Sunday, 24 December 2017

یروشلم کے تعلق سے ترکی کے صدر کے خدشات حقیقت کا روپ لے سکتے ہیں

یروشلم کے تعلق سے ترکی کے صدر کے خدشات حقیقت کا روپ لے سکتے ہیں


#Jerusalem_President_Turkey

از:ظفر اقبال

ترکی کے صدر رجب طیب ارودگان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ سے بیت المقدس نکل گیا تو حرمین الشریفین بھی نہیں بچے گا۔ ان کی باتوں میں دم ہے۔ کچھ عرب ممالک کے حکمرانوں جیسے کے سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو لگتا ہے کہ فلسطین کو اسرائیل کے حوالے کردیا جائے۔ بلکہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ سازش بھی کررہا ہے کہ فلسطین کو فلسطین سے نکال کر انہیں مصر کے سینا کے علاقے میں بسادیا جائے، تاکہ اسرائیل کی یہ پریشانی بھی ختم ہوجائے کہ فلسطینیوں کی اتنی بڑی آبادی کو کیسے کنٹرول کیا جائے ۔ ہم اس کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ مصر کو تقسیم کرکے فلسطین کو مصر کے اندر ہی سینا کے ایک علاقے میں بسادیا جائے۔ واہ رہے سازش کرنے والے عرب ممالک کے حکمراں تمہیں اس بات کی پرواہ ہو نہ ہو لیکن ہم عجم کو تم سے زیادہ بیت المقدس کی پرواہ ہے کہ ہم القدس کی آزادی کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کا بھی تعلق عجم سے ہی تھا۔ یروشلم کے تعلق سے اسرائیل کا دعوی ہے کہ ان کے بادشاہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کی حکومت فلسطین میں قائم کی تھی اور ان کی حکومت کی راجدھانی یروشلم تھی ، اس لئے ہمارا حق ہے کہ اسرائیل نام کی ایک سلطنت ہو جس کی راجدھانی یروشلم ہو۔ یہ چیز تو بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ یروشلم تک ہی محدود معاملہ ہے، لیکن معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ 
مدینہ میں تین قبائل بنوقریظہ، بنو قنیقاع اور بنو نضیر تھے۔ یہ یہودی قبائل سینکڑوں برسوں سے آباد تھے۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہودی جتنا عرصہ فلسطین میں نہیں رہے اس سے زیادہ عرصے سے یہ تین قبائل مدینہ میں آباد تھے ۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاملہ صرف یروشلم تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ مدینہ اور مکہ تک پھیل جائے گا۔ اس لئے ہم ترکی کے صدر طیب ارودگان کے فکر مندی میں پوری طرح شامل ہیں اور اس کا تدارک اگر جلد از جلد نہ کیا گیا تو امت مسلمہ ایک عظیم تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔ یروشلم کے محاذ پر دنیا کی مسلم عجمی حکومت کو ہی وہ عظیم قربانی پیش کرنی ہوگی باقی خلیج فارس کے ممالک تو امت مسلمہ کے نام پر دھبہ ہیں۔ 
فون:9958361526

Thursday, 21 December 2017

یروشلم جلد آزاد ہوگا



یروشلم جلد آزاد ہوگا


Jerusalem_independence_Iran#

از: ظفر اقبال


افکار ملی، نئی دہلی کے مدیر ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کا مضمون’’یروشلم میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان‘‘ پڑھنے کے بعد بڑی مایوسی ہاتھ لگی۔ انہوں نے مشرق وسطی کا جس طرح کا نقشے کھینچنے کی کوشش کی ہے جو ان کی مایوسی کی عکاس لگ رہی ہے۔ انہوں نے حماس اور فلسطینیوں کو جس طرح کا مشورہ دیا ہے وہ بہت ہی بھیانک ہے ، جو صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے اور مکمل غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جس کی ہم پوری طرح مذمت کرتے ہیں ۔ان کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں اس دین کا ایک ہی مقصد ہے کہ باطل سے صرف مزاحمت نسل در نسل کرنے کا نام ہے۔ جب تک دنیا باقی ہے تب تک ہمیں مزاحمت ہی کرنی ہے۔ مایوس ہونایا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جینا اور برے حالات کو قبول کرنا مؤمن کا کبھی طریقہ نہیں رہا ہے۔ اگر فلسطینی سو برسوں سے مسلسل مزاحمت کررہے ہیں یہ ان کی عزیمت ہے جس کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر عرب ممالک کے راجہ مہاراجہ اگر ہمیں غلامی کا درست دیتے ہیں کہ ہم اسرائیل کی ہر بات مان لیں اور بیت المقدس پر اغیار کا قبضہ ہوجائے اور بالآخر بیت المقدس بابری مسجد کی طرح ڈھادی جائے۔ کیا یہ چیز امت مسلمہ کو مکمل تباہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ امت مسلمہ اللہ کے سامنے ذلیل ورسوا نہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن ہم کیا منھ دکھائیں گے۔
میں آپ کو ایک خوشخبری سناتا ہوں اور میں یہ خوشخبری سنانا فرض عین سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام ابھی جتنا طاقتور ہے ان دو سو برسوں میں کبھی نہیں رہا ہے۔ مشرق وسطی میں ایران کا ابھرنا غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایران نے عراق، سیریا، لبنان، یمن میں اس کا طاقتور ہوجانا غیر معمولی واقعہ ہے، یہ دراصل امریکہ اور اوا س کے حلیف کی شکست ہے۔ ہم باطل کے حلیف کے طور پر خلیج فارس کے سنی ممالک کے راجہ مہاراجہ کو مانتا ہوں۔ عراق، شام ، یمن اور لبنان کے فاتح جو جہاد کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ جنہوں نے شام ، عراق ، لبنان اور یمن میں کامیابی حاصل کی ہے ۔لاکھوں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان عسکری تربیت حاصل کرچکے ہیں اور اسلحوں کے معاملے میں ایران اور اس کی ملیشیا خود کفیل ہے۔ ایسی شاندار صورت حال ان دو سو برسوں میں عالم اسلام میں کبھی نہیں رہی۔ فلسطین کا ایک گروپ حماس جو ایک طاقتور عسکری صلاحیت رکھتا ہے جس نے گزشتہ اسرائیل کے ساتھ تین جنگوں میں اپنے دشمنوں کو ناکامی سے دوچار کردیا ہے اور حزب اللہ کا خوف تو اسرائیل پر 2006 سے اس قدر طاری ہے جو اترنے کا نا م ہی نہیں لے رہا ہے۔ ان شااللہ اب جو جنگ ہوگی اس میں اسرائیل کی نابودی طے ہے۔ فلسطین میں صرف ایک حکومت ہوگی وہ صرف فلسطین کی ہوگی۔ خود بین الاقوامی سطح پر فلسطین کو ایسی حمایت آج تک نہیں ملی۔ برطانیہ، فرانس ہمیشہ ہی اسرائیل کا حامی اور ساتھی رہا ہے لیکن وہ دونوں ممالک کی زبان بھی بدل چکی ہے۔ یہ تمام کامیابیاں ایران نے اپنے بل بوتے پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای ، ولی امرمسلمین کی قیادت میں حاصل کی ہے۔دیگر قومیں آپ کا اس وقت ساتھ دیتی ہیں جب آپ خود طاقتور ہوں۔ پاکستان جوہری ملک ہے لیکن اس کو بھیک اور مدد لینے کی عادت پڑگئی ہے جس سے اس کی عزت نفس دنیا کی نظروں میں گرچکی ہے۔ بھیک لینے والے بڑے کارنامے انجام نہیں دیتے ہیں۔ جن کی خود کوئی عزت نہ ہوں وہ عزت کی تعریف کیا سمجھے گا۔ لیکں ایران پر یہ بھی الزام عرب ممالک لگاتے ہیں کہ وہ Persian Empire بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ ان کی باتوں میں دم ہے۔ طاقتور ہی لوگ اس طرح کے خواب دیکھا کرتے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلام فقط چند مراعات کے لئے ہی جیتے ہیں۔ ہم یقیناًآیت اللہ خامنہ ای کی قیادت والے ایران اور اس کے اثر والی دنیا میں باعزت زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان کا خود کہنا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہیں اور جن جن ممالک میں مسلماں اقلیت ہیں ان کو میں باعزت اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں۔
اس لئے غطریف صاحب مایوس بالکل نہ ہوں اور نہ ہی یہ اس دنیا کے سنی مسلمان مایوس ہوں ۔ ہمیں اس دنیا میں باعزت مقام صرف شیعہ دنیا ہی اس وقت دلائے گا اور اسرائیل اور امریکی کی جو حکومت اس دنیا پر چل رہی ہے اس کا خاتمہ جل ہی ہونے والا ہے۔ دنیا اس کا نظارہ جلد کرنے والی ہے۔
فون:9958361526

Monday, 18 December 2017

مولانا جلال الدین رومی سے وراٹ کوہلی اور انوشکا شرما زبردست متاثر

مولانا جلال الدین رومی سے وراٹ کوہلی اور انوشکا شرما زبردست متاثر

Rumi_Anuska_Virat#

از:ظفر اقبال


گزشتہ رو ز 17دسمبر کومولانا جلال الدین رومی کی یوم پیدائش پورے دھوم دھام سے منایا گیا خاص طور سے قونیا (ترکی) میں شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ مولانا جلال الدین رومی کی شاعری زیادہ تر فارسی میں ہے۔ فارسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے عربی، ترکی اور یونانی میں بھی اپنے کلام پیش کئے ہیں۔ ان کی مثنوی ’مثنوی مولانا روم ‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ یہ مثنوی دنیا کی تقریبا زیادہ تر قابل ذکر زبانوں میں ترجمہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ جس کی پذیر ائی صرف مسلمانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی ان کی شاعری نے کافی متاثر کیا ہے۔ ان کی مقبولیت بیسویں صدی میں امریکہ اور یوروپ میں بہت زیادہ ہوئی۔ جس کے اثرات اب جنوبی ایشیا کی غیر مسلم آبادی کو بھی متاثر کرنے لگی ہے۔ ابھی چند دن قبل جب ہندوستانی کرکٹ کے مایہ ناز کپتان وراٹ کوہلی اور بالی ووڈ کی مشہور فلمی اداکارہ انوشکا شرما کی شادی ہوئی تو انہوں نے شادی میں مہمان شرکاکے لئے مولانا روم کی شاعری کا ڈیلکس ایڈیشن تیار کروایا تھا، جو انہو ں نے مہمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا۔ اسی طرح ہندوستانی خاتون کرکٹ کی کپتان متالی راج جو چھ ہزار رن بنانے والی دنیا کی پہلی خاتون کرکٹر ہے ۔ وہ میچ کے درمیان جب بھی انہیں وقت ملتا ایک کتاب بار بار پڑھ رہی تھیں تو لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کون سی کتاب پڑھ رہی ہیں۔ متالی راج نے کہا کہ میں ’مثنوی مولانا روم‘ پڑھ رہی ہوں ، یہ کتاب میرے کوچ نے مجھے پڑھنے کے لئے دی تھی، یہ کتاب میری زندگی میں غیر معمول تبدیلی لائی ہے۔ مولانا روم کی شاعری نے صرف مسلموں کو ہی نہیں غیر مسلموں کو بھی زبردست متاثر کیا ہے۔

