Saturday, 31 December 2016

اکھلیش یادو مسلمانوں کے لئے ایک بہترین متبادل

اکھلیش یادو مسلمانوں کے لئے ایک بہترین متبادل


#Akhilesh_Muslim

 از: ظفر اقبال

اکھلیش یادو خاندانی وراثت کے تنازعہ سے ابھر کر ایک بڑے لیڈر کی طور پر اپنی پہچان بنالی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے اور خاص طور سے یوپی کے مسلمانوں کے لئے بہت ہی اچھی بات ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تنازعہ جو فکس تنازعہ تھا۔ یہ باتیں لایعنی ہیں۔ اگر فکس معاملہ ہوتا تو محترمہ ممتا بنرجی، راہل گاندھی اور اجیت سنگھ اکھلیش یادو کی حمایت میں آگے نہیں آتے۔ بی جے پی کی طرف سے پھیلائی گئی اس طرح کی باتیں لایعنی لگتی ہیں۔ ان تمام تنازعہ میں اعظم خان نے ثالٹ کا جس طرح کا کردار ادا کیا ہے وہ لائق تحسین ہے جس کی ہمیں حمایت کرنی چاہئے جنہوں نے ایک احسن قدم کے ذریعہ سیکولر پارٹی کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ملائم سنگھ بھلے ہی لوہیا اور سماج وادی فکر کے حامل ہیں لیکن ان کا دل آر ایس ایس میں اٹکا ہوا ہے جس سے ان سے کبھی کبھی غلطی ہوجاتی ہے۔ لیکن اکھلیش یادو جن کی ابھی پوری زندگی پڑی ہوئی ہے۔ ایک اچھے لیڈر ان معنوں میں ہوسکتے ہیں۔ لیڈر کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خصوصیت سب سے اہم یہ ہوتی کہ لیڈر اور سربراہ کو تنگ دل نہیں ہونا چاہئے۔ فراخ دلی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ نوازنا اور درگذر کرنے کا پہلو۔ یہ چیز کسی بھی فرد یا سربراہ کو اعلی بناتی ہے۔ یہ چیز اکھلیش یادو میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اکھلیش یادو کے اندر تعصب کی سطح کافی کام ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اکھلیش یادو کی حمایت کریں یہی ان کے لئے بہتر متبادل ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی الگ پارٹی بنانی چاہئے یہ ہندوستان میں ممکن ہی نہیں۔ خالص مسلم پارٹی مذہبی فرقہ واریت کو جنم دے گی جس سے صرف مسلمانوں کو ہی نقصان ہوگا۔
فون: 9958361526

Thursday, 29 December 2016

محمد غطریف صاحب کے فیس بک خط کے جواب میں، میں نے اپنا جواب تحریر کیا ہے، سوال وجواب ملاحظہ کریں۔

محمد غطریف صاحب کے فیس بک خط کے جواب میں، میں نے اپنا جواب تحریر کیا ہے، سوال وجواب ملاحظہ کریں۔


#Ghitreef_zafar_Syria_Saudi_Arab_Iran

ظفراقبال صاحب
ہم نہ سعودیوں کے عشق میں مبتلاہیں نہ امریکہ کے ۔ہم صرف حق کی بات کرتے ہیں۔ہم نے یمن پر سعودی حملہ کی بھی مذمت کی تھی۔مسئلہ یہ ہے کہ اگرشام میں 80 فیصدسنی مسلمان ہیں توشیعہ علوی اقلیت کوکس طرح ان پرظلم و جبرکے ذریعہ حکومت کرنے کا حق ہے ۔اسی طرح جہاںشیعہ اکثریت ہے وہاںان کا حق ہے کہ ان کوان کا جمہوری حق دیاجائے ۔حلب پر شامی فوج کوجوجیت ملی ہے وہ ایران اورحزب اللہ کی حمایت سے ملی ہے ۔جناب جتنابڑاشرامریکہ ہے اتناہی بڑاشرروس بھی ہے ۔یاتوآپ حقیقت کوجانتے نہیں یاخودبے وقوف بن رہے ہیںاوردوسروںکو بے وقوف بنارہے ہیں۔ایران خطہ کی بڑی طاقت بن رہا ہے تواس میں اعتراض نہیں کیونکہ یہ ایرانیوںکی عقل مندی اورعربوںکی بے وقوفی بلکہ بدمعاشی ہے جس نے ان کویہ د ن دکھایا ہے۔اگروہ دنیامیں صرف عیاشی کریںگے اورکوئی کام نہ کریںگے تواللہ میاں سے کوئی ان کی ذاتی رشتہ داری ہے جوان کوعروج دیںگے ۔دنیامیںوہی عروج پاتاہے جوکوشش کرتاہے۔اللہ اللہ کرنے ،روزے رکھنے اورنمازیںپڑھنے اورعمرے پہ عمر ے کرنے اورمفت قرآن اوراس کے ترجمے چھپوانے اورتقسیم کرانے سے ہوسکتاہوآپ کوثواب مل جائے لیکن دنیاوی عروج نہیںملے ۔لیس للانسان الاماسعی اللہ کی سنت ہے۔البتہ انصاف کی بات یہ ہے کہ ایران بظاہرجس اسلامی اتحادکی بات کرتاہے اس پر کھرا نہیں اترا۔سب سے پہلے تواس کوشام کے سنیوںاورشامی حکومت کے درمیان میں پڑکرصلح کرانی چاہےے تھی ا وراگرایساکرنے میں وہ ناکام رہاتواس کوظالم حکومت کاساتھ نہیںدیناچاہےے تھا۔دوسری بات یہ آپ کی محض خو ش فہمی ہے کہ اب اسرائیل کی باری ہے۔اسرائیل کا نہ عرب ممالک سب ملک کرکچھ بگاڑسکے نہ ایران اوراس کے حواری مواری کچھ بگاڑیںگے کیونکہ بظاہرسب اسرائیل کے خلاف بولتے ہیں اور اندرون خانہ سب اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں اوراس سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔اس حمام میں سب ننگے ہیں کیاایران اورکیاسعودی عر ب فاعتبروایااولی الابصار!









