Sunday, 30 October 2016

مرحوم عبدالکریم نائک

مرحوم عبدالکریم نائک

#Abdul_karim_naik_pass_away#

مرحوم عبدالکریم نائک صاحب کے انتقال سے ہندوستانی معاشرہ خاص طور سے مسلم معاشرہ نے ایک مخیر اور رحم دل آدمی کھودیا ہے جو ہمیں عرصے تک یاد آئیں گے۔
مرحوم نائک صاحب بہت ہی اچھے آدمی تھے اور وہ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اردو بک ریویو کا 1995 میں پہلا شمارہ شائع ہوا تھا تو انہوں نے پانچ سو روپے کا چیک اردو بک ریویو کے نام ارسال کیا تھا تاکہ اردو کا یہ نووارد اور منفرد رسالہ اپنی جڑے مستحکم کرسکے، شاید اردو بک ریویو آج جس منفرد انداز میں اور مسلسل شائع ہورہا ہے ان کی شراکت نے اہم کردار ادا کیا ہو۔ اللہ ان کو جنت الفردوس کے اعلی مقام پر فائز کرے۔

Saturday, 29 October 2016

ہشیار سنی دنیا !سعودی عرب کے فریب میں ہرگز نہ آئیں

ہشیار سنی دنیا !سعودی عرب کے فریب میں ہرگز نہ آئیں

Sunni_world_beware_Ale-_saud#

از:ظفر اقبال

26 مارچ 2015سے عرب ممالک کے سب سے غریب ملک یمن پر اپنے نام ونہاد اتحاد بنا کر سعود ی عرب مسلسل بمباری کررہا ہے، یمن جس کے تعلق سے مشکوۃ شریف میں مشہور حدیث موجود ہے۔ وہ حدیث ملاحظہ ہو : مشکوۃ شریف، باب ذکر الیمن والشام وذکر اویس القرنی، حدیث نمبر:6009
وعن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوایا رسول اللہ وفی نجدنا قال اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوا یارسول اللہ و فی نجدنا فاظنہ قال فی الثالثۃ ھناک الزلازل والفتن وبہا یطلع قرن الشیطن (رواہ البخاری)
ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:اے اللہ! ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں آپ نے دعا فرمائی اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں میرے خیال میں آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا گروہ نکلے گا(رواہ البخاری)
یہ حدیث اس بات کی غماز ہے آل سعود اور محمد بن عبدالوہاب جن کا تعلق نجد سے ہے۔ مذکورہ حدیث میں انہیں کے تعلق سے یہ باتیں کہیں گئی ہیں۔ نجد سے تعلق رکھنے والے شیطا ن کا گروہ ایک پولیٹیکل اسٹبلشمنٹ ہے اور دوسراے مذہبی اسٹبلشمنٹ جن کا تعلق اسی نجد علاقے سے ہے۔ ان دونوں کے سنگم نے جو تباہی مچائی ہے، اس فتنے کا تعلق یمن اور شام سے ہے اور زمانہ بھی دونوں کا ایک ہے اور یہ شیطانی گروہ بیک وقت شام اور یمن میں جو خونی کھیل کھیل رہے ہیں اور جو تباہی مچارہے ہیں یہ شیطانی عمل اورانسانی سوز عمل ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ملکوں کے تعلق سے دعا فرمائی ہے اس دعاؤں کی برکت سے ہی دونوں ممالک کو آل سعود اور ان کے حواری شکست نہیں دے سکے اگر ان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو ان کی جارحیت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس طرح کی بیرونی سازش کو ماضی میں کبھی برداشت نہیں کرسکی ہے۔ ان دونوں قوموں کی استقامت کودنیا سلام کہتی ہے۔ مزاحمت کی تاریخ ان کی شجاعت کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔مکہ تو بہت بڑا شہر ہے۔ ہاں اگر مکہ کے فوجی تنصیبات پر اگر حملے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو کیوں نہیں کی جاسکتی ہے۔ حدود حرم کو چھوڑ کر ہر جگہ دشمنوں پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ ہاں سویلین ہدف ہرگز نہ ہوں خالص فوجی ہدف ہو۔ مگر حوثیوں نے ایسا نہیں کیا ہے انہوں نے صرف جدہ ائرپورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ جس میں جدہ ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے۔یمن پر یہ جھوٹا الزام سعودی عرب لگارہا ہے کہ اس نے مکہ پر حملہ کیا۔ حوثی خود کہہ رہے ہیں میں نے جدہ ائرپور ٹ پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے اس ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے۔ تم تو پورے ملک میں بم برساکر اسے تباہ وبرباد کررہے ہو لیکن اب میزائل تم پر گرنے لگے تو اپنی مکاری پر اترآئے ہو۔ مکہ اور مدینہ دو نہایت ہی متبرک شہر ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان جس کا بے انتہا احترام کرتے ہے چاہے ان کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو لیکن ساری دنیا جس کا احترام کرتی ہے لیکن سعودی عرب جس خطہ میں واقع ہے وہاں کے لوگ مکہ کی حرمت پامال کرنے میں ذرا ہکچاہت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ پہلی صدی ہجری میں عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے خلاف حجاج بن یوسف نے مکۃ میں کعبۃ اللہ کا جو حشر کیا تھا وہ تاریخ کا سب سے مکروہ باب ہے۔ خود یہ آل سعود جو برطانوی رحم وکرم پر اور خلافت عثمانیہ کو توڑنے اور برباد کرنے اور فلسطین میں بیت المقدس کو اسرائیل کے قبضہ دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ آل سعود کے فوجیوں نے مکہ میں حرم کے اندر اور کعبہ کے اندر اپنی جان بچانے والے ترک فوجیوں کو گھس کر شہید کیا ہے۔سب سے زیادہ مکہ اور حرمین کو پامال کرنے والے یہ آل سعود ہیں۔ جو حکومت اور جو خاندان مکاری پر اتر آیا ہواس سے کسی خیر کی امید نہیں جاسکتی۔ جنگ میں تمام اونچھی حرکتیں جو ہوسکتی ہیں اور پروپیگنڈہ کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں اس کو وہ خوب خوب استعمال کررہا ہے۔
یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر مسلسل ڈیڑھ مہینوں سے بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل جاری حتھی، جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعود ی عرب کو پٹے یا لیز پر دے دیئے گئے۔ جس لیز کی ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب پچھلے سال یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نے ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونیکے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔ اب سعودی عرب کو چاہئے کہ باہمی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے یمن کو لوٹادے۔ اگر سعودی عرب ایسا نہیں کرتا ہے تو حوثیوں کو اگرچہ دس برس مزید جنگ لڑنی پڑے لیکن وہ تینوں صوبے واپس لے کر رہیں گے۔
فون:9958361526

