شام میں امریکہ کی پسپائی
Syria_USA_retreat#
از:ظفر اقبال
6اپریل 2017کو شام کے ائر بیس پر امریکی کروز میزائل کے حملوں کے بعد جس طرح کی صورتحال تبدیل ہوئی جس سے امریکی اور اس کے حامی ممالک کو ایسا لگنے لگا تھا کہ اب بشار الاسد کے دن قریب آ چکے ہیں اور ان کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ان میں زیادہ تر سنی ممالک سعودی عرب، ترکی ، متحدہ عرب امارات اور قطر پیش پیش تھے، لیکن ترکی کی خوشی تو لائق دید تھی، صدر طیب ارودگان نے بڑھ کر اور مطالبہ کردیا کہ شام میں نوفلائی زون بھی قائم کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ بار بار اسی طرح کے حملے شام پر کئے جائیں، لیکن ان کی خوشی بہت ہی عارضی ثابت ہوئی۔ٹام ہاک کروز میزائل کے حملے امریکی حکومت کے بقول اس لئے گئے کہ ہیں کہ شام کی حکومت نے ادلب میں باغیوں کے علاقوں پر کیمیکل حملے کئے تھے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2013میں جب شام میں کیمیائی حملہ ہوا تھا تواس وقت یو این او میں کافی واویلا مچا تھا بالآخر یو این او کی کیمیائی معاملات پر نظر رکھنے والی تنظیم شامی حکومت کے تمام کیمیائی ہتھیاروں کو لے گئی تھی توپھر شام کی حکومت کیمیائی حملہ کیسے کرسکتی ہے۔ بلکہ یہ رپورٹ آرہی ہے کہ ترکی نے ہی ان دہشت گردوں کو کیمیائی ہتھیار فراہم کئے اور خود ہی لوگوں پر حملہ کیا اور اس حملے کا الزام شام کی حکومت پر لگایا گیا،اس کے بعد امریکی ھکومت طیش میں آکر ٹام ہاک کروز میزائلوں سے شام پر حملہ کردیا۔ ٹام ہاک کروز میزائل کے حملوں سے ان کے حوارین بہت ہی جوش میں تھے لیکن ان کی خوشی بہت ہی عارضی ثابت ہوئی۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ بشار الاسد کا سب ساتھ چھوڑ کر چلے جائیں گے اور وہ یکا وتنہا رہ جائے گا۔ اس کے بعد جس طرح لیبیا میں ناٹو افواج نے بمباری کی اور اس کے بعد معمر قذافی کو قتل کردیا گیا اوراسی طرح عراق میں صدام حسین کے عہد میں امریکی اور برطانوی فوجی کی یلغار کے بعد عراق کی حکومت ختم ہوگئی اور عراق پر امریکی اور برطانوی قبضہ ہوگیا تھا۔ عربوں کا اب تک وطیرہ یہی رہا ہے کہ اس سے جو لوگ بھی بگاڑ کریں گے ان کو امریکہ اور برطانیہ فوج کے ذریعہ اس کو حشر کی آگ میں جھونک دیں گے۔ لیکن ابھی سے چھتیس گھنٹہ قبل ایران کے وزیر دفاع میجر جنرل دہقان کا جب یہ بیان آیا کہ اگر دوبارہ شام پر امریکی حملہ ہوتا تو اس حملے کا منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اس چیز نے امریکہ اور اس کے حوارین میں بے چینی پیدا کردی، یہ بیان اگر شام کے صدر اور وزیر خارجہ یا وزیر دفاع کی جانب سے آیا ہوتا تو بات دیگر تھی لیکن جب معاملہ ایران کے وزیر دفاع کا تھا تو امریکہ کی کابینہ میں ہلچل مچ گئی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ جنگ ہوئی تو اسے ایران، عراق، شام اور حزب اللہ سب سے جنگ لڑنی پڑے گی، اس کا مطلب دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف چلی جائے گی۔ان حالات میں امریکہ ایک ہی فیصلہ کرسکتا تھا کہ امریکہ کا وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن بارہ گھنٹے پہلے بھاگا بھاگا ماسکو پہنچا کہ کسی طرح معاملے کو رفع دفع کردیا جائے، گزشتہ رات ماسکو میں روسی وزیر خارجہ لاروف اور امریکہ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے درمیان مذاکرات اور پھر روسی صدر پوتن سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی ، امریکی لہجہ سے لگ رہا تھا اب شام میں وہ کسی طرح کا دوبارہ حملہ کرنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ الحمد للہ فی الحال ایران کی فوجی حالت یہ ہے کہ اگر آدھی دنیا بھی ایران پر حملہ کردے تب بھی ان تمام لوگوں کو وہ شکست سے دوچار کردے گا۔ ریگولر آرمی، پاسداران انقلاب اس کے علاوہ تقریبا ایک کروڑ بیس لاکھ بسیج ملیشیا بھی ان کے پاس ہے۔ اسی طرح عراق میں بھی وہ بسیج ملیشیا تیار کرنے میں وہ عراقی حکومت کی مدد کررہا ہے۔ اسی طرح شام میں بھی ایک بڑی تعداد بسیج ملیشیا کی ہے جو اسد کی فوج کی زیر قیادت لڑرہی ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے لڑاکوں کی تعداد تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے، جس سے اسرائیل لرزہ براندام رہتا ہے۔
فون: 9958361526
No comments:
Post a Comment