غطریف صاحب


ہم آپ کے جذبات کو سمجھتے ہیں۔ لیکں بات انفرادی ہوتی تو گنجائش کی بات ہوتی۔ لیکن جب معاملہ قوم اور امت مسلمہ کا درپیش ہے۔تو اس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ آپ نے شام کی مثال دی۔ شام میں 20 فیصد علوی شیعہ ہیں، پندرہ فیصد عیسائی آبادی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے چھوٹے چھوٹے گروپ کے لوگ ہیں جو مختلف مذاہب کو ماننے والے ہیں۔ بشار الاسد کا مسئلہ شیعہ سنی کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ بلکہ بشار الاسد اور ان کی اہلیہ سنی ہی ہیں۔ وہاں کے مفتی اعظم بھی سنی ہیں۔جن کا ایک بیٹا بھی اس خانہ جنگی کی نذر ہوچکا ہے۔ شام ایران، عراق اور لبنان کے حزب اللہ کے درمیان واقع ہے جو ایک طرح سے شام کی حیثیت کوری ڈور کی ہے۔ اگر اسرائیل کو ہرانا ہے تو یہ اتحاد کسی بھی حال میں ٹوٹنے نہ پائے۔ شام کی اسد حکومت کا جانا اسرائیل کے عروج کو دعوت دینے کی مترادف ہے۔ شام کی حکومت گر جاتی تو حزب اللہ اور حماس بہت ہی کمزور ہوجائیں گے اور اسرائیل اس کو باآسانی ختم کرسکتا ہے۔ لیکن مسلسل رسد اور سپلائی کے لئے شام کی ضرورت ہے۔ شیعہ کے لئے ایک مسئلہ اور بھی تھا اور وہ کافی حساس مسئلہ ہے، شام میں دس ہزار سے زائد صحابہ وصحابیات کی قبرین ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سکینہ (رضی اللہ عنہما) کے مقابر بھی ہیں جن پر بار بار حملہ ہوچکا ہے۔ جس طرح سلفی مکتہ فکر سےمتعلق جنگجوئییت کو فروغ دی گئی۔ سلفیت کے بارے میں آپ تو جانتے ہیں کہ وہ تمام مقابر جو جنت البقییع اور دیگر علاقوں میں موجود تھیں سلفیوں نے تباہ کردی تھیں۔ اس طرح شام کے بھی تمام مقابر تباہ ہوچکے ہوتے۔ آپ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے آپ تو شام کی بات تو کرتے ہیں بحرین کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ بحرین میں 70 فیصد شیعہ آبادی ہے اور حکومت سنی بادشاہ کررہا ہے۔ اب بات جمہوریت لانے کی اور بادشاہت اسلام میں ویسے بھی حرام ہے جس سے صرف قومی تباہی ہی آئی ہے۔ اس لئے اس کا خاتمہ بھی امت مسلمہ کے ایجنڈے میں ہونا چاہئے۔ برطانیہ جو اپنے آپ کو جمہوریت کی ماں کہتی ہے لیکن ان کو خلیج فارس کے ممالک کی بادشاہت بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ اس لئے کہ وہ ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی کوشش ہر ذی شعور مسلمان کو کرنی چاہئے۔ جہموریت کی وجہ سے ایک صحت مند ماحول پیدا ہوتا ہے اور اظہار کی آزادی بہت بڑی بات ہے۔ سعودی عرب نے ایران پر حج کی پابندی لگاکر ویسے بھی بہت بڑا جرم کیا ہے۔ جس کی قیمت تو اسے چکانی ہی ہوگی۔ یمن پر سعودی عرب مسلسل تقریبا دو برسوں سے حملہ کررہا ہے۔ یمن کا مسئلہ بھی لگتا ہے کہ آپ کی نظر سے اوجھل ہوچکا ہے۔ یمن ایک غریب اور مفلوک الحال عرب ملک ہے لیکن وہ لوگ جفاکش ہیں۔ ان کی نرم دلی کی تعریف خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر کی ہے۔ اس غریب ملک پر بیشتر عرب ممالک ایک اتحاد تشکیل دے کر امریکی اور برطانوی سرپرستی میں حملہ کررہے ہیں۔ ان کا بس ایک ہی جرم ہے کہ جو گروپ صنعا پر حاوی ہیں وہ شیعہ پس منظر رکھتے ہیں۔ اب تو حرمین شریفین کی آزادی کی بات ہونی چاہئے۔ حرمین پر آل سعود سلفیوں نے قبضہ کررکھا ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف مسالک کے لوگ پریشانی سے دوچار ہیں۔ ابھی تو بہت سارے مسئلے حل ہونے باقی ہیں۔ رہی بات روس کی روس اور ایران کے درمیان مجھے لگتا ہے کہ ایک اسٹریٹیجک معاہدہ ہوچکا ہے۔ روس اور یوروپ اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے مسئلہ پر زبردست تنازعہ چل رہا ہے۔ یوکرین کے ایک اہم علاقے کریمیا کو آزاد کراکر روس اپنے اندر ضم کرچکا ہے۔ جس کی وجہ سے یوروپ اور امریکہ کے درمیان مسلسل تصادم کی صورت بنی ہوئی ہے۔ یوروپ اور امریکہ نے روس پر متعدد پابندی لگارکھی ہے جس طرح ایران پر لگارکھی ہے۔ دونوں ممالک روس اور ایران ایک مسئلہ سے دوچار ہیں۔ دونون یوروپ اور امریکہ کے زخم خوردہ ہیں۔ اس لئے لامحالہ اتحاد تو ہونا ہی تھا۔ یہ اتحاد کچھ لو اور کچھ دو کا ہی ہوگا۔ دو یا متعدد ممالک کے معاہدات عام طور سے اپنے اپنے ملکی مفادات پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ ان معاہدون میں شام اور عراق کے ساتھ ساتھ اور کچھ اور اہم معاملے تو فہرست میں ضرور ہوگا۔


Tuesday, 27 December 2016

ذرا وقت ملے تو یمن پر بھی رولیں

ذرا وقت ملے تو یمن کے لئے بھی رولیں


Aleppo-Yemen_Tears#

ظفر اقبال

گزشتہ ہفتے شام کے شہر حلب کو شام کی فوج اور ان کے اتحادیوں نے دہشت گردوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس شہر کی آزادی دہشت گردوں کے حامی ممالک امریکہ، یوروپ اور آل سعود پر بہت بھاری پڑے۔ آل سعود کے حامیان جن کی تعداد برصغیر میں وافر تعداد میں پائی جاتی ہے، گویا ان پر بجلی گرگئی ہو۔وہ مختلف ذرائع سے سینہ کوبی کرنے لگے۔ لیکن حامیان سعودی عرب اور سلفی حضرات جن کا قبلہ اور کعبہ آل سعود کی سرفرازی میں مضمر ہے ان پر ایسا لگا کہ ان کے یہاں صف ماتم بچھ گئی ہو۔ وہ لوگ ایسا کیوں نہ کریں کیونکہ آل سعود نے ان پر 80 برسوں سے کافی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ لیکن حامیان آل سعود کویہ دکھائی نہیں دیتا کہ آل سعود کے اتحاد یوروپ اور امریکہ کی مدد سے یمن جیسے غریب ملک پر تقریبا دو برسوں سے مسلسل بمباری کررہے ہیں، ان کے یہاں کسی طرح کی مدد بھی پہنچنے نہیں دی جارہی ہے۔ وہاں کے بچوں میں نقص تغذیہ کا مسئلہ سنگین حد تک بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس بے تحاشہ بمباری میں ہزاروں عورتیں اور بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں یمن کی خبریں بالکل نہیں آرہی ہیں جیسا کہ وہاں پوری طرح حالات پرامن ہوچکے ہوں اور خبریں آتی بھی ہیں تو بالکل ایک چھوٹی سی خبر کسی کونے میں ہوتی ہے۔ جس کی حیثیت محض خانہ پری کی ہوتی ہے۔
سعودی عرب یمن پربے تحاشہ بمباری کررہا ہے تاکہ وہ اپنے Puppet صدر منصور ہادی کو دوبارہ یمن کے ایوان صدر تک پہنچا سکے تاکہ یمن کو اپنی مرضی سے چلاسکے۔ سعودی عرب 26 مارچ 2015 سے صنعا پرمسلسل بمباری کررہا ہے لیکن حوثیوں کا وہ کچھ نہیں بگاڑ پائے بلکہ حوثی سعودی عرب پر غالب آچکے ہیں اب لڑائی مقبوضہ نجران، عسیر اور جیزان میں لڑی جارہی ہے۔ حوثیوں کے میزائیل طائف پر بھی گرچکے ہیں۔ ریاض پر میزائل مارنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اب اسلحوں خاص طور سے بیلسٹک میزائل میں حوثی خود کفیل ہوچکے ہیں۔ اب ان کی واپسی اور کمزور کرنے کی باتیں حوثیوں کی شکست جیسے الفاظ اب سعودی عرب اب اپنی ڈکشنری میں تلاش کریں۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی۔ یمن سے سعودی عرب کی سرحد اٹھارہ سو کلومیٹر لگتی ہے۔
یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل چلی آرہی تھی، جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعودی عرب کو پٹے (لیز) پر دے دیئے گئے۔ جس لیز کی ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب سوا دو سال قبل یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نہ ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔ اب سعودی عرب کو چاہئے کہ باہمی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے نجران ، عسیر اور جیزان کے صوبے یمن کو لوٹادے۔ اب حامیاں آل سعود اور انصاف پسند لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یمنیوں کو انصاف دلائے۔
فون:9958361526

