Tuesday, 31 January 2017

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

#Two_Holy_Mosques_custodian_US-Trump

از:ظفر اقبال

خادم الحرمین الشریفین اور امریکی صدر کے درمیان باہمی محبت میں اضافہ ہوگیا ہے۔آج کل خوب خوب ٹیلی فونک رابطے ہورہے ہیں اور باہمی مشورے بھی ہورہے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کا جو خواب ہے اور جس طرح کے وہ وعدے الیکشن کمپین کے درمیان کرچکے ہیں اور کیا کچھ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس میں رنگ بھرتے ہوئے سب سے پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک پر ویزے دینے کی پابندی عائد کردی جس میں چار ممالک ایسے ہیں جو شیعہ اسلام سے متعلق ہیں اور تین ممالک شورش زدہ ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ پابندی دراصل شیعہ ممالک پر لگائے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ شورش پھیلانے والا اگر کوئی ملک ہے وہ سعودی عرب ہے جس نے سب سے زیادہ انتہاپسندی دنیا میں پھیلایا اور مخصوص نظریات کی تبلیغ کی جس کی وجہ سے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص مشرق وسطی اس وقت آگ مین جل رہا ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی شیعوں کا قتل ہوا اس کے پس پردہ سعودی ہاتھ اور سلفی ہاتھ ہی کا انکشاف ہوا ہے۔ واضح رہے کہ نائن الیون کا جو واقعہ پیش آیا اس میں انیس ہائی جیکروں میں سے سترہ کا تعلق سعودی عرب اور دو کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔
اب سعودی عرب کی قیادت میں خلیخ فارس کے عرب ممالک ایک نئے گیم کی تیاری میں ہیں۔ حلب میں ان کو اس قدر کاری ضرب لگی ہے اور یمن میں مسلسل مزاحمت نے سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کو قریب تر کردیا ہے۔ پیر حرم نے سعودی عرب ، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ جو اتحاد تشکیل دیا ہے جس اتحاد کے اہم مقاصد میں یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ایرانی رسوخ کو کم کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک دیں اور اسرائیل کی راجدھانی القدس بنانے میں ان کی پوری مدد کریں۔ ایران جو مشرق وسطی کی اہم طاقت ہے جس کے عروج سے اسرائیل لرزہ براندام ہے۔ اس چیز نے ان کو ہمہ وقت خوف میں مبتلا کررکھا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی بہت ہی ذہنی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں کہ کب ایرانی قہر ان کا خاتمہ کردے۔لیکن آل سعود کی قیادت والی خلیج عرب ممالک کے شہنشاہ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی راہ میں ایک ہی چیز کو وہ حائل سمجھتے ہیں وہ ایرانی طاقت۔اس چیز نے تینوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ اقبال نے بہت پہلے یہ بات کہی تھی کہ : حرم رسوا ہو پیر حرم کی کم نگاہی سے۔ جوانان تتاری کس قدر صاحب نظرنکلے
مسئلہ اگر کم نگاہی کو ہوتا تو معافی کی بات ہوتی لیکن آل سعود کی قیادت والے عرب اتحاد دراصل اسلام اور عالم اسلام کے عوام کو رسوا وذلیل وخوار کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ جس طرح عرب ممالک شیطانی چکر کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ چیز عالم اسلام کے مقاصد اور امنگوں کو تباہی سے دوچار کرنے والی ہے۔ اصل طاقت ہماری نظر میں عوام ہے۔ حکمراں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن عرب ممالک کے حکمرانوں نے عوام کی خواہشات اور امنگوں کا سود ا کرلیا ہے۔القدس جو ہمارا قبلہ اول تھا اس کا وہ سودا کرچکے ہیں۔اگر القدس کی مکمل انہدام کو کوئی طاقت اگر روک سکتی ہے وہ ایران اور ان کے حلیف ممالک ہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس روئے زمین پر کوئی طاقت نہیں ہے۔ جوانان تتاری سے مراد کوئی عجمی طاقت ہے۔ اس طاقت کا اشارہ علامہ اقبال کا ایران کی طرف ہی تھا۔
فون: 9958361526




Friday, 27 January 2017

ایرانیوں پر امریکی ویزے کی پالیسی سے خلیج فارس کے عرب ممالک خوش

ایرانیوں پر امریکی ویزے کی پالیسی سے خلیج فارس کے عرب ممالک خوش

Iran#Arab_countries_US
از:ظفر اقبال

ٹرمپ کی جانب سے ایران اور ان کے ہمنوا ممالک شام، عراق اور یمن کے شہریوں کوامریکی ویزہ نہ ملنے سے خلیج فارس کے عرب ممالک کے چہرے پر انبساط کی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔وہ خوشی سے جھوم اٹھے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کا سارا ٹھیکرا صدر امریکہ نےایران پر پھوڑ دیا ہے چاہے امریکہ کی شام، یمن اور لیبیا کی پالیسی ہو وہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں کہ امریکہ نے ایران پر ویزے کی پابندی عائد کرکے کاری ضرب لگائی ہے۔ سب سے پہلے ان احمق عرب ممالک کے حکمرانوں سے پوچھنا چاہئے کہ بحرین میں امریکی اور برطانوی بحری بیڑے کا کیا مطلب ہے؟ کیا عرب ممالک امریکی اور برطانوی بحری بیڑے کی موجودگی سے خوش ہورہے ہیں۔ وہ اس وجہ سے کے ایران کو سخت جواب امریکہ اور برطانیہ ان کی جانب سے دے رہا ہے اور وہ خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں۔ خلیج فارس کے علاقے میں ایلین کون ہے؟امریکہ اور برطانیہ۔ امریکی اور برطانوی بحری بیڑے وہاں کیوں موجود ہے؟ایران کیادنیا کا کوئی بھی باعزت اور مقتدر ملک اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی دورکابلکہ ہزاروں کلومیٹر دور کا ملک ان کے پڑوس میں اپنی فوجی موجودگی ظاہر کرے۔ ایران امریکی اور برطانوی موجودگی کو کیوں برداشت کرے؟ ایران ایٓک آزاد و خودمختار ملک ہے۔ لیکن بے چارے عرب ممالک اس میں مست ہیں کہ امریکی اور برطانوی فوجی ان کی حفاظت کررہے ہیں۔ 26 جنوری 2017 کو برطانوی وزیراعظم تھریسا مے امریکہ میں سینٹیروں کے درمیان اپنی تقریر میں فرمارہی تھیں کہ امریکہ اور برطانیہ کے دن لد چکے ہیں۔ اب ہمیں اپنی پسند کی دنیا تشکیل دینے کی کوشش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ باتیں اعتراف جرم بھی ہے۔
ہر عروج کے بعد زوال آنا طے ہے۔ کوئی اپنے زوال پر کتنا دیر بند باندھ سکتا ہے وہ اس کی حکمت عملی اور دوراندیشی اور صلاحیتوں پر منحصر ہے۔لیکن ہر عروج کے بعد زوال تو طے ہے۔ اسی طرح بوڑھا برطانیہ اور خودسر امریکہ اپنی دنیا تشکیل دینے میں خوب خوب خون بہاچکے ہیں۔ اب ان کے چل چلاؤ کا وقت ہے۔
اب دیکھتے ٹرمپ کب تک سب سے ’پہلے امریکہ‘ کا جو نعرہ دیا ہے، وہ نعرہ جنرل پرویز مشرف کا نعرہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا مستعار ہی لگتا ہے، کب تک کاربند رہتے ہیں۔ وہ دیکھنے کی بات ہے۔ ہم بھی نئے صدر کی پالیسیوں اور اس کے عواقب کے بھی منتظر ہیں۔

