کیا ہم نے اپنے رویہ سے پاکستان کی تخلیق کو جواز فراہم کیا ہے؟
#pak_india_situation
از: ظفر اقبال
وزیراعظم نریندر مودی جو آر ایس ایس پس منظر رکھتے ہیں، جس کی سیاسی ونگ بی
جے پی کے نامزد وزیراعظم ہیں ، جو تین برس قبل ہندوستان کے وزیراعظم بنے
تھے، جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جس پر یہاں کی
بڑی آبادی کو عرصے سے فخر رہا ہے ۔ ہندوستان دنیا میں اپنے آپ کو سب سے
بڑا جمہیوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے، جہاں ہر قوم ومذاہب کے لوگ آپسی
محبت سے رہتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور انفرادی آزادی کا
خیال رکھتے ہیں، اس پر یہاں کے لوگوں کو صدیوں سے فخر رہا ہے، چاہے ان کا
تعلق ہندوؤں سے ہو، چاہے وہ مسلم ہوں یا عیسائی یا سکھ، یا جین ، بودھ،
پارسی اور یہودی اور لامذہب وغیرہ۔ ہندوستان کی فضا نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے
خیالات اور افکار کو لبیک کیا ہے اور ایسے لوگوں نے ہندوستان میں جمہوریت
کا وہ بیج بویا ہے جس کی وجہ سے ہم میں بھائی چارہ اور محبت بہت زیادہ ہے۔
لیکں تین برس قبل جب وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی ہندوستان
میں برسراقتدار آئی ہے تب سے ہندوستان کی وہ جمہوریت جس کو ہم لوگ آپ تلاش
کررہے ہیں اور جس کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں وہ خطرے میں پڑگئی ہے، یہاں
کے اکثر لوگ خاص طور سے مسلمان اب سوچنے لگے ہیں کہ پاکستان کا بننا کیاان
کے لئے درست ہے کیا ان کے آبااجداد کو پاکستان ہجرت کرنا جانا چاہئے تھا؟اس
طرح کے سوالات ان کے ذہن میں بار بار آرہے ہیں۔ اس طرح کے خیالات کیوں نہ
آئیں کیوں کہ ہندوستان میں جس طرح حالات ایک بڑی اقلیت کے لئے بنادی گئی
ہے۔ شاید ان برسراقتدار افراد کے ذہن میں یہ بات بھی ہو کہ پاکستان کی
تخلیق میں اترپردیش کے مسلمانوں نے مدد کی جس کی وجہ سے پاکستانی تحریک
اپنے شباب کو پہنچی اور بالآخر ہندوستان کی تقسیم اور پھر پاکستان کی تخلیق
پر منتج ہوئی۔ مسلم لیگ کوسب سے زیادہ حمایت ان کو جس علاقے سے ملی وہ
علاقہ اترپردیش ہی تھا۔ اس زمانے میں یہ تو بات مشہور تھی کہ راجہ
محمودآباد کا پیسہ اور محمد علی جناح کی بے مثال قیادت نے پاکستان کی تخلیق
میں نمایا ں کردار ادا کیا۔
لیکن اترپردیش کے مسلمانوں سے کیا ہندوستان کی بی جے پی حکومت وہ انتقام
لینا چاہتی ہے جن کے آبا واجداد نے پاکستان کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا
تھا؟ دو قومی نظریہ کے بنیاد پر پاکستان کی تقسیم ہوئی، سب سے پہلے میں
آنجہانی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کا نام لینا چاہوں گا جنہوں نے پاکستان
سے بنگلہ دیش کو الگ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔بنگلہ دیش جب
پاکستان سے الگ ہوگیا تو اندرا گاندھی نے اس وقت کہا کہ ’’میں نے دو قومی
نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈوبا دیا ہے اور ہم نے ایک ہزار برس کی غلامی کا
