محمد غطریف صاحب کے فیس بک خط کے جواب میں، میں نے اپنا جواب تحریر کیا ہے، سوال وجواب ملاحظہ کریں۔
#Ghitreef_zafar_Syria_Saudi_Arab_Iran
ظفراقبال صاحب
ہم نہ سعودیوں کے عشق میں مبتلاہیں نہ امریکہ کے ۔ہم
صرف حق کی بات کرتے ہیں۔ہم نے یمن پر سعودی حملہ کی بھی مذمت کی تھی۔مسئلہ
یہ ہے کہ اگرشام میں 80 فیصدسنی مسلمان ہیں توشیعہ علوی اقلیت کوکس طرح ان
پرظلم و جبرکے ذریعہ حکومت کرنے کا حق ہے ۔اسی طرح جہاںشیعہ اکثریت ہے
وہاںان کا حق ہے کہ ان کوان کا جمہوری حق دیاجائے ۔حلب پر شامی فوج کوجوجیت
ملی ہے وہ ایران اورحزب اللہ کی حمایت سے ملی ہے ۔جناب جتنابڑاشرامریکہ ہے
اتناہی بڑاشرروس بھی ہے ۔یاتوآپ حقیقت کوجانتے نہیں یاخودبے وقوف
بن رہے ہیںاوردوسروںکو بے وقوف بنارہے ہیں۔ایران خطہ کی بڑی طاقت بن رہا
ہے تواس میں اعتراض نہیں کیونکہ یہ ایرانیوںکی عقل مندی اورعربوںکی بے
وقوفی بلکہ بدمعاشی ہے جس نے ان کویہ د ن دکھایا ہے۔اگروہ دنیامیں صرف
عیاشی کریںگے اورکوئی کام نہ کریںگے تواللہ میاں سے کوئی ان کی ذاتی رشتہ
داری ہے جوان کوعروج دیںگے ۔دنیامیںوہی عروج پاتاہے جوکوشش کرتاہے۔اللہ
اللہ کرنے ،روزے رکھنے اورنمازیںپڑھنے اورعمرے پہ عمر ے کرنے اورمفت قرآن
اوراس کے ترجمے چھپوانے اورتقسیم کرانے سے ہوسکتاہوآپ کوثواب مل جائے لیکن
دنیاوی عروج نہیںملے ۔لیس للانسان الاماسعی اللہ کی سنت ہے۔البتہ انصاف کی
بات یہ ہے کہ ایران بظاہرجس اسلامی اتحادکی بات کرتاہے اس پر کھرا نہیں
اترا۔سب سے پہلے تواس کوشام کے سنیوںاورشامی حکومت کے درمیان میں پڑکرصلح
کرانی چاہےے تھی ا وراگرایساکرنے میں وہ ناکام رہاتواس کوظالم حکومت کاساتھ
نہیںدیناچاہےے تھا۔دوسری بات یہ آپ کی محض خو ش فہمی ہے کہ اب اسرائیل کی
باری ہے۔اسرائیل کا نہ عرب ممالک سب ملک کرکچھ بگاڑسکے نہ ایران اوراس کے
حواری مواری کچھ بگاڑیںگے کیونکہ بظاہرسب اسرائیل کے خلاف بولتے ہیں اور
اندرون خانہ سب اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں اوراس سے قریبی تعلقات رکھتے
ہیں۔اس حمام میں سب ننگے ہیں کیاایران اورکیاسعودی عر ب فاعتبروایااولی
الابصار!