Tuesday, 24 January 2017

चीन ने अपने विकास के बादल को आम लोगों पर बरसाया

चीन ने अपने विकास के बादल को आम लोगों पर बरसाया


#china_Development_common_man

 जफर इकबाल

दुनिया में बहुत सारी कोमों को ऊंचाई हासिल हुई। चाहे मुसलमानों का जमाना हो या यूरोप का उदय हो या जापान का सैन्य और बाद में आर्थिक रूप से विकसित होने से केवल एक वर्ग ही लाभ उठा सका। उनके लाभ जनता और विशेष रूप से बिल्कुल निचले स्तर से संबंधित जनता तक नहीं पहुंच सेकें लेिकन आर्थिक रूप से इन तीस सालों में चीन मे हो रही विकास एक असाधारण घटना है। चीन की आर्थिक विकास दुनिया के सभी सिद्धांत को बदल कर रख दिया। आम तौर पर अब तक यही होता रहा है कि आर्थिक विकास और तकनीकी विकास से केवल उच्च और कुछ हद तक मध्य वर्ग ही को फायदा होता है। लेकिन चीन के उदय ने इन सभी धारणा और अनुमान गलत साबित कर दिया। चीन ने अपने विकास के बादल बिल्कुल निचले सतह तक पहुंचे हुए इन वर्गों पर भी बरसाया जो प्रौद्योगिकी से कोसों दूर थे और जिनकी पहुँच टैक्नॉलॉजी तक पहुंचने का एक सपना थी.मैं एक उदाहरण से आप को समझाता हूँ हो सकता है कि यह उदाहरण एक बड़े वर्ग का प्रतिनिधित्व भी करे। 1989 में में आठवीं कक्षा का छात्र था। इस समय आठवीं कक्षा के छात्र के लिए कैलकुलेटर एक सपना हुआ करता था। वह छात्र खुश नसीब था जिसके पास गणित की समस्या को हल करने के लिए Casio कंपनी जो जापान की है, उसका कैलकुलेटर होता। ईर्ष्या भरी निगाहों से देखा जाता था। लेकिन जापान और अन्य देशों जर्मनी, ब्रिटेन और अमेरिका के उपकरण इस समय बल्कि आज भी महंगे होते हैं। आम लोग इस अधिग्रहण की बस सोच कर ही रह जाते थे। लेकिन चीन ने इन सभी अनुमानों को गलत साबित करते हुए सारी दुनिया में एक ऐसी मिसाल कायम की है जिसकी कोई मिसाल पूरी मानव इतिहास में नहीं मिलती है। कुछ लोग इसे इस तरह भी सोच सकते हैं कि चीन ने दुनिया में आर्थिक कब्जा करने के लिए इस तरह अपनी व्यापार और टैक्नॉलॉजी को जानबूझकर बढ़ावा दिया ताकि वह आम लोगों के जेब से पैसे निकाल सकें। लेकिन इन सभी आरोपों के बावजूद महत्वपूर्ण यह है कि चीन ने दुनिया के गरीबों को क्या दिया? चीन ने इस दुनिया के गरीबों को आम टैक्नॉलॉजी से सजी उपकरणों को पहुँचाया। आज जो मोबाइल हम इस्तेमाल करते हैं। अगर चीन के बने सस्ते मोबाइल न होते तो आज भी हम मोबाइल उपयोग करने के संबंध में सोचते ही रहते। चीन गणराज्य की वह नीति है कि हमें विकास को आम लोगों तक पहुंचाना है। जिसकी वजह से चीन इस समय चरम पर पहुँच रहा है। पिछले दिनों 18 दिनों की यात्रा के बाद चीन का एक मालगाड़ी 18 जनवरी 2017 को ब्रिटेन पहुंचा। इस मालगाड़ी ने बारह हजार किलोमीटर का सफर तय किया यानी आधी दुनिया। गौरतलब है कि पूरी दुनिया एक बिंदु से दूसरे बिंदु तक मात्र चौबीस हजार किलोमीटर ही है। इस समय सारी दुनिया सहित हमारा देश भारत में चीनी माल की बहताब है जिससे आम लोग बहुत ही सस्ते में लाभ उठा रहे हैं। कुछ घरेलू सामान इतना सस्ते में मिल जाते हैं कि इतने पैसे में एक चाय भी आप को नहीं मिले गी, इन सभी चीजों का में श्रेय चीन को देना चाहूंगा।
फोन: 9958361526