Tuesday, 25 October 2016

نمودونمائش کرنے والے مسلمان

نمودونمائش کرنے والے مسلمان


Cheapness_muslim_Arab #

ان دولت مندوں مسلمانوں کے خلاف بھی فتوی دینا چاہئے کہ اسلام میں سونے اور چاندی کے اشیاء مرد و خواتین کے لئے حرام ہے۔ اتنا نمودونمائش اور تکبر بھی حرام ہے۔ صومالیہ اور میانمار کے غریب مسلماں بھی موجود ہیں جنہیں کھانے کے لئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ لیکں ہم لوگ سونے اور چاندی کی گاڑیوں سے مرعوب نظر آرہے ہیں۔ مومن کسی کے تقوی اور علم سے مرعوب ہوتا ہے دولتوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوتا ہے۔ آج یہ وبا برونئی کے سلطان اور عرب کے متمول شہزادے یوروپ اور امریکہ میں اس کا cheapness مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہاں کے علماء ودانشوران ان دولت مندوں سے مرعوب نظر آرہے ہیں۔ اگر روپے تقسیم کے لئے اگر آپ کا ملک چھوٹا پڑجائے تو پڑوسی ممالک کا خیال رکھا جاتا ہے یہی اسلام ہے۔ غریب مسلماں بھائی مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں آپ کی دولت پر ان کا بھی اسی طرح حق ہے جیسا آپ کا حق ہے۔ ایران میں آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے محل کو عجائب عبرت بنادیا گیا ہے۔ اس کے محل میں بیڈ اور بجلی کے پنکھے، سوفے، باتھ روم کے پائپ اور نل تک سونے کے تھے۔ ہر آدمی جاکر اس میوزیم کو دیکھ سکتا ہے۔ ان کے پاس بے حساب دولت تھی لیکں اسی دنیا میں اسے عبرت کا نشان بننے سے یہ دولت نہیں روک سکی۔ قارون جس کا تعلق یہود قوم سے تھا اس کے پاس بے حساب دولت تھی۔ اتنی دولت تو برونئی کے بادشاہ کے پاس نہیں ہوگی لیکن وہ یہود قوم بھی فرعون کی تین سو سال تک غلام رہی۔ وہ فرعون ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ان کو فرعون سے آزادی دلائی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت مندی غلامی سے نجات کا باعث نہیں ہوتی۔ بلکہ مثبت سوچ، اسلام کے تئیں خودداری، آزادانہ افکار اور قومی خوداری ہی ہمیں آزاد بناسکتی ہے۔

مشرق کا جنیوا

مشرق کا جنیوا

#Geneva_of_East

یہ ہے وہ پاک سرزمین اور مشرق کا جنیوا اور اسلام کا قلعہ جہاں مسلم اور غیر مسلم چاہے کسی بھی عہدے اور کسی بھی ممالک سے ان کا تعلق ہو ان کو اس سرزمین کے تقدس کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ فن لینڈ کے صدر کے ساتھ ان کی اہلیہ حجاب پہنے ہوئے لفتھانسا ائر لائنس سے تہران میں اتررہی ہیں۔۔ مجھے سعودی عرب کے محروم شاہ عبداللہ کے سامنے امریکہ کے سابق صدر کی مشیر کونڈولیزا رائس جو اسکرٹ پہنے ریاض کے محل میں ملاقات کررہی ہیں، اس تصویر کو میں نہیں بھلاسکتا۔ وہ شاہ عبداللہ جو خادم الحرمین الشریفین بھی کہلاتے تھے، آل سعود کو سنی دنیا میں ایک طرح سے ہولی فیملی بنادیا گیا، پر ترس آتا ہے۔


ايران اور مغرب کے درميان معاہدہ يا جنگ کے خدشات

ايران اور مغرب کے درميان معاہدہ يا جنگ کے خدشات

چار نومبر 2014 کو فیس بک پر شائع شدہ )
#Iran_US_west_Agreement
 مغرب اور ايران کے درميان حاليہ دنوں جو مذاکرات چل رہے ہيں يہ مذاکرات حتمى مرحلے ميں داخل ہوگئے ہيں۔ پچھلے سال 24 نومبر 2013 کو ايران اور مغرب کے درميان نيوکليائى سميت متعدد حل طلب مسائل کو وہ آپس ميں مذاکرات کے ذريعہ حل کرنے کا تہيا کيا تھا۔ اس سلسلے ميں پہلے چھ مہينے کے لئے عبورى معاہدہ ہوا تھا ليکن بعد ميں ان دونوں فريق کو محسوس ہوا کہ اس عبورى معاہدے ميں چھ مہينے کى اور توسيع کى جائے تاکہ ہر جزو پر کھل کراور مدلل گفتگو ہوسکے تاکہ مغرب اور ايران کے درميان جو 34 سالہ کشاکش چل رہى ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔
اب بات چيت آخرى مرحلے ميں داخل ہوچکى ہے اور وہ اضافہ شدت مدت بھى 24 نومبر کو ختم ہوا ہى چاہتى ہے۔اگر يہ معاہدہ ايران کے ساتھ مغرب کے ہوجاتے ہيں تو يہ دنيا کے لئے اچھى بات ہوگى بلکہ بہت اچھى بات ہوگى۔ اگر يہ معاہدے نہيں ہوتے ہيں تو سابقہ Status Que والى بات ختم ہوجائے گى۔ يہ بدقسمتى کى بات ہوگى کہ ايران اور اس کے حليف ممالک اور مغرب کے درميان جنگ کے خدشات بڑھ جائيں گے، جو اس دنيا کے لئے بدقسمتى کى بات ہوگى۔