غطریف صاحب
ہم آپ کے جذبات کو سمجھتے ہیں۔ لیکں بات انفرادی ہوتی تو گنجائش کی بات
ہوتی۔ لیکن جب معاملہ قوم اور امت مسلمہ کا درپیش ہے۔تو اس میں کوئی
سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ آپ نے شام کی مثال دی۔ شام میں 20 فیصد علوی شیعہ
ہیں، پندرہ فیصد عیسائی آبادی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے چھوٹے چھوٹے گروپ
کے لوگ ہیں جو مختلف مذاہب کو ماننے والے ہیں۔ بشار الاسد کا مسئلہ شیعہ
سنی کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ بلکہ بشار الاسد اور ان کی اہلیہ سنی ہی ہیں۔
وہاں کے مفتی اعظم بھی سنی ہیں۔جن کا ایک بیٹا بھی اس خانہ جنگی کی نذر
ہوچکا ہے۔ شام ایران، عراق اور لبنان کے حزب اللہ کے درمیان واقع ہے جو ایک
طرح سے شام کی حیثیت کوری ڈور کی ہے۔ اگر اسرائیل کو ہرانا ہے تو یہ اتحاد
کسی بھی حال میں ٹوٹنے نہ پائے۔ شام کی اسد حکومت کا جانا اسرائیل کے عروج
کو دعوت دینے کی مترادف ہے۔ شام کی حکومت گر جاتی تو حزب اللہ اور حماس
بہت ہی کمزور ہوجائیں گے اور اسرائیل اس کو باآسانی ختم کرسکتا ہے۔ لیکن
مسلسل رسد اور سپلائی کے لئے شام کی ضرورت ہے۔ شیعہ کے لئے ایک مسئلہ اور
بھی تھا اور وہ کافی حساس مسئلہ ہے، شام میں دس ہزار سے زائد صحابہ
وصحابیات کی قبرین ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سکینہ (رضی اللہ عنہما) کے
مقابر بھی ہیں جن پر بار بار حملہ ہوچکا ہے۔ جس طرح سلفی مکتہ فکر سےمتعلق
جنگجوئییت کو فروغ دی گئی۔ سلفیت کے بارے میں آپ تو جانتے ہیں کہ وہ تمام
مقابر جو جنت البقییع اور دیگر علاقوں میں موجود تھیں سلفیوں نے تباہ کردی
تھیں۔ اس طرح شام کے بھی تمام مقابر تباہ ہوچکے ہوتے۔ آپ کو یہ بات بھی
یاد رکھنی چاہئے آپ تو شام کی بات تو کرتے ہیں بحرین کو کیوں بھول جاتے
ہیں۔ بحرین میں 70 فیصد شیعہ آبادی ہے اور حکومت سنی بادشاہ کررہا ہے۔ اب
بات جمہوریت لانے کی اور بادشاہت اسلام میں ویسے بھی حرام ہے جس سے صرف
قومی تباہی ہی آئی ہے۔ اس لئے اس کا خاتمہ بھی امت مسلمہ کے ایجنڈے میں
ہونا چاہئے۔ برطانیہ جو اپنے آپ کو جمہوریت کی ماں کہتی ہے لیکن ان کو
خلیج فارس کے ممالک کی بادشاہت بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ اس لئے کہ وہ ان کے
مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی کوشش ہر ذی شعور
مسلمان کو کرنی چاہئے۔ جہموریت کی وجہ سے ایک صحت مند ماحول پیدا ہوتا ہے
اور اظہار کی آزادی بہت بڑی بات ہے۔ سعودی عرب نے ایران پر حج کی پابندی
لگاکر ویسے بھی بہت بڑا جرم کیا ہے۔ جس کی قیمت تو اسے چکانی ہی ہوگی۔ یمن
پر سعودی عرب مسلسل تقریبا دو برسوں سے حملہ کررہا ہے۔ یمن کا مسئلہ بھی
لگتا ہے کہ آپ کی نظر سے اوجھل ہوچکا ہے۔ یمن ایک غریب اور مفلوک الحال
عرب ملک ہے لیکن وہ لوگ جفاکش ہیں۔ ان کی نرم دلی کی تعریف خودرسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر کی ہے۔ اس غریب ملک پر بیشتر عرب
ممالک ایک اتحاد تشکیل دے کر امریکی اور برطانوی سرپرستی میں حملہ کررہے
ہیں۔ ان کا بس ایک ہی جرم ہے کہ جو گروپ صنعا پر حاوی ہیں وہ شیعہ پس منظر
رکھتے ہیں۔ اب تو حرمین شریفین کی آزادی کی بات ہونی چاہئے۔ حرمین پر آل
سعود سلفیوں نے قبضہ کررکھا ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف مسالک کے لوگ پریشانی
سے دوچار ہیں۔ ابھی تو بہت سارے مسئلے حل ہونے باقی ہیں۔ رہی بات روس کی
روس اور ایران کے درمیان مجھے لگتا ہے کہ ایک اسٹریٹیجک معاہدہ ہوچکا ہے۔
روس اور یوروپ اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے مسئلہ پر زبردست تنازعہ چل
رہا ہے۔ یوکرین کے ایک اہم علاقے کریمیا کو آزاد کراکر روس اپنے اندر ضم
کرچکا ہے۔ جس کی وجہ سے یوروپ اور امریکہ کے درمیان مسلسل تصادم کی صورت
بنی ہوئی ہے۔ یوروپ اور امریکہ نے روس پر متعدد پابندی لگارکھی ہے جس طرح
ایران پر لگارکھی ہے۔ دونوں ممالک روس اور ایران ایک مسئلہ سے دوچار ہیں۔
دونون یوروپ اور امریکہ کے زخم خوردہ ہیں۔ اس لئے لامحالہ اتحاد تو ہونا ہی
تھا۔ یہ اتحاد کچھ لو اور کچھ دو کا ہی ہوگا۔ دو یا متعدد ممالک کے
معاہدات عام طور سے اپنے اپنے ملکی مفادات پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ ان
معاہدون میں شام اور عراق کے ساتھ ساتھ اور کچھ اور اہم معاملے تو فہرست
میں ضرور ہوگا۔
No comments:
Post a Comment