واضح رہے کہ مولانا جلال الدین رومی علامہ اقبال کے روحانی استاذ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تم مرشد تلاش کرو اگر کوئی مرشد تمہیں نہ ملے تو مولانا روم کو اپنا مرشد بنالو تمہاری زندگی کامیاب رہے گی۔
فون: 9958361526

Sunday, 17 December 2017

یروشلم جل رہا ہے اور سعودی عرب کے عوام مدہوش ہورہے ہیں

یروشلم جل رہا ہے اور سعودی عرب کے عوام مدہوش ہورہے ہیں

#Jerusalem_saudi_Arabia_People

از:ظفر اقبال

پورا عالم اسلام اور خاص طور سے مشرق وسطی یروشلم کے مسئلے پر ابل رہا ہے ۔ لیکن ان دنوں سعودی عرب کے عوام اگلے برس ان لمحات کا انتظا کررہے ہیں جب انہیں ملک میں سینما دیکھنے کو ملے گا اور یہ سوچ سوچ کر خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں کہ کتنا مزا آئے گا ، کتنی پرلطف زندگی ہوگی جب اپنے ملک میں سینما دیکھیں گے ۔ اب تک ہم صرف موبائل یا لیپ ٹاپ پر ہی دیکھ پارہے تھے۔ خاص طور سے نوجوانوں کا جوش تو قابل دید ہے۔الحرمین الشریفین کے امام بھی اس تاک میں ہوں گے کہ ہم بھی جاکر اپنی فیملی کے ساتھ سینما دیکھیں گے۔ ادھر سعودی عرب کی مائیں بھی بہت ہی پرجوش نظر آرہی ہیں۔ وہ اس لئے کہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ فلم کو دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہے اور ساتھ ہی خود سے کار چلاکر جائیں گے۔ خواتین کو اب موٹر سائیکل اور کاریں چلانے کا لائسنس جاری کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی زیادہ تر عوام تو خوش حال تو ہے ہی اب ان کی نظر نیٹ پر ہے جہاں مختلف کمپنیوں کی کاروں کی لسٹ اور تصاویر بھی دیکھی جارہی ہیں اور امریکہ اور یوروپ کی نئی نئی کمپنیاں خواتین کو ذہن میں رکھ کر نئی نئی کاریں ڈیزائن بھی کررہی ہیں تاکہ اگلے برس جب خواتین گاڑیاں خریدنے مارکیٹ میں جائیں تو مارکیٹ میں وافر تعداد میں خواتین کے لئے رنگ برنگی اور قیمتی گاڑیاں دستیاب ہوں۔
واہ رہے حکمراں کی ساحری ٹھیک ایسے وقت جب یروشلم کی حیثیت امریکہ اور اسرائیل طے کررہا تھا اسی وقت ہمارے جعلی اور فراڈ خادم الحرمین الشریفین اپنے عوام کو سینما اور ملک کی خواتین کو گاڑی چلانے کا لائسنس بانٹ رہے ہیں۔ عالم اسلام اور خاص طور سے مشرق وسطی جنگ کی آگ میں جل رہا ہے اور ابھی تو اصل جنگ شروع ہوئی ہیں کہاں؟ جنگ تو اب شروع ہوگی جس میں کئی  حکومتیں اور ممالک اس جنگ کا ایندھن بنیں گی۔
فون: 99583615226


Thursday, 14 December 2017

تنظیم اسلامی کانفرنس کا اعلامیہ بکواس

تنظیم اسلامی کانفرنس کا اعلامیہ بکواس

OIC_resolution#

اسرائیل نام کی کوئی سلطنت دنیا میں نہیں ہونی چاہیے ـ گڈ نیوز نہیں ہےـ اسرائیل کا وجود فلسطین کے ساتھ غداری ہےـ اس 
اعلامیہ میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہےـ جو سراسر فلسطین کے ساتھ غداری ہےـ

Tuesday, 12 December 2017

ایران۔ روس۔ ترکی کا اتحاد فلسطین کی آزادی کی ضمانت




ایران۔ روس۔ ترکی کا اتحاد فلسطین کی آزادی کی ضمانت

Iran_Palestine_russia_turkey-Unit#

از:ظفر اقبال


امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے والے اعلان سے جہاں مسلم دنیا میں ایک طوفان برپا ہے وہیں ساری دنیا میں ناانصافی کے خلاف ایک مشترکہ آواز بلند ہورہی ہے کہ اسرائیل کی راجدھانی امریکہ کی جانب سے یروشلم کو قرار دینا یہ سراسر فلسطینیو ں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جو اقوام متحدہ کے قرارداد کے خلاف بھی ہے۔ سلامتی کونسل میں اور اقوام متحدہ میں بحث کے دوران امریکہ کے علاوہ کسی نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن امریکہ بھی بضد ہے اور ساری دنیا کو ایک طرح سے گالی دے رہا ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کے ساتھ تفریق کا رویہ اپنارہی ہے۔ چور خود دنیا کے انصاف پسند ممالک کو گالی دے رہا ہے۔ امریکہ کب اقوام متحدہ کی بات کو مانتا ہے۔ امریکہ کے لئے اقوام متحدہ محض طوائف کیہے۔ جب چاہے اسے استعمال کرتا ہے اور جب چاہے اس کے خلاف جاکر اقدام کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے۔ وہ اب تک اسی زعم میں ہے کہ دنیا ہمارا کیابگاڑ لے گی۔ آج کل مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے وزیراعظم بھی بائبل ہاتھ میں لئے یورپ کا چکر کاٹ کررہے ہیں کہ کسی طرح یوروپی یونین ان کی بات کو تسلیم کرلے اور یروشلم کو اسرائیل کی بلاشرکت غیر راجدھانی تسلیم کرلے۔ لیکن وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ پہلے فرانس اور برطانیہ کا رویہ بھی اسرائیل کی حمایت میں ہوتے تھے لیکن اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے اور تباہی کو خود دعوت دے رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اس وقت دنیا میں بالکل تنہا ہوگئے ہیں۔

فلسطین اس وقت جل رہا ہے اور خاص طور سے عالم اسلام میں زبردست اسرائیل کے خلاف نفرت پائی جارہی ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ یہ زبردست نفرت مسلح تصادم میں بدل جائے گا ۔ جہاں اس جنگ کا نتیجہ نکلے گا غالب امکان ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کا خاتمہ ہوجائے۔ شام ، عراق اور لبنا ن کو تباہ کرنے کی اسرائیلی اور امریکہ سازش کو جس طرح ایران، روس اور ترکی نے ناکام کردیا ہے ۔ اب تینوں جگہوں پر دہشت گردوں کا تقریبا صفایا کردیا گیا ہے۔چند دن قبل میں ای ٹی وی اردو کے تحت ’’عالمی منظرنامہ اسپیشل ‘‘ کے نام سے ایک پروگرام دیکھ رہا ہے جس میں میجر جنرل سہگل اور دو اور اشخاص تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی جو صورت حال ہے وہ عالمی جنگ کی طرف جائے گا اور روس بھرپور کردار کرے گا۔ اس جنگ میں جس طرح۱۹۹۰ کی دہائی میں روس گورباچیف کی قیادت میں ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہوگیا تھا اسی طرح امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ روس کے سابق صدر گوربا چیف ثابت ہوں گے اور امریکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ میجر جنرل(ر) سہگل کا کہنا تھا روس نے ایک ایسی بریگیڈ بنارکھی ہے جو عربی زبان میں بات کرتی ہے ااور جو داڑھی بھی رکھتی اور نماز بھی پڑھتی ہے۔
میں نے مسٹر سہگل کی بات سے اندازہ لگایا کہ ان کا اشارہ چیچنیا کی بریگیڈ سے ہے جو اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے بالکل تیار ہے۔ چیچنیائی مسلمان بھی ہیں اور جہاد کے جذبہ سے سرشار بھی ہیں۔ ایران۔ روس اور ترکی کا اتحاد فلسطین کی آزادی میں موثر رول ادا کرسکتا ہے۔اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا وقت آگیا ہے اور فلسطین ہی ایک ایسی سلطنت ہوگی جس کی راجدھانی یروشلم ہوگی۔ جب تک مشرق وسطی میں اسرائیل نام کی سلطنت ہے اس وقت تک مشرق وسطی کو چین کہاں ۔ اس لئے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ضروری ہوگیا ہے۔
فون:9958361526

