Friday, 27 January 2017

ایرانیوں پر امریکی ویزے کی پالیسی سے خلیج فارس کے عرب ممالک خوش

ایرانیوں پر امریکی ویزے کی پالیسی سے خلیج فارس کے عرب ممالک خوش

Iran#Arab_countries_US
از:ظفر اقبال

ٹرمپ کی جانب سے ایران اور ان کے ہمنوا ممالک شام، عراق اور یمن کے شہریوں کوامریکی ویزہ نہ ملنے سے خلیج فارس کے عرب ممالک کے چہرے پر انبساط کی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔وہ خوشی سے جھوم اٹھے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کا سارا ٹھیکرا صدر امریکہ نےایران پر پھوڑ دیا ہے چاہے امریکہ کی شام، یمن اور لیبیا کی پالیسی ہو وہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں کہ امریکہ نے ایران پر ویزے کی پابندی عائد کرکے کاری ضرب لگائی ہے۔ سب سے پہلے ان احمق عرب ممالک کے حکمرانوں سے پوچھنا چاہئے کہ بحرین میں امریکی اور برطانوی بحری بیڑے کا کیا مطلب ہے؟ کیا عرب ممالک امریکی اور برطانوی بحری بیڑے کی موجودگی سے خوش ہورہے ہیں۔ وہ اس وجہ سے کے ایران کو سخت جواب امریکہ اور برطانیہ ان کی جانب سے دے رہا ہے اور وہ خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں۔ خلیج فارس کے علاقے میں ایلین کون ہے؟امریکہ اور برطانیہ۔ امریکی اور برطانوی بحری بیڑے وہاں کیوں موجود ہے؟ایران کیادنیا کا کوئی بھی باعزت اور مقتدر ملک اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی دورکابلکہ ہزاروں کلومیٹر دور کا ملک ان کے پڑوس میں اپنی فوجی موجودگی ظاہر کرے۔ ایران امریکی اور برطانوی موجودگی کو کیوں برداشت کرے؟ ایران ایٓک آزاد و خودمختار ملک ہے۔ لیکن بے چارے عرب ممالک اس میں مست ہیں کہ امریکی اور برطانوی فوجی ان کی حفاظت کررہے ہیں۔ 26 جنوری 2017 کو برطانوی وزیراعظم تھریسا مے امریکہ میں سینٹیروں کے درمیان اپنی تقریر میں فرمارہی تھیں کہ امریکہ اور برطانیہ کے دن لد چکے ہیں۔ اب ہمیں اپنی پسند کی دنیا تشکیل دینے کی کوشش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ باتیں اعتراف جرم بھی ہے۔
ہر عروج کے بعد زوال آنا طے ہے۔ کوئی اپنے زوال پر کتنا دیر بند باندھ سکتا ہے وہ اس کی حکمت عملی اور دوراندیشی اور صلاحیتوں پر منحصر ہے۔لیکن ہر عروج کے بعد زوال تو طے ہے۔ اسی طرح بوڑھا برطانیہ اور خودسر امریکہ اپنی دنیا تشکیل دینے میں خوب خوب خون بہاچکے ہیں۔ اب ان کے چل چلاؤ کا وقت ہے۔
اب دیکھتے ٹرمپ کب تک سب سے ’پہلے امریکہ‘ کا جو نعرہ دیا ہے، وہ نعرہ جنرل پرویز مشرف کا نعرہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا مستعار ہی لگتا ہے، کب تک کاربند رہتے ہیں۔ وہ دیکھنے کی بات ہے۔ ہم بھی نئے صدر کی پالیسیوں اور اس کے عواقب کے بھی منتظر ہیں۔

No comments:

Post a Comment