ہشیار سنی دنیا !سعودی عرب کے فریب میں ہرگز نہ آئیں
Sunni_world_beware_Ale-_saud#
از:ظفر اقبال
26 مارچ 2015سے عرب ممالک کے سب سے غریب ملک یمن پر اپنے نام ونہاد اتحاد بنا کر سعود ی عرب مسلسل بمباری کررہا ہے، یمن جس کے تعلق سے مشکوۃ شریف میں مشہور حدیث موجود ہے۔ وہ حدیث ملاحظہ ہو : مشکوۃ شریف، باب ذکر الیمن والشام وذکر اویس القرنی، حدیث نمبر:6009
وعن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوایا رسول اللہ وفی نجدنا قال اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوا یارسول اللہ و فی نجدنا فاظنہ قال فی الثالثۃ ھناک الزلازل والفتن وبہا یطلع قرن الشیطن (رواہ البخاری)
ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:اے اللہ! ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں آپ نے دعا فرمائی اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں میرے خیال میں آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا گروہ نکلے گا(رواہ البخاری)
یہ حدیث اس بات کی غماز ہے آل سعود اور محمد بن عبدالوہاب جن کا تعلق نجد سے ہے۔ مذکورہ حدیث میں انہیں کے تعلق سے یہ باتیں کہیں گئی ہیں۔ نجد سے تعلق رکھنے والے شیطا ن کا گروہ ایک پولیٹیکل اسٹبلشمنٹ ہے اور دوسراے مذہبی اسٹبلشمنٹ جن کا تعلق اسی نجد علاقے سے ہے۔ ان دونوں کے سنگم نے جو تباہی مچائی ہے، اس فتنے کا تعلق یمن اور شام سے ہے اور زمانہ بھی دونوں کا ایک ہے اور یہ شیطانی گروہ بیک وقت شام اور یمن میں جو خونی کھیل کھیل رہے ہیں اور جو تباہی مچارہے ہیں یہ شیطانی عمل اورانسانی سوز عمل ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ملکوں کے تعلق سے دعا فرمائی ہے اس دعاؤں کی برکت سے ہی دونوں ممالک کو آل سعود اور ان کے حواری شکست نہیں دے سکے اگر ان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو ان کی جارحیت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس طرح کی بیرونی سازش کو ماضی میں کبھی برداشت نہیں کرسکی ہے۔ ان دونوں قوموں کی استقامت کودنیا سلام کہتی ہے۔ مزاحمت کی تاریخ ان کی شجاعت کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔مکہ تو بہت بڑا شہر ہے۔ ہاں اگر مکہ کے فوجی تنصیبات پر اگر حملے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو کیوں نہیں کی جاسکتی ہے۔ حدود حرم کو چھوڑ کر ہر جگہ دشمنوں پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ ہاں سویلین ہدف ہرگز نہ ہوں خالص فوجی ہدف ہو۔ مگر حوثیوں نے ایسا نہیں کیا ہے انہوں نے صرف جدہ ائرپورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ جس میں جدہ ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے۔یمن پر یہ جھوٹا الزام سعودی عرب لگارہا ہے کہ اس نے مکہ پر حملہ کیا۔ حوثی خود کہہ رہے ہیں میں نے جدہ ائرپور ٹ پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے اس ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے۔ تم تو پورے ملک میں بم برساکر اسے تباہ وبرباد کررہے ہو لیکن اب میزائل تم پر گرنے لگے تو اپنی مکاری پر اترآئے ہو۔ مکہ اور مدینہ دو نہایت ہی متبرک شہر ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان جس کا بے انتہا احترام کرتے ہے چاہے ان کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو لیکن ساری دنیا جس کا احترام کرتی ہے لیکن سعودی عرب جس خطہ میں واقع ہے وہاں کے لوگ مکہ کی حرمت پامال کرنے میں ذرا ہکچاہت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ پہلی صدی ہجری میں عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے خلاف حجاج بن یوسف نے مکۃ میں کعبۃ اللہ کا جو حشر کیا تھا وہ تاریخ کا سب سے مکروہ باب ہے۔ خود یہ آل سعود جو برطانوی رحم وکرم پر اور خلافت عثمانیہ کو توڑنے اور برباد کرنے اور فلسطین میں بیت المقدس کو اسرائیل کے قبضہ دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ آل سعود کے فوجیوں نے مکہ میں حرم کے اندر اور کعبہ کے اندر اپنی جان بچانے والے ترک فوجیوں کو گھس کر شہید کیا ہے۔سب سے زیادہ مکہ اور حرمین کو پامال کرنے والے یہ آل سعود ہیں۔ جو حکومت اور جو خاندان مکاری پر اتر آیا ہواس سے کسی خیر کی امید نہیں جاسکتی۔ جنگ میں تمام اونچھی حرکتیں جو ہوسکتی ہیں اور پروپیگنڈہ کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں اس کو وہ خوب خوب استعمال کررہا ہے۔
یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر مسلسل ڈیڑھ مہینوں سے بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل جاری حتھی، جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعود ی عرب کو پٹے یا لیز پر دے دیئے گئے۔ جس لیز کی ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب پچھلے سال یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نے ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونیکے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔ اب سعودی عرب کو چاہئے کہ باہمی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے یمن کو لوٹادے۔ اگر سعودی عرب ایسا نہیں کرتا ہے تو حوثیوں کو اگرچہ دس برس مزید جنگ لڑنی پڑے لیکن وہ تینوں صوبے واپس لے کر رہیں گے۔
فون:9958361526
از:ظفر اقبال