Sunday, 22 January 2017

چین نے اپنی ترقی کے بادل کو عام لوگوں پر برسایا

چین نے اپنی ترقی کے بادل کو عام لوگوں پر برسایا

#china_development_common_man


از:ظفر اقبال


دنیا میں بہت ساری قوموں کو عروج حاصل ہوا۔ چاہے مسلمانوں کا عہد ہو یا یوروپ کا عروج ہو یا جاپان کا عسکری اور بعد میں معاشی طور پر عروج حاصل کرنا۔ان قوموں کے عروج سے صرف ایک کلاس ہی مستفید ہوسکا۔ ان کے فائدے عوام اور خاص طور سے بالکل نچلی سطح سے تعلق رکھنے والے عوام تک نہیں پہنچ سکے۔لیکن معاشی طور سے ان تیس برسوں میں چین کا عروج حاصل کرنا، ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔چین کی معاشی ترقی نے دنیا کے تمام فلسفے اور تھیوری کو بدل کر رکھ دیا۔ عام طور سے اب تک یہی ہوتا رہا ہے کہ معاشی ترقی سے اور تکنالوجی کی ترقی سے صرف اعلی اور کسی حد تک متوسط طبقہ ہی مستفید ہوتا ہے۔ لیکن چین کے عروج نے ان تمام مفروضے اور اندازے کو غلط ثابت کردیا۔ چین نے اپنی ترقی کے بادل کو بالکل تحت الثری تک پہنچے ہوئے ان طبقوں پربھی برسایا جو ٹکنالوجی سے کوسوں دور تھے اور جن کی رسائی تکنالوجی تک پہنچنے کی ایک خواب کی تھی۔میں ایک مثال کے ذریعہ آپ کو سمجھاتا ہوں ہوسکتا ہے کہ یہ مثال ایک بڑے طبقے کی نمائندگی بھی کرے۔ 1989میں میں آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔ اس وقت آٹھویں کلاس کے طالب علم کے لئے Calculatorایک خواب ہوا کرتا تھا۔ وہ طالب علم خوش نصیب تھا جس کے پاس ریاضی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے Casio کمپنی جو جاپان کی ہے، اس کا کلکولیٹر ہوتا۔ رشک بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکں جاپان اور دیگر ممالک جرمنی ، برطانیہ اور امریکہ کے سامان اس وقت بلکہ آج بھی مہنگے ہوتے ہیں۔ عام لوگ اس کے حصول کی بس سوچ کر ہی رہ جاتے تھے۔ لیکن چین نے ان تمام اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ساری دنیا میں ایک ایسی نظیر قائم کی ہے جس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ کچھ لوگ اس کو اس طرح بھی سوچ سکتے ہیں کہ چین نے دنیا پر معاشی قبضہ کرنے کے لئے اس طرح اپنی تجارت اور تکنالوجی کو جان بوجھ کر فروغ دیا تاکہ وہ عام لوگوں کی جیپ سے پیسے نکال سکیں۔ لیکن ان تمام الزامات کے باوجود فی الواقعہ اہم یہ ہے کہ چین نے اس دنیاکے غریبوں کو کیا دیا؟ چین نے اس دنیا کے غریبوں کو عام تکنالوجی سے آراستہ سامان تک رسائی دی۔ آج جو موبائل ہم استعمال کرتے ہیں۔ اگر چین کی جانب سے تیارکردہ سستے موبائل نہ ہوتے تو آج بھی ہم موبائل استعمال کرنے کے تعلق سے سوچتے ہی رہتے۔ عوامی جمہوریہ چین کی وہ پالیسی ہے کہ ہمیں ترقی کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ جس کی وجہ سے چین اس وقت بام عروج پر پہنچ رہا ہے۔گزشتہ دنوں 18 دنوں کے سفر کرنے کے بعد چین کا ایک مال بردار ٹرین 18 جنوری 2017 کو برطانیہ پہنچی۔ اس مال بردار ٹرین نے بارہ ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا یعنی آدھی دنیا۔ واضح رہے کہ پوری دنیا ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک محض چوبیس ہزار کلومیٹر ہی ہے۔اس وقت ساری دنیا میں بشمول ہمارا ملک ہندوستان میں چینی اشیا کی بہتاب ہے جس سے عام لوگ بہت ہی سستے میں فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ بعض گھریلو سامان اس قدر سستے میں مل جاتے ہیں کہ اتنے پیسے میں ایک چائے بھی آپ کو نہیں ملے گی۔ان تمام چیزوں کا کریڈٹ میں چین کو دینا چاہوں گا۔
فون: 9958361526






