Tuesday, 27 December 2016

ذرا وقت ملے تو یمن پر بھی رولیں

ذرا وقت ملے تو یمن کے لئے بھی رولیں


Aleppo-Yemen_Tears#

ظفر اقبال

گزشتہ ہفتے شام کے شہر حلب کو شام کی فوج اور ان کے اتحادیوں نے دہشت گردوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس شہر کی آزادی دہشت گردوں کے حامی ممالک امریکہ، یوروپ اور آل سعود پر بہت بھاری پڑے۔ آل سعود کے حامیان جن کی تعداد برصغیر میں وافر تعداد میں پائی جاتی ہے، گویا ان پر بجلی گرگئی ہو۔وہ مختلف ذرائع سے سینہ کوبی کرنے لگے۔ لیکن حامیان سعودی عرب اور سلفی حضرات جن کا قبلہ اور کعبہ آل سعود کی سرفرازی میں مضمر ہے ان پر ایسا لگا کہ ان کے یہاں صف ماتم بچھ گئی ہو۔ وہ لوگ ایسا کیوں نہ کریں کیونکہ آل سعود نے ان پر 80 برسوں سے کافی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ لیکن حامیان آل سعود کویہ دکھائی نہیں دیتا کہ آل سعود کے اتحاد یوروپ اور امریکہ کی مدد سے یمن جیسے غریب ملک پر تقریبا دو برسوں سے مسلسل بمباری کررہے ہیں، ان کے یہاں کسی طرح کی مدد بھی پہنچنے نہیں دی جارہی ہے۔ وہاں کے بچوں میں نقص تغذیہ کا مسئلہ سنگین حد تک بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس بے تحاشہ بمباری میں ہزاروں عورتیں اور بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں یمن کی خبریں بالکل نہیں آرہی ہیں جیسا کہ وہاں پوری طرح حالات پرامن ہوچکے ہوں اور خبریں آتی بھی ہیں تو بالکل ایک چھوٹی سی خبر کسی کونے میں ہوتی ہے۔ جس کی حیثیت محض خانہ پری کی ہوتی ہے۔
سعودی عرب یمن پربے تحاشہ بمباری کررہا ہے تاکہ وہ اپنے Puppet صدر منصور ہادی کو دوبارہ یمن کے ایوان صدر تک پہنچا سکے تاکہ یمن کو اپنی مرضی سے چلاسکے۔ سعودی عرب 26 مارچ 2015 سے صنعا پرمسلسل بمباری کررہا ہے لیکن حوثیوں کا وہ کچھ نہیں بگاڑ پائے بلکہ حوثی سعودی عرب پر غالب آچکے ہیں اب لڑائی مقبوضہ نجران، عسیر اور جیزان میں لڑی جارہی ہے۔ حوثیوں کے میزائیل طائف پر بھی گرچکے ہیں۔ ریاض پر میزائل مارنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اب اسلحوں خاص طور سے بیلسٹک میزائل میں حوثی خود کفیل ہوچکے ہیں۔ اب ان کی واپسی اور کمزور کرنے کی باتیں حوثیوں کی شکست جیسے الفاظ اب سعودی عرب اب اپنی ڈکشنری میں تلاش کریں۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی۔ یمن سے سعودی عرب کی سرحد اٹھارہ سو کلومیٹر لگتی ہے۔
یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل چلی آرہی تھی، جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعودی عرب کو پٹے (لیز) پر دے دیئے گئے۔ جس لیز کی ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب سوا دو سال قبل یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نہ ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔ اب سعودی عرب کو چاہئے کہ باہمی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے نجران ، عسیر اور جیزان کے صوبے یمن کو لوٹادے۔ اب حامیاں آل سعود اور انصاف پسند لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یمنیوں کو انصاف دلائے۔
فون:9958361526

1 comment: