خلیفۃ المسلمین ٹرمپ اور ارودگان
_Caliph_Muslim_Ummah_erdogan_Trump#
از:ظفر اقبال
جمعہ کی رات 6 اپریل 2017 کو شام پر 59کروز میزائلوں سے امریکی حملے سے سب سے زیادہ شاداں
اورفرحان نظر آرہے ہیں وہ ہمارے ترکی کے صدر طیب اروگان ہیں اور ساتھ ہی
سعودی عرب نے اس حملے کی بھرپور حمایت کا اعلان کیاہے۔فیس بک پر جہاں بھی
نظر ڈالئے آپ کو سنی دنیا میں ٹرمپ ایک ہیرو کی طرح نظر آرہے ہیں۔ کچھ لوگ
یہ ہیڈنگ لگارہے ہیں، ’’امریکی حملہ : دیر آید درست آید‘‘ کہہ رہے ہیں۔ اسی
طرح بہت ساری رائے ہیں یہاں کہ جماعت اسلامی پاکستان کے لوگ بھی امریکی
پالیسی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ سنی دنیا اتنی احمق کیوں ہے سمجھ سے
بالاتر ہے۔ سنی دنیا امریکی اور اسرائیلی کروز میزائل پر سوار کر عظمت رفتہ
کی بازیافت کی کوششوں میں ہیں۔ خاص طور سے ترکی کے صدر طیب ارودگان نے
تمام حدود سے تجاوز کرچکے ہیں۔ ان منافق آدمی نے جوخواب بن رکھا ہے وہ سمجھ
سے بالاترہے۔ یہی وہ ہے جو عظمت رفتہ کی بحالی کی بات کرتا ہے لیکن
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کررکھا ہے۔ وہ فلسطین کا حامی ہے اور
اسرائیل کا دشمن اور لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد
فلسطینی کاز کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہ تو سراسر بے وقوف بنانے والی بات
ہے، اگر ارودگان کو اپنی عظمت رفتہ کی بحال کی اتنی ہی خواہش ہے تو اسے
خلیفہ عبدالحمید کی پیروی کرنی چاہئے تھی،انیسویں صدی کے آخر میں ان کے پاس
ایک یہودی نمائندہ قرہ صو آفندی پہنچا اس نے خلیفہ سے کہا کہ اگر آپ
فلسطین کے اندر اسرائیل نام کی ریاست بنانے کی اجازت دیں گے تو ہم یہودی آپ
کی حکومت پر جتنے قرضے ہیں سب ادا کردیں گے ، وہ مرد مومن نے اس وقت جو
بات کہی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ، انہوں نے کہا کہ ’’اگر تم ساری
دنیا کی دولت بھی لاکر ہمارے قدموں میں رکھ دو تب میں ہم بیت المقدس کی ایک
چٹکی مٹی بھی اس کے عوض نہیں دیں گے‘‘اس کے بعد وہ نمائندہ مایوس ہوکر لوٹ
گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد1909 میں وہی قرہ صو آفندی خلیفہ المسلمین
عبدالحمید کے معزولی کا پروانہ لے کر پہنچا، بالآخر وہ معزول کردیئے گئے،
کوئی بھی مسلم ملک نے انہیں پناہ نہیں دی ، فرانس میں انہوں نے جلاوطنی کی
زندگی گذاری اور وہ مرد مومن وہی مدفون ہے۔ لیکن طیب ارودگان جو امریکی اور
اسرائیلی میزائل پر سوار کر اسلام کی عظمت کی بحال کی بات کرتے ہیں۔ ان کے
اندر سوائے دشمنی کے کچھ نہیں ہے۔جو حسد کی آگ میں جل رہا ہے اور اسلام کی
عظمت کی بحالی کی آڑ میں عالم اسلام کا ٹھیکدار بننے کی کوشش کررہاہے۔
ترکی عالم اسلام کا پہلا ملک ہے جہاں پورن فلم بنانے کو قانونی تحفظ حاصل
ہے۔ وہی ارودگان ہیں جو چودہ برسوں سے ترکی پر حکومت کررہے ہیں۔ 16جولائی
2016کی رات کو ترکی میں جو فوجی بغاوت ہوئی، اس میں ایران نے کس طرح اس صدر
کی جان بچائی ، بقول ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اس رات ہماری پوری قیادت
بیدار رہی اور کوئی نہیں سوسکا، ارودگان چھ گھنٹوں تک ایرانی سرزمین پر
رہے، جب حالات قابو میں ہوگئے تب وہ ترکی بحفاظت پہنچادیئے گئے، لیکن یہ
احسان کا بدلہ اس نے ایران کو کیا دیا، وہ ایران سے مسلسل دشمنی کررہا ہے
