Tuesday, 11 April 2017

مغرور عرب

مغرور عرب

#Araba_arrogant

از:ظفر اقبال


گزشتہ روز ایک معروف اخبار کے صحافی کے فیس بک پر یہ چیز پڑھ کر مجھے ہنسی آئی۔ وہ بات یہ تھی کہ ’’سعودی شہری سے اب کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے شاید بہت ہی خوشی میں یہ پوسٹ کیا ہو۔ لیکن ہمیں اس پوسٹ میں کوئی خوشی نہیں لگی۔ اگر یہ بات امریکہ، برطانیہ،فرانس اور جرمنی اور دیگر اور ممالک کے تعلق سے ہوتی تو ہمیں خوشی ہوتی اور ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بہت سارے لوگوں کا اس سے بھلا ہوگا۔ لیکن سعودی عرب کی حکومت کی جانب اس اعلان سے ہندوستانیوں کو کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ یہ دلچسپ امر ہے کہ آپ سعودی عرب میں پچاس برس بھی رہ لیں لیکن آپ کو وہ شہریت نہیں دیں گے۔ دنیا کے ہر ملک کا شہری کہیں بھی شادی کرسکتا ہے اور اس کے بچوں اور اس کی بیوی کو متعلقہ ملک میں شہریت دی جاتی ہے لیکن خلیج کے دیگر عرب ممالک میں وہاں کی کسی بھی لڑکی کے ساتھ آپ شادی نہیں کرسکتے۔ وہ آپ کے یہاں شادی تو کرسکتے ہیں لیکں آپ کے یہاں کی عورتوں اور بچوں کویہ شہری تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ بات ان کے ملک کا آئین کہتاہے۔ ہم الزام نہیں لگارہے ہیں۔ ان کے آئین میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔شادی کا تعلق ہر انسان کے بنیادی حقوق سے ہے۔ لیکن ان عرب ملکوں کے حکمرانوں نے اپنی عوام سے وہ بنیادی حق بھی چھین رکھا ہے۔ لیکن ٹھیک اس کے برعکس آپ برطانیہ، فرانس، امریکہ اور دیگر یوروپ ممالک میں آپ وہاں شادی کرسکتے ہیں۔ اپنی پسند سے کہیں بھی شادی کرسکتے ہیں، شادی کرنے کے بعد آپ اس ملک کے شہری ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ عربوں کا قانون چلئے غیر مسلم کے تعلق سے ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔ عرب اور غیر عرب جب دونوں مسلمان ہوتو اس میں کیا پریشانی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اگرپسندکرتے ہیں تو شادی کرسکتے ہیں ، اسلام نے بھی اس کی پوری آزادی دی ہے، ایک مسلمان کہیں بھی شادی کرسکتا ہے ، یہ تو عام اسلام کا قانون ہے، لیکن عرب غیر عرب کو لائق اعتنا ہی نہیں سمجھتے ہیں اور ہم عجمی ان کے ہر اشارے پر مرے ہی جاتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے، غیرعرب کی کیا حیثیت ہے عربوں کے نزدیک یہ سب کے سامنے عیاں ہے۔عرب جب چاہیں غیر عرب خاص طور سے پاکستان اور ہندوستان میں نکاح کرکے مزا مار کر چلے جاتے ہیں اوران لڑکیوں، جن سے وہ عرب نکاح کرتے ہیں ان کے والدین کے جھولی میں دس بیس ہزار ریال ڈال کر چلے جاتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد اس لڑکی کے یہاں شیخ کے بچے کی بھی ولادت ہوجاتی ہے، لیکن شیخ اس بچے کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں ، شیخ کے ان بچوں کا ان کے مال میں وراثت جو اسلا م کا قانون ہے اس میں سے کچھ نہیں دیا جاتا ہے۔ ان عربوں نے اسلام کا ہی نہیں بلکہ غیر ممالک کا خاص طورسے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش اور اس کے علاوہ دیگر غیر ممالک کو قحبہ خانہ سمجھ رکھاہے جو محض عیش کرنے کے لئے یہا ں کی لڑکیوں سے نکاح کرتے ہیں اور دس بیس ہزار ریال اور ایک عدد بچے ان کے گود میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اورہم ان عربوں کے لئے اپنی جان نچھاورکرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ یہ جاہل عرب خاص طور سے نجد کے بدو جس کو اسلام کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے ۔ ہاں ان کو قبائلی عصبیت کے بارے میں بہت علم ہے۔ جو اسلام کو اپنے پیروں کے نیچے روندتے رہتے ہیں۔اس لئے ہم کو ان عربوں کے لئے جان دینے کے لئے چندہ ضرورت نہیں ہے۔ حرمین شریفین ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن حرمین شریفین کی آڑ میں امۃ مسلمہ اب زیادہ استحصال برداشت نہیں کرے گی۔

فون: 9958361526




No comments:

Post a Comment