Thursday, 28 July 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پس پردہ سعودی عرب اور اسرائیل کا ہاتھ

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پس پردہ سعودی عرب اور اسرائیل کا ہاتھ

(16 جولائی 2016 کو تحریر کردہ) 

Turkey_military_coup_saudi_Israel#

 از: ظفر اقبال


 گذشتہ رات ترکی کے صدر طیب اردوگان کی حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جس کو طیب ارودگان کے حامیوں اور عوام نے ناکامی سے دوچار کردیا۔ یہ اکیسویں صدی کے عظیم واقعہ میں ایک شمار ہوگا اور مارڈن ترکی میں یہ پہلا واقعہ ہوگا کہ فوج کی کوششوں کو جمہوریت اور عوام نے ناکامی سے دوچار کردیا اور عوام کی جیت ہوئی۔اس کے پس پردہ حقائق کے پیچھے آپ جائیں گے تو آپ کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہوگا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ترکی سے سب سے زیادہ پریشانی کس کو لاحق ہے۔ ہم مشرق والے اور خاص طور سے مسلمان ہر پریشانی کے پیچھے امریکہ اور سی آئی اے کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس مورد الزام میں کبھی بات صحیح بھی ہوتی اور کبھی غلط بھی ہوتی ہے وہ اس لئے کہ امریکہ کا ماضی اور تقریبا حال بھی سازشوں کی ہی رہی ہے۔ لیکن صد فیصد ایسا نہیں ہوتا ہے۔ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ بلکہ بعض اوقات اصل دشمن پردے کے آڑ میں اپنا کام کرجاتا ہے اور وہ اس کا الزام دوسروں پر عائد کردیا جاتا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کا نام میں اس لئے لے رہا ہوں۔ دونوں ممالک کے رشتے ترکی کے ساتھ کیا تھے اور فی الحال کیا ہیں۔ اس کو سمجھنے کی ہمیں کوشش کرنی ہوگی۔ شام میں 2011 سے صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت ہوئی اور اس بغاوت میں سب سے زیادہ محرک کا کردار اگر کسی نے ادا کیا ہے وہ ترکی ہے، ترکی جس کی سرحد شام سے ملتی ہے۔ ساری دنیا کے دہشت گرد ترکی کے راستے شام میں بڑے پیمانے پر داخل ہورہے تھے بلکہ ساری دنیا کے شام کے مخالف طاقتیں ترکی کو بیس بنا کر شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے تھے، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شام کی حکومت اب گری تب گری وہ کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن اس جنگ میں روس کے شامل ہونے کے بعد تو جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ روس نے زبردست بمباری کی اور اس بمباری کے درمیان ترکی نے روس کے جہاز کو مارگرایا جس سے روس اور ترکی کے تعلقات برے عہد میں داخل ہوگئے۔ دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہوگئے اور بہت سارے معاہدے منجمد ہوگئے لیکن پچھلے ماہ ترکی نے روس سے معافی مانگ لی، ترکی اس دباؤ کو برداشت نہیں کرسکااس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ترکی دوست تو بدل سکتا ہے لیکں پڑوسی نہیں بدل سکتا، شام، ایران اور روس اس کے پڑوسی ملک ہیں اگر وہ شام کے معاملے میں سعودی عرب کی مسلسل حمایت کرتا رہاتو اس کو اور ترکی کی عوام کو معاشی اور سیاسی طور سے عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔روس سے ترکی کے معافی مانگنے کے بعد ترکی کا روس سے سفارتی تعلقات معمول پر آگئے اور ترکی نے روسی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دہشت گردوں کو اپنی سرحد استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بہت حد تک انکار کردیا جس سے سعودی عرب ترکی سے سخت ناراض ہوگیا۔ بلکہ چار دن قبل ترکی کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے۔ اس اعلان نے تو سعودی عرب کے عزائم پر پانی پھیردیا۔اس طرح ترکی کے حکمراں طیب اروگان اور ان کی پارٹی سے سعودی عرب نے انتقام لینے کی کوشش کی۔ سعودی عرب کو ایسا محسوس ہوا کہ ترکی کی حکومت نے اس کی حکم عدولی کی۔ سعودی عرب خود کو سنی دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے ، وہ اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی سنی ملک اس کے حکم کو درخوداعتنا سمجھے۔ جس طرح سعودی عرب نے دو سال قبل ملائشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق کے بینک اکاؤنٹ میں ساڑھے سات سو ملین ڈالر منتقل کردیئے تھے اور ملائشیا کے وزیراعظم کواپنی حمایت میں سعودی عرب ایران کے خلاف مسلسل استعمال کررہا ہے۔ سعودی عرب نے اسی طرح ایک بڑی رقم ترکی کے فوجیوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے ہوں گے۔