محمد مرسی کی اسٹریٹیجک غلطی

محمد مرسی کی اسٹریٹیجک غلطی

)چھبیس جنوری 2015 کو شائع شدہ)
#mohd_mursi_strategic_miskates

 محمد مرسی اور ان کی تنظیم جب مصر میں برسراقتدار آئی تو ان سے کچھ ایسی اسٹریٹیجک غلطی ہوئی جس نے خود ان کو اور ان کی تنظیم اخوان المسلمین کو عظیم آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ساری دنیا کو یہ بات معلوم ہے کہ مرسی کو فوج کی جانب سے معزول کردئیے جانے کے بعد اخوان المسلمین کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محمد مرسی اور ان کی تنظیم عجلت میں تھی جو کام ان کو دس برسوں میں کرنا چاہئے تھا وہ ایک یا دو برسوں میں کرنا چاہتی تھیں اس چیز نے ان کے حریف بلکہ دشمن کو چوکنا کردیا کہ اگر محمد مرسی کی حکومت برقرار رہتی تو ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ محمد مرسی دوست اور دشمن میں تمیز کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
میں ایک مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ محمد مرسی جب برسراقتدار آئے تو ایران کو اس بات کی امید تھی کہ مصر اور ایران کے درمیان جو سفارتی تعلقات 1979 سے ٹوٹے ہوئے ہیں وہ پھر سے بحال ہوجائیں۔ ا س کے لئے ایرانی حکومت نے بہت کوششیں کی، جب محمد مرسی ایران کے دور ے پر گئے وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد سے ہوئی تو ایرانی صدر نے محمد مرسی سے کہا کہ ہم لوگ اپنے تعلقات کی بنیاد سیاحت سے شروع کرتے ہیں ، اس سلسلے میں انہوں نے سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی بات کی اور انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت چاہتی ہے کہ مصر میں فاطمی خلفا کے عہد کے جو قلعے اور تعمیرات ہیں ان کی دیکھ بھال کی ذمہ دار آپ ایران کو دے دیں اس سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطہ بڑھیں گے اور تعلقات میں مزید استحکام آئے گا ، اس تجویز کو سنتے ہی محمد مرسی نے برجستہ کہا کہ اس سے مصر میں شیعیت کو فروغ ہوگا اس طرح معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ اس انقلاب سے ایران کی حکومت کو جو امیدیں تھیں وہ بالکل ختم ہوگئیں۔ ایران کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ یہ حکومت رہے یا ختم ہوجائے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران اپنے دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ہے، چاہے فلسطین ہو شام کی بشار الاسد کی حکومت ہو۔ خود برصغیر کے لوگ اپنی تاریخ پر غور کریں کہ مغل حکمران ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ایران ہی گیا تھا جہاں ایران کے صفوی سلطان نے ہمایوں کی زبردست آؤ بھگت کی اور اس کو عظیم فوج تیا ر کرنے میں مدد دی، شیر شاہ سوری کے حادثاتی موت کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔








کیجر ی وال مؤمنانہ صفات کے حامل بھلے ہی اس کا دماغ کافر

کیجری وال مؤمنانہ صفات کے حامل بھلے ہی اس کا دماغ کافر


(آٹھ فروری 2015 کو فیس بک پر لکھا گیا تھا
#Arvind_kejriwal_Momin_Kafir

 علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’پیام مشرق‘‘ میں نطشے کے تعلق سے کہا تھا ’’قلب او مؤمن دماغش کافراست‘‘ یعنی اس کا دل مؤمن کا ہے اور دماغ کافر کا ہے۔ میں یہ باتیں کیجری وال کے تعلق سے کہتا ہوں کہ کیجری وال کے اندر تمام مومنانہ صفات ہیں بھلے ہی وہ کافر ہے۔ ایک مومن کی جو خصوصیات ہونی چاہئے اور حکمرانی کا جو طرز اختیار کرنا چا
ہئے اور عوام کے درد کواپنا درد محسوس کرنا یہ صرف کیجری وال کا ہی خاصہ ہے۔اللہ ان کو استقامت عطا فرمائے۔








حرمین شریفین عنقریب آل سعود کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوگا

حرمین شریفین عنقریب آل سعود کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوگا


Two_holy_mosque_custodian_Al-saud#

آل سعود حکمرانوں کا انجام بھی معمر قذافی۔ صدام حسین اور رضا پہلوی جیساہی ہوگا۔ اس کے بعد حرمین شریفین سلفیوں کے پنجہ سے آزاد ہوجائے گا۔ وہاں تمام فرقوں کو اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی آزادی ہوگی جس طرح خلافت عثمانیہ کےعہد تک بہت سے سارے فرقوں کو آزادی تھی۔ جب سے آل سعود نے حرمین پر قبضہ کیا ہے وہاں صرف سلفی ہی نماز پڑھا سکتے ہیں۔ آل سعود کی شکشت کے ساتھ سلفیوں کے خونخوار پنجے سے حرمین شریفین آزاد ہوجائے گا۔ وہاں تمام فرقوں خواہ شیعہ یا سنی ہوں تمام فرقوں کو اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی آزادی ہوگی۔ سب پر زبردستی ایک امام متعین نہیں کیا جائے گا۔ وہاں تنوع میں وحدت ہوگی۔

