Monday, 9 January 2017

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کے مقابلے عجمیوں پر زیادہ اعتماد تھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کے مقابلے عجمیوں پر زیادہ اعتماد تھا

#Prophet_Muhammad_confidence_non-Arab
 از:ظفر اقبال

مشکوۃ شریف، باب جامع المناقب، حدیث نمبر:5992

وعن ابی ھریرہ قال ذکرت الاعاجم عندالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لانابھم او ببعضھم اولق منی بکم او ببعضکم۔ (رواہ الترمذی)
ترجمہ:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام کی بارگاہ میں عجمیوں کا ذکر ہوا تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’میں ان پریا ان کے بعض پر تمہاری نسبت یا تمہارے بعض کی نسبت زیادہ اعتماد رکھتا ہوں۔‘‘
اس حدیث سے اس بات کا علم کا ہوتا ہے عجمیوں کی اسلام کے تعلق سے عربوں سے زیادہ تعلق خاطررہا ہے۔ واقعی تاریخ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے۔ عربوں کی حقیقی حکومت صرف بنوامیہ کے زمانے تک ہی تھی جب ہر شعبے میں عرب چھائے ہوئے تھے لیکن جب عباسیوں کا زمانہ آیا ۔بنو امیہ کی حکومت 132 ہجری تک ہی تھی جب عباسیوں نے ان کی حکومت کو بے دردی سے ختم کردیا تب سے عباسیوں کا زمانہ شروع ہوا۔ عباسیوں کا دارالحکومت بغداد تھا۔ عباسیوں کے زمانے میں یقیناًحکمراں عرب تھے لیکن ہرشعبے میں عجمیوں کا بول بالا ہی رہا۔ عجمیوں نے اسلام کی جو خدمت کی اور اسلام کا جو دفاع کیااس کی پوری تاریخ میں کم ہی نظیر ملے گی۔ صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری سے لے کر ابوعلی سینا تک سب کا تعلق عجم سے ہی نہیں فارس سے تھا، فارس کو اس زمانے میں ایران کہتے ہیں۔بڑے بڑے جنرل جنہوں نے اسلام کی بہت خدمت کی زیادہ تر کاتعلق عجم سے تھا چاہے طارق بن زیاد، موسی بن نصیر یہ افریقہ کے بربر تھے، صلاح الدین ایوبی، نورالدین زندگی،سلجوقی حکمرانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کی، جلال الدین خوارزم شاہ جنہوں نے چنگیز خان کا مسلسل مقابلہ کیا۔اسی طرح پندرہوں صدی میں جب خلافت ترکوں کے ہاتھ میں آگئی تب ترک فوجوں کے گھوڑوں کے ٹاپوؤں کی آوازیں یونان کی راجدھانی ایتھنز اورآسٹریا کی راجدھانی ویانا کے دروازے تک سنی جارہی تھیں۔ہنگری کا حکمراں سلطان سلیمان اول کے سامنے بالکل بے بس نظر آتا ہے۔اسی طرح سلطان محمد فاتح کے زمانے میں ہی 1453 عیسوی میں قسطنطنیہ فتح ہوا جس کو اب استنبول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی بصیرت اور ان کی دورس نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ عربوں میں وہ بصیرت کم ہی نظر آتی تھی جو عجمیوں میں نظر آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی فوجی اسٹریجی کافی پسند تھی۔
واقعی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی بصیرت سے کافی فائدہ اٹھایا۔ آج بھی اس اسلامی فوج کے اتحاد کے سربراہ کے طور پر ایک عجم جنرل راحیل شریف کا ہی انتخاب کیا گیا۔ یہ عربوں کی مجبوری ہے۔ عجم ہی دنیا کی قیادت کیوں نہ کریں؟ عرب اپنی ساری توانائی عیاشیوں میں ضائع کردیتے ہیں۔ کیوں ہم عیاش لوگوں کو اپنے پر حکمراں بنائیں؟ 
فون:9958361526


No comments:

Post a Comment