عیدِ جمہوریت
#Democracy_delhi_election
از: ظفر اقبال
آج دہلی میں بلدیاتی الیکشن ہوا،میں نے بھی اپنے حق رائے دہی کا استعمال
کیا۔اس مرتبہ کے الیکشن میں لوگوں کی دلچسپی کم ہی دیکھی گئی، الیکشن کی
گہماگہمی تو تھی لیکن یہاں کی عوام زیادہ پرجوش نہیں تھی، ایسا لگتا ہے کہ
عام آدمی پارٹی کی حکومت دہلی میں شاید عوام کی امیدوں پر زیادہ کھری نہیں
اتری، انہوں نے اپنی ہمہ جہت کارکردگی سے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں
ناکام رہی، شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں جو فیصلے
لیتی تھی لفٹننٹ گورنر جو مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں ،الٹ دیتی تھی اور دہلی
کو مکمل ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے اس لئے شاید عام آدمی پارٹی وہ
مثبت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، اس لئے لوگوں کی دلچسپی کم تھی، لوگوں
نے بہت حد تک لاتعلقی کا اظہار بھی کیا اور لوگوں نے اپنی حق رائے دہی
استعمال کرنے میں دلچسپی بھی کم دکھائی۔ اس کے باوجود جمہوریت کی اہمیت سے
انکار کیا نہیں جاسکتا، جمہوریت ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اسلئے
میں نے اس کو’ عید جمہوریت‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ایک ملک میں حالات تیز ی سے
بدلتے رہتے ہیں ۔ وقت یکساں کبھی نہیں رہتا ۔ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں،
آج اگر ہم برے دور سے گذر رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سسٹم خراب ہے،
اس جمہوریت کے راستے ہی یقیناًیہاں تبدیلی آئے گی اور انْقلابی تبدیلی آئے
گی جس سے ہندوستان کا ہر شہری پورے طرح سے مستفید ہوگا۔ لیکن جہاں جہاں
بادشاہت ہے وہاں کی عوام ایک طرح سے غلام ہے جو ایک خاندان کی خوشنودی کی
خاطر حکومت کے جوئے کو ڈھورہی ہے، خلیج کے ممالک جہاں بادشاہت ہے وہاں کی
عوام کی انفرادی رائے کی آزادی ختم ہوگئی ہے، سب لوگ بلکہ طبقہ علما بھی
قرآن کی مختلف آیتوں کی تشریح بھی انہیں بادشاہوں کی خوشنودی کے لئے کرتے
رہتے ہیں۔ اب سعودی عرب جو ۳۹ سنی ممالک کا اتحاد بنا کر ایک کمزور اور
ناتواں ملک یمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں لگاہوا ہے جس فوج کی کمان چند دن
قبل بذات خود اسلام کا قلعہ ہونے کا دعوی کرنے والی فوج کے سابق سربراہ
جنرل راحیل شریف سنبھال چکے ہیں۔ سعودی عرب جو محض اپنی شنہنشاہیت کے بقا
کے لئے اور اپنی خاندان کی دائمی حکومت کے لئے اس ناتواں یمن کی حکومت کو
ختم کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔اگر آج سعودی عر ب میں جمہوری حکومت ہوتی تو
اس طرح کے مسائل کھڑے نہیں ہوتے ، سب پڑوسی خاص طور سے عالم اسلام باہم مل
کر رہتے ۔ مسئلہ تب ہی پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانی کا ارتکاز ایک خاندان تک
محدود ہوجانا، کبھی بھی حکومت ایک خاندان یا کئی خاندان تک مرتکز نہیں ہونا
چاہئے۔اسی طرح پاکستان میں شریف خاندان اور بھٹو خاندان اور ہندوستان میں
گاندھی نہرو خاندان کو ایک طرح سے تقدس حاصل ہے کہ ہندوستان میں حکومت کرنے
کا حق صرف انہیں لوگوں کو ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی عوام بحران سے
دوچار ہے۔ میں اس سلسلے میں دو مثالیں آپ کو دینا چاہتا ہوں ایک مثال
امریکہ کی اور دوسری مثال ایران کی، امریکہ میں کوئی بھی صدر دو مرتبہ سے
زیادہ صدر نہیں بن سکتا، اسی طرح ایران میں کوئی صدر دو مرتبہ سے زیادہ
مسلسل صدر نہیں رہ سکتا، ابھی ایران میں صدر کے انتخاب کے لئے پرچہ نامزدگی
ہوئی لیکن سابق صدر احمدی نژاد کا پرچہ نامزدگی مسترد کردیا گیا، اگر
ڈاکٹڑ احمد ی نژاد مسلسل صدر رہتے تو اس طرح عوام میں اس خاندان کو تقدس
حاصل ہوجاتا ہے اور یہی چیز حکومت کے لئے اور عوام کے لئے تباہی کا باعث
ہوتا ہے۔ اسی طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جب ایران کے ولایت فقیہ تھے تو
ایران کے ممبران پارلیمنٹ نے ان کے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کا
اظہار کیا لیکن امام خمینی نے اس کو مسترد کردیا کہ جب میں ولایت فقیہ ہوں
میرا کوئی بیٹا یا رشتہ بڑے عہدے کو قبول نہیں کرے گا۔ امام خمینی نے پوری
کوشش کی کہ اقربا پروری کی گنجائش کہیں موجود نہ ہو۔ ابھی ایران امام خمینی
بلکہ رسول اللہ کے اصول پر چل رہا کہ حکمراں اپنے اہل خانہ کو اعلی عہدے
نوازنے دور رہے۔ یہی اسلام ہمیں سکھاتا ہے ۔ مجھے تو کسی ملک کے بارے میں
یہ احساس ہوتا ہے کہ وہاں بادشاہت ہے تو مجھے الٹی کا احساس ہونے لگتا
ہے،میں ایسے ملک میں جانا پسند نہیں کروں گا جہاں بادشاہت ہے۔
فون: 9958361526
No comments:
Post a Comment