Friday, 20 January 2017

طارق فتح کا پروگرام’’ فتح کا فتوی‘‘




طارق فتح کا پروگرام’’ فتح کا فتوی‘‘

tareq_fatah_fatwa#


از:ظفر اقبال



طارق فتح کا پروگرام ’’فتح کا فتوی‘‘ زی نیوز پر نشر ہوا۔ اس پروگرام میں طارق فتح نے جس جس ایشو کو اٹھایا ہے اور اس سے قبل بھی جس طرح کی باتیں وہ کرتے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی مسلماں حملہ آور آئے اور جتنی بھی مسلم ریاستیں قائم ہوئیں ان تمام لوگوں کو وہ غیر ملکی قرار دیتے ہیں اور ان کو قابض قرار دیتے ہیں۔ مغلیہ حکومت کے تمام بادشاہوں کو وہ ہندوستان کاشہری ہی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ہر مسلم پرسنالٹی کی وہ تضحیک کرتے ہیں چاہے پاکستان کے قائد اعظم محمد علی جناح ہو یا کوئی اور ہو۔ ہندوستان کی تقسیم کے دونوں فریق ہی ذمہ دار ہیں چاہے اس وقت کی ہندوستانی قیادت ہو یا پاکستان کی حامی قیادت ہو۔ ہم کسی ایک فریق پر تقسیم ہند کا ملبہ نہیں ڈال سکتے۔
واضح رہے کہ طارق فتح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ناچاقی کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر کناڈا میں بس گئے۔ ان کو ایک طرح سے سیاسی پناہ دی گئی۔ ابھی دو ڈھائی برسوں سے ہندوستان میں ہیں اور قومی ٹیلی ویژن چینلوں میں بہت ہی طمطراق سے انہیں مختلف مباحث میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔ لیکن جب بھی انہیں کسی بھی پروگرام میں دعوت دی جاتی ہے وہ سب سے الجھ پڑتے ہیں۔ شاید ٹیلی ویژن چینلوں کو ان کا الجھنا زیادہ راس آتا ہو تاکہ ان کی ٹی آر پی بڑھ جاتی ہے اور مسلمانوں کو اس طرح گالی بھی دے دی جاتی ہے اس سے ان کو ذہنی راحت بھی ملتی ہو۔ وہ مسلسل کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان میں ہندو سنسکرتی میں ضم ہوجائیں۔ اسلام کو اور مسلم پرسنالٹی کو وہ بیرونی قرار دیتے ہیں۔لیکں شاید انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ ہندوستان میں خاص طور سے شمالی ہندوستان میں جتنی بھی ہندو ومسلم آبادی ہے زیادہ تر کا تعلق باہر سے ہی ہے۔انہوں نے شاید آریوں کا نام سنا ہوگا۔ ہندوستان میں آریہ سینٹرل ایشیا سے آئے تھے۔ جنہوں نے یہاں کی حقیقی آبادی جو دراوڑوں پر مشتمل تھی ان کو شکست دے کر یہاں پر قابض ہوگئے۔ شمالی ہندوستان میں جتنے بھی دراوڑ بچے ہیں وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا کام بڑے کاسٹوں کی خدمت کرنا ٹھہرا۔ باقی دراوڑ شکست کھا کر جنوبی ہندوستان میں فرار ہوگئے۔ جنوبی ہندوستان میں چار ریاستوں میں انہیں لوگوں کی زیادہ تر آبادی ہے۔ ہندوستان میں سواستک کی نشانی آریوں کی ہے۔ شمالی ہندوستان میں جتنے بھی پوجا کئے جاتے ہیں ان میں سواستک کا سمبل ضرور بنایا جاتا ہے۔ یہ خالص آریوں کا سمبل ہے۔ جرمنی کا ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلرکی پارٹی نازی کا بھی سمبل سواستک ہی تھا۔ جرمنوں کو اپنے آریہ ہونے پر فخر ہے۔ اسی لئے جرمن سواستک سے محبت کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں تو طارق فتح کے پروگرام کو دیکھ کر ہنسی ہی آتی ہے اور ان کی جہالت پر غصہ بھی آتا ہے۔ہمارے یہاں تواسکولی بچوں کو بالکل ابتدائی تاریخ جو پڑھائی جاتی ہے اس میں خاص باب ہوتے ہیں کہ کس طرح آریوں نے دراوڑوں کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کیا۔دراوڑوں کی خاصی تعدادآریوں سے شکست کھا کر جنوبی ہندوستان بھاگ گئی اور شمالی ہندوستان میں جو بچ گئے انہیں خدمات پر مامور کردیا گیا۔ ان آریاؤں نے ہی چار ورن بنائے جو برہما کے سر سے پیدا ہوا وہ برہمن کہلائے، جو سینے سے پیداہوئے وہ چھتری کہلائے، جو جانگ سے پیدا ہوئے وہ ویشہ کہلائے اور جو پیر سے پیدا ہوئے وہ شودر ہیں۔ شودروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اوپر کے تمام لوگوں کی خدمت کریں۔ ہندوستان کے زیادہ تر لوگ تو باہر ہی کے ہیں۔ چاہے پارسی ، چاہئے مسلمان یا مسلمانوں کے آنے سے قبل آریہ ہو۔ہندوستان کے اصل باشندے صرف شودر اور دراوڑ ہی ہیں۔شودر کی جو حالت ہندوستان میں ہے وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
فون:9958361526


