گے اور ذاکرنائیک جیسے لوگ اسی طرح اپنی بیان بازی سے بچتے رہیں گے۔ سوسائیڈ اٹیک کے تعلق سے پہلا جواز کا فتوی فلسطینیوں کو سامنے رکھ کر یوسف القرضاوی نے نوے کی دہائی میں دیا تھا، وہ فتوی بھی کنڈیشن کے ساتھ تھا لیکن اب ذاکر نائیک نے تو کھلے عام اس کے جواز کا فتوی دے دیا ہے۔ اب شام، عراق، سعودی عرب، یمن، فرانس، امریکہ اور پاکستان، افغانستان ، لبنان دہشت گردوں کے نشانے پر رہیں گے، وہ اس لئے کے جنگ تو مستقل جاری ہے اور جنگ میں سوسائڈ اٹیک جائز ہے۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پس پردہ سعودی عرب اور اسرائیل کا ہاتھ

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پس پردہ سعودی عرب اور اسرائیل کا ہاتھ

(16 جولائی 2016 کو تحریر کردہ) 

Turkey_military_coup_saudi_Israel#

 از: ظفر اقبال


 گذشتہ رات ترکی کے صدر طیب اردوگان کی حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جس کو طیب ارودگان کے حامیوں اور عوام نے ناکامی سے دوچار کردیا۔ یہ اکیسویں صدی کے عظیم واقعہ میں ایک شمار ہوگا اور مارڈن ترکی میں یہ پہلا واقعہ ہوگا کہ فوج کی کوششوں کو جمہوریت اور عوام نے ناکامی سے دوچار کردیا اور عوام کی جیت ہوئی۔اس کے پس پردہ حقائق کے پیچھے آپ جائیں گے تو آپ کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہوگا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ترکی سے سب سے زیادہ پریشانی کس کو لاحق ہے۔ ہم مشرق والے اور خاص طور سے مسلمان ہر پریشانی کے پیچھے امریکہ اور سی آئی اے کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس مورد الزام میں کبھی بات صحیح بھی ہوتی اور کبھی غلط بھی ہوتی ہے وہ اس لئے کہ امریکہ کا ماضی اور تقریبا حال بھی سازشوں کی ہی رہی ہے۔ لیکن صد فیصد ایسا نہیں ہوتا ہے۔ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ بلکہ بعض اوقات اصل دشمن پردے کے آڑ میں اپنا کام کرجاتا ہے اور وہ اس کا الزام دوسروں پر عائد کردیا جاتا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کا نام میں اس لئے لے رہا ہوں۔ دونوں ممالک کے رشتے ترکی کے ساتھ کیا تھے اور فی الحال کیا ہیں۔ اس کو سمجھنے کی ہمیں کوشش کرنی ہوگی۔ شام میں 2011 سے صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت ہوئی اور اس بغاوت میں سب سے زیادہ محرک کا کردار اگر کسی نے ادا کیا ہے وہ ترکی ہے، ترکی جس کی سرحد شام سے ملتی ہے۔ ساری دنیا کے دہشت گرد ترکی کے راستے شام میں بڑے پیمانے پر داخل ہورہے تھے بلکہ ساری دنیا کے شام کے مخالف طاقتیں ترکی کو بیس بنا کر شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے تھے، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شام کی حکومت اب گری تب گری وہ کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن اس جنگ میں روس کے شامل ہونے کے بعد تو جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ روس نے زبردست بمباری کی اور اس بمباری کے درمیان ترکی نے روس کے جہاز کو مارگرایا جس سے روس اور ترکی کے تعلقات برے عہد میں داخل ہوگئے۔ دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہوگئے اور بہت سارے معاہدے منجمد ہوگئے لیکن پچھلے ماہ ترکی نے روس سے معافی مانگ لی، ترکی اس دباؤ کو برداشت نہیں کرسکااس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ترکی دوست تو بدل سکتا ہے لیکں پڑوسی نہیں بدل سکتا، شام، ایران اور روس اس کے پڑوسی ملک ہیں اگر وہ شام کے معاملے میں سعودی عرب کی مسلسل حمایت کرتا رہاتو اس کو اور ترکی کی عوام کو معاشی اور سیاسی طور سے عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔روس سے ترکی کے معافی مانگنے کے بعد ترکی کا روس سے سفارتی تعلقات معمول پر آگئے اور ترکی نے روسی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دہشت گردوں کو اپنی سرحد استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بہت حد تک انکار کردیا جس سے سعودی عرب ترکی سے سخت ناراض ہوگیا۔ بلکہ چار دن قبل ترکی کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے۔ اس اعلان نے تو سعودی عرب کے عزائم پر پانی پھیردیا۔اس طرح ترکی کے حکمراں طیب اروگان اور ان کی پارٹی سے سعودی عرب نے انتقام لینے کی کوشش کی۔ سعودی عرب کو ایسا محسوس ہوا کہ ترکی کی حکومت نے اس کی حکم عدولی کی۔ سعودی عرب خود کو سنی دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے ، وہ اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی سنی ملک اس کے حکم کو درخوداعتنا سمجھے۔ جس طرح سعودی عرب نے دو سال قبل ملائشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق کے بینک اکاؤنٹ میں ساڑھے سات سو ملین ڈالر منتقل کردیئے تھے اور ملائشیا کے وزیراعظم کواپنی حمایت میں سعودی عرب ایران کے خلاف مسلسل استعمال کررہا ہے۔ سعودی عرب نے اسی طرح ایک بڑی رقم ترکی کے فوجیوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے ہوں گے۔