Monday, 26 December 2016

اے حلب پر آنسو بہانے والو

اے حلب پر آنسو بہانے والو


#Aleppo_Tears_Muslim_ummah

از:ظفر اقبال

حلب کے تعلق سے بہت ساری تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوگ وہاں کے لوگوں کی لاشیں دکھا دکھا کر لوگوں کے جذبات کو بھڑکارہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حلب کی آزادی میں ہلاکتیں بہت ہوئی ہیں۔ لیکن ہلاکتیں دونوں طرف ہوئی ہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ممبئی ہندوستان سے الگ ہوکر ایک ملک بن سکتا ہے۔ اسی طرح حلب جو اقتصادی لحاظ سے شام کا سب سے بڑا شہر ہے وہ شام سے الگ کیسے رہ سکتا ہے۔۔جب حلب کے تعلق سے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی گئی اور بحث چل رہی تھی جس کو میں براہ راست الجزیرہ چینل کے ذریعہ منعقدہ اجلاس کو دیکھ رہا تھا مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پہلی مرتبہ فرانس، برطانیہ، امریکہ کے نمائندوں کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ انہوں نے صدیوں کے بعد شکست کا مزہ چکھا ہے۔ ابھی تو ابتدا ہے۔ شام کے بعد اسرائیل کی باری ہے اس کے بعد آل سعود کی حکومت کی باری ہے جنہوں نے ناجائز طریقہ سے حرمین شریفین پر قبضہ کررکھا ہے اور ایک مسلک دنیا کے تمام مسلمانوں پر تھوپ رکھا ہے۔ آل سعود کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ تمام عرب ممالک کو بادشاہوں سے آزادی دلانے کا وقت بھی آگیا ہے۔آل سعود کی عشق میں مبتلا ان کے حامیوں کو یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے حملے یاد نہیں آرہے ہیں۔ سعودی عرب نے ایک غریب اور پڑوسی عرب ملک یمن پر حملہ کرکے دو برسوں سے جو تباہی مچارہا ہے اور امریکہ اور یوروپی ممالک جس طرح ان کا ساتھ دے رہے ہیں وہ انہیں کیوں نہیں دکھتا ہے۔ واہ کیا انصاف ہے۔ساری سنی مسلم دنیا کی نگاہیں حضرت اوبامہ پر 2013 سے لگی ہوئی تھیں کہ شاید بشار الاسد سے ہم کو نچات مل جائے۔ لیکن اوبامہ صاحب اور ان کی کابینہ کے اراکین کے تجزیہ اور تفکرات اور اعدادوشمار کچھ اور ہی کہہ رہے تھے کہ اگر بشار الاسد کی حکومت کو بدلنے کے لئے اگر شام میں امریکی مداخلت ہوتی ہے تو بے چارے امریکہ اپنی بقا کی جنگ نہ لڑنے لگے۔ اس لئے کہ بشار الاسد کے ساتھ امریکہ کو ایران، حزب اللہ سے بھی جنگ لڑنی پڑتی۔ امریکیوں کو کعبہ اور قبلہ ماننے والوں کو ذرا اپنے اعدادوشمار پر غور بھی کرلیا کریں کہ وہ وہی امریکہ ہے جس کے آشیرواد سے اسرائیل جیسی ناسور ریاست مسلم امہ کے سینے پر خنجر کی طرح پیوست ہے۔ مسلم دنیا میں ساری برائیوں اور تباہی کاریوں کی اصل وجہ امریکہ ہے۔ اب امریکہ کے چل چلاؤ کا وقت ہے۔ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایران اس وقت علمی اور فوجی اعتبار سے بام عروج پر پہنچے کی طرف گامزن ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار اے مسلم امہ!




Sunday, 25 December 2016

شامی خانہ جنگی کے پس پردہ محرکات

شامی خانہ جنگی کے پس پردہ محرکات

#Syria_Civil_war_inside_story

از:ظفر اقبال

عرب ممالک نے یقینا فلسطین کی مدد کی جن میں مصر اور اردن اور شام اور لبنان نے بہت زیادہ مدد کی۔ لیکن سنی دنیا کا ٹھیکیدار سعودی عرب نے ہمیشہ فلسطین کے پہلو میں خنجر گھونپا۔ مذکورہ عرب ممالک نے اسرائیل سے جنگ بھی کی لیکن سعودی عرب واحد عرب ملک نے جس نے اسرائیل پر ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ کبھی کبھی اپنی عزت بچانے کے نام پر محمود عباس کی پارٹی الفتح کو چند لاکھ ڈالروں کی بھیک دے دیتا ہے۔ اصل لڑائی جو لوگ عسکری طور سے لڑرہے ہیں۔ ان کی آج تک اس نے کوئی مدد نہیں۔ غزہ میں حماس جو برسراقتدار ہے اس کو اسرائیل اور امریکہ کی طرح سعودی عرب دہشت گرد گروہ اعلان کررکھا ہے۔ عالم اسلام کو سب سے زیادہ کسی ملک نے نقصان پہنچایا ہے وہ سعودی عرب ہے۔ رہا حزب اللہ اور شام دونوں اسرائیل کے پڑوسی بھی ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مسلسل برسرپیکار ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب فلسطین ضرور آزاد ہوگا۔ شام کو خانہ جنگی میں جھونکنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ اسرائیل مکمل طور سے محفوظ ہوجائے۔ وہ اس لئے کہ ایران، عراق ، شام اور لبنان (حزب اللہ) کے درمیان مکمل راہداری بن گئی ہے۔ شام کی حکومت اگر بدل جاتی تو ایران کا رابطہ حزب اللہ اور شام سے ختم ہوجاتا جس سے اسرائیل مکمل طور سے محفوظ ہوجاتا۔ اسی مقصد کے تحت اسرائیل ، امریکہ اور یوروپی یونین ممالک سے دہشت گردوں کا گروپ جوق درجوق شام بھیجا گیا اور اسے مکمل عسکری ٹریننگ دی گئی تاکہ شام میں خانہ جنگی کرواکر وہاں کی حکومت کو تبدیل کردی جائے لیکن ایران اور حزب اللہ نے بروقت کارروائی کرکے اور بعد میں روس کی وجہ سے شام کی حکومت بچ گئی اس کے بعد اسرائیل اور امریکہ کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ ان تمام کار خیر میں عرب ممالک اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہی۔ حلب کی فتح دراصل امریکہ اور اسرائیل اور یوروپی یونین کی ناکامی ہے۔اس میں بے چارے غریب مسلمان مارے جارہے ہیں۔جن کا ہمیں بہت ہی افسوس ہے۔ ایک بڑے مقاصد کے لئے ایک بڑی قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے۔ اخوان المسلمین مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے احمق اور حکمت سے خالی جماعت ہے، وہ جماعت تو بہت بڑی اور منظم بھی ہے لیکن حکمت اور وقت کا ذرا بھی حساب نہیں لگاتی ہے اور کوئی بھی ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور وہ جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور خود بھی ہلاک ہوتےاور دوسروں کو بھی ہلاک کرتے ہیں۔ 1982 میں حافظ الاسد نے حماۃ میں جو کارروائی کی اس میں ہزاروں اخوانی مارے گئے اور ایک ہزار شامی فوجی بھی ماری گئی۔ 1982 میں شام کے ایک شہر پر قبضۃ کرلیا اور انہوں نے سمجھا کہ پورا ملک ہمارے قبضے میں آگیا۔ اس کا جوانجام ہونا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے ایک شہر کو آزاد کرانے کے لئےفوجی کارروائی کرے گا ہی۔ کیا ممبئی ہندوستان سے الگ ہوسکتا ہے؟ ابھی ابھی ترکی کے صدر ارودگان نے اخوانیوں کو بڑے پیمانے پر بے وقوف بنایا اور اخوانیوں نے بشار الاسد کے خلاف جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ ایک بار پھر اخوان کو کسی نے استعمال کرلیا۔

