شہاب الدین عدالت کا ستایا ہوا مجرم
Shahabuddin_Judiciary#
بہار کے مشہور زورآور لیڈر شہاب الدین کو چند دن پہلے ہی ایک قتل کے الزام میں گیارہ برسوں کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ کے ذریعہ رہائی ملی تھی لیکن جب اس کو بھاگلپور کے جیل سے رہا کیا گیا تھا تو تقریبا کئی ہزار گاڑیوں پر مشتمل ان کے پرستاروں نے زبردست استقبال کیا، ان کے آبائی شہر سیوان تک لوگوں نے جگہ جگہ شہاب الدین کا استقبال کیا جس کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا حسد میں جلنے لگی اور اس کے خلاف بہت زیادہ ہرزہ رسائی کرنے لگی۔ شہاب الدین یقینا قاتل ہے اور اسے مقدمہ کا بھی سامنا ہے لیکن اسے پٹنہ ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی۔ اب پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہی میڈیا میدان میں کود گئی کہ اس زور آور جنتا دل کے سابق ایم کو کیوں ضمانت دی۔ یہ ایک طرح سے عدالت کی توہین تھی لیکن ہیندوستانی میڈیا اخلاقیات کے ادنی اصول سے جتنی واقف ہے ساری دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے۔ جب معاملہ مسلمان زور لیڈر کا ہو تو ہمارے ملک کا میڈیا کچھ زیادہ ہی زہر اگلنے لگتا ہے۔ اس زہر اگلنے میں چاہے عدالت کے فیصلے کی توہین ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ لیکن سپریم کورٹ نے چند دن پہلے پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو الٹتے ہوئے دوبارہ شہاب الدین کی ضمانت رد کردی گئی اور اسے پھر داخل زنداں کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کو شہاب الدین کو دوبارہ داخل زنداں کرنے کا فیصلہ سراسر عوام اور میڈیا کے شوروغوغا کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے، جو انصاف کے متلاشی لوگوں کے حلق سے نہیں اترتی ہے۔
اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف شہاب الدین کی حمایت میں زبردست ریلی کی گئی جس میں عوام سڑکوں پر نکل کر زبردست احتجاج کررہی ہے تاکہ سپریم کورٹ جو عوامی دباؤ کے سامنے جھک جاتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ اس ریلی کے دیکھتے ہوئے پھر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے دوبارہ اسے ضمانت دے گی۔
سپریم
کورٹ کو بغور اس جمہوری نظارے کا مشاہدہ کرنا چاہئے تاکہ ثبوت کی بنیاد
پر فیصلے کرنے والی عدالت کو کسی طرح اپنی غلطی کا احساس ہو۔ حالیہ عرصوں
میں سپریم کورٹ کے کچھ فیصلے ایسے آچکے ہیں جو صرف عوامی جذبات کا خیال
کرکے فیصلے لئے گئے ہیں اب سپریم کورٹ شہاب الدین کے تعلق سے عوامی جذبات
کے تحت فیصلہ لے۔ ہندوستانی اقلیتوں کو انتظامیہ، مقننہ پر اعتماد تو رہا
نہیں، اب تھوڑا بہت جو عدلیہ پر اعتماد تھا وہ بھی ڈگمگانے لگا ہے۔سپریم
کورٹ اپنی Credibility کو دوبارہ بحال کرے تاکہ عدلیہ کے تعلق سے اقلیتوں
کے اندر جو منفی رجحان پنپ رہا ہے اس کا تدارک ہوسکے۔
No comments:
Post a Comment