اور دشمنی ہی نہیں کررہا ہے بلکہ وہ مسلسل زک پہنچارہا ہے۔ ایران کی ترقی
اسے دیکھی نہیں جارہی ہے۔ ہاں یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ایران اور ترکی کے
درمیان تعلقات ماضی میں بھی بہت ہی اچھے نہیں رہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں
کہ دونوں پڑوسی جب ایک ہی درجے کے ہوں تو کوئی نہ کوئی تنازعہ لگاہی رہتا
ہے۔ چاہے معمولی سرحدی تنازعہ ہی کیوں نہ ہوں۔ پندرہویں صدی میں ترکوں کو
عروج حاصل ہوا جب 1453عیسوی میں قسطنطنیہ پر جب ترکوں کو فتح حاصل ہوا۔ اس
فتح نے ان کی دھاک پورے اسلام کے ساتھ ساتھ یوروپ پر بیٹھادی، اس کے بعد
ترک بادشاہوں کے گھوڑے کی ٹاپوؤں کی آوازیں یوروپ کی سرزمین پر سنی جانے
لگیں۔ اسی طرح ایشیا اور شمالی افریقہ کا ایک بڑا علاقہ ان کے زیر نگیں
آگیا۔ بالآخرسولہویں صدی آتے آتے ان کا ایک بڑے علاقے پر قبضہ ہوگیا۔ ایران
جو ترکی کا پڑوسی ملک ہے خود اسکی تاریخ ایک عظیم تاریخ رہی ہے، جہاں
سائرس اعظم جیسے بادشاہ گذر چکے ہیں جس کو مفسرین قرآن ذوالقرنین سے بھی
تعبیر کرتے ہیں۔جنہوں نے انسانی بھلائی کے جو کام کئے وہ آب زر سے لکھے
جانے کے قابل ہے۔ اس طرح ایران بھی ایک جفاکش اور ذہین لوگوں کی سرزمین ہے
جو کسی دوسرے قوم کی عملداری قبول نہیں کرتی، شکست ایک دوسری چیز ہے لیکن
اپنی شکست کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلینا ایک الگ چیز ہے۔ ٹھیک اسی
وقت جب ترکوں کو عروج حاصل ہوا، 1501میں ایران میں صفوی حکومت کی بنیاد
پڑی، صفوی حکومت اور ترکی کے درمیان مسلسل تصادم ہوتارہا ،بالآخر ترکی اور
ایران کے درمیان سرحدی حدبندی ہوگئی، لیکن حالات کبھی بھی معمول پر نہیں
رہے۔ ترکی کا کوئی بھی باغی شہزادہ ایران بھاگ آتا۔ اسی طرح ایران اس کو
سیاسی پناہ دے دیتا اس طرح کچھ نہ کچھ تنازعہ مسلسل لگا رہتا، ارودگان کے
ذہن سے وہ مسلسل تصادم ابھی بھی نہیں نکل سکا ہے۔ ایران کو ترکی ایک دوست
نہیں حریف سمجھتا ہے، اس کے عروج سے اس کو بہت ہی تکلیف پہنچتی ہے۔ شام پر
ایک طرح سے ایران کا غلبہ ہے، ایران کی فوج شامی فوج کے ساتھ شانہ بہ شانہ
لڑرہی ہے۔ ایران کی پروردہ حزب اللہ جو شام میں اسد کی حمایت کرتی ہے اور
کھلے عام اسد کی فوج کے ساتھ لڑرہی ہے۔ جس سے ترکی بہت زیادہ پریشان ہوگیا
ہے اور ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت سے وہ گھبرایا ہوا ہے۔ ایران ترکی کو کیا
نقصان پہنچائے گا لیکن ارودگان کے سینے میں ایران بقول اقبال تہران ہوگر
مشرق کا جنیوا۔ شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے ، کا خوف اس پر طاری ہے اور
گھبراہٹ محسوس کررہا ہے، اس لئے وہ مسلسل پے درپے غلطیاں پر غلطیاں کررہے
ہیں۔
اب جب کہ امریکہ نے شام پر جمعہ کو کروز میزائل سے حملہ کردیاہے ،
اس سے انہیں ایران اور شام کے خلاف ایک اچھا موقعہ مل گیاہے اور امریکہ کو
مسلسل اکسا رہا ہے کہ شام میں مزید حملے کئے جائیں ایک حملے سے کام نہیں
چلے گا اور ارودگان نوفلائی زون کی بات کررہے ہیں۔ عجیب سنی اسلام کے قائد
ہیں، جو ابلیس کے ساتھ مل کر اسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت میں لگے ہوئے
ہیں۔ اللہ بچائے ان نادان اسلام کے سرخیل سے۔
فون:9958361526
No comments:
Post a Comment