Tuesday, 17 January 2017

سنی دنیا فقہی اعتبار سے شیعہ فقہ سے استفادہ کرسکتی ہے

سنی دنیا فقہی اعتبار سے شیعہ فقہ سے استفادہ کرسکتی ہے

#Fiqh_sunni_world_Shia_world
از:ظفر اقبال

عالم اسلام میں پردہ کے تعلق سے خاص طور سے سنی دنیا میں خواتین پر جس طرح مکمل برقع کی شکل میں رائج کیا گیا اور خواتین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی، یہ تمام باتیں عہد نبوی کے بہت بعد کی ہیں۔ جس کی وجہ سے خواتین پر زیادہ سختی کی گئی۔ جس کے نتائج برآمد ہوئے وہ سب کےسامنے ہے۔ رہی بات شیعہ دنیا کی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح کے پردے کو رائج کیا وہ قرآن اور سنت کے مطابق ہی تھا۔ جس کی وجہ سے آج ایران میں طالبات یونیورسٹی میں 70 فیصد نظر آتی ہیں اور وہاں کے تمام سرگرمیوں میں کھل کر حصہ لیتی ہیں۔ ہر ریسرچ ورک جو ہورہا ہے اس میں ایران میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمیں بہت سارےمعاملوں میں شیعہ عالموں کی تخریج سے فائدہ اٹھانا چاہئے انہوںنے عہد جدید میں جس طرح کے نئے نئے مسائل امت مسلمہ کو درپیش رہے ہیں ان پر شیعہ عالموں نے جس طرح بحث کی وہ دیکھنے کے قابل ہے۔میں نے ایران کے ولایت فقیہ سید آیت اللہ خامنہ ای جو وہاں کے سربراہ مملکت بھی ہیں جن کی رائے ہر معاملے میں حتمی ہوتی ہے۔ ان کی کتاب’’ فقہی مسائل‘‘ پڑھی ہے۔ انہوںنے جس طرح ہر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہےاور سنی دنیا کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ فقہ اکیڈمی بہت سارے مسائل کو اب تک حل نہیں کرسکی۔جیسے کے اعضا کی پیوندکاری، آنکھوں کا عطیہ کرنا وغیرہ۔ میں پاکستان کی ایک مثال دیتا ہوں، پاکستان میں سب سے زیادہ آنکھیں سری لنکا سے آتی ہے، جو پاکستانیوں کےلئے ہوتی ہیں، حالانکہ سری لنکا کی اکثر آبادی بودھوں پر مشتمل ہے۔ آنکھیں لینے میں پاکستان کے مسلماں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن دیتے وقت اسلام آڑے آجاتا ہے اور اسلام کے حوالے سے اسے مسترد کردیتے ہیں۔ یہ سراسر منافقت ہے۔پاکستان کی ایک اورمثال دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی لڑکی انفرادی یا اجتماعی زنابالجبرکا شکار ہوتی ہے تو لڑکی سے کہا جاتا ہے کہ وہ چار گواہ پیش کرے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کو نہیں مانیں گے کیونکہ اسلام میں چار گواہ چاہئے۔ حالانکہ یہ بات ساری دنیا تسلیلم کرتی ہے کہ ڈی این اے کا نتیجہ صدفیصد درست ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کا ایک طبقہ اسے نہیں مانتے ہیں۔ جس جس زانیوں کے نطفے اگر زنابالجبر کی شکار لڑکی کے کپڑے پر موجود ہیں تو تمام لوگوں کو سزا دی جانی چاہئے۔ یہ تو اب عام بات ہے لیکن سنی دنیا اس کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ لیکن شیعوں کے یہاں ہر مسئلےکو بہت حد تک حل کرلیا گیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای ایک ایسے عالم ہیں جو دنیا کی طاقتوں میں شمار ہونے والی سلطنت کے سربراہ بھی ہیں۔ ۔جن کی نظربہت آگے کو دیکھ لیتی ہے۔ ہمیں اس بات سے مکمل بچنا چاہئے کہ سنی دنیا کو شیعہ دنیا سے کسی طرح کا سروکار نہیں رکھنا چاہئے۔ شیعہ بھی مسلمان ہیں جس طرح آپ بھی مسلمان ہے۔ قرآن ہمارے لئے ہر معاملے میں نص ہے۔ اگر قرآن کی بہت ساری باتیں ہمیں سمجھ میں نہیں آرہی ہیں تو سنت میں ہم اس کو تلاش کرتے ہیں۔ اگر سنت بھی کسی معاملے کو حل کرنے سے قاصر ہے تو ہم کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے عقل کا استعمال کرتے ہیں۔ سنی دنیا کو اجتہاد سے کام لینا چاہئے۔
فون: 9958361526

Monday, 16 January 2017

یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے راجکمار

یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے راجکمار

UAE#chief_Guest_Republicday_India
 از:ظفر اقبال

26 جنوری 2017 کویوم جمہوریہ کے موقع پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے راجکمار کو چیف گیسٹ (مہمان خصوصی)کے لئے دعوت دی گئی ہے۔ جو ہندوستان اور یو اے ای کے درمیان قربت کا مظہر ہوگا۔ 11جنوری 2017کو قندھار بم دھماکہ کیا گیا جس میں متحدہ عرب امارات کے سفیر سمیت پانچ ڈپلومیٹ ہلاک ہوکئے، بم دھماکہ کرنے کے لئے پاکستان حقانی نیٹ ورک یا طالبان کو بالعموم استعمال کرتا ہے۔پاکستان نے یو اے ای کے پانچ ڈپلومیٹ کو ہلاک کرکے اس ملک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اگر تم نے ہندوستان سے قریب ہونے کی کوشش کی تو اس کی بھاری قیمت تمہیں چکانی ہوگی۔ دیکھئے اپنے ڈپلومیٹ کی ہلاکت کو یو اے ای کس قدر برداشت کرسکتا ہے یہ تو آنے والے عرصے میں کچھ اندازہ ہوپائے گا۔ لیکن ایک بات واضح رہے کہ یمن جنگ کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے یو اے ای اور پاکستان میں تلخی چلی آرہی ہے۔
ویسے یو اے ای کا حکمران خاندان احسان فراموش لوگوں پر مشتمل ہے، جس میں اسے اپنا مطلب نظر آتا ہے تبھی وہ کسی کے قریب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جب یو اے ای برطانیہ سے 1971 میں اّزاد ہوا تھا تو پاکستان ہی تھا جس نے ہر طرح سے اس کی مدد کی، پاکستان نے اپنے ہر شعبے کے عملے کو بھیج کر یو اے ای کے حکومتوں کے عملے کو ٹریننگ دی اور حکومت اور ادارے کس طرح چلائے جاتے ہیں اس میں بھرپور تعاو ن کیا، اس عہد میں پی آئی اے ایشیا کی بہترین فلائٹوں میں شمار ہوتی تھی اس نے اپنے عملے کو بھیج کر امارات ائرلائنز کی بنیاد رکھنے میں بھرپور تعاون کیا اور پورے عملے کی ٹریننگ دی۔ تب جاکہ اب امارات ائر لائنز اب دنیا کی بہترین ائر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس طرح کہاں تک لکھاجائے کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں تھا جس میں پاکستان نے یو اے ای کی مدد نہیں کی۔ اب ہندوستان یو اے ای سے قریب ہوکر کیا حاصل کرسکتا ہے۔ یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا۔ یو اے ای کا اپنے مؤقف اور کمنٹ منٹس سے پلٹنے کی پرانی عادت ہے۔
فون:9958361526