26 مارچ 2015سے عرب ممالک کے سب سے غریب ملک یمن پر اپنے نام ونہاد اتحاد بنا کر سعود ی عرب مسلسل بمباری کررہا ہے، یمن جس کے تعلق سے مشکوۃ شریف میں مشہور حدیث موجود ہے۔ وہ حدیث ملاحظہ ہو : مشکوۃ شریف، باب ذکر الیمن والشام وذکر اویس القرنی، حدیث نمبر:6009
وعن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوایا رسول اللہ وفی نجدنا قال اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا قالوا یارسول اللہ و فی نجدنا فاظنہ قال فی الثالثۃ ھناک الزلازل والفتن وبہا یطلع قرن الشیطن (رواہ البخاری)
ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:اے اللہ! ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں آپ نے دعا فرمائی اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت دے لوگ عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں میرے خیال میں آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا گروہ نکلے گا(رواہ البخاری)
یہ حدیث اس بات کی غماز ہے آل سعود اور محمد بن عبدالوہاب جن کا تعلق نجد سے ہے۔ مذکورہ حدیث میں انہیں کے تعلق سے یہ باتیں کہیں گئی ہیں۔ نجد سے تعلق رکھنے والے شیطا ن کا گروہ ایک پولیٹیکل اسٹبلشمنٹ ہے اور دوسراے مذہبی اسٹبلشمنٹ جن کا تعلق اسی نجد علاقے سے ہے۔ ان دونوں کے سنگم نے جو تباہی مچائی ہے، اس فتنے کا تعلق یمن اور شام سے ہے اور زمانہ بھی دونوں کا ایک ہے اور یہ شیطانی گروہ بیک وقت شام اور یمن میں جو خونی کھیل کھیل رہے ہیں اور جو تباہی مچارہے ہیں یہ شیطانی عمل اورانسانی سوز عمل ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ملکوں کے تعلق سے دعا فرمائی ہے اس دعاؤں کی برکت سے ہی دونوں ممالک کو آل سعود اور ان کے حواری شکست نہیں دے سکے اگر ان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو ان کی جارحیت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس طرح کی بیرونی سازش کو ماضی میں کبھی برداشت نہیں کرسکی ہے۔ ان دونوں قوموں کی استقامت کودنیا سلام کہتی ہے۔ مزاحمت کی تاریخ ان کی شجاعت کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔مکہ تو بہت بڑا شہر ہے۔ ہاں اگر مکہ کے فوجی تنصیبات پر اگر حملے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو کیوں نہیں کی جاسکتی ہے۔ حدود حرم کو چھوڑ کر ہر جگہ دشمنوں پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ ہاں سویلین ہدف ہرگز نہ ہوں خالص فوجی ہدف ہو۔ مگر حوثیوں نے ایسا نہیں کیا ہے انہوں نے صرف جدہ ائرپورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ جس میں جدہ ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے۔یمن پر یہ جھوٹا الزام سعودی عرب لگارہا ہے کہ اس نے مکہ پر حملہ کیا۔ حوثی خود کہہ رہے ہیں میں نے جدہ ائرپور ٹ پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے اس ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا ہے۔ تم تو پورے ملک میں بم برساکر اسے تباہ وبرباد کررہے ہو لیکن اب میزائل تم پر گرنے لگے تو اپنی مکاری پر اترآئے ہو۔ مکہ اور مدینہ دو نہایت ہی متبرک شہر ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان جس کا بے انتہا احترام کرتے ہے چاہے ان کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو لیکن ساری دنیا جس کا احترام کرتی ہے لیکن سعودی عرب جس خطہ میں واقع ہے وہاں کے لوگ مکہ کی حرمت پامال کرنے میں ذرا ہکچاہت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ پہلی صدی ہجری میں عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے خلاف حجاج بن یوسف نے مکۃ میں کعبۃ اللہ کا جو حشر کیا تھا وہ تاریخ کا سب سے مکروہ باب ہے۔ خود یہ آل سعود جو برطانوی رحم وکرم پر اور خلافت عثمانیہ کو توڑنے اور برباد کرنے اور فلسطین میں بیت المقدس کو اسرائیل کے قبضہ دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ آل سعود کے فوجیوں نے مکہ میں حرم کے اندر اور کعبہ کے اندر اپنی جان بچانے والے ترک فوجیوں کو گھس کر شہید کیا ہے۔سب سے زیادہ مکہ اور حرمین کو پامال کرنے والے یہ آل سعود ہیں۔ جو حکومت اور جو خاندان مکاری پر اتر آیا ہواس سے کسی خیر کی امید نہیں جاسکتی۔ جنگ میں تمام اونچھی حرکتیں جو ہوسکتی ہیں اور پروپیگنڈہ کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں اس کو وہ خوب خوب استعمال کررہا ہے۔
یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر مسلسل ڈیڑھ مہینوں سے بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل جاری حتھی، جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعود ی عرب کو پٹے یا لیز پر دے دیئے گئے۔ جس لیز کی ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب پچھلے سال یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نے ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونیکے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔ اب سعودی عرب کو چاہئے کہ باہمی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے یمن کو لوٹادے۔ اگر سعودی عرب ایسا نہیں کرتا ہے تو حوثیوں کو اگرچہ دس برس مزید جنگ لڑنی پڑے لیکن وہ تینوں صوبے واپس لے کر رہیں گے۔
فون:9958361526
No comments:
Post a Comment