Saturday, 24 December 2016

लोकतांत्रिक भारत में एक तानाशाह का उदय होना

लोकतांत्रिक भारत में एक तानाशाह का उदय होना

#Democracy_Modi_Dictator

जफर इकबाल

 स्वतंत्र भारत में दशको बाद 2014 में एक तानाशाह का उदय हुआ। जिसने भारत के सभी सरकारी संस्थाओं को अपने कमान में कर िलया अधिक मशकिल उस वकत पैदा हो जाती है जब भारतीय न्यायपालिका जो हर ज़माने में बहुत हद तक आजाद रही है वह भी प्रधानमंत्री के अधिकार क्षेत्र में प्रवेश कर गया। भारत में अब तक जितने भी प्रधानमंत्री गुजरे हैं नेहरू से लेकर नरेंद्र मोदी तक इनमें सबसे शक्तिशाली प्रधानमंत्री मेरे नजदिक मोदी हैं, फोर्ब्स पत्रिका अपने हाल के एक सर्वेक्षण में दुनिया के 2016 के शक्तिशाली सबसे दस प्रमुख प्रधानमंत्री में उनका नाम शामिल कर चुका है। प्रधानमंत्री दामोदर दास मोदी को स्वतंत्र भारत का सबसे शक्तिशाली प्रधानमंत्री इसलिए कह रहा हुँ कि नेहरु लोकप्रियता सारी दुनया में थी लेकिन उन्होंने प्रधानमंत्री होते हुए मंत्रालय में केवल विदेश मंत्रालय को मरते दम तक अपने पास रखा लेकिन इसके अलावा सभी मंत्रालयों को पूरी आजादी दे दी कि वह अपने प्रति काम करें लेकिन प्रधानमंत्री मोदी ने पहले के सभी परंपराओं को दरकिनार करते हुए मंत्रालयों और सभी संस्थानों को अपने नियंत्रण में कर लिया बल्कि अब लगता है कि न्यायपालिका भी प्रधानमंत्री अधिकार क्षेत्र में आ चुकी है। अदालतों के न्यायाधीश भी प्रधानमंत्री की खुशी के लिए काम करते हुए नजर आ रहे हैं। शायद इस उम्मीद में कि अपनी वफादारी दिखाते हुए तरककी कर सकें। यह तथ्य अपनी जगह सत्य हैं.एक तानाशाह की तरह उभरे मोदी के लिए स्वागत योग्य भी हो सकता है कि इतिहास में एक नए भारत के वास्तुकार के रूप में उनका नाम अमर कर दे अगर मोदी की विफलता होती है तो आधुनिक भारत के इतिहास में एक असफल प्रधानमंत्री स्वीकार किए जाएंगे। प्रधानमंत्री मोदी फिलहाल हर फैसले खुद व्यक्तिगत रूप से ले रहे हैं। मुझे लगता है कि वह परामर्श पर विश्वास ही नहीं रखते। बल्कि सलाहकार नरेंद्र मोदी से डरने लगे हैं और किसी भी मंत्री और अन्य अधिकारियों की हिम्मत ही नहीं हो रही है वह अपने सुझाव प्रधानमंत्री मोदी को दे स्कें. उनके सलाहकारों को ऐसा लगता है कि अगर प्रधानमंत्री को मेरी बात नागवार गुज़री तो नौकरी ही खतरे में न पड़ जाए और मंत्रियों को इस बात का डर है कि उनके मंत्रालय ही नहीं छीन जाए।
फोन: 995836152

جمہوری ہندوستان میں ایک تاناشاہ کا ابھرنا

جمہوری ہندوستان میں ایک تاناشاہ کا ابھرنا


#Demoracay_modi_Dictator

از:ظفر اقبال

آزاد ہندوستان میں عشرو ں کے بعد2014 میں ایک تاناشاہ کا طلوع ہوا ۔ جس نے ہندوستان کے تمام سرکاری اداروں کو اپنے زیر کمان کرلیا۔یہ صورتحال مزید اس وقت اور پیچدہ ہوجاتی ہے جب ہندوستانی عدلیہ جو ہر زمانے میں بہت حد تک آزاد رہی وہ بھی وزیراعظم کے دائرے اختیار میں داخل ہوگئی۔ ہندوستان میں اب تک جتنے بھی وزیراعظم گذرے ہیں نہرو سے لے کر نریندر مودی تک ان میں سب سے زیادہ طاقتور وزیراعظم میرے نزدیک مودی ہیں، فوربس میگزین اپنے حالیہ سروے میں دنیا کے 2016 کے طاقت ور ترین دس سربراہ مملکت میں ان کا نام شامل کرچکا ہے۔ وزیراعظم دامودر داس مودی کو میں آزاد ہندوستان کا سب سے زیادہ طاقت ور حکمراں اس لئے کہہ رہا اس کی وجہ بھی ہے۔نہرو کی مقبولیت یقیناًاس عہد میں چہار جانب تھی لیکن انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے وزارت میں صرف وزارت خارجہ کو مرتے دم تک اپنے پاس رکھا لیکن اس کے علاوہ تمام وزارتوں کو مکمل آزادی دے دی کہ وہ اپنے تئیں کام کریں لیکن وزیراعظم مودی نے پہلے کی تمام روایتوں کو درکنار کرتے ہوئے وزارتوں اور تمام اداروں کو اپنے زیر کنٹرول کرلیا بلکہ اب محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ بھی وزیراعظم کے دائرے اختیار میں آچکی ہے۔ عدالتوں کے جج بھی وزیراعظم کی خوشنودی کے لئے کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ شاید اس امیدمیں کہ اپنی وفاداری ظاہر کرتے ہوئے ترقی حاصل کرسکیں۔ یہ حقائق اپنی جگہ برحق ہیں۔ایک تاناشاہ کی طرح ابھرنا مودی کے لئے خوش آئند بھی ہوسکتا جو تاریخ میں ایک نئے ہندوستان کے معمار کے طور پر ان کا نام امر کردے اگر مودی کی ناکامی ہوتی ہے تو جدید ہندوستان کی تاریخ میں ایک ناکام وزیراعظم تسلیم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم مودی فی الحال ہر فیصلے خود ذاتی طور پر لے رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مشاورت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ بلکہ مشیر نریندر مودی سے خوف کھانے لگے ہیں اور کسی بھی وزیر اور دیگر افسران کی ہمت ہی نہیں ہورہی ہے وہ اپنے مشورے وزیراعظم مودی کو دے سکیں۔ان مشیروں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم کو میری بات ناگوار گذری تو نوکری ہی خطرے میں نہ پڑجائے اور وزیروں کو اس بات کا خوف ہے کہ ان کی وزارت ہی نہ چھین جائے۔
فون:9958361526