Friday, 13 January 2017

اس مرتبہ شاہ فیصل ایوارڈ نے سب کو مایوس کیا

اس مرتبہ شاہ فیصل ایوارڈ نے سب کو مایوس کیا


#Faisal_award-king_salman

از:ظفر اقبال


 شاہ فیصل ایوارڈ بانی جماعت اسلامی مولانا سیدابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ علیہ کو سب سے پہلے دیا گیا۔ اس ایوارڈ کی انہی سے ابتداء کی گئی۔ عالم اسلام میں شاہ فیصل ایوارڈ کو نوبل انعام ثانی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ابتداء میں یہ ایوارڈ اسلامی اسکالر کو دیا جاتا تھا لیکن اب اس کے دائرہ میں اضافہ کرتے ہوئے طب اور سائنس وغیر تک محیط کردیا گیا ہے۔
2016 کا ایوارڈ لینے کے لئے آج کل ہندوستان وپاکستان کے بہت سارے علمائے دین اور کئی تنظیموں کے سربراہ بھی منتظر تھے اور وہ عالم دین اس ایوارڈ کے سلسلے میں زیادہ مشتاق تھے جو کثیر التصانیف تھے اور وہ آل سعود کے ہر افعال میں بلاشرط حمایت بھی کررہے تھے لیکن ان سب کو مایوس کرتے ہوئے شاہ سلیمان نے خود اپنے آپ کو اس ایوارڈ کا حقدار قرار دیا۔ شاہ سلیمان کے اس عمل نے بہت سارے لوگوں کو مایوس کردیا۔
شاید سلیمان نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی۔ شاید یمن پر حملہ کرکے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی۔ شاید شام اور عراق کو تباہ کرنے کے لئے دہشت گردوں کو بھیج کر اسلام کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ ان کو کوئی اور ملک ایوارڈ تو دے نہیں سکتا تھا۔ کیوں نہ ایسا کیا جائے امن کا ایوارڈ خود ہی لے لیا جائے۔ زرخرید مؤرخ بے چارے پریشان ہورہے ہوں کہ میں لکھوں کیا؟ ارے کرائے کے مؤرخ تو کچھ آپ کی شان میں لکھ ہی دیں گے۔ ان کو تو بس دینار ودرہم سے غرض ہے۔ پریشان نہ ہوں آپ کے حامیوں کی بڑی تعداد برصغیر میں پائی جاتی ہے
شاید اتنی تعداد عرب ممالک میں بھی نہ ہوں گے۔






Thursday, 12 January 2017

مغرور خادمین حرمین شریفین تمہارے غرور کو سلام

مغرور خادمین حرمین شریفین تمہارے غرور کو سلام


Custodian#holy_mosque-Arrogent_king

 از :ظفر اقبال

 ۸ جنوری ۲۰۱۷ کو ایران کے سابق صدر آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے انتقال پر ساری دنیا خاص طور سے شیعہ دنیاسوگوار ہوگئی اور ان محب پسند جو امن وراور بقائے باہم پر یقین رکھتے ہیں ان کو بھی وہ سوگوار کرگئے۔ ساری دنیا سے ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے نام تعزیتی پیغام آئے یہاں تک کہ ان کے دشمن ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ اور خلیج فارس کے عرب ممالک بحرین، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت وغیرہ کی جانب سے بھی تعزیتی پیغام موصول ہوچکے ہیں۔ لیکن مغرور خادمین حرمین شریفین کی جانب سے ابھی تک ایران کے سابق صدر کے انتقال پر کوئی تعزیتی پیغام موصول نہیں ہوا۔ یہ تو سیاسیات کا جو بھی ادنی بھی طالب علم ہوگا وہ بھی جانتا ہے کہ دشمن ملک کے سربراہ مملکت کے انتقال پر تعزیت ضرور کی جاتی ہے۔ اس کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ لیکن عالم اسلام کے ٹھیکیدار جو حرمین شریفین پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ ان کو شاید اسلام کے اخلاقیات سے واقفیت کم ہی ہے۔جو بادشاہ اپنے حریف کے ساتھ تعزیت نہیں کرسکتا تو اس ملک سے سوائے دشمنی کی کیا امید کی جاسکتی ہے؟ چلئے انہوں نے دشمنی کا ہی انتخاب کیا ہے تو ان کی خواہش ضرور پوری ہوگی۔ ان کو اپنے انجام کا بھی ادراک ہونا چاہئے۔


तालिबान से मिले जखम



My  Article in Jansatta, New Delhi  Published in 30 August 2014



No automatic alt text available.

Tuesday, 10 January 2017

تہران ہو گرچہ عالم مشرق کا جنیوا ۔ شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

تہران ہو گرچہ عالم مشرق کا جنیوا

شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے


یہ شعر حکیم الامت علامہ اقبال (رح)نے 1936ء میں تہران کے تعلق سے کہے ہیں،جس طرح انہوں نے پاکستان کے تعلق سے1930ء میں مسلم لیگ کے صدارتی خطبے الہ آباد میں پیشین گوئی کی تھی کی میری نگاہیں ہندوستان کے مغرب میں ایک اسلامی اسٹیٹ بنتی ہوئی دیکھ رہی ہیں، علامہ اقبال کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم تھی کہ وہاں شیعوں کی اکثریت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب جن کو اپنے نخوت وغرور بہت عزیز ہیں ، وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنے علاوہ حقیر سمجھتی ہیں،جب سعودی عرب کی قیادت میں سعودی عرب کی قیادت والی 39 اسلامی ممالک کی فوجیں یمن میں ناکام ونامراد ہوجائیں گی اور تمام فوجیں شکست سے دوچار ہوجائیں گی تب تہران مشرق کا خود بخود جنیوا بن جائے گا اس کے بعد تہران کو چیلنج کرنے والی تمام طاقتیں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ عالم اسلام کے امن میں خلل ڈالنے والے یہ مغرور عرب بھی خاموش ہوجائیں گے جس طرح خلافت عثمانیہ کے عروج کے زمانے میں یہ عرب خاموش تھے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی پیشین گوئی کے پورے ہونے کا وقت آپہنچا ہے، ان شاء اللہ۔


حرمین کے ہم ہیں پاسبان، لیکن آل سعود کی حکمرانی کے خاتمے کا بھی ہیں خواستگار اورسلطانی جمہور کے ہیں ہم طلب گار

حرمین کے ہم ہیں پاسبان، لیکن آل سعود کی حکمرانی کے خاتمے کا بھی ہیں خواستگار اورسلطانی جمہور کے ہیں ہم طلب گار

