Budh#Brahmin_India
از: ظفر اقبال
علامہ اقبال کی مشہور نظم جو ان کا پہلا اردو مجموعہ ہے جو ’ بانگ درا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مجموعہ میں ’’نانک‘‘ کے نام سے ایک مشہور نظم ہے جس میں اقبال نے ہندوستانی برہمن اور یہاں کے اپر کلاس کے نفسیات پر جس طرح چوٹ کی اس کی کوئی نظیر کئی سو برسوں کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ ’نانک‘ نظم کے اشعار پہلے ملاحظہ کرتے ہیں:
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ!بدقسمت رہے آواز حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ!شودر کے لئے ہندوستان غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
اس نظم میں اقبال نے جس طرح ہندوستان کے برہمن فلسفیانہ مزاج پر چوٹ کی اور ان کی نفسیاتی پر گفتگو کی ہے وہ زبردست ہے۔ گوتم بودھ کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی، گوتم بودھ کی پوری تعلیم کی بنیاد یہ ہے کہ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔ ہندوستان میں ہندو مذہب کی بنیاد ہی اونچ نیچ پر ہے اور ذات پات پر ہے، گوتم بودھ کی پوری تعلیم ہی ایسی تھی جس پر سب سے زیادہ کسی کو اعتراض ہوسکتا تھا وہ برہمن تھا ، برہمن نے جس طرح ہندوتانی سماج کو طبقات میں تقسیم کررکھا ہے، گوتم نے اس پر سب سے زیادہ چوٹ کی، دبا کچلا سماج جس میں زیادہ تر کا تعلق دلت اور شودر سے تھا گوتم کی تعلیم کی بدولت وہ بڑی تعداد میں بودھ دھرم قبول کرنے لگے۔ اس چیز نے ہندوستان کے برہمن نظام کو ہلاکر رکھ دیا۔ خوش قسمتی سے بودھ کی تعلیم کو ماننے والا ایک طاقت ور سمراٹ اسے میسر آگیا اس سے میر ی مراد راجہ اشوک سے ہے۔ راجہ اشوک کے زمانے میں گوتم بودھ کو عروج حاصل ہوا، لیکن راجہ اشوک کے بعد برہمن سماج نے پھر وہی پرانی طبقاتی نظام کو دوبارہ شمالی ہندوستان میں نافذ کردیا، جس کے بعد بودھ کے پیروکاروں اور برہمن وادی کے درمیان وہ خونی تصادم شروع ہوا۔ جس کے بعد خاص طور سے بودھ مت کے ماننے والے تبت، چین،جاپان، کوریا، وسط ایشیا کی ریاستوں ، انڈونیشا، میانمار، سری لنکا، کمبوڈیا، تھائی لینڈ ، افغانستان اور ملائشیا وغیر میں پناہ لی، ان کے پیروکاروں نے گوتم بودھ کی تبلیغ کی جس کی بدولت ان ممالک کے لوگوں نے بہت تیزی سے بدھ مت قبول کرنے لگے۔ جس کی بدولت ہی ان ممالک میں تمام افراد ایک دوسرے کو برابر تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں۔مذکورہ بالا فہرست میں بہت سارے ممالک کا میں نے نام لیا اس میں بہت سارے اب مسلم ممالک ہیں۔ وسط ایشیا کی پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح انڈونیشااور ملائشیا ، ٹھیک اسی طرح بنگلہ دیش اور افغانستان یہاں کے لوگ بودھ مت کے ماننے والے تھے، بامیاں کا نام تو ساری دنیا کے لوگ جانتے ہیں جہاں گوتم بودھ کا سب سے بڑا دو مجسمے تھے جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے گھے جن کو طالبان نے توپ سے اڑادیا تھا۔اسلام کے ابتدائی عہد میں جہاں جہاں بودھ مذہب کے ماننے والے تھے جب وہا ں اسلام پہنچا تو وہاں کی بیشتر آبادی مسلمان ہوگئی۔ جیسے بنگلہ دیش، افغانستان، انڈونیشیا، ملائشیا اور وسط ایشیا کے ممالک ترکمانستان، کرغزستان، قزاخستان، آذربائیجان وغیرہ کی بیشتر آبادی مسلمان ہوگئی۔اس کی وجہ بھی تھی بودھ مت کے ماننے والوں کے یہاں طبقاتی نظام نہیں ہے اسی طرح اسلام کے یہاں بھی طبقاتی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے بڑی آبادی اسلام کی طرف راغب ہوئی۔