Sunday, 3 December 2017

امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستان کا کردار

امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستان کا کردار

USA_India_independence#

از:ظفر اقبال


امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستان کے رول کے تعلق سے آپ کسی سے سنیں گے تو آپ کو ہنسی آئے گی کہ ہندوستان نے امریکہ کی جنگ آزاد ی میں کس طرح مدد کی، جو خود نواستعماریات کا شکار ہورہا تھا اس وقت ہندوستان نے اس کی کس طرح مدد کی۔ اس طرح کے مختلف سوالات آپ کے ذہن میں آسکتے ہیں اور آنے بھی چاہئیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے امریکہ کی جنگ آزادی میں بہت ہی زبردست رول ادا کیا۔ جس کا احساس ہمیں نہ ہو لیکن خود امریکہ کو ہے۔ ان کے کئی مورخوں نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اب ہم اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔ ہندوستانیوں اور خاص طور سے میسور کے حکمراں حیدرعلی کے عہد میں برطانوی فوج اور میسور کی فوج میں دومرتبہ جنگ ہوئی ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ جنگیں اسی درمیاں ہوئی جس وقت امریکہ میں جنگ آزادی کی لہر بہت تیزی سے چل رہی تھی اور امریکہ جو برطانوی نواستعماریت کا شکار تھا وہ آزادی کے نغمے گانے کے لئے بے تاب نظر آرہا ہے۔ میسور اور انگریزوں کے درمیان 69۔1767کے درمیان پہلی جنگ ہوئی، دوسری 84۔1780کے درمیان ہوئی۔
واضح رہے کہ حیدر علی (پ:1720، م:1782) کے دور حکمرانی کے درمیان دو جنگیں ہوئیں جس جنگ نے برطانیہ کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ اپنے بیرونی دباؤ کو زبردست محسوس کرتے ہوئے امریکہ کی آزادی پر مہر تصدیق ثبت کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں جنگوں میں جو حیدر علی کی فوج اور انگریزوں کے فوج کے درمیان ہوئی، جن جنگوں میں حیدرعلی نے فرانس کی فوج کے تعاون سے انگریزوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔جس میں انہیں بہت کچھ کھونا پڑگیا۔ ٹھیک اسی وقت امریکہ میں برطانیہ اور امریکی انقلابیوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ برصغیر میں انگریزوں کو زبردست شکست کی وجہ سے برطانیہ دباؤ میں آگیا جس کی وجہ سے وہ امریکہ کو آزادی دینے پر مجبور ہوگیا۔
واضح رہے کہ امریکہ نے 4جولائی 1776کو اپنی آزادی کا اعلان کردیا جس کے بعد وہ خونی تصادم شروع ہوا جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں امریکہ وہ پہلا ملک ہے جہاں نواستعماریت کے خلاف پہلی جدوجہد آزادی کے ابتدائی ہوئی۔ جس نے برطانیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ بالآخر امریکہ کی آزادی کو 3ستمبر 1783کو پیرس معاہدہ میں تسلیم کرلیا گیا اور 21جون 1788کو امریکی آئین کا نفاذ ہوا۔
یہ ہندوستانی دباؤ خاص طور سے میسور کے حیدر علی کی فوج کی جانب سے دیئے گئے وہ زخم تھے جس نے برطانیہ کو مجبور کیا کہ اپنے اوپر فوجی دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے اس نے امریکہ کی آزادی کو تسلیم کرلیا ۔ اس لئے امریکیوں کو ہندوستان کے مسلمانوں سے بہت ہی دلچسپی ہے اور کس طرح وہ بہت ہی محبت کی نظر سے ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے چند دن قبل جب امریکہ کے سابق صدر بارک حسین اوبامہ نے ہندوستان ٹائمز کے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے یہاں کی حکومت اور یہاں کی عوام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانون کی قدر کریں۔یہاں کے مسلمانوں کے اندر عزم اور خود اعتمادی بہت زیادہ ہے۔ جس سے آپ کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہندوستان میں بہت سارے مذاہب ہیں جس کا احترام ہونا چاہئے۔ اوبامہ ایک مفکرانہ ذہن کے حامل صدر ہیں جنہوں نے اپنے عہد صدارت میں کچھ بہت ہی اچھے فیصلے بھی کئے ہیں جن کی ساری دنیا میں تعریف بھی ہوتی ہے اور وہ بیدار مغز بھی ہیں ، ان کے اندر انسانیت بھی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کسی پر نکتہ چینی کرنے اور کسی کو برادرانہ مشورہ دینے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ مسٹر اوبامہ نے یہاں کے مسلمانوں کے حفاظت کے لئے اس لئے فکر مند ہیں کہ امریکہ کی جنگ آزادی میں ہندوستانی دباؤنے جو کام انجام دیا کہ وہ ایک طرح سے اس احسان کو بھی چکانا چاہتے ہیں۔
فون:9958361526

Monday, 27 November 2017

منافقوں کا اتحاد

منافقوں کا اتحاد

Islami_alliance#

از:ظفر اقبال

گزشتہ روز 26 نومبر 2017 کو ریاض میں اکتالیس مسلم ممالک کی کانفرنس ہوئی، جس میں دہشت گردی کے تعلق سے بہت سارے فیصلے کیے گئے کہ دہشت گردی کو ہم لوگ مل کر جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ جو مسلم ممالک دہشت گردی سے متاثر ہیں اس میں عسکری کارروائی کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔ ریاض میں گزشتہ روز بہت ہی رونق تھی۔ اکتالیس ممالک کی نمائندگی وہاں ہورہی تھی، تو یقیناًوہاں گہماگہمی تو ہوگئی ہی۔ واضح رہے کہ اس اجلاس میں عالم اسلام کا ہیرو ملک ایران اور ایران کے قریب ترین ممالک عراق اور شام کو کوئی دعوت ہی نہیں دی گئی ، ہاں لبنان کو دعوت دی گئی لیکن لبنان کی حکومت نے اس دعوت نامہ کو ہی مسترد کردیا اور قطر بے چارہ جو خود ان دہشت گرد گروپوں کا شکار ہے اس کو بھی دعوت نہیں دی گئی۔

یہ کیسا اسلامی اتحاد ہے جس کا سرغنہ سعودی عرب دہشت گردی کو فروغ دینے میں کلیدی رول ادا کررہا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ متحدہ عرب امارات کے دو افسران ان میں ایک دوبئی کے سابق پولس ڈائرکٹر جنرل خلفان کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے ہیڈکوارٹر کو بمباری کرکے تباہ کردینا چاہئے۔ یہ کیسے عرب ممالک ہیں جن کے یہاں اختلاف کا احترام کی بو تک نہیں پہنچی ہے۔ ہر اختلاف کرنے والے شخص یا ادارے کو یہ عرب ممالک تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ قطرکا صرف اس لئے بائی کاٹ کررکھا ہے کہ وہ اپناآزاد خارجہ پالیسی بنا رکھا ہے۔ بھائی ساری دنیا خود اقوام متحدہ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ ہر کوئی آزاد ملک وہ خود آزادانہ خارجہ پالیسی بناسکتی ہے۔ کس ملک سے اپنے تعلقات رکھنے ہیں اس ملک کی حکومت کو فیصلہ کرنا ہے۔ اسی طرح یمن جو عرب ممالک کا سب سے غریب ملک ہے اس پر ڈھائی سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے سعودی عرب حملہ آ ور ہے۔ ہزاروں افراد اب تک سعودی غنڈہ گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین جو غنڈہ گردی مچارہے ہیں اور اسلام کی شبیہ کو سخت نقصان پہنچارہے ہیں۔ جس کا تدارک جلد از جلد نہ کیا گیا تو اسلام کی شبیہ کو دنیا میں زبردست نقصان پہنچے گا۔لیکن اسلام کا ٹھیکدار غنڈہ جو اتفاق سے خادم الحرمین الشریفین بھی ہے۔وہ نام ونہاد اسلامی ممالک کا گروپ بناکر غنڈہ گردی مچارہا ہے، سعودی عرب کی اس غنڈہ گردی کو امریکہ اور اسرائیل کی زبردست حمایت حاصل ہے۔

ان نام ونہاد اسلامی ممالک کے اتحاد کو شرم آنی چاہئے کہ مشرق وسطی میں ایک ہی ناجائز ریاست ہے وہ اسرائیل ہے اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ بلکہ الٹا یہ ہورہا ہے کہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اور اسرائیل سے برسرپیکار حماس ، حزب اللہ اور اخوان المسلمین کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔یہ کس طرح کے لوگ ہیں جو اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں جو اسلام کو بدنام کرنے اور رسوا کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔پورے عالم اسلام میں صرف ایران اور اس کے اتحادی ہی ہیں جو اس دنیا میں امن قائم رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ باقی یہ کریمنل ریاستیں جو خود کو اسلامی ٹھیکیدار بنتے ہیں اور اپنے پٹرول کی دولت کے بل پر مختلف ممالک کو بلیک میل کرکے بھی کچھ ممالک کو ہمنوا بنارکھا ہے۔ یہ اسلام کے ٹھیکدار اسلامی اتحاد میں اگر دم ہے تو سب سے پہلے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کرے پھر سارا عالم اسلام بشمول ایران بھی اس جنگ کا حصہ بننا اپنے لئے باعث افتخار سمجھے گا۔
فون: 9958361526

Thursday, 23 November 2017

یروشلم میں ہمیں ایرانی پاسداران انقلاب کے بوٹوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے

یروشلم میں ہمیں ایرانی پاسداران انقلاب کے بوٹوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے

#Jerusalem_Iran_IRG

از:ظفر اقبال

شام اور عراق سے داعش کا خاتمہ ہوچکا ہے۔اب بشار الاسد کی حکومت بچ چکی ہے، شاید اگلے برس یا کچھ زائد عرصہ کے بعد شام میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہوہی جائے گا۔ شام میں کوئی خاص اپوزیشن پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے بشار الاسد کا دوبارہ صدر بننا تقریبا طے ہی سمجھئے۔ بشار الاسد کی ایک بات کی ہم تعریف کریں گے بلکہ دشمن بھی تعریف کرے بنانہیں رہے گا کہ واقعی وہ حافظ الاسد کا ڈاکٹر بیٹا ہے۔ جس کے اندر نہ خوف نہ ہراس ، اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ لندن یا امریکہ یا ماسکو یا پیرس میں شام کی حکومت چھوڑ کر سیاسی پناہ لے چکا ہوتا۔ لیکن بشار الاسد کی ہمت کی داد دیئے بنا میں نہیں رہ سکا۔ 
گزشتہ دن روس کے شہر سوچی میں روس ،ایران اور ترکی کے درمیان شام کے مستقبل کے تعلق سے میٹنگ ہوئی، جہاں تینوں ممالک کے سربراہ مملکت کم از کم ایک نقطہ پر پہنچے کہ اب داعش اور اس کے حامیوں کو علاقے میں قدم جمنے نہیں دیا جائے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ داعش کے خلاف جنگ اور بشار الاسد کے خلاف سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کے پالتو جہادی جو فری سیرین آرمی، النصرہ فرنٹ اور القاعدہ وغیرہ کے ناموں سے شام کی حکومت کی الٹنے کی جو کوشش کی اس کے محرکوں کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے۔اب ساری دنیا یہ محسوس کرتی ہے کہ مشرق وسطی میں دو طاقتیں اسرائیل اور سعودی عرب ایسی ہے جو ایران دشمنی میں ہر طرح کی تباہی مچانے اور اور ملک کے ملک تاراج کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتی ہیں۔ اس لئے دنیا کو پرامن رکھنے کے لئے فلسطین کی آزادی ضروری ہوچکی اور فلسطین کی آزادی اسرائیل کے ناجائز حکومت کے خاتمہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سنی دنیا کا نام و نہاد ٹھیکدار سعودی عرب کو کس نے سنی دنیا کی قیادت سونپ دی ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے وہ ایران کی دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ بلکہ سرزمین حرمین کو مسلسل اسرائیلی اور امریکیوں کی خوشنودی کے لئے پامال کررہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی فلسطین کی سرحد سے قریب ہزاروں کلومیٹر میں پھیلے ہی علاقے میں مکاؤ کے طرز پر دنیا کا سب سے بڑا جدید شہر بنانے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ جہاں جوئے خانے بھی ہوں گے اور عیاشیوں کے تمام جدید سامان بھی مہیا کرایا جائے گا۔ اس علاقے پر سعودی عرب کا ملکی قانون بھی نافذ نہیں ہوگا۔ اب یہ علاقہ جو جزیرہ العرب کا علاقہ ہے کس طرف جارہا ہے۔ جہاں علانیہ زناکاری کی جائے گا اور جسے خادمین الحرمین الشریفین کا تحفظ بھی حاصل رہے گا۔ یہ چیز سوچ کر میں خود کو آگ میں جلتا ہو امحسوس کررہا ہوں۔
اب وقت آگیا ہے کہ روس، ایران اور سنی ملک جو خلافت عثمانیہ کا حقیقی وارث ترکی کی متحدہ قوت یروشلم کی آزادی کے لئے مارچ کرے اور ان علاقوں کو یہود اور آل سعود کے ناپاک وجودسے پاک کرے۔ سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت کے خاتمہ کے بعد عام انتخابات کرایا جائے اور وہاں کی حکومت وہاں کی جمہوری عمل سے منتخب کی گئی پارٹی کے حوالے کردی جائے اور حرمین شریفین کا منیجمنٹ تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی)سنبھال لے۔یہی سب سے کے لئے بہتر ہے۔
فون: 9958361526

Tuesday, 21 November 2017

ہندوستان کا اسرائیل سے دفاعی سودا منسوخ کرنا ایک شاندار فیصلہ

ہندوستان کا اسرائیل سے دفاعی سودا منسوخ کرنا ایک شاندار فیصلہ

از:ظفر اقبال

ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ ہوئے دفاعی معاہدے کو منسوخ کرکے جو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی ہمیں تعریف کرنی چاہئے کہ ایک ناجائز ریاست اسرائیل جو فلسطین کی زمین کو ہڑپ کرکے بنائی گئی ہے۔ اس کا مخالف اب بی جے پی کا ہندوستان بھی ہوگیا ہے۔ گاندھی جی بھی اسرائیل کے وجود کے مخالف تھے۔ ہندوستانی حکومت کا مؤقف لائق تحسین ہے۔ جس کی ہمیں بھرپور ستائش کرنی چاہئے ۔
گزشتہ چند مہینے قبل ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی ہندوستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہین جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا، جہاں اسرائیل کے وزیراعظم نے بہت کی شاندار اور پرتپاک خیر مقدم کیا تھا۔ اور ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان اینٹی ٹینک میزائل کے 500 ملین ڈالر کا سودا ہوا تھا۔ یہ سودا ایسا تھا کہ ہندوستان کے اندر ہی اسرائیل کو اینٹی ٹینک میزائل بناکر ہندوستان کے حوالے کرنے تھے۔ حیدرآباد میں اس کارخانے نے اپنا کام بھی شروع کردیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ہندوستان نے دو دن قبل اس سودے کو منسوخ کرکے بہت ہی احسن کام انجام دیا ہے۔
 ادھر چند برسوں سے ہندوستان اور اسرائیل میں جس طرح قربت بڑھ تھی جس سے ہندوستان کے سیکولر ذہن رکھنے والے شہریوں کو کافی تکلیف دے رہی تھی۔ لیکن مودی حکومت کے شاندار فیصلے کی وجہ سے اسرائیل کے حامی حیرت میں مبتلا ہیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف بولنے والے لوگوں کے دلوں کو تھوڑا سکون بھی ملا ہے۔ سیکولر ذہن کے حامی لوگ جو فلسطین کے حامی ہیں وہ  زیادہ خوش ہیں کہ ہندوستان نے واقعی بہترین فیصلہ کیا ہے۔یہی ہمارے لئے بہتر بھی ہے۔ 
فون: 9958361526

Tuesday, 14 November 2017

حوثی میزائل سے امریکہ اور آل سعود سکتے میں

حوثی میزائل سے امریکہ اور آل سعود سکتے میں


از: ظفر اقبال

چند دن قبل ریاض پر یمن کے حقیقی وارث حوثی ملیشیا نے برکان۔2 نامی ایک بیلسٹک میزائل فائر کیا جس سے ریاض کے کنگ خالد ائرپورٹ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔ جس سے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی پریشان ہے۔
عالمی جوکر امریکہ ابھی بھی فیصلہ نہیں کرسکا کہ یہ میزائل کس ملک کا بنا ہوا ہے، اگر ایران کا بنا ہوا ہے تو یہ اسمگل ہوا کیسے؟ ہم نے تو پوری ناکہ بندی کررکھی ہے، اگر حوثی نے خود بنالیا ہے تو یہ تو اور بھی خطرناک بات ہے جس سے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی سکتے میں آسکتے ہیں۔
برطانوی ادارے "گلوبل رِسک اِنسائٹس" کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایران کی جانب سے مشرق وسطی بالخصوص یمن ، عراق اور شام میں غلبہ پانے کے لیے کس طرح "حزب اللہ" ملیشیا کا ماڈل پھیلایا گیا۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نے ایران کے رسوخ کے حوالے سے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان واقعات میں یمن میں باغی حوثی ملیشیا کا سعودی عرب پر میزائل داغنا اور لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا مستعفی ہونا شامل ہے۔
یہ بات بھی باور کرائی گئی ہے کہ داعش تنظیم کے خلاف جنگ پر توجہ اور خطے میں تہران کے تخریبی کردار کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ بغداد اور دمشق کے ذریعے ایرانی غلبے میں اضافے اور بحیرہ روم تک اس کی پیش قدمی کی صورت میں سامنے آیا۔ عراق ، شام اور لبنان ایرانی عسکری اور اقتصادی قوت کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ میں فرنٹ لائن بن گئے۔
اب تو ایران مشرق وسطی کا کنگ بن چکا ہے۔ بس موجودہ مشرق وسطی کے جعلی کنگس کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
فون: 9958361526

Saturday, 4 November 2017

عراق اور شام کی حکومت کو داعش کی تباہی مبارک ہو

عراق اور شام کی حکومت کو داعش کی تباہی مبارک ہو

از:ظفر اقبال


ایران اور روس کی مدد سے خلافت عباسیہ کا دارالخلافہ بغداد اور بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق بالترتیب عراق اور شام کی حکومت محفوظ ہوگئی ، عراقی اور شامی حکومت کو یہ کامیابی مبارک ہو۔ دیر الزور پر گزشتہ روز شامی حکومت کے قبضہ کےبعد شام اور عراق سے داعش کا مکمل طور سے خاتمہ ہوگیا۔ اب امریکہ اور اس کے عرب اتحادی مزید اور سازشیں کریں گے۔ اب ایران اور اس کے اتحادیوں کا اگلا ہدف القدس یعنی فلسطین کی آزادی ہونی چاہئے۔ ایران اور اس کے حامیوں کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے، دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بنیادی ہدف ہونا چاہئے۔ فلسطین کی آزادی کے بعد ہمیں سیدۃ النسا حضرت فاطمہ الزہرا اور ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری کے روضہ کی تعمیر بھی تو کرنی ہے جس کو آل سعود نے 1926 میں ڈھادی تھی، یہ ہدف بھی پیش رہنی چاہئے۔

فون: 9958361526



Image may contain: 1 person, standing

Thursday, 2 November 2017

بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ پر عدالت فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے؟

بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ پر عدالت فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے؟