Monday, 24 October 2016

حامیان مرسی کا دوہرا معیار

حامیان مرسی کا دوہرا معیار


 #Mursi_Hypochracy

(بائیس مئی 2015 کو شائع شدہ
مرسی کی جو لوگ حمایت کررہے ہیں ان کا دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلکہ حامیان مرسی نے جس جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور کررہے ہیں ۔ ان کو اس کی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ اگر مرسی کو اس ظلم سے بچانا ہے تو حامیان مرسی کو صدق دلی سے اپنی غلطیوں کی معافی اور تلافی بھی کرنی چاہئے تب ہی ان کی کوششیں بارگاہ ایزدگی میں شرف قبولیت حاصل کرسکتی ہیں۔ ترکی کے صدر جو اپنے آپ کو اس روئے زمین پر مرسی کے سب سے بڑے حامی تصور کئے جاتے ہیں،جو بظاہر نظر بھی آتا ہے لیکن سعودی عرب، امارات اور دیگر خلیجی ممالک قطر کو چھوڑ کر مرسی کے سزائے موت پر خوش ہیں اور وہ چاہتے ہیں ہر حال میں مرسی کو سزائے موت دے دی جائے تاکہ وہ عرب ممالک جن میں بہار عرب کی لہریں چل رہی ہیں وہ رک جائے۔
لیکن ترکی کے صدر ارودگان کی پریشانی اور بدبختی یہ ہے کہ شام کے مسئلہ پر سعودی عرب ، امارات اور خلیج کے دیگر ممالک کے ساتھ ان کا تحالف ہے اگر وہ مرسی کی حمایت میں کچھ کرگذرنے کی سوچیں گے تو شام ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں اگر ترکی اس سلسلے میں کوئی مرسی کے تعلق سے کوئی اہم رول ادا کرنا چاہے گا مگر وہ رول ادا نہیں کرسکے گا۔صدر رودگان کا دوہرا معیار سب کے سامنے ہے۔اللہ دوہرا معیار اپنانے والوں کی دعائیں قبول نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح عوام کی حالت بھی بہت بری ہے وہ ہر حال میں شام اور یمن میں شیعوں کی تباہی کے خواستگار ہیں لیکن یہان بھی دہرا معیار ہے ۔
مصر میں فوج مرسی کے منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیتی ہے اور سعودی ، امارات اور خلیج کے دیگر ممالک عبدالفتاح سیسی کی حمایت کررہے ہیں یہاں تو وہ تختہ پلٹ کرنے والے سیسی کی حمایت کررہے ہیں وہیں یمن میں عبدالمنصو
ر کی صدرارت کی بحالی کے نام پر یمن میں قتل عام مچارہی ہے۔ یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں کے ختم ہونے کا وقت قریب تر ہے۔ انہوں نے روئے زمین کو فساد سے بھردیا ہے، اس کا جلدہی ہی خاتمہ ہونے والا ہے۔








آیت الله شیخ نمر باقر النمرکل شہید کردیئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

 آیت الله شیخ نمر باقر النمرکل شہید کردیئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

#Namr-assasination

تین جنوری 2016 کو شائع شدہ)
آل سعود نے کل آیت اللہ شیخ نمر باقر النمرکو شہید کرکے اپنے  ڈیتھ وائرنٹ پر دستخط کردیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے آل سعود کو پرامن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ شیعہ اقلیت کو وہ حقوق دے جو عام انسانون کو حاصل ہے۔ لیکن آل سعود نے حقوق دینے کے بجائے ان کو ان کے نوعمر بھتیجے سمیت شہید کردیا ۔
آل سعود کے گیارہ ہزار سے زائد افراد پر مشتمل خاندان جو ملک کے آدھے بجٹ کو ہڑپ کرجاتا ہے، جو قیمت ادا کرنی پڑے گی،وہ بھی دنیا یاد رکھے گی۔ وہ عارضی طور پر خوش ہولیں کہ انہوں نے ایک عالم دین کو قتل کردیا ہے۔ یہ خوشی ان کی بالکل عارضی ہوگی۔ اب آل سعود کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ قدرت ان سے زبردست انتقام لے گی۔ آل سعود خاندان جلدہی عبرت کا نشان بن جانے والا ہے۔ انشاء اللہ۔

















Thursday, 20 October 2016

سعودی عرب یمنیوں کا غاصب

سعودی عرب یمنیوں کا غاصب

#Yemen_saudi_Arabia

گزشتہ رات سے سعودی کی درخواست پر یمن میں تین دنوں کے لئے جنگ بندی کی گئی، تاکہ انسانی بنیاد پر ریلیف کا کام کیا جاسکے۔ یمن کے حوثیوں اور سعودی عرب کے اتحاد کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لئے کئی دور کی باتیں ہوچکی ہیں لیکں سعودی عرب اس بات کے لئے مصر ہے کہ حوثی صنعا خالی کردیں اور اپنے اشارے پر ناچنے والے صدر منصور ہادی کو دوبارہ یمن کے ایوان صدر تک پہنچانے کا خواب دیکھ رہا ہے تاکہ یمن کو اپنی مرضی سے چلاسکے۔ سعودی عرب 26 مارچ 2015 سے صنعا پرمسلسل بمباری کررہا ہے لیکن حوثیوں کا وہ کچھ نہیں بگاڑ پائے بلکہ حوثی سعودی عرب پر غالب آچکے ہیں اب لڑائی مقبوضہ نجران، عسیر اور جیزان میں لڑی جارہی ہے۔ حوثیوں کے میزائیل طائف پر بھی گرچکے ہیں۔ ریاض پر میزائل مارنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اب اسلحوں خاص طور سے بیلسٹک میزائل میں حوثی خود کفیل ہوچکے ہیں۔ اب ان کی واپسی اور کمزور کرنے کی باتیں حوثیوں کی شکست جیسے الفاظ اب سعودی عر ب لغت میں تلاش کریں۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی۔ یمن سے سعودی عرب کی سرحد اٹھارہ سو کلومیٹر لگتی ہے۔
یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر مسلسل ڈیڑھ مہینوں سے بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل جاری حتھی، جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعود ی عرب کو پٹے یا لیز پر دے دیئے گئے۔ جس لیز کی ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب پچھلے سال یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نے ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونیکے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔ اب سعودی عرب کو چاہئے کہ باہمی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے نجران ، عسیر اور جیزان کے صوبے یمن کو لوٹادے۔ اگر سعودی عرب ایسا نہیں کرتا ہے تو حوثیوں کو اگرچہ دس برس مزید جنگ لڑنی پڑے لیکن وہ تینوں صوبے واپس لے کر رہیں گے۔