اب اسرائیل کی طرف آتے ہیں 2010 میں ترکی نے فلسطین کی حمایت میں ایک فریڈم فوٹیلا غزہ بھیجوایا تھا۔لیکں اسرائیل نے فریڈم فوٹیلا کو ناکام کردیا اور نو ترکی شہری اس واقعہ میں مارے گئے۔تب سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان جو سفارتی تعلقات تھے وہ ختم ہوگئے ۔ ابھی حالیہ دنوں تقریبا چھ برسوں کے وقفے کے بعد اور طویل مذاکرات کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے عوض غزہ کے لوگوں کو غذائی اجناس پہنچانے کا معاہدہ ہوگیا،چند غذائی اجناس سے لدا جہاز غزہ پہنچ بھی گیا، لیکن اس چیز نے اسرائیل کو پریشانی میں ڈال دیا کہ کیا دنیا میں ایران کے علاوہ بھی کوئی ملک ہے اورخاص طور سے سنی ملکوں میں سے کوئی جو فلسطین سے محبت کرتے ہیں اور ان کو امداد پہنچانا چاہتے ہیں اور ان کی زندگیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ اسرائیل کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ جو کسی کی انسانی بنیاد پر زندگی کی ضمانت دینے کی بات کرتے ہیں تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ یہ انسانی بنیادپر ہمدردی عسکری مدد پر منتج بھی ہوتی رہی ہے۔ اس لئے اسرائیل کو ایسے ممالک سے نفرت ہے جو فلسطینیوں سے ہمدردی کے دو بول بول سکے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ سعودی عرب اور قطر اور متحدہ عرب امارات نے سامانوں سے لدا کوئی ٹرک فلسطین پہنچایا ہو اور خاص طور سے غزہ میں جہاں حماس کی حکومت ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی روایت رہی ہے وہ دشمنوں سے کس طرح انتقام لیتے ہیں۔ ان کے منھ سے لقمہ چھین لینے اور اپنے دشمنوں کو پیاسا مارنے پر فخر محسوس کرتے اور یہ ان کی روایت بھی رہی ہے۔ ایران تو اسرائیل کا کھلا دشمن ہے، حزب اللہ دراصل ایرانی فوج ہے جو ہر وقت اسرائیل کے ساتھ برسرپیکار رہنے کے لئے آمادہ رہتی ہے۔ابھی حالیہ دنوں ایران کے پاسداران انقلاب کے جنرل سلامی نے اسرائیل کو دھمکی دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اسرائیل کے لئے حزب اللہ کے ایک لاکھ میزائیل تیار حالت میں ہیں۔ خود حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اس سلسلے میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہمیں جب بھی رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای حکم دیں گے ہم اسرائیل پر حملہ کردیں گے۔ حزب اللہ کے تمام اخراجات اب تک ایران ہی اٹھارہا ہے۔ یہ تو اعلانیہ ہے۔اس میں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل ترکی کے اسلامی حکمراں پارٹی جو طیب ارودگان کی پارٹی ہے اس کا اسی طرح وہ صفایا کردینا چاہتی تھی جس نے اس نے مصر میں محمد مرسی کی حکومت کو ختم کردیا تھا لیکں طیب اردوگان کی تقریبا چودہ برسوں پر محیط حکومت تھی جس نے اپنی جڑیں ترکی معاشرے میں بہت ہی مستحکم کرچکی تھی اس لئے ان کی حکومت بچ گئی اور عوام جو ان کی حامی تھی اس نے فوج کو ناکام کردیا ۔یہ چیز خود ترکی اور اس کے پڑوسیوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر طیب اروگان کی حکومت خطرے میں پڑجاتی تو اس سے سب سے زیادہ کسی کو نقصان اٹھانا پڑتا تو وہ ایران ، روس اور شام کی حکومت ہوتی، خاص طور سے ایران کی حکومت جس کے زیادہ تر تجارت اب بھی ترکی کے ساتھ ہیں اور اس کے تیل اور دیگر اشیا ترکی کے راستے ہی یورپ جاتے ہیں۔ترکی کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب کی ناکام ملٹری بغاوت نے ترکی کو اپنے دشمنوں کو سمجھنے میں آسانی فراہم کرے گی۔ وہ اپنا سمت خود متعین کریں اور کسی کے آلہ کار بننے میں خود اس کی اور ملک کی کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہے۔ ترکی خلافت عثمانیہ کے شکل میں ایک زمانے میں امت مسلمہ کے لئے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے فخر کی بات رہی ہے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات بھی بہت جڑے ہوئے ہیں۔ ترکی کا مزید تباہی سے دوچار ہوجانااور دشمن کا آلہ کار بن جانا امت مسلمہ کے لئے کسی المیہ سے کم نہ ہوتا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔ اب ترکی کو اپنے دشمن اور دوست میں تمیز کرنا چاہئے، کون ان کا مخلص اور کون ان کی تباہی کا خواست گار ہے۔
فون:9958361526