Friday, 23 December 2016

سعودی عرب کا پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش

سعودی عرب کا پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش


#Saudi_Arabia_pakistan_Destroy

 از:ظفر اقبال


جب پاکستان نے 28مئی 1998میں ایٹمی تجربہ کیا تو عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت اور اس کی قدر بہت بڑھ گئی ، اس عہد کے مختلف ممالک کے میڈیا خاص طورسے مسلم ممالک کے اخباروں کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا دنیاکا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بن جانے پر زبردست خوشی کا اظہار کیا گیا، بلکہ عالم اسلام نے اس بات کا اطمینان بھی محسوس کیا کہ بالآخر پاکستان جو ہمارا برادر ملک ہے ایک ایٹمی طاقت ہے۔ جس سے عالم اسلام کی محبت پاکستان سے بہت بڑھ گئی۔ اس جوش کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے سابق جنرل اور صدر پرویز مشرف بھی پاکستان کو عالم اسلام کا کئی مرتبہ قلعہ قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان کا اس طرح ابھرنا اور عالم اسلام میں مقبول تر بن جانا سعودی عرب کو ایک آنکھ بھی نہیں بھایا ۔اسے ایسا محسوس ہوا کہ اگر پاکستان کی مقبولیت اسی بڑھتی رہی تو اس کی حیثیت صفر ہوجائے گی۔اس نے ایک سازش رچی ، اس سازش کی بھنک جنرل پرویز مشرف کو پہلے لگ گئی تب ہی اس نے نواز شریف کا تختہ پلٹ کر ملک کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔11ستمبر 2001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ، اس حملہ میں انیس حملہ آوروں میں سے 17حملہ آوروں کا تعلق سعودی عرب کا ہونا، ایک گہری سازش کا پتہ دیتا ہے۔ اس سازش میں اسرائیل ، امریکہ اور سعودی عرب پوری طرح ملوث ہیں، بلکہ سعودی عرب ہی اس ساز ش کا محرک نظر آتا ہے، سعودی عرب نے اسرائیل اور امریکہ کو یقین دہانی کرایا کہ کسی طرح پاکستان کو تم فوجی اعتبار سے خاتمہ کردو اس سے میری حیثیت عالم اسلام میں پھر بڑھ جائے گا۔اسرائیل اور امریکہ، خاص طور سے اسرائیل کو اس سے یہ فائدہ تھا کہ پاکستان سے مستقبل میں جو خطرہ ہوسکتا ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا وہ اس لئے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ، جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، اس کا ابھرنا اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے،اس کا خاتمہ ہوجائے ۔
اس سازش کے تحت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور اس کا الزام القاعدہ پرلگایا گیا اور القاعدہ کا سربراہ اس وقت طالبان کی حکومت والے کابل میں موجود تھا، اس طالبان کی حکومت جس کو پاکستان تسلیم کرتا تھا۔ دراصل پاکستان کو گھیرنے کی یہ سعودی، اسرائیل اور امریکی سازش تھی۔اس سازش کو جنرل مشرف نے فورآ محسوس کرلیا ،جب امریکی صدر بش نے دھمکی آمیزفون کیا کہ’’ اگر تم میرا ساتھ نہیں دیتے تو تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچادیں گے۔‘‘داراصل امریکہ کی پاکستان کے ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرنے کی وہ سازش تھی جو سعودی عرب کے ایما پر امریکہ انجام دے رہا تھا۔لیکن جب قیادت بالغ ہوتی ہے تو قوم کو چھوٹی آزمائش سے گذار کر قوم کو مکمل تباہی سے بچالیتی ہے اسی کا ثبوت جنرل مشرف نے دیا، جب جنرل مشرف نے قوم کو چھوٹی آزمائش سے گذار کر بڑی تباہی سے بچالیا۔ کابل پر امریکہ کے قبضے کے بعد پاکستان کو پھر بھی چین سے نہیں رہنے دیا گیا اس پر مسلکی جھگڑے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا،۔ 2003میں ہزارہ شیعہ قبائل کا قتل عام،2007میں لال مسجد کا واقعہ اسی کا تسلسل ہے۔جو ہنوز ابھی تک مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ یہ تمام مسلکی جھگڑے سعودی عرب کے ایما پر ہورہے ہیں تاکہ پاکستان کبھی بھی اس کی قیادت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔

Tuesday, 20 December 2016

روس کے سفیر کا قتل بہت بڑا جرم

روس کے سفیر کا قتل بہت بڑا جرم

#Russian_ambassador_Assassination


 کچھ مسلمان جو بہت زیادہ جذباتی ہیں وہ روس کے سفیر کو قتل کرنے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں اور قاتل کے ہمت کی تائید کررہے ہیں کہ انہوں نے بہت ہی اچھا کیا ہے۔ مسلمانوں کو ایسی غلطی ہرگز نہیں کرنی چاہئے۔ کسی ملک کے سفیر کا قتل کرنا نہایت ہی نازیبا بات ہے بلکہ بہت بڑا جرم ہے۔ چنگیز خان کے سفیر کو قتل کرنے کے بعد ہی چنگیز خان خوارزم شاہ پر چڑھ دوڑا تھا جس کے بعد عالم اسلام کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا ہے۔۔ مسلمان بہت ہی جذباتی قوم ہے وہ لڑائی میں تمام حدود کو بھول جاتے ہیں۔ رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے جو اصول وضع کئے ہیں اسی کے مطابق جنگ کرنی چاہئے۔ جب آپ کسی فوج کے خلاف لڑائی کریں تو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا چاہئے۔ ہرے بھرے درخت کو نہیں کاٹنا چاہئے۔ جو لوگ آپ سے نہ لڑیں ان سے نہیں لڑنا چاہئے۔ عوامی وسائل کو تباہ نہیں کرنا چاہئے ۔ مسجد اور چرچوں اور دیگر مذاہب کے علامتوں کو تباہ نہیں کرنا چاہئے اسی طرح بہت ساری باتیں جن کا تعلق جنگ سے ہے حدیثوں میں بیان کی گئی ہیں جو جنیوا کنونشن کا حصہ بھی ہیں۔ جنیوا کنونشن میں تقریبا وہی چیزیں ہیں جو رسول اللہ نے بیان کی ہیں۔

Sunday, 18 December 2016

عالم اسلام کی قیادت عجمی حکمراں ہی کرسکتے ہیں

عالم اسلام کی قیادت عجمی حکمراں ہی کرسکتے ہیں

#Muslim_world_Leadership_Non_Arab

 

از:ظفر اقبال

 خلاف راشدہ کے بعد عجمی حکمراں ہی صحیح معنوں میں عالم اسلام کی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں۔
عربوں میں پہلا عرب حکمران عبدالملک بن مروان تھا جنہوں نے اپنی حکومت کے استحکام اور اپنے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مقصد سے اپنے گورنر حجاج بن یوسف کو استعمال کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر (رض) کے خلاف لڑائی کی ، جس لڑائی کے دوران ان عرب حکمراں نے مکہ میں کعبہ پر منجنیق سے پتھربازی کرکے بیت اللہ کو مکمل طور سے ڈھادیا۔ اس کا اہم مقصد محض اپنی حکومت کو بچانا تھا۔
دوسرا واقعہ 1099 کا ہے، اس وقت عباسی خلیفہ کے عہد میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہوگیا،وہ قبضہ تقریبا 90 برسوں تک صلیبیوں کا رہا، تب کرد سلطان صلاح الدین ایوبی (رح) کے ہاتھوں بیت المقدس پھر مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
ہلاکو کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد خلافت تقریبا ختم ہوگئی تھی، جس نے خلافت کو دوبارہ استحکام بخشا ہے وہ ملک الظاہر سلطان بیبرس تھا جو ایک مملوک حکمراں تھا جس نے عباسی خاندان کے ایک زندہ بچ جانے والے بچے کو خلیفہ بنایا ، پھر بعد میں جب عثمانی ترکوں کو عروج حاصل ہوا۔ تب خلافت عثمانی ترکوں کو مل گئی۔ لیکن انہوں نے کعبۃ اللہ کی جس طرح نگرانی کی اور اس کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیا گیا۔ لیکن 1917 میں ایک سازش کے تحت آل سعود نے یہودیوں کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا اور فلسطین اور بعد میں 1967 میں بیت المقدس پر اسرائیل قبضہ کروایا۔ اس کا اہم مقصد جو انہوں نے عثمانی ترکوں کے پیٹھ میں خنجر گھونپ کر جو سلطنت حاصل کی اس کو استحکام مل جائے اور اسرائیل اور امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہے۔
ان عرب حکمرانوں نے اپنے حکمرانی کے استحکام کے لئے جس طرح اسلامی مقدسات کو پامال کیا اس کی کوئی نظیر ہمیں تاریخٰ میں نہیں ملتی۔ ایک بار پھر آل سعود حرمین کی آڑ میں اپنے سیاہ جرائم کو چھپانے میں لگی ہوئی ہے اور حرمین کی حفاظت کے نام پر یمن میں قتل وغارت گری میں لگی ہوئی ہے، یمن کے غریب عوام پر امریکی، فرانسیسی اور اسرائیل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔اس لئے حرمین کا منیجمنٹ آل سعود سے چھین لینا چاہئے اور سعودی عرب میں الیکشن کرانا چاہئے اور حرمین کا منیجمنٹ او آئی سی سنبھالے تاکہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نمائندگی صحیح معنوں میں ہوسکے۔ لوگ اپنے اپنے مسلک کے تحت وہاں عبادت کرسکیں۔
اس سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ انہوں نے تاریخ میں کیا کیا جرائم کئے ہیں۔ اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے صاف کہا کہ عربی وعجی میں کوئی فرق نہیں، اگر کوئی ایک دوسرے پر فضیلت رکھتا ہے تو وہ تقوی کی بنیا پر رکھتا ہے۔ اس لئے عرب کو زیادہ فضیلت دینے کی ضرورت نہیں ہے، سب انسان برابر ہیں۔ اب مجھے صاف دیکھ رہا ہے عالم اسلام کی قیادت دھیرے دھیرے عجی حکمرانی کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ یہ چیز عالم اسلام کے لئے بہتر ہے اسی میں عالم اسلام کی کامیابی مضمر ہے نہیں تو ساری دنیا کے غیر مسلم ممالک اسی طرح عالم اسلام کے درمیان ہونے والی باہمی جنگ وجدل پر ہنستے رہیں گے۔
فون:9958361526