اب اسرائیل کی طرف آتے ہیں 2010 میں ترکی نے فلسطین کی حمایت میں ایک فریڈم فوٹیلا غزہ بھیجوایا تھا۔لیکں اسرائیل نے فریڈم فوٹیلا کو ناکام کردیا اور نو ترکی شہری اس واقعہ میں مارے گئے۔تب سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان جو سفارتی تعلقات تھے وہ ختم ہوگئے ۔ ابھی حالیہ دنوں تقریبا چھ برسوں کے وقفے کے بعد اور طویل مذاکرات کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے عوض غزہ کے لوگوں کو غذائی اجناس پہنچانے کا معاہدہ ہوگیا،چند غذائی اجناس سے لدا جہاز غزہ پہنچ بھی گیا، لیکن اس چیز نے اسرائیل کو پریشانی میں ڈال دیا کہ کیا دنیا میں ایران کے علاوہ بھی کوئی ملک ہے اورخاص طور سے سنی ملکوں میں سے کوئی جو فلسطین سے محبت کرتے ہیں اور ان کو امداد پہنچانا چاہتے ہیں اور ان کی زندگیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ اسرائیل کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ جو کسی کی انسانی بنیاد پر زندگی کی ضمانت دینے کی بات کرتے ہیں تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ یہ انسانی بنیادپر ہمدردی عسکری مدد پر منتج بھی ہوتی رہی ہے۔ اس لئے اسرائیل کو ایسے ممالک سے نفرت ہے جو فلسطینیوں سے ہمدردی کے دو بول بول سکے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ سعودی عرب اور قطر اور متحدہ عرب امارات نے سامانوں سے لدا کوئی ٹرک فلسطین پہنچایا ہو اور خاص طور سے غزہ میں جہاں حماس کی حکومت ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی روایت رہی ہے وہ دشمنوں سے کس طرح انتقام لیتے ہیں۔ ان کے منھ سے لقمہ چھین لینے اور اپنے دشمنوں کو پیاسا مارنے پر فخر محسوس کرتے اور یہ ان کی روایت بھی رہی ہے۔ ایران تو اسرائیل کا کھلا دشمن ہے، حزب اللہ دراصل ایرانی فوج ہے جو ہر وقت اسرائیل کے ساتھ برسرپیکار رہنے کے لئے آمادہ رہتی ہے۔ابھی حالیہ دنوں ایران کے پاسداران انقلاب کے جنرل سلامی نے اسرائیل کو دھمکی دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اسرائیل کے لئے حزب اللہ کے ایک لاکھ میزائیل تیار حالت میں ہیں۔ خود حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اس سلسلے میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہمیں جب بھی رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای حکم دیں گے ہم اسرائیل پر حملہ کردیں گے۔ حزب اللہ کے تمام اخراجات اب تک ایران ہی اٹھارہا ہے۔ یہ تو اعلانیہ ہے۔اس میں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل ترکی کے اسلامی حکمراں پارٹی جو طیب ارودگان کی پارٹی ہے اس کا اسی طرح وہ صفایا کردینا چاہتی تھی جس نے اس نے مصر میں محمد مرسی کی حکومت کو ختم کردیا تھا لیکں طیب اردوگان کی تقریبا چودہ برسوں پر محیط حکومت تھی جس نے اپنی جڑیں ترکی معاشرے میں بہت ہی مستحکم کرچکی تھی اس لئے ان کی حکومت بچ گئی اور عوام جو ان کی حامی تھی اس نے فوج کو ناکام کردیا ۔یہ چیز خود ترکی اور اس کے پڑوسیوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر طیب اروگان کی حکومت خطرے میں پڑجاتی تو اس سے سب سے زیادہ کسی کو نقصان اٹھانا پڑتا تو وہ ایران ، روس اور شام کی حکومت ہوتی، خاص طور سے ایران کی حکومت جس کے زیادہ تر تجارت اب بھی ترکی کے ساتھ ہیں اور اس کے تیل اور دیگر اشیا ترکی کے راستے ہی یورپ جاتے ہیں۔ترکی کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب کی ناکام ملٹری بغاوت نے ترکی کو اپنے دشمنوں کو سمجھنے میں آسانی فراہم کرے گی۔ وہ اپنا سمت خود متعین کریں اور کسی کے آلہ کار بننے میں خود اس کی اور ملک کی کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہے۔ ترکی خلافت عثمانیہ کے شکل میں ایک زمانے میں امت مسلمہ کے لئے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے فخر کی بات رہی ہے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات بھی بہت جڑے ہوئے ہیں۔ ترکی کا مزید تباہی سے دوچار ہوجانااور دشمن کا آلہ کار بن جانا امت مسلمہ کے لئے کسی المیہ سے کم نہ ہوتا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔ اب ترکی کو اپنے دشمن اور دوست میں تمیز کرنا چاہئے، کون ان کا مخلص اور کون ان کی تباہی کا خواست گار ہے۔
فون:9958361526

No comments:

Post a Comment