از: ظفر اقبال


بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تناز ع کا عدالت سے باہر حل تلاش کرنے کے متعلق حالیہ مبینہ کوششوں کے درمیان آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے واضح کیاکہ وہ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ بابری مسجد کی جگہ عرش تا فرش قیامت تک کے لئے مسجد کے حکم میں ہے اور اس تنازع میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اسے منظور ہوگا۔ بورڈ کی طرف سے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاپنے اس موقف پر قائم ہے کہ بابری مسجد کی جگہ عرش تا فرش قیامت تک کے لئے مسجد کے حکم میں ہے اور آج بھی بورڈ اسی موقف پر قائم ہے، اور بورڈ کا یہ بھی متفقہ فیصلہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو منظور ہوگا۔
بیان کے مطابق مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کہا کہ اس وقت جو خبریں مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف منسوب کرکے کہی جارہی ہیں کہ درپردہ کوئی سازش چل رہی ہے اور ہندومذہب کے روحانی پیشوا شری شری روی شنکر سے ٹیلیفون یا بالمشافہ کوئی بات چیت ہوئی ہے یہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت خبر ہے ا سکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بابری مسجد قضیہ کافیصلہ سپریم کورٹ کبھی نہیں سنائے گی، اس لئے سپریم کورٹ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو سلجھالیں۔ اس کو سپریم کورٹ مان لے گی۔ سپریم کورٹ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ واقعی ہندوستانی سپریم کورٹ بہت ہی بالغ ہے۔ سپریم کورٹ کی بلوغت سے کون انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کبھی بھی بابری مسجد کے قضیے پر فیصلہ نہیں سنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں ثبوت پر چلتی ہیں، تمام ثبوت مسلمانوں کے حق میں جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کی اکثریتی آبادی جو ہندو پر مشتمل ہے، ان کا اعتقاد بنادیا گیا ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ بنائی گئی ہے جس جگہ پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کی اکثریتی آبادی بضد ہے کہ کسی بھی طرح عظیم رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ جس دن بابری مسجد کو توڑی گئی اسی دن ایک عارضی رام مندر تو پہلے ہی بنادی گئی ہے، جہاں مسلسل پوجا ہورہی ہے، مسجد کی شکل تو اب بچی ہی نہیں ہے۔ہاں لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ہے جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی، وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے مسجد کو ڈھاکر کر مندر یا گرجا گھر ہی کیوں نہیں بنادیا گیا ہو۔
اب مسئلہ ہے کہ سپریم کورٹ خود فیصلہ کیوں نہیں سنانا چاہتی ہے، اس کہ وجہ بہت ہی ٹھوس ہے اور وہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں کبھی مندر تھا جسے ڈھاکر یہ مسجد بنائی گئی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اگر عقیدہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ اکثریتی آبادی کے حق میں فیصلہ سنادیتی ہے تو اس سے سپریم کورٹ کا اعتبار ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ خطرے میں ہندوستان میں ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس کا خمیازہ انہیں بین الاقوامی سطح پر یو این او، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، ہیگ کی عدالت ہرجگہ ان کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان مسلمان اس کیس کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عالمی عدالت سے مدد حاصل کرسکتا ہے، اس چیز نے حکومت ہند اور سپریم کورٹ کوبے چین کررکھا ہے، اس بے چینی نے ہی انہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ زبردستی کسی معاہدہ پر پہنچنا چاہتے ہے۔ اگر یہاں کی مسلم قیادت کسی لالچ میں مندر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو ایک طرح سے یہاں کی پوری مسلم آبادی اللہ کی نظر میں مرتد ہوجائے گی، اللہ بھی یہاں کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدالت میں بھی ہم اپنے اوپر زیادتی کی فریاد بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے مسلم قیادت سے درخواست ہے کہ کسی بھی قیمت پر ہم اکثریتی آبادی سے اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرسکتے۔ چاہے بابری مسجد کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کو سونے کے محل بھی بناکر یہاں کی اکثریتی آبادی کیوں نہ دے دے۔
فون: 9958361526

Monday, 23 October 2017

امریکی جوکروں کا ٹولہ

امریکی جوکروں کا ٹولہ

از: ظفر اقبال


کیا امریکہ میں جوکروں کا ٹولہ برسراقتدار ہے؟ کیا اسے انٹرنیشنل اور بین الاقوامی قوانین سے واقفیت تک نہیں ہے یا اسے دنیا کا جغرافیہ بھی معلوم نہیں ہے۔ گزشتہ روز یعنی 22 اکتوبر 2017 کو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کا دورہ ریاض ہوا۔جہاں انہوں نے سعودی عرب کی اعلی قیادت سے ملاقات کی اور اس کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے ساتھ انہوں نے پریس کانفرنس کی ، جس پریس کانفرس میں انہوں نے شیعوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ بات کہی کہ اب عراق اور شام سے داعش کا خاتمہ ہوگیا ہے اس لئے شیعہ مسلح گروپ عراق اور شام سے نکل جائیں۔ ارے جاکے کوئی ٹیلرسن سے یاٹرمپ کو بتائے کہ شیعوں کو کیا ان کے گھر سے نکلنے کی بات کرتے ہو۔ کیا تمہیں جغرافیہ نہیں معلوم کہ شیعہ کے لئے دو متبرک جگہ کربلا اور نجف تو عراق میں ہیں اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا روضہ دمشق میں ہیں۔ کیا شیعوں کو کربلا ، نجف اور دمشق سے نکل جانے کی بات کرتے ہو، نہایت ہی احمقانہ بات ہے۔ امریکی جوکروں کے ٹولہ کی عرب ممالک میں جو لوگ ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت کا خاتمہ از حد ضروری ہوگیا ہے جب تک آل سعود برسراقتدار ہیں مشرق وسطی میں پائیدار امن کسی مجنوں کے خواب سے کم نہیں ہے۔جن جن راستوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ گذرا وہ تمام علاقے شیعوں کا ازل سے ہے۔ جہاں سے کوئی شیعوں کو نکال نہیں سکتا ہے ان امریکی جوکروں کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کربلا سے لے کر دمشق تک کا پورا علاقہ شیعہ ہارٹ لینڈ ہے۔ اسکے بارے میں ایسی بات ایک امریکی وزیر خارجہ کہہ رہا ہے جس کا مشرق وسطی سے کیا رشتہ؟ مشرق وسطی خالص مسلم ہارٹ لینڈ ہے۔ گیارہ ہزار کلومیٹر سے آیا ہوا کوئی ملک کا نمائندہ مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے لوگو ں کے بارے میں فیصلہ کرے، نہایت ہی احمقانہ بات ہے۔

فون: 9958361526


Sunday, 22 October 2017

اپنے مقاصد کے لئے انسانوں کا جنم

اپنے مقاصد کے لئے انسانوں کا جنم

از: ظفر اقبال


بہت جلد دنیا ایک ایسے مرحلہ میں داخل ہونے جارہی ہے بلکہ ایسی چیز اور اس طرح کے سسٹم کو بروکار لانے والی ہے جس سے انسانیت خطرے سے دوچار ہونے والی ہے۔ جو نیوکلیائی بموں سے زیادہ خطرناک ہے۔ وہ چیز ہے جینیک انجینئرنگ کے ذریعہ اپنے خاص مقاصد اور پہلے سے طے شدہ مقاصد کے لئے انسانوں کی پیدائش۔ ولادیمیر پوتن نے روس کے شہر سوچی میں طلبہ اور نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے آج انہوں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

صدر پوتن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتاہے تو انسانیت خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔ جنیتک انجینئر نگ کے ذریعہ اگر ہم موسیقار پیدا کرنا چاہتے ہیں تو صرف موسیقار پیدا ہوگا۔ اگر ہم انجینئر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انجینئر ہی پیدا ہوگا، اگر ہم ڈاکٹر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر ہی پیدا ہوگا، اگر ہم فوجی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو فوجی ہی پیدا ہوگا، یہ انسان ایسا ہوگا کہ جس کے اندر محسوسات کا مادہ ختم ہوجائے گا۔ ان کے اندر سوچنے اور خوف وہراس کی کیفیت بالکل نہیں رہے گی۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ گوشت پوست کا انسان تو ہوگا لیکن اس کی کارکردگی ربورٹ جیسی ہوگی۔
مسٹر پوتن کا مزید کہنا ہے کہ یہ چیز انسانی دماغ کے خلیوں میں کچھ تبدیلیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوجائے گا۔ ان کا مزید کہناہے کہ وہ وقت جلدآنے والا ہے۔
ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسٹر پوتن اگر اس طرح کے واقعات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اس شعبے میں کام تیزی کے ساتھ ہورہا ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں اسرار عالم صاحب تقریبا پچیس برس قبل اپنی متعدد کتابوں میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ صدر پوتن کے منھ سے اس طرح کی بات سننے کا مطلب یہ ہے کہ روس اور امریکہ اور بہت حد تک اسرائیل کے اندر اس طرح کے کام ہورہے ہیں۔ جو بہت جلد پائے تکمیل تک پہنچنے والے ہیں۔ روس کے بارے میں بہت پہلے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ بہت ہی پراسراسر ملک ہے۔ بلکہ جب روس نے 1957 میں خلامیں جب پہلا خلائی جہاز اسپٹنک بھیجا تھاتو امریکہ حیران رہ گیا کہ کیا یہ ممکن ہے ؟ اگر روس کے صدر ایسی بات کہہ رہے ہیں تو نہ ماننے کی ہمارے پاس کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔
فون: 9958361526