Friday, 16 December 2016

فکر کی درستگی

فکر کی درستگی

 

یہ خط میں نے مشہور صحافی ظفر آغا صاحب کو تحریر کیا تھا۔ میں نے یہ خط انہیں راشٹریہ سہارا اردو میں ’’بارک حسین اوبامہ کا پیغام: مشعل راہ‘‘ کے ری کشن میں لکھا تھا جسے میں افادہ عام کے لئے آج شائع کررہا ہوں۔
یہ خط میں نے 6 اکتوبر 2009 کو ای میل کے ذریعہ بھیجا تھا
محترم ظفر آغا صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ علیہ
امید ہے کہ آپ بخیروعافیت سے ہوں گے۔
آج کے راشٹریہ سہارا اردو میں آپ کا مضمون’’بارک حسین اوبامہ کا پیغام:مشعل راہ‘‘ پڑھ کر کافی مایوسی ہوئی، آپ جیسے زیرک صحافی سے ایسی امید نہیں تھی کہ بارک حسین اوبامہ کی تقریر کو اس قدر سراہا جائے اور اسے مشعل راہ تک سمجھا جائے۔
سب سے پہلے یہ بات واضح رہے کہ بارک حسین اوبامہ نے جو بھی اپنی تقریر میں کہا ہے اور جو بھی امریکن بحیثیت قوم نے کیا ہے وہ اس کی تلافی کرے اور مسلم امہ کی امنگوں کی راہوں میں وہ نہ آئے اور اس کو عمل سے بھی ثابت کرے۔
آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جس طرح امریکہ میں ایک ہزار مساجد ہیں اسی طرح عالم اسلام کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی اسلام کا مرکز کہے جانے والے ملک میں اپنی ریاست میں چرچ یا مندر قائم کرنے کی اجازت دینے کو کیا وہ تیار ہے؟
آپ کی ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام سے آپ کی واقفیت واجبی جیسی ہے۔ آپ نے بخاری سے روایت وہ حدیث نہیں پڑھی ہوگی کہ ’’اخرجوا الیہود والنصاری من جزیرۃ العرب‘‘ترجمہ : ’’جیوز اور کرسچن کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔‘‘ بت پرستی تو اور بری بات ہے۔یہ تو اور بدقسمتی کی بات ہے کہ آپ مندر کو اسلام کے گہوارے میں ہونے کی بات کررہے ہیں۔
آپ کی شاید تاریخ سے بھی کم ہی واقفیت ہے۔ مسلم امہ تہذیبی اعتبار سے کبھی مغرب کی محتاج نہیں رہی اور وہ مغرب سے ہار تو ضرور گئی لیکن اپنی فکری وجہ سے نہیں۔ اسلام مغرب سے حربی جنگ ہاری تھی۔ آپ اس چیز سے بخوبی واقف ہوں گے ہر جیتنے والی طاقت اپنے مفتوح قوم سے جینے کا حق بھی چھین لیتی ہے۔ مسلم امہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ برسبیل تذکرہ آپ کو بتادوں کے حجاز ریلوے 1908 میں خلافت عثمانیہ کے عہد میں تیار ہوچکا تھا جس کو لارنس آف عربیہ کی قیادست میں عرب قوم پرست اور اسلام کے باغی نے 1916 میں اکھاڑ دیا تھا۔ استنبول کا انڈرگراؤنڈ ریلوے 1875 میں تیار ہوچکا تھا جبکہ امریکہ میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کافی عرصے کے بعد بنا تھا۔
آپ کا خیرخواہ
ظفر اقبال

Thursday, 15 December 2016

حلب کا نوحہ کرنے والے یمن کا نوحہ بھی کرلیں

حلب کا نوحہ کرنے والے یمن کا نوحہ بھی کرلیں


#Aleppo_Yemen


 کیا ممبئی ہندوستان سے الگ ہوکر ایک ملک بن سکتا ہے۔ اسی طرح حلب جو اقتصادی لحاظ سے شام کا سب سے بڑا شہر ہے وہ شام سے الگ کیسے رہ سکتا ہے۔۔میں منگل کی رات اقوام متحدہ میں الجزیرہ چینل کے ذریعہ حلب پر منعقدہ اجلاس کو دیکھ رہا تھا مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پہلی مرتبہ فرانس، برطانیہ، امریکہ کے نمائندوں کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ انہوں نے صدیوں کے بعد شکست کا مزہ چکھا ہے۔ ابھی تو ابتدا ہے۔ شام کے بعد اسرائیل کی باری ہے اس کے بعد آل سعود کی حکومت کی باری ہے جنہوں نے ناجائز طریقہ سے حرمین شریفین پر قبضہ کررکھا ہے اور ایک مسلک دنیا کے تمام مسلمانوں پر تھوپ رکھا ہے۔ آل سعود کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ تمام عرب ممالک کو بادشاہوں سے آزادی دلانے کا وقت بھی آگیا ہے۔آل سعود کی عشق میں مبتلا ان کے حامیوں کو یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے حملے یاد نہیں آرہے ہیں۔ سعودی عرب نے ایک غریب اور پڑوسی عرب ملک یمن پر حملہ کرکے دو برسوں سے جو تباہی مچارہا ہے اور امریکہ اور یوروپی ممالک جس طرح ان کا ساتھ دے رہے ہیں وہ انہیں کیوں نہیں دکھتا ہے۔ واہ کیا انصاف ہے۔
 

 یمن کی چند تصاویر ملاحظہ کرلیں:

Tuesday, 13 December 2016

حلب کی آزادی دنیا کے تمام حریت پسند اقوام کو مبارک

حلب کی آزادی دنیا کے تمام حریت پسند اقوام کو مبارک

Aleppo_Syria-_iran-Victory

 حلب کی آزادی دنیا کے تمام حریت پسند اقوام کو مبارک۔ اس آزادی کو حاصل کرنے میں ایران کو اپنے دس ہزار سے زائد جیالوں کی قربانی دینی پڑی ہے، حزب اللہ کے کئی ہزار جوان شہید ہوئے اور شام میں جب سے خانہ جنگی چل رہی ہے تب سے اب تک دو لاکھ شامی فوجی ماری جاچکی ہے۔ اس جنگ کو ہم لینن گراڈ۔2 کی جنگ کہہ سکتے ہیں جس جنگ میں غیر معمولی قربانی دینی پڑی تھی۔ حلب کی جنگ میں بھی غیر معمولی قربانی دینی پڑی ہے۔ اے اہل شام تمہیں یہ جیت مبارک ہو! اس جنگ کی قیادت ایران کے مشہور جنرل قاسم سلیمانی کررہے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو میں خالدبن ولید ثانی سے تعبیر کرتا ہوں جنہوں نے اپنے کیریر کے 35 برسوں میں کسی بھی محاذ میں شکست سے دوچار نہیں ہوئے ہیں۔
شام کی حکومت کے خلاف دنیا کی تمام باطل اور منافق میکانزم لگا ہوا تھا تاکہ اس جنگ میں شام کی شکست کے ساتھ ہی اسرائیل کو ہر حال میں محفوظ کیا جاسکے۔ اب ان منافق اور باطل طاقتوں کے زوال کی ابتداء ہوچکی ہے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوجائیں گے۔ انشاء اللہ