طارق فتح ایک بلائے ناگہانی

طارق فتح ایک بلائے ناگہانی


tarieq_fatah_to_deport_abroad#

 از:ظفر اقبال

جس طرح چند برس پیشتر ممبئی پولس نے نگار خان کو ملک بدر کردیا تھا اسی طرح طارق فتح کوبھی دہلی پولس جلد از جلد ملک بدر کردے وہی بہتر ہے نہیں تو طارق فتح ہندوستان میں ٹی وی چینلوں کے ذریعہ جو تباہی مچارہے ہیں وہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے میرا دل کرب سے تڑپ رہا ہے۔ نگار خاں کا تعلق فلموں سے تھا جس نے اپنی فحاشی سے ہندوستانی سنسکرتی اور یہاں کے نوجوانوں میں جنسی ہیجان سے جو طوفان مچا دیا تھا جس کی بے ہودگی سے تنگ آکر ممبئی پولس نے اس کو ملک بدر کردیا تھا۔ اسی طرح طارق فتح ہندوستان میں اپنی خودساختہ سیاسی نظریات کو جس طرح تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ہم ہندوستانیوں کے لئے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان یا کسی اور مذاہب سے ان کا تعلق ہو زہر ہلال ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ نگار خان اور طارق فتح مسلم پس منظر رکھتے ہیں۔
طارق فتح عجیب وغریب نظریات کے حامل ہیں جو صرف تباہی کے خواست گار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ہر مذہبی علامت سے نفرت ہے۔ ایک پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ آپ جانتے ہیں کہ سیکولرزم کیا ہوتی ہے۔ سیکولرزم کی ہمیں یہ تعریف بتارہے ہیں کہ ملک میں کسی طرح کی کوئی مذہبی علامت نہیں ہونی چاہئے۔ فرانس میں جس طرح کی جمہوریت ہے انہی کی طرح اپنی زندگی گذارنی چاہئے جہاں کوئی مذہبی علامت نہیں ہوتی ہے۔ کوئی فرد اپنے اپنے مذہب پر عمل نہیں کرسکتاہے۔ سب شہریوں کے لئے یکساں قوانین ہے۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لا جیسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے۔ بس ایک قانون ہونا چاہئے جو سب پر لاگو ہے ۔ ہندوستان کا ہر شہری کسی مذہب کو نہ مانے۔ان کا ہم ہندو اور مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے یہاں آپس میں شادیاں کریں۔ انہوں نے اپنی مثال پیش کی کہ میں نے اپنی بیٹی کی شادی غیر مسلم سے کی ہے۔انہوں نے جو کیا ہے وہ کریں و ہ ہم ہندوستانی کو اس کا درس کیوں دے رہیں ہیں؟ وہ ہماری سنسکرتی کو کیوں نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس سنسکرتی کو بنانے میں ہزاروں سال لگے ہیں ان کو وہ تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی سیکولرزم کا مطلب ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ہر شہری جن کا تعلق جس جس مذاہب سے ہے وہ اپنے اپنے طریقہ سے عبادت کرسکتے ہیں اور اپنے نظریات کی تبلیغ کرسکتے ہیں۔ مذہب تو ہم ہندوستانیوں کے خون میں داخل ہے بلکہ مذہب کے بغیر ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔
طارق فتح خود کہتے ہیں کہ وہ دہریہ ہیں۔ لیکن دہریہ ہیں تو اپنے گھر میں رہیں ہمیں نصیحت کرنے کی کوشش نہ کریں۔مختلف ٹی وی چینلوں پر اپنی مسلسل بکواس کئے جارہے ہیں۔ وہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ٹی وی چینل والے کس طرح ان کو اپنے پروگراموں میں مسلمانوں کو گالی دینے کے لئے مسلسل بلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ گالی ہی نہیں دیتے بلکہ ہر پروگرام میں آپ دیکھیں گے کہ وہ بلوچستان کی باتیں ضرور کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے بھگوڑے ہیں جو فی الحال کناڈا کے شہری ہیں۔ آج کل ہندوستان میں آرام سے رہ رہے ہیں اور ان کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ مجھے یہ بات نہیں سمجھ میں آرہی ہے کہ طارق فتح جو باربار کہتے ہیں کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے میں ہندوستان ہماری مدد کرے۔ کیا ہندوستان کے دفاعی ماہرین اس بات سے آگاہ نہیں کہ پاکستان یقیناًہمارا پڑوسی ہے لیکن بلوچستان کی سرحد ہماری سرحد سے نہیں لگتی ہے۔ اگر ہندوستان بلوچستان کی کسی طرح عسکری مدد کرسکتا ہے تو وہ افغانستان یا ایرانی سرحدوں سے ہی کرسکتا ہے۔ ہندوستان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ افغانستان اور ایران ہندوستان کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ وہ بلوچستان میں داخل ہونے کے لئے ان کی سرزمین کا استعمال ہندوستان کرے۔ افغانستان اور ایران کو معلوم ہے کہ ہم دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی ہرگز نہیں بدل سکتے ۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کے بلوچستان میں عسکری مدد کے لئے افغانستان اور ایران کی سرزمین کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو وہ دونوں ممالک ہر گز اس کی اجازت نہیں دیں گے اور ہندوستان کے تعلقات افغانستان اور ایران سے اس قدرگہرے ہیں وہ بھی خطرے میں پڑجائیں گے۔
بلوچستان کی جنگ آزادی میں ہندوستان کیوں کودے ، کیا طارق فتح کے بے وقوفانہ مطالبہ پر ہندوستان کی حکومت غور کرسکتی ہے؟ کیا ہندوستان کی حکومت کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم نہیں ہے کہ پاکستان کے حالات 1971 والی نہیں ہے۔پاکستان فی الحال نیوکلیائی ملک بن چکا ہے، اگر ہندوستان پاکستان کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ افغانستان اور روس کے درمیان ایک طویل جنگ کے بعد پاکستان خود جنگجوؤں کا اڈہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں فی الحال ریگولر آرمی کے علاوہ تقریبا پندرہ سے بیس لاکھ ٹرینڈ جہادی موجود ہیں۔ جو ہندوستان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اگر ہندوستان نے بلوچستان کے معاملے میں اور طارق فتح صاحب کے کہنے پر بلوچستان کے خلاف کسی طرح کا فوجی ایکشن لیتا ہے تو ہندوستان کو جنگ میں ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ طارق فتح مسلسل ٹی وی چینلوں پر بلوچستان کی بات کرتے رہتے ہیں اور ہندوستانیوں کو وہ بے وقوف سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے کہ ہندو مسلمان آپس میں لڑتے رہے ہیں۔اپنے نظریات زبردستی ہم ہندوستانی پر تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک بھگوڑے کو ہندوستانی حکومت کیوں پال رہی ہے۔ ہندوستانی حکومت شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کو ان بھگوڑے پر کیوں خرچ کررہی ہے؟ ان کو سیکورٹی کیوں فراہم کررہی ہے سمجھ سے بالاتر ہے؟
فون:9958361526