Saturday, 21 October 2017

ایران عالم اسلام کی قیادت کا متحمل




ایران عالم اسلام کی قیادت کا متحمل



از:ظفر اقبال



1923 میں جب سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا ہے تب سے ہی عالم اسلام بالکل بے سمتی کا شکار ہوگیا۔ پوری دنیا میں مسلم قیادت کا جو تصور تھا وہ ختم ہوگیا۔ متحدہ قیادت کے خاتمے کے بعد اب قیادت کے متعدد دعویدار پیدا ہوگئے۔ دشمن نے یہ سوچ کر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا کہ اس سے مسلمان منتشر ہوجائیں گے اور بالکل ختم ہوجائیں گے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مسلمان بہت ہی منتشر ہوگئے، دنیا میں بہت سے مسلم ممالک آزاد ہوگئے۔ مشرقی یورپ سے لے کر مشرق بعید تک کہ ممالک میں مسلم حکمراں ہیں لیکن ایک متحدہ قیادت نہ ہونے کی وجہ سے متعدد فرقہ تو پہلے سے ہی تھے اب متعدد تنطیمیں بن گئیں۔ ہر تنظیموں کا ایجنڈا بھی مختلف ہوتا گیا۔ جس سے پورا عالم اسلام انتشار کا شکار ہوگیا۔ ایک مرکزی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی مسلم گروپ کسی دوسرے گروپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ کوئی ایک دوسرے کی سننا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کا تو بہت نقصان ہوا ہی ساتھ ہی غیر جو اس بات سے بہت ہی خوش تھے کہ چلو مسلمانوں کی متحدہ کی قیادت جو خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی خاتمہ ہوگیا۔ جس سے غیر مسلم خاص طور سے پہلی جنگ عظیم کے حریف گروپ تو بہت ہی خوش تھے۔ خاص طور سے پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اسرائیل کے قیام عمل میں آیا جس سے مسلم ہارٹ لینڈ میں ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوگیا جس سے مسلمانوں کا بہت ہی نقصان ہوا۔ لاکھوں فلسطینی اپنی سرزمین سے بے دخل کردیئے گئے ، ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے۔ یہ تو ہوا ہی ساتھ اہی پوری دنیا ایک گہری کھائی میں جاگری۔ اس سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا اب خون کے آنسو رورہی ہے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں بہت ساری تنظیموں کا ظہور ہوگیا۔ کچھ تنظیمیں پرامن تھیں جیسے جماعت اسلامی، اخوان المسلمون اسی طرح انڈونشیا میں بھی بہت ساری تنظیموں کا قیام عمل میں آیا اور کچھ تنظیموں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جیسے القاعدہ،الجزائر کی متعدد تنظیمیں اسی طرح ابوسیاف گروپ، فلسطین کی حماس، پی ایل او اسی طرح، طالبان ، وسط ایشیا میں متعدد تنظیموں کا قیام عمل میں آیا جو کچھ پرامن طورپر اور کچھ مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔ان تمام تنظیموں کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح اپنے دشمنوں کو شکست دوچار کردیں اور اپنی حکومت کا قیام عمل میں لائیں۔ اس کی وجہ سے دنیا میں انارکی پیدا ہونا شروع ہوگئی جس سے عالم اسلام تو خاک وخون میں نہایا ہی ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا اس خونی تصادم سے متاثر ہوئی۔ کئی ممالک ان مسلح جدوجہد کی وجہ سے تباہ کردیئے گئے۔ شام اور عراق میں پراکسی وار متعدد ممالک چلارہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کافی عرصے سے پائیدار حکومت بننے میں پریشانی ہورہی ہے۔ لیکن اب ایران کی کوششوں کی وجہ سے عالم اسلام میں پائیدار حکومتیں بن رہی ہیں۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ایران کی اعلی قیادت آیت اللہ خامنہ ای کی سرکردگی میں ایک ایسی قیادت دنیا میں موجود ہے جس کی بات عالم اسلام کی ایک شاخ اہل شیعہ ان کی بات کو بہت ہی غور سے سنتی ہے۔ اگر انہوں نے کسی کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کرلیا تو ساری شیعہ قوم اس کو تسلیم کرے گی۔ خود ساری دنیا کی بھی اسی میں بھلائی ہے کہ ایران جو عالم اسلام کی نمائندگی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جس کی بات پورے عالم اسلام سنیں تب دنیا پرامن ہوسکتی ہے اور ساری غیر مسلم قیادت کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایران کو عالم اسلام کا ایک مرکز تسلیم کرلے تبھی دنیا ان کے لئے بھی فائدہ مند ہوسکتی نہیں تو دنیا کوکبھی پائیداری نصیب نہیں ہوگی۔کچھ لوگ یہ چاہتے ہوں کہ سعودی عرب ہی عالم اسلام کی قیادت کیوں نہیں کرسکتا تو اس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ سعودی عرب کی تشکیل میں جن ممالک کا اہم رول رہا ہے وہ خود برطانیہ ہے بعد میں امریکہ اس کی سرپرست کے طور پر سامنے آیا۔ ایسا ملک جو کسی دوسرے غیر مسلم ملک کی سرپرستی سے چل رہا ہے وہ خودکیسے قیادت کرسکتا ہے۔ رہی بات علمی پیش رفت کی عرب ممالک علمی ترقی میں بھی پستی سے دوچار ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عالم عرب عالم اسلام کی قیادت کی متحمل بالکل نہیں ہے۔ پہلے بھی خلافت عثمانیہ کی شکل میں ترکی عالم اسلام کی قیادت کررہا تھا اب ایران عالم اسلام کی قیادت کرسکتا ہے ۔ اس قیادت کو پوری دنیا بھی تسلیم کرلے گی۔ پوری دنیا کو ایران کی قیادت کو تسلیم کئے بنا چارا بھی نہیں ہے۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ ایران کو عالم اسلام کی نمائندہ کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے تو دنیا کبھی بھی تاریک کنویں سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ 2015 میں ایران کے ساتھ عالمی معاہدے سے امریکہ کی نکلنے کی کوششوں کی ساری دنیا نے مخالفت کی خود یوروپ اور اس کے ایشیائی حلیف جاپان اور کوریا اس کا سخت مخالف رہا ۔ خود امریکہ میں متعدد مقتدر شخصیوں نے ٹرمپ کی کوششوں کی سخت مخالفت کی جس کی وجہ سے ترمپ اور ان کی انتظامیہ اب نرم پڑنے لگی ہے۔ ساری دنیا ایک ایسی دنیا میں جینا چاہتی ہے جس میں عالم اسلام کے ساتھ بقائے باہم کے تعلقات ہوں۔ دنیا قتل وغارت گری سے تھک چکی ہے۔ عالم اسلام کی قیادت کے لئے ایران سے بہتر ملک ہمارے ذہن میں بالکل نہیں ہے۔
فون: 9958361526

Tuesday, 3 October 2017

بی جے پی کا ہندوستان ہندووانہ شناخت کی تلاش میں

بی جے پی کا ہندوستان ہندووانہ شناخت کی تلاش میں


از :ظفر اقبال


برازیل یا ارجنٹینا کا پانچویں کلاس کا کوئی بچہ تاج محل کی تصویر دیکھتا ہے تو وہ کہتاہے کہ یہ انڈیا ہے، جس طرح ہمارے ملک میں جب پانچویں کلاس کا بچہ ایفل ٹاور ، پیسا کا مینار یا دیوار چین کی تصویر دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ تمام چیزیں بالترتیب فرانس، اٹلی اور چین کی ہیں۔ تاج محل کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ جب آر ایس ایس یا بی جے پی یا کسی بھی شخص جو دل میں ہندوتو کا شدت پسندانہ جذبہ رکھتا ہے اسے اس بات پر غصہ آجاتاہے کہ ہندوستان جہاں اکثریتی آبادی ہندوؤں کی ہے اور حکومت بھی انہیں کی ہے اور یہاں مسلمان آئینی اعتبار سے اقلیت میں ہیں اس کے باوجود ہندوستان کی شناخت عالمی سطح پر تاج محل کی وجہ سے ہی پہچانی جارہی ہے، جب مذکورہ ممالک میں جب کوئی ہندوستانی جو انتہاپسندانہ پس منظررکھنے والا ہندو جاتا ہے تب لوگ کہتے ہیں کہ اچھا آپ کا تعلق اس ملک سے ہے جہاں تاج محل ہے، اگلا سوال ان کا یہ ہوتاہے کہ کیا وہ مسلم ملک ہے؟ اس طرح کے سوالات سے ہندوتو کے حامی اشخاص بیرون ملک میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ آر ایس ایس کے سربراہ یا وچارک جب بیرون ملک جاتے ہوں گے تو دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جو ہندوستانی پس منظر نہیں رکھتے ہیں۔ ان سے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ گھبراہٹ کے شکار ہوجاتے ہیں کہ ہندوستان 70 برسوں سے ہندو اکثریتی ملک ہوچکا ہے لیکن ابھی تک مسلم شناخت برقرار ہے۔

اترپردیش میں آدتیہ ناتھ یوگی جو بی جے پی کے وزیراعلی ہیں انہوں نے ریاست کی سیاحت کی لسٹ سے تاج محل کو نکال دیا ہے اوراس کی جگہ گورکھپور کے مندر جس کے وہ خودد پروہت ہیں گورکھ ناتھ مندر اس کو جگہ دی ہے، تاکہ وہ دنیا والے کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان اب ہندو اسٹیٹ بن چکا ہے۔ بلکہ وزیراعظم نریندر مودی جب بیرون ملک جاتے ہیں یااندروں ملک کوئی مہمان آتا ہے تو پہلے تاج محل میمونٹو کی شکل میں دیئے جاتے تھے لیکن اب بھگوت گیتا پیش کئے جارہے ہیں۔ جس سے دنیا والے کو معلوم ہوسکے کہ ہندوستان ہندو اسٹیٹ ہوچکا ہے اور اس ملک کی شناخت مسلم مینار یا گنبد نہ ہوکہ بھگوا پہچان بن سکے۔
یو پی اے کے دور حکومت کے دوران جب جارج ڈبلیو بش ہندوستان کے تین روزہ دورے پر آئے تھے تو ہندوستان میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا ہندوستان کی انٹلی ایجنس نے سیکورٹی کی وجہ سے وگیان بھون کا انتخاب کیا تھا لیکن امریکی انٹلی ایجنسی ایف بی آئی نے پرانا قلعہ کا انتخاب کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکی شہری جو امریکہ میں اپنے صدر کا براہ راست ایڈریس کو سنیں تو انہیں معلوم بھی ہو کہ ہمارے صدر ہندوستان میں ہی تقریر کررہے ہیں اور ہندوستان کی پہچان عالمی سطح پر صرف مینار اور گنبد ہے چاہے تاج محل کا مینار ہو یا قطب مینار یا لال قلعہ یہ ہندوستان کی پہچان ہے۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے ہندوتو نظریہ کے حامی لوگ پریشان ہیں کہ اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی ہندوستان کو ہندووانہ شناخت نہیں مل سکی۔اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہندوستان کو ہندووانہ شناخت ہر حال میں مل سکے۔ ہم لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ آر ایس ایس اور ان سے تعلق رکھنے والے اشخاص کو کس قدر کامیابی مل پاتی ہے۔
فون: 9958361526