Sunday, 16 October 2016

مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے نام ایک خط

مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے نام ایک خط

#Muslim_Personal_Board_General_Secretary

محترم مولانا سید ولی رحمانی صاحب
جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید قوی ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کو حفظ وامان میں رکھے۔
مسلم پرسنل لابورڈ نے تین طلاق کے مسئلے پر جس طرح کا مؤقف اختیار کیا اس سے ہندوستانی مسلمانوں کو نئی امنگ اور نیا حوصلہ ملا۔ان ڈھائی برسوں میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کے ہم بالکل بے اثر ہوچکے ہیں اور ہماری حیثیت چوپائے سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن مسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے آپ کے کہے گئے ان چند جملوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی رگوں میں حرارت دوڑادی۔ جس سے خود مرکزی حکومت تھرا گئی اور اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ مرکزی حکومت دفاعی حالت میں آگئی۔آپ کا یہ کہنا کہ’’ موجودہ حکومت سرحد وں کی تو حفاظت نہیں کرسکتی ملک میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کی تیاری کررہی ہے اور مودی حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے تین طلاق کا اور یکساں سول کوڈ کے مسئلے کے شوشے چھوڑ رہی ہے۔ ‘‘ ان جملوں میں جو معنی خیزی اور دور اندیشی کا پہلو نظر آتا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ خود مولانا ارشد مدنی کا یہ کہنا ہے کہ یہاں کے مسلمان ایک ہزار سال سے اسی شریعت اور اسی مسلم پرسنل لا پر عمل درآمد کررہے ہیں، آج کیا ہوگیا کہ اس میں تبدیلی کرنے کی بات ہورہی ہے۔
دراصل مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت جب سے بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی تب سے ان کی یہی کوشش ہے کہ ہندوستان مین مسلمانوں کی شناخت مٹادی جائے اور سارے مسلمانوں ہندویانہ تہذیب میں ضم ہوجائیں۔ مودی جب ڈھائی برس قبل جب الیکشن میں جیت کے برسراقتدار آئے تو یہی پرچار کیا گیا کہ ایک ہزار برس کی غلامی کے بعد ہندو ہندوستان میں برسراقتدار آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے لوگوں کی ذہنیت کس طرح کی ہے،وہ کیا کچھ کرنے کا فیصلہ لے چکی ہے۔ کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ قانون بن جانے سے کیا ہوتا ہے۔اس سے پہلے بھی بہت سارے قوانین بنائے گئے تھے لیکن اس کا کیا حشر ہوا۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں اس سے بخوبی واقف ہیں کہ جو قوانین بنائے جاتے ہیں اس کا سب سے زیادہ اور مؤثر اطلاق مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بند ہوگئے ہیں۔ کیا مسلمانوں کے خلاف فسادات کرانا ہندوستانی آئین کے خلاف نہیں ہے لیکں خوب خوب فسادات مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ عام حالات میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح غیر اعلانیہ بھید بھاؤ کیا جاتا ہے اور ہر معاملے میں انہیں نظر انداز کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ہندوستان یوروپ یا امریکہ نہیں ہے جہاں قانون کا احترام کیا جاتا ہے اور جو قوانین بن جائے اس پر حکومت عمل درآمد کرتی ہے۔ یہ ہندوستان ہے جہاں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت کے درمیان یوجنا (اردو ) میں مشہور سماجی سائنٹسٹ پروفیسر امتیاز صاحب کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ’’بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومت تو سیکولر ہے لیکن یہاں کی عوام انتہاپسند ہے۔‘‘ لیکن اب حکومت بھی انتہاپسند ہے اور عوام توپہلے سے تھی ہی انتہاپسند۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہندوتو تنظیموں نے کس طرح کا ماحول بنادیا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں یکساں سول کوڈ کی آڑ میں مسلمانوں کی اپنی شناخت مٹادینے کے مترادف ہے۔
اب بات صرف یہی پر نہیں رکنی چاہئے بلکہ مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال لے۔ جس کا انتظار یہ قوم عشروں سے کررہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا انتخاب من جانب اللہ ہواہے۔بات صرف پرسنل لا تک نہیں ہونی چاہئے بلکہ وقف کی جائیداد کا جس طرح حکومت استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ حکومت ہند نے پلاننگ بھی کرلی ہے یہ سراسر مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہے ۔ اب وقف کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے ۔حکومت ہند کا اس میں کوئی عمل ودخل نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری جتنی تاریخی مساجد اور مذہبی مقامات کو حکومت ہند نے مختلف بہانوں کے تحت قبضہ کررکھا ہے اس کی بازیاب کی ذمہ داری بھی مسلم پرسنل لا بورڈ اٹھائے۔ اب کوئی بھی سیاسی اور اجتماعی فیصلے جو مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہو مسلم پرسنل لا بورڈ اجتماعی طور پر لے۔اسی طرح مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی حصہ داری ہونی چاہئے وغیرہ وغیرہ یہی میری درخواست ہے جو شاید عام مسلمانوں کی دل کی آواز ہے۔
طالب دعا