Ale_Saudi_Harmain 

 از:ظفر اقبال
 اگر مسلمانوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہم ا س بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حرمین کا منیجمنٹ ہر زمانہ میں بدلتا رہا ہے کبھی حرمین کے منیجمنٹ کی ذمہ داری بنو امیہ کی پاس تھی اس کے بعد عباسی خلفا کے پاس چلی گئی، اس کے بعد ترک عثمانی خلفا کے پاس رہی ، پہلی جنگ عظیم کے بعد حرمین کی ذمہ داری آل سعود نے لے لی ، اب ایسا محسوس ہوتا ہے حرمین کی ذمہ داری آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی)کو سنبھال لینی چاہئے تاکہ حرمین پر ایک مسلک اور فرقے کا جو غلبہ ہوگیا ہے اس کا سدباب ہوسکے۔ مسلمانوں کے سب فرقے آپس میں مل جل عبادت کرسکیں۔
آل سعود ایک حکمراں خاندان ہے اس کے رہنے یا رہنےسے امت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ سعودی عرب جو ایک خاندان آل سعود کی جاگیر ہوگئی ہے اس خاندان کے تقریبا دس ہزار شہزادے اور شہزادیاں ملک کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک ان کے عیش کے لئے بنایا گیا ہے اور یہ ملک ان کی جاگیر ہے۔ ملک کا نام بھی اپنے خاندان کے نام پر رکھا گیا ہے، ان کو لگتا ہے کہ قیامت تک ہماری ہی حکومت رہے گی اور کوئی ہمارے خاندان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا ہے۔
ساری دنیا اور سارے مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان حرمین پر آنچ نہیں آنے دیں گے لیکن آل سعود کو بچانے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے ، جو صرف ایک ظالم بادشاہ ہے اس عہد میں، سلطانی جمہور کے زمانے میں جب میں بادشاہوں کے نام سنتا ہوں تو مجھے قئے آنے لگتی ہے۔ بادشاہت کا ہر حال میں خاتمہ ہونا چاہئے۔ یہ اس دھرتی پر لعنت ہے۔

فون:9958361526

Monday, 9 January 2017

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کے مقابلے عجمیوں پر زیادہ اعتماد تھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کے مقابلے عجمیوں پر زیادہ اعتماد تھا

#Prophet_Muhammad_confidence_non-Arab
 از:ظفر اقبال

مشکوۃ شریف، باب جامع المناقب، حدیث نمبر:5992

وعن ابی ھریرہ قال ذکرت الاعاجم عندالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لانابھم او ببعضھم اولق منی بکم او ببعضکم۔ (رواہ الترمذی)
ترجمہ:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام کی بارگاہ میں عجمیوں کا ذکر ہوا تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’میں ان پریا ان کے بعض پر تمہاری نسبت یا تمہارے بعض کی نسبت زیادہ اعتماد رکھتا ہوں۔‘‘
اس حدیث سے اس بات کا علم کا ہوتا ہے عجمیوں کی اسلام کے تعلق سے عربوں سے زیادہ تعلق خاطررہا ہے۔ واقعی تاریخ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے۔ عربوں کی حقیقی حکومت صرف بنوامیہ کے زمانے تک ہی تھی جب ہر شعبے میں عرب چھائے ہوئے تھے لیکن جب عباسیوں کا زمانہ آیا ۔بنو امیہ کی حکومت 132 ہجری تک ہی تھی جب عباسیوں نے ان کی حکومت کو بے دردی سے ختم کردیا تب سے عباسیوں کا زمانہ شروع ہوا۔ عباسیوں کا دارالحکومت بغداد تھا۔ عباسیوں کے زمانے میں یقیناًحکمراں عرب تھے لیکن ہرشعبے میں عجمیوں کا بول بالا ہی رہا۔ عجمیوں نے اسلام کی جو خدمت کی اور اسلام کا جو دفاع کیااس کی پوری تاریخ میں کم ہی نظیر ملے گی۔ صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری سے لے کر ابوعلی سینا تک سب کا تعلق عجم سے ہی نہیں فارس سے تھا، فارس کو اس زمانے میں ایران کہتے ہیں۔بڑے بڑے جنرل جنہوں نے اسلام کی بہت خدمت کی زیادہ تر کاتعلق عجم سے تھا چاہے طارق بن زیاد، موسی بن نصیر یہ افریقہ کے بربر تھے، صلاح الدین ایوبی، نورالدین زندگی،سلجوقی حکمرانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کی، جلال الدین خوارزم شاہ جنہوں نے چنگیز خان کا مسلسل مقابلہ کیا۔اسی طرح پندرہوں صدی میں جب خلافت ترکوں کے ہاتھ میں آگئی تب ترک فوجوں کے گھوڑوں کے ٹاپوؤں کی آوازیں یونان کی راجدھانی ایتھنز اورآسٹریا کی راجدھانی ویانا کے دروازے تک سنی جارہی تھیں۔ہنگری کا حکمراں سلطان سلیمان اول کے سامنے بالکل بے بس نظر آتا ہے۔اسی طرح سلطان محمد فاتح کے زمانے میں ہی 1453 عیسوی میں قسطنطنیہ فتح ہوا جس کو اب استنبول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی بصیرت اور ان کی دورس نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ عربوں میں وہ بصیرت کم ہی نظر آتی تھی جو عجمیوں میں نظر آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی فوجی اسٹریجی کافی پسند تھی۔
واقعی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی بصیرت سے کافی فائدہ اٹھایا۔ آج بھی اس اسلامی فوج کے اتحاد کے سربراہ کے طور پر ایک عجم جنرل راحیل شریف کا ہی انتخاب کیا گیا۔ یہ عربوں کی مجبوری ہے۔ عجم ہی دنیا کی قیادت کیوں نہ کریں؟ عرب اپنی ساری توانائی عیاشیوں میں ضائع کردیتے ہیں۔ کیوں ہم عیاش لوگوں کو اپنے پر حکمراں بنائیں؟ 
فون:9958361526