بدلہ لیا ہے۔‘‘ ان کے اس طرح کے الفاظ تھے، جس سے خوش ہوکر ہمارے بی جے پی
کے رہنما اور این ڈی اے کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے اندرا گاندھی
کو درگا کہا تھا۔
کیا ستر برس گذرنے کے بعد کیا ہم ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ
انتقامی کارروائی کریں گے کہ اس سے مذہبی آزادی اور کھانے پینے کی آزادی
اور لاکھوں افراد بے روزگار کرکے ہم لیں ۔ کیا ہندوستان جو دنیا کا سب سے
بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے جہاں تمام مذاہب کو برابر کی آزادی
حاصل ہے، جس کی ضمانت ہمیں آئین ہند نے دی ہے ، کیا ایک بڑی اقلیت کے ساتھ
ناانصافی کرکے وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے سوائے اپنے تسکین قلب کے۔اس کے
بعد بہت سارے لوگ جو پاکستان میں بیٹھے ہیں جو ہندوستان کے حالات کا بغور
مشاہدہ کررہے ہیں، وہ اب سوشل میڈیا پر یہ مہم بھی چلارہے ہیں کہ ہندوستان
کے حالات نے ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق کیوں
ہمارے لئے ضروری تھی۔ پاکستان ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، پاکستان
کے لوگ ہندوستان کے مسلمانوں کے قابل رحم حالت اور خوف کے ماحول کو دیکھ کر
اب یہ لکھنے لگے ہیں کہ جیسے I Salute Mr. Muhammad Ali Jinnah‘‘ وغیرہ
اب کافی بڑی تعداد میں نظر آنے لگے ہیں۔ یو پی میں جب سے یوگی حکومت
برسراقتدار آئی ہے تب سے یوپی کی حالت تو بہت ہی دیگر گوں ہوچکی ہے۔ان کے
عہدہ سنبھالنے کے چند دن بعد ہی اعظم گڑھ سے یہ خبر آئی کہ شادی کی پوری
تیاری کرلی گئی تھی کھانے بن کر تیار ہوگئے تھے لیکن پولس آئی اس نے گوشت
کی دیگوں میں ریت ڈال کر چلی گئی، اب یوپی سے خبریں آرہی ہیں کہ یوپی میں
بہت ساری شادیوں میں گوشت بنانے کے تعلق سے وہاں کے مسلمان تھانے میں عرضی
دے رہے ہیں کہ آپ ہمیں گوشت بنانے کی اجازت دیں ، تاکہ شادی میں گوشت
بنوایا جاسکے، گوشت اور چکن کے کاروبار سے وابستہ لاکھوں مسلم افراد بے
روزگار ہوگئے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں بھی ہندوستان کے مسلمان اب سوچنے پر
مجبور ہورہے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق کیا صحیح عمل تھا،پہلے ہندوستان کی
ایک بڑی مسلم آبادی پاکستان کو مسترد کرتی تھی لیکن انہیں لوگوں کے ذہن میں
اب اسی طرح کے سوالات آرہے ہیں۔کیا ہندوستان کی حکومت پرامن ماحول بنائے
گئی یا ملک کے حالات اسی طرح بگڑتے چلے جائیں گے۔گائے کو دیکھ کر لوگ اب
راستہ بدلنے میں ہی بھلائی سمجھتے ہیں۔ اب مسلم گوالے گائے کو پالنے سے
پہلو تہی کرنے لگے ہیں۔ کچھ عرصے قبل راجستھان کے الور میں ایک مسلم کو
گاؤرکشوں نے شبہے کے الزام میں بھری پوری سڑک پر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
اس طرح کے حالات بہت ہی سنگین رخ اختیار کرچکے ہیں۔اب ہندوستان کی مرکزی
حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہندوستان میں پرامن ماحول بنائے جس سے
ہندوستان کی بڑی اقلیتوں کے دل سے خوف کا خاتمہ ہوسکے۔
فون: 9958361526
No comments:
Post a Comment