ترکی کے وزیر اعظم کے نام ۔ ایک خط

ترکی کے وزیر اعظم کے نام ۔ ایک خط


#letter_to_turkey_PM
از:ظفر اقبال
ترکی کے صدر اور سابق وزیر اعظم رجب طیب ارودغان ترکی میں جمہوریت کے پیٹھ پر سوار ہوکر ملک کی قیادت سنبھالی۔لیکن یہ عجب اتفاق ہے کہ جب بھی کوئی آمر اور ڈکٹیٹر کسی بھی ملک کا سربراہ بنتا ہے تو وہ بالعموم جمہوریت کے راستے ہی آتا ہے لیکن جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے وہی جمہوریت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے ۔ وہ الگ بات ہے اس کے نتائج زیادہ تر منفی ہی ہوئے ہیں۔
میں نے 11دسمبر 2012کو ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ارودغان کو ایک ہمدردانہ خط لکھا تھا ، یہ خط ترکی سفارت خانہ ، نئی دہلی کے توسط سے ان تک پہنچایا تھا۔ اس خط کے ڈاک کے حوالے کرنے کے تین دنوں کے بعد ترکی سفارت خانہ سے میرے پاس ایک خاتون ترجمان کا فون آیا کہ آپ نے خط لکھا ہے جو کہ اردو زبان میں ہے ۔ اردو زبان نہ جاننے کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہورہی ہے کہ آپ نے خط میں کیا لکھا ہے تو میں نے انہیں بتایا کہ یہ خط میں نے ترکی کے وزیر اعظم کو لکھا ہے، یہ خط آپ وہاں بھیجوادیں۔ لیکن ترجمان خاتون نے جواب دیا کہ آپ نے جو طویل خط لکھا کہ اس کو مختصرا انگریزی میں لکھ کر دوبارہ بھیج دیجئے تو میں نے جواب دیا کہ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ مختصرا نہیں لکھا جاسکتا ہے۔ آپ وہ خط وزیر اعظم کو بھیجوادیں ۔ وزیراعظم آفس میں ترجمہ کرنے والے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں۔اس طرح اس دن یہ بات ختم ہوگئی ۔ لیکن تین دنوں کے بعد سفارت خانہ سے پھر فون آیا کہ ایمبسڈر نہیں مان رہے ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان کو اس کا خدشہ تھا کہ ان کی کوئی شکایت تو اس خط میں نہیں کی گئی ہے میں نے کہا کہ مجھے آپ لوگوں سے کوئی شکایت نہیں ہے، آپ ہر صورت میں یہ خط وزیر اعظم کو بھیجوادیں۔ مجھے اس بات کا پورا احساس ہے کہ یہ خط وزیراعظم طیب اردغان کو پہنچایا گیا ہے ۔ اس خط کا پورا متن میں آپ حضرات کے سامنے پیش کررہا ہوں:
مورخہ:11دسمبر 2012
محترم رجب طیب ارودغان صاحب
وزیر اعظم، جمہوریہ ترکی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ بخیروعافیت سے ہوں گے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد جمہوریہ ترکی میں آپ کی قیادت میں اسلامی پارٹی کے برسراقتدار آنے سے ساری دنیا کے مسلمانوں کو خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہونے لگاتھاکہ آپ عدنان میندریس کے حقیقی وارث ہیں، خاص طور سے دو سال قبل جب آپ نے غزہ کے عوام سے اظہار ہمدردی اور ان کے تئیں اظہار یکجہتی کے تحت امدادی سامانوں سے لدے فریڈم فوٹیلا آپ نے غزہ بھیجوانے کا جو فیصلہ کیا تھا، وہ آپ کے ملی جذبات کی حقیقی عکاس لگ رہی تھی لیکن اس ناکام فریڈم فوٹیلا اور نو ترکی باشندوں کی اموات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ پرمژمردگی کے شکار ہوگئے ہیں۔ آپ کے اندر جو اسلامی جذبات تھے اور اللہ تعالی اپنی خدمت کے لئے جو کام آپ سے لینا چاہتا تھا وہ موہوم سے ہوگئی ہے۔
آپ کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ قرآن نے صاف صاف الفاظ میں کہا ہے کہ یہودونصاری آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کی پیروی نہ کریں۔