Sunday, 8 January 2017

اجرتی فوج ہوش کے ناخن لے

پاکستان کو اجرتی فوج نہیں بننا چاہئے

#Hired_Pak_Army-Saudi_Arab

از:طفر اقبال

حیرت ہے کہ نیوکلیائی طاقت کا حامل ملک کا سابق فوجی سربراہ دوسروں کی کاسہ گدائی کرے اور اپنی عزت کو گروی رکھ دے۔ خاندانی حکومت کو بچانے کے لئے اپنے فوجیوں کی جانوں کے نذرانے پیش کرے اور جس کی حکومت کو بچارہا ہے وہاں کی عوام کی امنگوں کا خون کرے محض اس وجہ سے کہ وہ اس کی خدمت کے عوض روپے دے رہا ہے۔ اپنے ملک کو کرایہ کا فوجی بنانے والے ذرا ہوش کے ناخون لیں۔ قومیں اس طرح ترقی نہیں کرتی ہیں۔ جس قوم میں حمیت نہ ہو۔ جو حکومت اپنے فوجیوں کو دوسرے کی خدمت کے لئے وقف کردے محض چند ملین ریال اور ڈٓالر کے عوض اس قوم سے خوداری کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے جس ملک کی تشکیل کا خواب دیکھا تھا وہ قوم تو نظر بالکل نہیں آتی۔ پاکستانیوں نے علامہ اقبال کو بھی رسوا کردیا ہے۔ یہ قوم جلد از جلد سمجھ لیں اسی میں اس کی عافیت ہے نہیں تو قدرت کی مار اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ اب تو یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ یہ اتحاد کس مقصد کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں 39 ممالک شامل ہیں لیکن دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے۔ ان مسلم ممالک میں کچھ کی تعداد محض خانہ پری کی حد تک ہی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے کےلئے تشکیل دیا جانے والا اتحاد کس مسلم ملک کے خلاف استعمال ہونے جارہا ہے۔ اگر اس مسلم اتحاد میں ذرا بھی طاقت ہے تو اسرائیل کی طرف رخ کیوں نہیں کرتا ہے۔ جو ستر برسوں سے عرب بھائیوں کی زندگی جہنم بنارکھا ہے۔ پاکستان جو اس اتحاد کا اہم حصہ دار بن گیا ہے وہ تو نیوکلیائی اور میزائیل طاقت کا حامل ملک ہے وہ کیوں نہیں اسرائیل پر حملہ کردیتا ہے اور مسلم فوجیوں کا اتحاد اس کا ساتھ دیں اور اسرائیل جیسی ناسور ریاست جو مسلم ممالک کے قلب میں خنجر کی طرح پیوست ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔ لیکن یہ عرب ممالک ایسا ہرگز نہیں کریں گے ان کو معلوم ہے کہ اسرائیل کی بقا میں ہی ہماری شنہشاہیت کی بقا مضمر ہے۔ اب تو ان عرب ممالک کو اسرائیل سے کسی طرح کی پریشانی محسوس ہی نہیں ہورہی ہے بلکہ اب ایران ان کا سب سے بڑا ازلی دشمن بن گیا ہے۔ وہ ایران جو اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ اسرائیل کو یہ بات اچھی معلوم ہے کہ اگر ہماری تباہی کسی کے ہاتھوں ہوسکتی ہے تو وہ ایران ہے۔ اس لئے اسرائیل اور اس کے حامی ممالک ان سنی مسلم فوجی اتحاد کا رخ ایران کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ اگر اس لڑائی میں ایران اگر کمزور ہوجاتا ہے تو یہ اسرائیل کے حق میں بہتر ہے۔ لیکں اللہ کا شاید کچھ اور ہی فیصلہ ہوچکا ہے جو جلد ہی ظاہر ہوجائے گا۔
فون:9958361526

Thursday, 5 January 2017

جنرل (ر)راحیل شریف کو نیا ٹاسک ملنا

جنرل (ر)راحیل شریف کو نیا ٹاسک ملنا

Raheel_#sharif-Saudi_Arabia_Islami_Commander
از:ظفر اقبال
 راحیل شریف کا سعودی عرب کی زیرقیادت 34 اسلامی ممالک کے اتحاد کی افواج کا سپہ سالار نامزد ہونا، اس کے پس پردہ محرکات اور مستقبل میں راحیل شریف اور خود پاکستانی قوم پر جو اثرات پڑنے والے ہیں وہ یقیناًخوش آئند تو ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اگر راحیل شریف وہی تاریخی غلطی دہرانے کی کوشش کرتے ہیں جو جنرل ضیاء الحق نے بریگیڈیر رہتے ہوئے اردن کے شاہ حسین کی خدمت ادا کرتے ہوئے انجام دی تھی، بریگیڈیر ضیاء نے اردن میں پناہ گزیں 1970 میں سترہ ہزار نہتے فلسطینیوں کو خاک و خون میں نہادیا تھا جس کے عوض انہیں اسرائیلی اور امریکی آشیرواد سے جنرل بناکر انعام دیا گیا تھا۔یہ خدمت جنرل ضیاء الحق نے پاکستانی فوج کا حصہ رہتے ہوئے انجام دی تھی۔ جس قتل عام میں پاکستانی حکومت اور فوج مکمل طور سے شامل رہی ۔ جس کی سزا انہیں جلدہی مل گئی۔ اللہ تعالی نے جلدہی اس کی سزا بھی ہندوستان کے ہاتھوں دلوا دی۔ ہندوستان نے 1971 میں بنگلہ دیش کو آزاد کراکر پاکستان کو عبرت ناک سزادی۔ وہ اسی جرائم کی سزا تھی جس کو پاکستانی حکومت اور فوج نے اردن میں نہتے فلسطینیوں کو ہلاک کرکے انجام دیا تھا۔ اگر راحیل شریف سعودی عرب کے حکم کی بجاآوری کے عوض یمن میں لوگوں کو ہلاک کرنے کوشش کرتے ہیں یا شام میں سعودی عرب کے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں تو انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ سعودی عرب کی آل سعود کی حکومت کو بچانا اسرائیلی اور امریکی پالیسیوں کودوام دینے کے مترادف ہے۔ جب تک آل سعودکی حکومت ہے تب تک حقیقی اسلامی عروج کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ عالم اسلام جس قدر خلیج فارس کے عرب ممالک کے بادشاہوں سے نجات پالے اسی قدر امت مسلمہ کے حق میں بہتر ہے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک میں جمہوریت کے بحالی ہونی چاہئے تب ہی ہم حقیقی ترقی کی سمت گامزن ہوسکتے ہیں نہیں تو ساری سنی دنیا انہیں بادشاہوں کی غلامِ گردش بنی رہے گی۔
فون:9958361526