Thursday, 8 December 2016

بشار الاسد کی حمایت ہم کیوں کریں؟

بشار الاسد کی حمایت ہم کیوں کریں؟

Syria_Asad#

از: ظفر اقبال

بشار الاسد کے والد حافظ الاسد جب شام کے حکمراں تھے تو1967 اور 1973 کی مشرق وسطی کی جنگ مصر اور اردن کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف لڑی تھی۔ 1967 کی جنگ میں تینوں ممالک مصر،شام اور اردن اس جنگ کا حصہ تھے جس میں تینوں کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں مصر نے سینا کا علاقے کھودیا تھا جب کہ یروشلم جو اردن کا علاقہ تھا اس پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور شام نے گولان کے پہاڑیوں کو کھودیا تھا۔ اس عبرت ناک شکست کے بعد 1973 میں مصر اور شام نے مشترکہ طور پر اسرائیل پر حملہ کردیا جس سے اسرائیل کو جانی نقصان تو بہت اٹھانا پڑا لیکں خاطر خواہ کامیابی انہیں نہیں مل سکیں۔ اس طرح مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اسرائیل کے ساتھ اپنے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرلئے ۔ مصر کو 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کرنے کے عوض سینا کے علاقے واپس کردیئے گئے۔ حافظ الاسد کا شام ایک ایسا ملک تھا جس نے اسرائیل سے معاہدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اب تک اسرائیل اور شام تکنیکی اعتبار سے حالت جنگ میں ہیں۔ شام نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جب 1979میں ایران میں امام خمینی رحمۃ اللہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب آیا اس کے بعدخلیج فارس کے تمام عرب ممالک نے عراق کو اکساکر اور مالی اور عسکری مدد کے سہارے ایران پر حملہ کرادیا۔ شام واحد عرب ملک تھا جو ایران۔ عرااق میں ایران کے ساتھ کھڑا تھااور اس نے ایسے نازک موقع پر ایران کی اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کی۔اس طرح عراق ۔ایران کے درمیان آٹھ سالہ جنگ میں اربوں ڈالروں کا نقصان اٹھانا پڑا اور طرفین کے دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ امریکہ اور یوروپی یونین اور سارے عرب ممالک کی تمام کوششوں کی پرواہ کئے بغیر شام اسرائیل کو اپنا دشمن تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن شام اسرائیل کے نخوت کے سامنے کبھی نہیں جھک سکا۔ یہ بات اسرائیل کو یہ بات ہمیشہ کھٹکتی رہی۔ اس نے بہار عر ب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے شام کو ایک محاذجنگ میں تبدیل کردیا۔ اب ایران کے لئے ایک بڑا نازک وقت تھا۔ ایران کیا کرے۔ شام میں اہل بیت کے بہت سارے مقابر اور ہزاروں صحابیوں کی قبریں ہیں جس کوو ہابی بم دھماکہ سے اڑاسکتے تھے اور شام نے جس طرح کے احسانات ایران پر کئے تھے اس کے چکانے کا وقت آگیا تھا ۔ اسرائیل کے تعلق سے شام اور ایران کا یکساں مؤقف شروع ہی سے تھا کہ وہ مقصد تھا اسرائیل کی تباہی۔ایران نے شام کی مدد سے لبنان میں حزب اللہ کو تیار کیا۔ حزب اللہ بنیادی طور سے شیعہ گوریلا گروپ ہے لیکن اس گروپ میں عیسائی بھی شامل ہیں۔ پچھلے سال حزب اللہ کا ایک عیسائی کمانڈرجس کا نام سمیر قنظار تھا جو اسرائیل کے جیلوں میں کافی عرصے مقید تھا لیکں ایک ڈیل کے ذریعہ اسرائیل کو چھوڑنا پڑا تھا جس کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے پچھلے سال ہلاک کردیا تھا۔ ایران نے حماس کو ہر طرح سے عسکری مدد دی جس کے باعث ہی وہ اسرائیل کے خلاف جنگ لڑنے کی متحمل ہوسکی جس کا ہیڈکوارٹر چند سال پیشتر تک دمشق میں ہی تھا۔ شام میں جو بھی خانہ جنگی ہورہی ہے اس کا ایک ہی خاص مقصد ہے کہ اسرائیل کو ہر حال میں محفوظ بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اسرائیل اپنی سرحد پر اردن اور مصر کی طرح اپنے تابعدار ممالک کو چاہتا ہے جس سے اسرائیل پوری طرح محفوظ ہوجائے۔سنی دنیا کا چودھری سعودی عرب کو اسرائیل سے کبھی پرابلم ہی نہیں رہی۔ لیکن اب اسرائیل کی قسمت اچھی نہیں ہے۔ اب حافظ الاسد کا بیٹا بشار الاسد کی حکومت پوری طرح محفوظ ہوچکی ہے۔ حزب اللہ اب گوریلا گروپ سے ایک پوری فوج میں تبدیل ہوگئی ہے اور حماس بھی ایک زبردست عسکری طاقت بن چکی ہے جو فی الحال غزہ پٹی میں برسراقتدار ہے۔ ایران کی فی الحال مشرق ووسطی کے چار ممالک پر حکومت چل رہی ہے۔ وہ ممالک ہیں عراق، یمن ، شام اور لبنان ۔دشمنوں کی ساری کوششیں اور ساری جنگی مشینری ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ اب انشااللہ اسرائیل اور امریکہ کے حواریوں کی شکست یقینی ہوچکی ہے۔
فون:9958361526


Friday, 2 December 2016

नोटबंदी मगर जल्दी में

नोटबंदी मगर जल्दी में

#demonetisation_Indian_govt

 जफर इकबाल

नोट बनदी के लाभ के संबंध में सत्ताधारी लोग जिस तरह के लाभ िगनवारहे हैं और सत्ताधारी पार्टी के समर्थक जिस तरह सरकारी निर्णय का गुन गा रहा है लेकिन जमीनी हकीकत ठीक इसके विपरीत है जिसके संबंध में हमें बहुत ही गंभीरता के साथ सोचना चाहिए नहीं तो हम ऐसे दलदल में फंस जाएंगे जिससे निकलना हम भारतीयों के लिए बहुत मुश्किल होगा। नोट बनदी के संबंध में यह बात कही जा रही है कि इससे काला धन रखने वालों से निपटने में आसानी होगी। लेकिन जिस तरह की खबरें आ रही हैं उससे लगता है कि काला धन रखने वाले तो पकड़ में आने से रहे बल्कि काला धन सफेद करने में पूरी लगन से लगे हुए हैं यह अलग बात है जिनके पास काला धन दस करोड़ रुपये रहा होगा वह घट कर छह करोड़ पर आ गया है। लेकिन पांच दस साल में फिर वही स्थिति हो जाएगी जिस तरह पहले थी। लेकिन नोट बनदी में सबसे जयादह कोई परिशान हो रहा है वह है आम आदमी जिसका काला धन से कोई लेना देना नहीं है। बल्कि वह गरीब जनता जो दो वक्त की रोटी ब मुश्किल जटापाती हे.छोटे छोटे कारखाने जो कई बंद हो चुके हैं और बाकी जो बचे हैं वे बंद होने के कगार पर पहुंच चुके हैं। देश में एक तरह से अराजकता फैल चुकी है। रोजाना बैंकों में लाइन लगकर अपने पैसे दो दो हजार रुपये निकालने पड़ रहे हैं। यह स्थिति बहुत ही दर्दनाक है।
देश को आधुनिक शैली पर आधारित होना चाहिए बल्कि यूरोप और आसपास के राज्यों की खुबिये को अपने में सिमोना चाहिए। यह तो बहुत ही अच्छी बात है लेकिन सबसे पहले हमें यह सुनिश्चित करना चाहिए कि क्या यहां की जनता पेट भरकर खाना खापाती है? क्या यहाँ स्वास्थ्य और शिक्षा व्यवस्था दुरुस्त हो चुके हैं? लेकिन मामला ठीक इसके विपरीत है। भारत में शिक्षा और स्वास्थ्य प्रणाली आधिकारिक तौर पर है ही नहीं। क्या भारत के हर शहर और ब्लॉक में सरकारी और मुफ्त में अस्पताल स्थापित हो चुके हैं। जगह जगह मेडिकल कॉलेज हैं। क्या भारत के हर शहर और पंचायत में स्कूल और कॉलेज हैं जो अचछी तरह काम कर रहे हैं? यह बात सरकारी इंफराअसटरकचर के संबंध में कह रहा हूँ। सरकार की जिम्मेदारी है कि यहां की जनता स्वस्थ हो यहाँ की जनता शिक्षित हो और इस देश की जनता पेट भर खाना खासकते हूँ। वह इसलिए कि इसी जनता के बीच से हमें डॉक्टर, वैज्ञानिक, इंजीनियर, विचारक, सैनिक और राजनेता आते हैं। जब हमारा समाज स्वस्थ, शिक्षित और पेट भरी जनता होगी तब ही कोई राष्ट्र अच्छी तरह विकास कर सकता है। क्या स्वास्थ्य के बिना जनता, अज्ञान से लथपथ लोगों और खाली पेट जनता कोई ढंग से कोई निर्णय ले सकती है। कदापि नहीं? इसलिए नोट बनदी से पहले हमें पहले तीन काम करने चाहिए थे। अभी भी हमारे पास समय है पहले हम तीन काम करलें तो इस देश को आगे बढ़ने से कोई नहीं रोक सकता।
पहले इस भूखी जनता के संबंध में सलाह देना चाहता हूं कि इस देश में अनाजों में से एक अनाज गेहूं जो आटे के रूप में हो पांच रुपये किलो से अधिक नहीं होना चाहिए जो हर राशन की दुकान में मौजूद हो जहां से हरकोई इसी रेट पर खरीद सके इसमें किसी तरह का कोई भेदभाव न हो, जो सभी के लिए हो और एक सब्जी जिस में आलू का चयन करता हूँ जो स्थायी सब्जी है जो खराब नहीं होती इसकी कीमत दो रुपये होनी चाहिए। बस अनाज में केवल आटा और आलू को भारत सरकार 80 प्रतिशत के हिसाब से दुकानदारों को सब्सिडी में दे जिससे भारत की जनता किसी भी सुरत में भरपेट खाना खासके, भारत का कोई नागरिक भूखा न रहे। यह मनुष्य का मौलिक अधिकार है। अब स्वास्थ्य और शिक्षा की तरफ आता हूँ कि भारत सरकार पंचवर्षीय योजना बनाये जिसमें इन पांच वर्षों में सरकार का एक ही लक्ष्य होगा कि बड़े शैक्षिक संस्थान स्थापित करने और बड़े अस्पताल बनाने हैं। हर गांव और हर शहर में हमें शिक्षा संस्थान और जगह जगह अस्पताल बनाने हैं। देखिए जब लोग स्वस्थ और पढ़े लिखे होगें वह राष्ट्र कैसे आगे बढ़ता है।
फोन: 9958361526