Saturday, 30 September 2017

چین میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی

چین میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی


از:ظفر اقبال


چین کے تعلق سے برطانوی اور امریکی میڈیا مسلسل غلط خبریں پھیلا رہے ہیں کہ چین میں مسلمانوں کو کوئی مذہبی آزادی نہیں ہے، چین کی سرزمین پر مسلمانوں کی زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ ان کے مساجد میں تالے لگائے جارہے ہیں اور ان سے قرآن جمع کرنے کے لئے کہا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں محض بکواس اور مسترد کردیئے جانے کے قابل ہے۔ دراصل اس طرح کی افواہیں پھیلانے کا کام مغربی میڈیا اس لئے کررہا ہے تاکہ چین اور مسلمانوں کے درمیان ایک نئی جنگ کی ابتدا کی جائے جس سے مسلمانوں اور چین کی حکومت کو شدید نقصان پہنچے ، چین جو ایشیا میں طلوع ہوتا ہواسورج ہے جس کو نقصان پہنچایا جائے اور چین کے عروج کو گہن لگ جائے اور چین سے مسلمانوں کے لڑوانے کا مقصد مسلمانوں کو تباہ کرنا بھی ہی ہے جس سے مسلماں مزید کمزور سے کمزور تر ہوجائیں۔برطانوی اور امریکی پروپیگنڈے میں ہمارے کچھ نام ونہاد مسلم اتحادی ممالک بھی شامل ہیں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ بھی متعدد ممالک ہیں جو مغربی پروپیگنڈے کا حصہ بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان عرب ممالک کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہے عوام کی امنگیں بھاڑ میں جائے اس میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مشرق وسطی میں داعش دم توڑ رہاہے جس سے مغرب اوراس کے نام ونہاد مسلم اتحادی ممالک پریشان ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ ایران جو مشرق وسطی کا ابھرتا ہوا ستارہ ہے اس سے کس طرح نمٹا جائے اس لئے نت نئے مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں ان نئے فتنے میں کردستان میں آزادی کے لئے ووٹنگ کرانا بھی ایک اہم واقعہ ہے جس ریفرنڈم کو صرف اعلانیہ طور پر صرف اسرائیل نے ہی حمایت کی ہے۔ ایران اور بہت سارے مسلم ممالک سے چین اور روس کی دوستی بہت گہری ہوتی جارہی ہے جس سے برطانیہ اور امریکہ اور اس کے اتحادی بہت ہی پریشان ہیں۔ چین سلامتی کونسل کا مستقل ممبربھی ہے جس کی وجہ سے اپنے ویٹو کا استعمال بھی خوب کررہا ہے۔ چین معاشی کے ساتھ ساتھ عسکری طور پر بھی دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں اس کا شمار ہونے لگا ہے۔ پچھلے سال ہی کاشغر(سنکیانگ ) کے دورے پر جماعت اسلامی پاکستان کا ایک وفد گیا تھا ، یہ وفد اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے گیا تھا کہ واقعی چین کی حکومت مسلمانوں کو مذہبی آزادی پر پابندی لگارکھی ہے۔ لیکن جب جماعت اسلامی پاکستان کا وفد دورے کے بعد جو رپورٹ دی اس میں کہا گیا کہ یہ محض افواہ ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے برس ہی چینی صدر زی جنپنگ کاشغر کی جامع مسجد کا دورے کرچکے ہیں ، یہ ووڈیو چینی نیوز چینل سی سی ٹی وی کے ذریعہ دنیا بھر میں ریلیز کی جاچکی ہے۔یہ تمام باتیں بکواس ہے جو چین کے تعلق سے مسلسل پھیلائی جارہی ہے۔ جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ شیطان برطانیہ اور بڑے شیطان امریکہ اور چھوٹے شیطان اسرائیل کی کارستانی ہے۔ جس سے ہمیں مسلسل محتاط رہنا ہوگا۔ واضح رہے کہ جس طرح پورے چین میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں اسی طرح مسلم اکثریتی چینی علاقے سنکیانگ میں مسلسل ترقی ہورہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ مسلم علاقہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو ترقی نہیں دی جارہی ہے۔
فون: 9958361526
Image may contain: outdoor

Thursday, 28 September 2017

اے اہل ایران! آپ کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے

اے اہل ایران! آپ کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے


از: ظفر اقبال


اے اہل ایران آپ کو ہمیشہ برسرپیکار رہنا ہے۔ اس دنیا میں آپ کے لئے سکون کا ایک پل بھی نہیں ہے۔ مسلسل آپ کو جنگ لڑنا ہے۔اس امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیافت کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ نے اپنے مقصد کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ جن لوگوں کا انتخاب اللہ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے کرتا ہے اس کے لئے سکون کہا ں؟ سکون صرف اللہ کے یہاں ہی جنت میں ہی حاصل ہوگا۔ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ ابلیس جس نے اللہ کو براہ راست چیلنج پیش کرتے ہوئے کہاتھاکہ آپ نے آدم کو خلافت کے اعلی مدارج پر فائز کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے میں آپ کے فیصلہ کو غلط ثابت کردوں گا۔ حضرت آدم کی شکست اللہ کی شکست ہے۔ ابلیس دراصل آدم کی ناکامی کو اللہ کی ناکامی میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دشمن مسلسل اور لامتناہی آزمائش میں امت مسلمہ کو صدیوں سے مبتلا کرتا چلار ہاہے ۔ اس امت کے ذی شعور حکمرانوں نے ہمیشہ ہی اپنے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے ، اس دنیا میں امت مسلمہ کا دبدبہ ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ لیکن گزشتہ تین صدیوں کی غلامی نے اس امت کے اعصاب کواضمحلال کا شکار کردیا ہے جس سے امت مسلمہ خاص طور سے سنی مسلمانوں میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگئی ہے۔ یہاں اگر کوئی امت مسلمہ کی بھلائی کے لئے کوئی کارنامہ انجام دینے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسی غلامانہ سوچ اسے مسلکی جھگڑوں میں الجھادیتا ہے۔ جس سے امت مسلمہ کے مخلص افراد کچھ کرنے کی سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ میں ایک مثال کے لئے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ سرسید احمد خان جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، اس یونیورسٹی کیوجہ سے ہی ہندوستان میں ایک پڑھا لکھا طبقہ پیدا ہوا جس سے ہندوستانی مسلمانوں کا کسی حد تک وقار بحال ہوا۔ لیکن سرسید جنہوں نے یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ بھی بہت سارے شعبوں میں ایک نظیر پیش کی جیسے تحقیق، اردو نثر کی ارتقا میں ان کا بنیاد ی رول وغیرہ دیگر بہت سارے کام ہیں جس کی ابتدا صرف سرسید کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکی لیکں ان کے عقائد پر کچھ سوالات اٹھا کر ان کے سارے کاموں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو اس امت مسلمہ کے ذہنی دیوالیہ پن کے علاوہ اور کیا کچھ ہوسکتا ہے۔

اے اہل ایران! آپ نے جو ذوالفقار تلوار چند برسوں سے اٹھارکھی ہے یہ تلوار اس وقت تک اٹھی رہنی چاہئے جب تک اس دنیا میں تمام مظلموں کو انصاف اور ظالموں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ہے، اس کے لئے نسلوں کی قربانی دینی پڑتی ہے، جو آپ کو دینی ہوگی۔ یہ ناانصافی جو وینزویلا سے لے کر مشرقی تیمور تک اور سری لنکا سے لے کر منگولیا تک کے علاقے میں مسلسل ہورہی ہے۔ جہاں مسلمانوں اور مقہپور قوموں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ جہاں ناانصافی مسلسل ہورہی ہے۔ ظالم طاقتیں مسلسل عوامی امنگوں کو کچل رہی ہیں۔ جس سے انسانیت شرمسار ہورہی ہے۔
اے اہل ایران کی قیادت آپ کے لئے آزمائش مسلسل آتی رہے گی کبھی داعش کی شکل میں، کبھی آپ کے حلیفوں کو خطرے میں ڈال کر ، کبھی کرد کی آزادی کے نام پر ایک فتنہ جو دشمن مسلسل پھیلا رہا ہے، ایک فتنہ ختم ہوتا نہیں ہے کہ دوسرا فتنہ شروع ہوجاتا ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ابلیس سے تحالف کررکھا ہے وہ لوگ آپ پر مسلسل کاری ضرب لگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہر ضرب کا جواب آپ کو اسی طرح دینا ہوگا جس طرح داعش کے خلاف فوری ایکشن لے کر دیا ہے۔
فون: 995836152

Monday, 25 September 2017

راکھین ایک نیا افغانستان بننے کی راہ پر


راکھین ایک نیا افغانستان بننے کی راہ پر


از: ظفر اقبال

روہنگیا مسلمانوں کا جس طرح میانمار کی حکومت قتل عام کررہی ہے اور اسے بنگالی مسلمان کہہ کر ان مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف کھدیڑرہی ہے۔ لاکھوں روہنگیائی اس وقت بنگلہ دیش آچکے ہیں اور وہ لوگ بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کی تقریبا چالیس ہزار تعداد ہندوستان میں بھی رہ رہی ہے۔ جس کو حکومت ہند میانمار بھیجنے کی تیاری کررہی ہے۔ 
واضح رہے کہ میانمار کی حکومت ان روہنگیائی مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری بھی تسلیم نہیں کررہی ہے اور ان کے گاؤں کوآگ لگارہی ہے اور عورتوں ، بچوں اور مردوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان ایک پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں کی حکومت مظلوموں کا ساتھ نہ دے کر میانمار کی ظالم اور جابر آنگ سانگ سوچی کی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔ یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔کیاہم اسی طرح میانمار میں فوج کے ہاتھوں رہنگیائی لوگوں کا قتل عام ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ ابتدا میں بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکومت بھی روہنگیائی مسلمانوں کو ساتھ دینے سے کترارہی تھی لیکن اب ان کا ضمیر جاگ چکا ہے اور وہ کھلے دل سے اس بات کا اعلان کرچکی ہیں کہ وہ ہر حالت میں روہنگیائی مسلمانوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم جب سولہ کروڑ لوگوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں تو چھ سات لاکھ لوگوں کا بھی پیٹ بھر سکتے ہیں۔ ان کے لئے دو ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی گئی جس میں انہیں پختہ مکان بناکر دیئے جائیں گے۔ خود ایران، ترکی اسی طرح بہت سارے ممالک کی طرف سے وہاں امداد بھیجی جارہی ہے اسی طرح ہندوستان کی حکومت نے کسی حدتک امداد روہنگیا مسلمانوں کے لئے بھیجوائی ہے، جو کہ ایک احسن قدم ہے۔ ہم ہندوستان کی حکومت سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کی جو تعداد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رہ رہی ہے اس کو میانمار نہ بھگا کر پناہ گزیں کا درجہ دے۔ ہندوستان کی حکومت اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ میانمار کی حکومت جس کو خود اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتی ہے ، اسے ہندوستان کی حکومت ان روہنگیالوگوں کو کہاں بھیجوائے گی، سمجھ سے بالاترہے۔ 
روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت عالمی مسئلہ بن چکا ہے ، اقوام متحدہ میں ترکی کے ساتھ ساتھ ایران کے صدر اپنی تقریر میں او رایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی سی این این کے ساتھ اپنے انٹرویو کے درمیان شدت کے ساتھ اس مسئلہ کو اٹھاچکے ہیں۔ او آئی سی اور اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کی کارروائی کی مذمت کرچکی ہے۔ لیکن چند دن قبل آنگ سانگ سوچی کی تقریر جو انہوں نے پارلیمنٹ میں کی، عالمی برادری کے لئے بالکل واضح پیغام تھا کہ میانمار کی حکومت عالمی دباؤ کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گی اور ان روہنگیا مسلمانوں کو گھر واپسی کے حق کو بالکل تسلیم نہیں کرے گی۔
اب کیا لگتا کہ میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کھدیڑ کر سکون سے رہ سکتی ہے؟ کیا ہندوستان کی حکومت سوچی حکومت کی جس طرح حمایت کررہی ہے ان کی حکومت میانمار میں مسلمانوں کی زندگی تنگ کرکے کیسے سکون سے رہ سکتی ہے؟ آپ چند لوگوں کو بے دست وپا کرسکتے ہیں کہ لیکن لاکھوں مسلمانوں کو بے دست وپا نہیں کرسکتے۔ ان روہنگیا ئی مسلمانوں کو ان کے وطن سے بے وطن ہی نہیں کیا گیا بلکہ جولوگ وطن سے بے وطن ہوتے ہیں ان کو ایسامحسوس ہوتا کہ ان کے لئے دنیا تاریک ہوگئی، وہ لوگ اپنے لوگوں کی قربانی دے کر بنگلہ دیش کی سرحد میں داخل ہوئے، ان کے درد کو سننے کے بعد ہی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی زندگی کس قدر کربناک ہے۔ 
مجھے محسوس ہوتا ہے یہ صورتحال زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گی بلکہ ایسی صورت حال تصادم کو جنم دیں گے۔ میانمار کی حکومت کو ایک گوریلا جنگ لڑنے کی تیاری کرلینی چاہئے۔ اسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے گوریلا بنگلہ دیش کا رخ کریں گے اور یقیناًشیخ حسینہ واجد کی حکومت ان گوریلا ؤں کا ساتھ دینے کے لئے مجبور ہوگی۔ جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی صورت حال ایک نئے عہد میں داخل ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد روہنگیائی مسلمانوں کو انصاف دلائے نہیں تو دنیا ایک نئے تصادم کا شکار ہوجائے گی۔ جس کے بعد مسئلہ کا حل نہ میانمار کی حکومت کے ہاتھ میں ہوگا نہ اقوام متحدہ کے ہاتھ میں رہے گا۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ایک نیا افغانستان جنم لے سکتا ہے۔ جس کی مدد کے لئے بنگلہ دیش ایک بیس کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے، جس کی سرحد مسلم اکثریتی علاقہ راکھین سے لگی ہوئی ہے۔
فون: 9958361526