ظفر اقبال
فون:9958361526
ای میل:zafarurduuni@gmail.com

Saturday, 15 October 2016

مسلم پرسنل لا کی تاریخی پریس کانفرنس

مسلم پرسنل لا کی تاریخی پریس کانفرنس

Muslim_personal-_Law_indian_Muslim#

 از:ظفر اقبال

 مسلم پرسنل لانے تین طلاق کے مسئلے پر جس طرح کا مؤقف اختیار کیا اس سے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نئی امنگ اور نیا حوصلہ ملا۔ان ڈھائی برسوں میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کے ہم بالکل بے اثر ہوچکے ہیں اور ہماری حیثیت چوپائے سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن مسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمان کے وہ چند جملوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی رگوں میں حرارت دوڑادی۔ جس سے خود مرکزی حکومت تھرا گئی اور اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ مرکزی حکومت دفاعی حالت میں آگئی۔ مولانا ولی رحمانی کا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت سرحد وں کی تو حفاظت نہیں کرسکتی ملک میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کی تیاری کررہی ہے اور مودی حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے تین طلاق کا اور یکساں سول کوڈ کے مسئلے کے شوشے چھوڑ رہی ہے۔ ‘‘ ان جملوں میں جو معنی خیزی اور دور اندیشی کا پہلو نظر آتا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ خود مولانا ارشد مدنی کا یہ کہنا ہے کہ یہاں کے مسلمان ایک ہزار سال سے اسی شریعت اور اسی مسلم پرسنل لا پر عمل درآمد کررہے ہیں، آج کیا ہوگیا کہ اس میں تبدیلی کرنے کی بات ہورہی ہے۔
دراصل مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت جب سے بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی تب سے ان کی یہی کوشش ہے کہ ہندوستان مین مسلمانوں کی شناخت مٹادی جائے اور سارے مسلمانوں ہندویانہ تہذیب میں ضم ہوجائیں۔ مودی جب ڈھائی برس قبل جب الیکشن میں جیت کے برسراقتدار آئے تو یہی پرچار کیا گیا کہ ایک ہزار برس کی غلامی کے بعد ہندو ہندوستان میں برسراقتدار آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے لوگوں کی ذہنیت کس طرح کی ہے،وہ کیا کچھ کرنے کا فیصلہ لے چکی ہے۔ کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ قانون بن جانے سے کیا ہوتا ہے۔اس سے پہلے بھی بہت سارے قوانین بنائے گئے تھے لیکن اس کا کیا حشر ہوا۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں اس سے بخوبی واقف ہیں کہ جو قوانین بنائے جاتے ہیں اس کا سب سے زیادہ اور مؤثر اطلاق مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بند ہوگئے ہیں۔ کیا مسلمانوں کے خلاف فسادات کرانا ہندوستانی آئین کے خلاف نہیں ہے لیکں خوب خوب فسادات مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ عام حالات میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح غیر اعلانیہ بھید بھاؤ کیا جاتا ہے اور ہر معاملے میں انہیں نظر انداز کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ہندوستان یوروپ یا امریکہ نہیں ہے جہاں قانون کا احترام کیا جاتا ہے اور جو قوانین بن جائے اس پر حکومت عمل درآمد کرتی ہے۔ یہ ہندوستان ہے جہاں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت کے درمیان یوجنا (اردو ) میں مشہور سماجی سائنٹسٹ پروفیسر امتیاز صاحب کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ’’ ہندوستان کی حکومت تو سیکولر ہے لیکن یہاں کی عوام انتہاپسند ہے۔‘‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہندوتو تنظیموں نے کس طرح کا ماحول بنادیا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں یکساں سول کوڈ کی بات کہنا مسلمانوں کی اپنی شناخت مٹادینے کے مترادف ہے۔







Sunday, 9 October 2016

یورپ کی سب سے بڑی مسجد

یورپ کی سب سے بڑی مسجد

#moscow_masjid_putin

(چھبیس ستمبر 2015 کو فیس بک پر شائع شدہ
روس کی جانب سے مسلم امہ کو ایک خراج تحسین، روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ماسکو میں یوروپ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح چند دنوں پہلے کیا تھا ،یہ مسجد ہندوستانی کرنسی میں گیارہ سو کروڑ روپے کی لاگت سے دس برسوں میں تیار ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ولادیمیر پوتن کی پالیسی امت مسلمہ کے تعلق سے ایک غیر معمولی عہد میں داخل ہوگئی ہے۔ مجھے بار بار مولانا مودودی (رح)یاد آرہے ہیں جنہوں نے ساٹھ برس پیشتر یہ بات کہی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کمیونزم کو ماسکو میں جگہ نہیں ملے گی۔اس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ روس میں کئی کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔جن پر زبردست مذہبی پابندی تھی لیکن اب وہ آزادی کا احساس ضرور کررہے ہوں گے۔


یوسف القرضاوی لاکھوں مسلمانوں کے قاتل

یوسف القرضاوی لاکھوں مسلمانوں کے قاتل

qardawi_killer_muslim# 

یوسف القرضاوی لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ہیں، پہلی مرتبہ فلسطین کو سامنے رکھ کر انہوں نے نوے کی دہائی میں سوسائڈ اٹیک کے جواز کا فتوی دیا تھا۔ فلسطیں میں محض ایک یا دو ہی سوسائڈ اٹیک حملہ فلسطینیوں نے کیا۔ لیکن اس فتوی کو جواز بنا کر طالبان اور داعش اور اس قبیل کے مختلف سنی گروپس مسلسل حملے کرکے ہزاروں کیا لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرچکے ہیں۔ چاہے وہ دھماکے پاکستان، عراق، شام یا یمن یا سعودی عرب میں ہو۔ ڈھائی سال قبل انہوں نے اعلان کیا تھا کہ شیعہ دنیا نے سنی دنیا پر حملہ کردیا ہے۔ ان کے اس اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ داعش انہیں کے فتوی کی پیداوار ہیں۔ ان کے اس اعلان سے کہ شیعہ دنیا نے سنی دنیا پر حملہ کردیا ہے تو داعش نے بھی شیعہ دنیا پر حملہ کردیا اور ہزاروں شیعوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ داعش دراصل شیعوں کے لئے ایک امتحان ہے۔ پوری سنی عرب طاقتیں داعش کا مسلسل ساتھ دے رہی ہیں۔ ابھی کل ہی شام کے دو شہروں طرطوس پر سوسائڈ کار بم دھماکے کئے گئے جس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔

Saturday, 8 October 2016

سعودی عرب پر ’’جاسٹا‘‘ کا بھوت سوار

سعودی عرب پر ’’جاسٹا‘‘ کا بھوت سوار

#saudi_JASTA

سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کے لئے مسلم ممالک میں جس طرح تباہی مچائی ہے اس کی اسے قیمت تو چکانی ہی پڑے گی۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ جس کے لئے جو کوئی کنواں کھودتا ہے وہ خود اسی میں گرجاتا ہے جب مسئلہ اپنے مسلم بھائیوں کا ہوتو معاملہ اور سنگین ہوجاتا ہے۔ سعودی عرب نے عالم اسلام کا سب سے بڑا سنی ملک پاکستان جو عالم  اسلام کا سب سے پہلا اور اکلوتا ایٹمی طاقت بھی ہے اس ملک میں شیعہ۔سنی کا جس طرح کھیل کھیلا  اور وہاں شیعوں کا جس طرح سلفیوں نے قتل عام کیا ہے وہ تمام تباہیوں کا ذمہ دار سعودی عرب ہے۔ پاکستان کے علاوہ خود سعودی عرب، کویت اور افغانستان ، عراق، شام میں جتنے بھی شیعوں پر حملے ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں اس کے پس پردہ سلفی  وہابی گروپ ہے۔ جس نے اپنے نظریات اور ریال کی بدولت  جس طرح سیاہ کارنامہ انجام دیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔۔ چاہے ایران۔ عراق جنگ ہو یا شام میں سعودی عرب کی فتنہ گری ہوان تمام جنگوں میں سعودی عرب کھل کر ملوث ہے  ۔ لاکھوں شامی عوام کا سعودی عرب نے قتل کروایا ہے۔ شام میں تمام تر خانہ جنگی کے پس پردہ سعودی اور امریکی ہاتھ ہے جس کی قیمت تو اسے یقینا چکانی ہی پڑے گی۔
پاکستان کے مشہور کالم نگار اشتیاق بیگ اپنے حالیہ مضمون ’’سعودی مخالف امریکی بل پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے مترادف ہے‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اور پرانا اتحادی تصور کیا جاتا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد امریکی ایما پر سعودی عرب نے جہاد افغانستان میں حصہ لیا اور بڑی تعداد میں عرب مجاہدین افغانستان آئے جنہوں نے القاعدہ کی بنیاد رکھی جبکہ سوویت، افغان جنگ کے اربوں ڈالر کے اخراجات بھی سعودی عرب نے برداشت کئے جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو افغانستان میں پسپائی اختیار کرنا پڑی اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ بعد ازاں امریکہ نے اپنے مفادات پورے ہونے کے بعد اتحادیوں کو تنہا چھوڑ دیا نتیجتاً طالبان، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں۔ سعودی عرب نے عراق، ایران جنگ کے دوران امریکی ایماپر عراقی صدر صدام حسین کی مالی و سفارتی حمایت بھی جاری رکھی جبکہ موجودہ صورتحال میں سعودی عرب، شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے میں امریکہ کا اہم اتحادی ہے مگر آج امریکہ اپنے دیرینہ اتحادی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دہشت گردی کا سارا ملبہ سعودی عرب پر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے‘‘۔
 اس پیراگراف کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے سعودی عرب 70۔80 برسوں میں امریکیوں نے جو جو جرائم کئے ہیں ان تمام میں سعودی عرب امریکہ کا شریک جرم رہا ہے۔ جب معاملہ عالم اسلام کا ہو تو سعودی عرب تو بالکل کھل کر اس کے جرائم میں شریک رہا ہے۔ اب سعودی عرب کے پاپ کا گھرا بھر چکا ہے جس کی اسے قیمت چکانی ہی پڑے گی۔
واضح رہے کہ اشتیاق بیگ کا مذکورہ مضمون العربیہ اردو میں موجود ہے)۔)

Thursday, 6 October 2016

واہ چین، تم تو سچ مچ دنیا کی قیادت کی اہلیت رکھتے ہو

واہ چین، تم تو سچ مچ دنیا کی قیادت کی اہلیت رکھتے ہو

#china_house_highway

کسی حکومت کی جانب سے اپنی عوام کے جذبات کا خیال کیسے رکھا جاتا ہے وہ دیکھنا ہوتو چین کی حکومت کی طرف دیکھے جس نے اپنی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے سختی سے منع کردیا کہ عوام کو ہرگز تنگ نہ کیا جائے بلکہ جب اس کی خواہش ہوگی تب وہ حکومت کو اپنے مکانات فروخت کردے۔ چین کی لاجواب حکمت عملی جس کو دیکھ کر طبیعت عش عش کرنے لگی۔ کس طرح حکومت چین نے اس مالک مکان کو نفسیاتی دباؤ کا شکار بنادیا ہے۔ وہ اس لئے کہ یہ شاہراہ عوام کی فلاح وبہود کے لئے بنائی گئی ہے اس کے مکان بیچ میں آنے کی وجہ سے سڑک ادھوری رہ گئی ہے۔ اب عوام کی طرف سے مالک مکان پر اخلاقی دباؤ پڑے گا کہ وہ مکان کو حکومت کو فروخت کردے تاکہ شاہراہ مکمل ہوجائے۔ میں عوامی جمہوریہ چین کی حکمت عملی کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکا۔ اگر دنیا کی اور کوئی حکومت ہوتی تو ایسے آدمی کے مکان کو زبردستی توڑ دیتی اور کہتی کہ جب سارے لوگوں نے مکان حکومت کو بیچ دی ہے تو تم کیوں نہیں بیچوگے۔ تمہارے لئے ہی علامہ اقبال نے کچھ اشعار کہے ہیں:ملاحظہ ہو
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں
ہمالے کے چشمے ابلنے لگے ہیں
گیا دور سرمایہ داری گیا 
تماشہ دکھا کر مداری گیا


