مسلم پرسنل لا کی تاریخی پریس کانفرنس
Muslim_personal-_Law_indian_Muslim#
از:ظفر اقبال
مسلم پرسنل لانے تین طلاق کے مسئلے پر جس طرح کا مؤقف اختیار کیا اس سے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نئی امنگ اور نیا حوصلہ ملا۔ان ڈھائی برسوں میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کے ہم بالکل بے اثر ہوچکے ہیں اور ہماری حیثیت چوپائے سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن مسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمان کے وہ چند جملوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی رگوں میں حرارت دوڑادی۔ جس سے خود مرکزی حکومت تھرا گئی اور اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ مرکزی حکومت دفاعی حالت میں آگئی۔ مولانا ولی رحمانی کا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت سرحد وں کی تو حفاظت نہیں کرسکتی ملک میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کی تیاری کررہی ہے اور مودی حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے تین طلاق کا اور یکساں سول کوڈ کے مسئلے کے شوشے چھوڑ رہی ہے۔ ‘‘ ان جملوں میں جو معنی خیزی اور دور اندیشی کا پہلو نظر آتا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ خود مولانا ارشد مدنی کا یہ کہنا ہے کہ یہاں کے مسلمان ایک ہزار سال سے اسی شریعت اور اسی مسلم پرسنل لا پر عمل درآمد کررہے ہیں، آج کیا ہوگیا کہ اس میں تبدیلی کرنے کی بات ہورہی ہے۔
دراصل مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت جب سے بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی تب سے ان کی یہی کوشش ہے کہ ہندوستان مین مسلمانوں کی شناخت مٹادی جائے اور سارے مسلمانوں ہندویانہ تہذیب میں ضم ہوجائیں۔ مودی جب ڈھائی برس قبل جب الیکشن میں جیت کے برسراقتدار آئے تو یہی پرچار کیا گیا کہ ایک ہزار برس کی غلامی کے بعد ہندو ہندوستان میں برسراقتدار آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے لوگوں کی ذہنیت کس طرح کی ہے،وہ کیا کچھ کرنے کا فیصلہ لے چکی ہے۔ کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ قانون بن جانے سے کیا ہوتا ہے۔اس سے پہلے بھی بہت سارے قوانین بنائے گئے تھے لیکن اس کا کیا حشر ہوا۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں اس سے بخوبی واقف ہیں کہ جو قوانین بنائے جاتے ہیں اس کا سب سے زیادہ اور مؤثر اطلاق مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بند ہوگئے ہیں۔ کیا مسلمانوں کے خلاف فسادات کرانا ہندوستانی آئین کے خلاف نہیں ہے لیکں خوب خوب فسادات مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ عام حالات میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح غیر اعلانیہ بھید بھاؤ کیا جاتا ہے اور ہر معاملے میں انہیں نظر انداز کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ہندوستان یوروپ یا امریکہ نہیں ہے جہاں قانون کا احترام کیا جاتا ہے اور جو قوانین بن جائے اس پر حکومت عمل درآمد کرتی ہے۔ یہ ہندوستان ہے جہاں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت کے درمیان یوجنا (اردو ) میں مشہور سماجی سائنٹسٹ پروفیسر امتیاز صاحب کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ’’ ہندوستان کی حکومت تو سیکولر ہے لیکن یہاں کی عوام انتہاپسند ہے۔‘‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہندوتو تنظیموں نے کس طرح کا ماحول بنادیا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں یکساں سول کوڈ کی بات کہنا مسلمانوں کی اپنی شناخت مٹادینے کے مترادف ہے۔
No comments:
Post a Comment