Saturday, 16 September 2017

کم جونگ ان امریکی نخوت کو خاک میں ملانا والا تاناشاہ

کم جونگ ان امریکی نخوت کو خاک میں ملانا والا تاناشاہ

از: ظفر اقبال


کم جونگ ان (Kim Jong Un) کی مجوزہ تصویر کا آپ بغور مشاہدہ کریں اور اس کے علاوہ دیگر تصاویر جو کم جونگ ان کی آتی ہے، ان تصاویر کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب اور اسکی معاون میڈیا جس طرح کم جونگ ان کے کردار کو مشکوک بناکر پیش کرتی ہے اور اسے ایک ڈکٹیٹر اور تاناشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن ہمیں مختلف تصاویر کو بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کم جونگ ان کی شبیہ جان بوجھ کر بگاڑ کی پیش کی جارہی ہے، معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔شمالی کوریا کی عوام اس کو بہت بہت چاہتی ہے اور شمالی کوریا کی عوام کے ذہن ودماغ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نفرت بھرگئی ہے، شمالی کوریا نے جس طرح امریکیوں کی وجہ سے تکلیف کے وہ ایام گزاریں ہیں جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ 1949سے قبل جنوبی کوریا اور شمالی کوریا دونوں ایک ہی ملک ہوا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں خانہ جنگی کے بعد شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے اپنا راستہ الگ اختیار کرلیا۔ جنوبی کوریا امریکی اتحاد کا حصہ بن گیا اور شمالی کوریا چین اور روس کے قریب چلاگیا۔ لیکن آج شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان دشمنی اپنے کلائمکس پر ہے۔شمالی کوریا پر جتنی بھی پابندی لگائی گئی وہاں کی عوام نے ایک جٹ ہوکر بے اثر کردیا جس سے امریکہ خاص طورسے بوکھلایا ہوا ہے۔ اس کی چودھراہٹ کو چیلنج کرتے ہوئے وہ ایٹمی اور پھر ہائیڈروجن بم کا مالک بن چکا ہے۔ جس سے امریکہ کے اعصاب جواب دینے لگے ہیں۔ اب تک امریکہ کا مقابلہ ایسے ہی ملک سے ہوتا رہا ہے جو کافی کمزور رہے ہیں اور اس پر امریکہ کا یہ طرہ کہ وہ ممالک کا اتحاد بنا کر اس چھوٹے سے ملک پر حملہ کرتا ہے، جس کی مثال ہم عراق، افغانستان اور ویتنام کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔شمالی کوریا کے ساتھ امریکہ نے جو مظالم ڈھائے ہیں اور خاص طور سے وہاں کی عوام کو بھوکے مارے ہیں جس کی نظیر کم ہی ملے گی، وہ جنوبی کوریا جو معیشت کے اعتبار سے دنیا کا اہم ملک شمار ہوتا ہے، جہاں کی سمسنگ، ایل جی اور ہندوئی کمپنیوں سے دنیا واقف ہے، لیکن وہ شمالی کوریاجس پر ایک سازش کے تحت امریکہ نے بھوک اور افلاس تھوپ دی، جہاں کم ہی بارش ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کے جانب جو بادل جاتا ہے اس کو امریکہ سمندر میں ہی کیمیکل ری ایکشن کرکے گرادیتا ہے جس سے وہاں فصل بہت کم ہوپاتی ہے، امریکہ اس بات کے لئے شمالی کوریا کو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ تم میری برتری اور میری خدائی تسلیم کرو نہیں تو ہم تمہیں بھوکوں مار کر ہلاک کردیں گے۔ لیکن وہاں کی عوام پوری طرح اپنے حکمراں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ ہمیشہ سے شمالی کوریا کے معاملے میں ناکام ثابت ہوجاتاہے۔ دراصل شمالی کوریا کی عوام اپنے حکمراں سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں اور کم جونگ ان کے پرائڈ کو اپنا پرائڈ تصور کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ہر حال میں اپنے ملک پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اگر کم جونگ ان صحیح معنوں میں اپنی قوم کے لئے ڈکٹیٹر ہوتا تو وہ بھیڑ بھاڑ سے دور ہی رہتا ہے اسے ہمیشہ یہ خوف بھی ستانے لگتی ہے کہ کب کوئی ہم میں سے کوئی اسے قتل کردے لیکں کم جونگ ان ہمیشہ ہی عوام کے درمیان دیکھا گیا ہے اور اپنے فوجیوں کے درمیان رہتا ہے۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے نخوت کو خاک میں ملانے والے شمالی کوریا امریکہ کے لئے کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ اگر امریکہ شمالی کوریا کے سامنے ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی عزت خاک میں ملتی دیر نہیں لگے گی۔
فون : 9958361526
Show more reactionsComment

Tuesday, 12 September 2017

آدھی رات کا جشن

آدھی رات کا جشن

از: ظفر اقبال
ومل کمار کے اس شعری مجموعہ "آدھی رات کا جشن" دراصل 2014 میں بنی نریندر مودی حکومت کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر مبنی حالات کی داستاں ہے. جو زیادہ تر مودی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرتی ہے. انہوں نے طنز و مزاح کا انداز اپناتے ہوئے مودی حکومت پر اپنی شاعری کے توسط سے بہت ہی زوردار حملے کئے ہیں. جو پڑھنے لائق ہے. 
اس شعری مجموعے میں 134 نظمیں ہیں. ہر نظمیں مختلف واقعات کی عکاس ہے. 
واضح رہے کہ ومل کمار جی یو این آئی کے ہندی سروس وارتا میں سینئر صحافی ہیں۔
آپ اس کتاب کو درجہ زیل پتے سے حاصل کرسکتے ہیں.
زونل پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ. 26 - اے/2. چندر وہار. منڈاؤلی. فضل پور دہلی. نئی دہلی-110092
فون: 08586934944

Saturday, 9 September 2017

اے سنی دنیا تم کب ہوش میں آؤ گے

اے سنی دنیا تم کب ہوش میں آؤ گے


از: ظفر اقبال

اسلام کے نام پر اور کلمہ طیبہ کے نام پر  تشکیل پانے والے ملک پاکستان میں 30 اگست 2017 کو ایک 9ویں کلاس کے ایک  عیسائی اقلیت طالب علم شمرون مسیح کو اس اسکول کے طلبہ نے اپنے اساتزہ کی موجودگی میں اجتماعی طور پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا. وہ اس وجہ سے کہ اس نے مسلمان طلبہ کے پینے والے خاص گلاس کو چھولیا تھا.
لعنت ہے ایسی سوسائٹی پر جو ملک اسلام کے نام پر اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر تشکیل پائے. اس ملک کی عوام اس قدر ظالم ہوسکتی ہے.  ہم نے اس دنیا کو کیا پیغام دیا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں اقلیت محفوظ نہیں. اسی لئے تو برما میں مسلم اقلیت کا یہ حشر کیا جارہا ہے. ایک ملک دنیا میں ایسا بھی ہے جہاں یہودی اقلیت سب سے زیادہ محفوظ ہیں. میری مراد ایران سے ہے.  اس حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل حامی ہے.  ایسے بدنصیب قوم کا اللہ ہی حافظ ہے. جو رسول اللہ کے اسوا کو اپنائے وہ اسلام سے خارج نظر آتا ہے. ہائے سنی دنیا کی بد نصیبی. عراق. ایران. یمن. شام اور لبنان یہ وہ ممالک ہیں جہاں شیعہ دنیا بہت حاوی ہیں. وہاں کی اقلیت کس قدر محفوظ ہے. کچھ چیزیں ہم سنیوں کو شیعوں سے بھی سیکھ لینی چاہیے. وہ کس قدر سر بلند ہورہے ہیں. فی الحال شیعہ قوم اپنے اخلاق اور اعلی اقدار کے ساتھ ساتھ شمشیر کی نوک سے تاریخ رقم کررہی ہے.

فون:9958361526