اسی طبقاتی نظام کی وجہ سے ہندوستان کے شودر نہایت ہی کرب کی حالت میں زندگی گذاررہے ہیں۔ ہندوستان کے برہمن نے اپنے خیالی فلسفہ کے بنیاد پر جس طرح خود سے اور خیالی تخیل کی بنیاد پر ایک جہاں تیار کیا اور اس کو عقیدہ بھی بنالیا ہے، اس سے ایک قدم پیچھے ہٹنا خود ہندو مذہب سے پیچھے ہٹنا تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کاآج بھی اسی طبقاتی نظام پر اعتقاد ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان میں سماجی ناہمواری بہت زیادہ اور ایک طبقہ پر مسلسل ظلم ہورہا ہے، اسی پر اقبال نے کہا تھا کہ
آہ!شودر کے لئے ہندوستان غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
ہندوستان کی سرزمین شودر کے لئے غم خانہ یعنی جہنم بن چکا ہے اور ہندوستان کے برہمن تکبر اور کبر میں سرشار ہیں اور یہی تعلیم دیتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ یہی تو ہندوازم ہے۔ ایک طبقہ سے بحیثیت انسان جینے کا حق ان لوگوں نے چھین لیا ہے لیکن وہ لوگ یعنی برہمن اور اپر کلا س طبقہ خود اپنے بنائے ہوئے خیالی فلسفے پر کبر میں بھی مبتلا ہیں۔ یہ فلسفہ سراسر انسانیت کے ساتھ ظلم ہے، لیکن اسی ہندوستان میں گوتم بودھ نے جو شمع جلائی وہ اب غیر کی محفل کو روشن کررہی ہے جس کی وجہ سے وہ ملک بہت ہی ترقی کررہا ہے اور جہاں تمام انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ جہاں نہ کوئی چھوٹا ہے نہ کوئی بڑا ہے سب لوگ برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔اس پر اقبال نے کہا ہے کہ
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
برہمن اپنے کبر میں مبتلا ہے، لیکن گوتم بودھ نے انسانیت کے بھلائی کے لئے جو نئے افکار روشن کئے تھے ان افکا سے ہم تو بالکل بیگانہ ہوچکے ہیں لیکں غیر لوگ اس سے استفادہ کرکے ایک نئی دنیا تعمیر کرچکے ہیں اور ترقی کی ثریا پر جاپہنچے ہیں، جہاں تک پہنچنا ہمارے لئے ایک خواب سے کم نہیں ہے، جیسے وہ ممالک جاپان، کوریا اور چین وغیرہ۔اب گرونانک کی طرف آتے ہیں نانک کا پورا فلسفہ ہی توحید پر مبنی ہے، ان کے افکار نے بھی ہندوستان کو کافی متاثر کیا، اس لئے کہ وہاں ذات وپات کا کوئی نظام نہیں ہے، صرف ذات پات کی وجہ سے کوئی اعلی اور ادنی وہاں نہیں ہوتا ہے، نانک کے ماننے والے سب لوگ برابر ہیں اور ایک خدا پر ان کا یقین ہے، اسی پر اقبال نے کہا کہ نانک کے افکار ہندوستان میں برہمن کی تخیل زدہ سماج میں کسی نسیم سحر کے جھونکوں سے کم نہیں ہے۔ اقبال کے وہ اشعارملاحظہ ہو۔
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
گروہ نانک کے افکار ہندوازم کے سمندر میں کسی تلاطم سے کم نہیں تھے، ان کو ایسا محسوس ہوا کہ اگر گرو نانک کے افکار کو محدود نہیں کیا گیا تو ہندوازم کہیں خاتمے پر نہ پہنچ جائے، اسی لئے آر ایس ایس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سکھ ازم کو ہندوازم کا ایک حصہ ماننے کی کوشش وہ مسلسل کوشش کررہے ہیں لیکن سکھ اس کی زبردست مخالفت کرتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ طبقاتی نظام ہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی ترقی رکی ہوئی ہے، جب تک ہندوستان سے طبقاتی نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ہندوستان کے لئے حقیقی ترقی کوسوں دور ہوگی۔
فون: 9958361526
No comments:
Post a Comment