 

Tuesday, 4 October 2016

شہاب الدین عدالت کا ستایا ہوا مجرم

 شہاب الدین عدالت کا  ستایا ہوا مجرم

Shahabuddin_Judiciary#

بہار کے مشہور زورآور لیڈر شہاب الدین کو چند دن پہلے ہی ایک قتل کے الزام میں گیارہ برسوں کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ کے ذریعہ رہائی ملی تھی لیکن جب اس کو بھاگلپور کے جیل سے رہا کیا گیا تھا تو تقریبا کئی ہزار گاڑیوں پر مشتمل ان کے پرستاروں نے  زبردست استقبال کیا، ان کے آبائی شہر سیوان تک لوگوں نے جگہ جگہ شہاب الدین کا استقبال کیا جس کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا حسد میں جلنے لگی اور اس کے خلاف بہت زیادہ ہرزہ رسائی کرنے لگی۔ شہاب الدین یقینا قاتل  ہے  اور اسے مقدمہ کا بھی سامنا ہے لیکن اسے پٹنہ ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی۔ اب پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہی میڈیا میدان میں کود گئی کہ اس زور آور جنتا دل کے سابق ایم کو کیوں ضمانت دی۔ یہ ایک طرح سے عدالت کی توہین تھی لیکن ہیندوستانی میڈیا اخلاقیات کے ادنی اصول سے جتنی واقف ہے ساری دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے۔ جب معاملہ مسلمان زور لیڈر کا ہو تو ہمارے ملک کا میڈیا کچھ زیادہ ہی زہر اگلنے لگتا ہے۔ اس زہر اگلنے میں چاہے عدالت کے فیصلے کی توہین ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ لیکن سپریم کورٹ نے چند دن پہلے پٹنہ ہائی کورٹ کے  فیصلے کو الٹتے ہوئے  دوبارہ شہاب الدین  کی ضمانت رد کردی گئی اور اسے پھر داخل زنداں کردیا گیا۔  سپریم کورٹ کو شہاب الدین کو دوبارہ  داخل زنداں کرنے کا فیصلہ سراسر عوام اور میڈیا کے شوروغوغا کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے، جو انصاف کے متلاشی لوگوں کے حلق سے نہیں اترتی ہے۔
اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف شہاب الدین کی حمایت میں زبردست ریلی کی گئی جس میں عوام سڑکوں پر نکل کر زبردست احتجاج کررہی ہے تاکہ سپریم کورٹ جو عوامی دباؤ کے سامنے جھک جاتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ اس ریلی کے دیکھتے ہوئے پھر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے دوبارہ اسے ضمانت دے گی۔
سپریم کورٹ کو بغور اس جمہوری نظارے کا مشاہدہ کرنا چاہئے تاکہ ثبوت کی بنیاد پر فیصلے کرنے والی عدالت کو کسی طرح اپنی غلطی کا احساس ہو۔ حالیہ عرصوں میں سپریم کورٹ کے کچھ فیصلے ایسے آچکے ہیں جو صرف عوامی جذبات کا خیال کرکے فیصلے لئے گئے ہیں اب سپریم کورٹ شہاب الدین کے تعلق سے عوامی جذبات کے تحت فیصلہ لے۔ ہندوستانی اقلیتوں کو انتظامیہ، مقننہ پر اعتماد تو رہا نہیں، اب تھوڑا بہت جو عدلیہ پر اعتماد تھا وہ بھی ڈگمگانے لگا ہے۔سپریم کورٹ اپنی Credibility کو دوبارہ بحال کرے تاکہ عدلیہ کے تعلق سے اقلیتوں کے اندر جو منفی رجحان پنپ رہا ہے اس کا تدارک ہوسکے۔

Sunday, 2 October 2016

ہندوستان کا ایک جمورا :طارق فتح

ہندوستان کا ایک جمورا :طارق فتح

#tarek_fateh_aap_ki_adalat

2 2 دو اکتوبر 2016 کی رات ’’انڈیا ٹی وی‘‘پر ’آپ کی عدالت‘ پروگرام میں طارق فتح ملزم کی حیثیت سے پیش ہوئے اور اس عدالت کے جج منور رانا تھے۔طارق فتح جس طرح مداری کے ایک جمورے کی طرح ہر سوال کا جواب دے رہے تھے۔ جمورے کی ایک ایک بات پرناظرین لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ لوگوں کو وقتی خوشی تو وہ دے سکتے ہیں لیکن اس جیسے جمورے سے ہندوستان کا کوئی بھلا نہیں ہوسکتا۔ طارق فتح پاکستان کے ایک بھگوڑے ہیں۔ جنہوں نے سیاسی پناہ حاصل کرکے کناڈا میں رہ رہے تھے لیکن آج کل ایک دو برسوں سے ہندوستانی ٹی وی چینلوں کے بہت ہی چہیتے بنے ہوئے ہیں۔وہ ہر باتوں کی اس طرح توضیح پیش کرتے ہیں جو حقائق سے پرے ہے۔ یہ شخص اسلام کے لئے ہی نہیں بلکہ ہم ہندوستانیوں کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔یہ شخص ہندوستان جیسے سوسائٹی کے لئے زہر ہے۔ وہ یہاں کے معاشرے میں ہرگز گھل مل نہیں سکتا۔ بلکہ ایک نفرت کی فضا ہی پیدا کرسکتا ہے۔ جو ہندوستان جیسے ماحول کے لئے سود مند نہیں ہے۔ ہم جلد از جلد اس شخص سے نجات حاصل کرلیں وہی بہتر ہے نہیں تو یہ شخص ہم ہندوستانیوں کو آپس میں لڑوادے گا اور خود ملک چھوڑ کر کناڈا بھاگ جائے گا۔