نوٹ بندی مگر عجلت میں

نوٹ بندی مگر عجلت میں

#demonetisation_india_govt

از:ظفر اقبال

نوٹ بندی کے فوائد کے تعلق سے برسراقتدار افراد جس طرح کے فوائد گنوارہے ہیں اور برسراقتدار پارٹی کے حامی جس طرح حکومتی فیصلے کی گن گارہے ہیں لیکن زمینی حقیقت ٹھیک اس کے برعکس ہے جس کے تعلق سے ہمیں بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے نہیں تو ہم ایسے دلدل میں پھنس جائیں گے جس سے نکلنا ہم ہندوستانیوں کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ نوٹ بندی کے تعلق سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس سے کالا دھند رکھنے والوں سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔ لیکن جس طرح کی خبریں آرہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ کالا دھن رکھنے والے تو پکڑ میں آنے سے رہے بلکہ کالا دھن سفید بنانے میں پوری تندہی سے لگے ہوئے ہیں یہ الگ بات ہے جن کے پاس کالا دھن دس کروڑ روپے رہا ہوگا وہ گھٹ کر چھ کروڑ پر آگیا ہے۔ لیکن پانچ دس برس میں پھر وہی صورت حال ہوجائے گی جس طرح پہلے تھی۔لیکن نوٹ بندی میں سب سے زیادہ کوئی پس رہا ہے وہ ہے عام آدمی جس کا کالا دھن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ وہ غریب عوام جو دو وقت کی روٹی بہ مشکل جٹاپاتی ہے۔چھوٹے چھوٹے کارخانے جو بہت سارے بند ہوچکے ہیں اور باقی جو بچے ہیں وہ بند ہونے کے کگار پر پہنچ چکے ہیں۔ملک میں ایک طرح سے انارکی پھیل چکی ہے۔ روزنامہ بینکوں کے لائن میں لگ کر اپنے پیسے دو دو ہزار روپے کرکے نکالنے پڑرہے ہیں۔ یہ صورت حال بہت ہی تکلیف دہ ہے ۔
ملک کو جدید طرز پر استوار ہونا چاہئے بلکہ یوروپ اور آس پاس کی ریاستوں کی خوبیوں کو اپنے میں سمونا چاہئے۔ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کیا یہاں کی عوام پیٹ بھر کر کھانا کھاپاتی ہے؟ کیا ہہاں صحت اور تعلیم کا نظام درست ہوچکا ہے؟ لیکن معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ ہندوستان میں تعلیم اور صحت کا نظام سرکاری طور پر ہے ہی نہیں۔ کیا ہندوستان کے ہر شہر اور بلاک میں سرکاری اور مفت میں بہترین اسپتال قائم ہوچکے ہیں۔ جگہ جگہ میڈیکل کالج موجود ہیں۔ کیا ہندوستان کے ہر قصبے اور پنچایت میں اسکول اور کالج موجود ہیں جو بحسن وخوبی کام کررہے ہیں؟ یہ بات میں سرکاری انفرااسٹرکٹر کے تعلق سے کہہ رہا ہوں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جس ملک پر جو لوگ برسراقتدار ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کی عوام صحت مند ہو یہاں کی عوام تعلیم یافتہ ہو اور اس ملک کی عوام پیٹ بھر کھانا کھاسکتے ہوں۔ وہ اس لئے کہ اسی عوام کے درمیان سے ہمیں ڈاکٹر، سائنٹسٹ، انجینئر، مفکر، سپاہی اور سیاست داں آتے ہیں۔ جب ہمارا معاشرہ صحت مند، تعلیم یافتہ اور شکم سیر عوام ہوگی تب ہی کوئی قوم اچھی طرح نشوونما ہوسکتی ہے۔ کیا صحت سے عاری عوام، جہالت میں لت پت عوام اور خالی پیٹ عوام کوئی ڈھنگ سے کوئی فیصلے لے سکتی ہے۔ ہرگز نہیں ؟اس لئے اس نوٹ بندی سے پہلے ہمیں سب سے پہلے تین کام کرنے چاہئے تھے۔ اب بھی ہمارے پاس وقت ہے سب سے پہلے ہم تین کام کرلیں تو اس قوم کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سب سے پہلے میں اس بھوکی قوم کے تعلق سے مشورے دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں اناجوں میں سے ایک اناج گیہوں جو آٹے کی شکل میں ہوپانچ روپے کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے جو ہر راشن کی دکان میں موجود ہو جہاں سے ہرکوئی اسی ریٹ پر خرید سکتے اس میں کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہ ہو جو سب کے لئے ہواور ایک سبزی جس میں میں آلو کا انتخاب کرتا ہوں جو دیرپا سبزی ہے جو جلد خراب نہیں ہوتی اس کی قیمت دو روپے ہونی چاہئے۔ بس اناج میں صرف آٹا اور آلو کو حکومت ہند80 فیصددوکانداروں کو سبسڈی دے جس سے ہندوستان کی عوام کسی بھی صورت میں بھر پیٹ کھانا کھاسکے ، ہندوستان کا کوئی شہری بھوکا نہ رہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔ اب میں صحت اور تعلیم کی طرف آتا ہوں کہ ہندوستان کی حکومت پانچ سالہ منصوبہ بنائے جس میں ان پانچ برسوں میں حکومت کا ایک ہی مقصد ہوگا کہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرنے ہیں اور بڑے بڑے اسپتال بنانے ہیں۔ ہر گاؤں اور ہر شہر میں ہمیں تعلیمی ادارے اور جگہ جگہ اسپتال بنانے ہیں ۔ دیکھئے جو قوم صحت مند اور پڑھی لکھی ہوگی وہ قوم کس طرح آگے بڑھتی ہے۔
فون:9958361526