لیکن اب آپ کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا وہ خود آپ کی اسلامی پارٹی اور آپ کی قوم کے حق میں مہلک ثابت ہوگی اور آپ قدم بہ قدم اس ہلاکت کی طرف جارہے ہیں جہاں آپ بند گلی میں پھنس جائیں گے۔ اس لئے آپ کی حکومت نے خارجہ امور میں اپنے ایشیائی اور مسلم پڑوسیوں سے دشمنی مول لی ہے،یورپ آپ کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا بلکہ صرف آپ کو استعمال کررہا ہے۔ آپ نے ایرن کے خلاف اور سیریا کے خلاف جو مورچہ کھولا ہے اس تعلق سے آپ پوری طرح یورپ اور امریکہ کے فریب میں آچکے ہیں۔
ایران سپر پاور بننے کی طرف تیزی سے گامزن ہے، ایران علمی وفکری اعتبار سے دنیا کی امامت کرنے کی پوزیشن میں پہنچ رہا ہے بلکہ پہنچ چکا ہے۔ آپ نے ہلکا سا مظاہرہ غزہ میں دیکھا تھا۔اہل غزہ صرف ایران کی عسکری اور فکری مدد کے باعث ہی اس فتح کے متحمل ہوسکے ورنہ وہ شکست سے دوچار ہوچکے ہوتے۔ ایران حقیقت میں اسلامی قیادت کے منصب پر فائز ہونے کا متحمل ہے۔
شیعہ سنی کے جھگڑے وقتی ہیں اس کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ہے، دشمن شیعہ وسنی کے مسئلے پر الجھا کر اس امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کررہا ہے۔ سنی خاص طور سے اس کے شکار ہورہے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال اہل ایران کے تعلق سے ۱۹۳۶ میں اپنی کتاب ’’ضرب کلیم‘‘ میں پیشین گوئی کرچکے ہیں:
پانی بھی مسخر ہے ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہوگر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
حصرت محمد ﷺ بھی اہل فارس کے تعلق سے پیشین گوئی کرچکے ہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر علم ثریا پر بھی ہوگا تو تمہاری قوم کے لوگ اسے حاصل کرکے رہیں گے۔
اللہ تعالی کا یہ اٹل قانون ہے کہ کسی بھی قوم کو اللہ صرف ایک مرتبہ موقع دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ قوم زندہ تو رہ سکتی ہے لیکن وہ قوم دوبارہ بام عروج پر نہیں پہنچ سکتی۔ اگر آپ غیر مسلموں کے عروج کو دیکھیں تو سب سے پہلے اہل یونان بام عروج پر پہنچے اس کے بعد خود یونان آپ کی قوم کی چار سو سال تک غلام رہی۔ اس کے بعد روم، اس کے بعد فرانس، اس کے بعد برطانیہ اور اس کے بعد روس وامریکہ۔ روس تو شکست کھا چکا ہے، اب امریکہ شکست کے دھانے پر پہنچنے والا ہے۔ اسی طرح مسلم قوموں میں سب سے پہلے عربوں کو عروج حاصل ہوا، اس کے بعد آپ کی قوم ترکوں کو جو خلافت عثمانیہ کی حیثیت سے اس امت کو بام عروج پر پہنچایا۔ اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال کی پیشین گوئی کے مطابق ایران کو وہ مقام حاصل ہونے والا ہے۔ اس لئے آپ سے مودبانہ درخواست ہے کہ آپ کی حکومت ٹھنڈے ذہن اور حکمت سے کام لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ غور کریں تو یقیناًآپ کو صحیح فیصلے میں پہنچنے میں آسانی ہوگی۔
محترم وزیر اعظم!
آپ کی حکومت نے اپنے ملک میں سیریا کے خلاف جو پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ سیریا جو خود آپ کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے خانہ جنگی کا شکار ہوچکا ہے۔ آپ کو ان سے کس طرح کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ آپ نے ناٹو کے مقاصد کی تکمیل کے لئے جو پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ پیٹریاٹ میزائل یورپ آپ کے اسلامی ملک ایران اور ان کے حلیف کے خلاف استعمال کرے گا۔ اس کے بعد جو آپ کو کف افسوس ہوگا جس کا آپ کواندازہ نہیں ہے۔
آپ کی حکمت سے خالی فیصلے سے امت مسلمہ مایوسی سے دوچار ہورہی ہے۔ اگر آپ بروقت اس سے آگاہ نہ ہوسکے تو آپ کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
آپ کا خیر خواہ
ظفر اقبال
فون:9958361526