محمد مرسی کی اسٹریٹیجک غلطی
)چھبیس جنوری 2015 کو شائع شدہ)
#mohd_mursi_strategic_miskates
#mohd_mursi_strategic_miskates
محمد مرسی اور ان کی تنظیم جب مصر میں
برسراقتدار آئی تو ان سے کچھ ایسی اسٹریٹیجک غلطی ہوئی جس نے خود ان کو
اور ان کی تنظیم اخوان المسلمین کو عظیم
آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ساری دنیا کو یہ بات معلوم ہے کہ مرسی کو فوج کی
جانب سے معزول کردئیے جانے کے بعد اخوان المسلمین کا بڑے پیمانے پر قتل
عام کیا گیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محمد مرسی اور ان کی تنظیم عجلت میں تھی جو کام ان کو دس برسوں میں کرنا چاہئے تھا وہ ایک یا دو برسوں میں کرنا چاہتی تھیں اس چیز نے ان کے حریف بلکہ دشمن کو چوکنا کردیا کہ اگر محمد مرسی کی حکومت برقرار رہتی تو ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ محمد مرسی دوست اور دشمن میں تمیز کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
میں ایک مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ محمد مرسی جب برسراقتدار آئے تو ایران کو اس بات کی امید تھی کہ مصر اور ایران کے درمیان جو سفارتی تعلقات 1979 سے ٹوٹے ہوئے ہیں وہ پھر سے بحال ہوجائیں۔ ا س کے لئے ایرانی حکومت نے بہت کوششیں کی، جب محمد مرسی ایران کے دور ے پر گئے وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد سے ہوئی تو ایرانی صدر نے محمد مرسی سے کہا کہ ہم لوگ اپنے تعلقات کی بنیاد سیاحت سے شروع کرتے ہیں ، اس سلسلے میں انہوں نے سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی بات کی اور انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت چاہتی ہے کہ مصر میں فاطمی خلفا کے عہد کے جو قلعے اور تعمیرات ہیں ان کی دیکھ بھال کی ذمہ دار آپ ایران کو دے دیں اس سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطہ بڑھیں گے اور تعلقات میں مزید استحکام آئے گا ، اس تجویز کو سنتے ہی محمد مرسی نے برجستہ کہا کہ اس سے مصر میں شیعیت کو فروغ ہوگا اس طرح معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ اس انقلاب سے ایران کی حکومت کو جو امیدیں تھیں وہ بالکل ختم ہوگئیں۔ ایران کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ یہ حکومت رہے یا ختم ہوجائے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران اپنے دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ہے، چاہے فلسطین ہو شام کی بشار الاسد کی حکومت ہو۔ خود برصغیر کے لوگ اپنی تاریخ پر غور کریں کہ مغل حکمران ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ایران ہی گیا تھا جہاں ایران کے صفوی سلطان نے ہمایوں کی زبردست آؤ بھگت کی اور اس کو عظیم فوج تیا ر کرنے میں مدد دی، شیر شاہ سوری کے حادثاتی موت کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محمد مرسی اور ان کی تنظیم عجلت میں تھی جو کام ان کو دس برسوں میں کرنا چاہئے تھا وہ ایک یا دو برسوں میں کرنا چاہتی تھیں اس چیز نے ان کے حریف بلکہ دشمن کو چوکنا کردیا کہ اگر محمد مرسی کی حکومت برقرار رہتی تو ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ محمد مرسی دوست اور دشمن میں تمیز کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
میں ایک مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ محمد مرسی جب برسراقتدار آئے تو ایران کو اس بات کی امید تھی کہ مصر اور ایران کے درمیان جو سفارتی تعلقات 1979 سے ٹوٹے ہوئے ہیں وہ پھر سے بحال ہوجائیں۔ ا س کے لئے ایرانی حکومت نے بہت کوششیں کی، جب محمد مرسی ایران کے دور ے پر گئے وہاں ان کی ملاقات اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد سے ہوئی تو ایرانی صدر نے محمد مرسی سے کہا کہ ہم لوگ اپنے تعلقات کی بنیاد سیاحت سے شروع کرتے ہیں ، اس سلسلے میں انہوں نے سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی بات کی اور انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت چاہتی ہے کہ مصر میں فاطمی خلفا کے عہد کے جو قلعے اور تعمیرات ہیں ان کی دیکھ بھال کی ذمہ دار آپ ایران کو دے دیں اس سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطہ بڑھیں گے اور تعلقات میں مزید استحکام آئے گا ، اس تجویز کو سنتے ہی محمد مرسی نے برجستہ کہا کہ اس سے مصر میں شیعیت کو فروغ ہوگا اس طرح معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ اس انقلاب سے ایران کی حکومت کو جو امیدیں تھیں وہ بالکل ختم ہوگئیں۔ ایران کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ یہ حکومت رہے یا ختم ہوجائے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران اپنے دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ہے، چاہے فلسطین ہو شام کی بشار الاسد کی حکومت ہو۔ خود برصغیر کے لوگ اپنی تاریخ پر غور کریں کہ مغل حکمران ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ایران ہی گیا تھا جہاں ایران کے صفوی سلطان نے ہمایوں کی زبردست آؤ بھگت کی اور اس کو عظیم فوج تیا ر کرنے میں مدد دی، شیر شاہ سوری کے حادثاتی موت کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔
No comments:
Post a Comment