Thursday, 8 December 2016

بشار الاسد کی حمایت ہم کیوں کریں؟

بشار الاسد کی حمایت ہم کیوں کریں؟

Syria_Asad#

از: ظفر اقبال

بشار الاسد کے والد حافظ الاسد جب شام کے حکمراں تھے تو1967 اور 1973 کی مشرق وسطی کی جنگ مصر اور اردن کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف لڑی تھی۔ 1967 کی جنگ میں تینوں ممالک مصر،شام اور اردن اس جنگ کا حصہ تھے جس میں تینوں کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں مصر نے سینا کا علاقے کھودیا تھا جب کہ یروشلم جو اردن کا علاقہ تھا اس پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور شام نے گولان کے پہاڑیوں کو کھودیا تھا۔ اس عبرت ناک شکست کے بعد 1973 میں مصر اور شام نے مشترکہ طور پر اسرائیل پر حملہ کردیا جس سے اسرائیل کو جانی نقصان تو بہت اٹھانا پڑا لیکں خاطر خواہ کامیابی انہیں نہیں مل سکیں۔ اس طرح مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اسرائیل کے ساتھ اپنے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرلئے ۔ مصر کو 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کرنے کے عوض سینا کے علاقے واپس کردیئے گئے۔ حافظ الاسد کا شام ایک ایسا ملک تھا جس نے اسرائیل سے معاہدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اب تک اسرائیل اور شام تکنیکی اعتبار سے حالت جنگ میں ہیں۔ شام نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جب 1979میں ایران میں امام خمینی رحمۃ اللہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب آیا اس کے بعدخلیج فارس کے تمام عرب ممالک نے عراق کو اکساکر اور مالی اور عسکری مدد کے سہارے ایران پر حملہ کرادیا۔ شام واحد عرب ملک تھا جو ایران۔ عرااق میں ایران کے ساتھ کھڑا تھااور اس نے ایسے نازک موقع پر ایران کی اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کی۔اس طرح عراق ۔ایران کے درمیان آٹھ سالہ جنگ میں اربوں ڈالروں کا نقصان اٹھانا پڑا اور طرفین کے دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ امریکہ اور یوروپی یونین اور سارے عرب ممالک کی تمام کوششوں کی پرواہ کئے بغیر شام اسرائیل کو اپنا دشمن تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن شام اسرائیل کے نخوت کے سامنے کبھی نہیں جھک سکا۔ یہ بات اسرائیل کو یہ بات ہمیشہ کھٹکتی رہی۔ اس نے بہار عر ب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے شام کو ایک محاذجنگ میں تبدیل کردیا۔ اب ایران کے لئے ایک بڑا نازک وقت تھا۔ ایران کیا کرے۔ شام میں اہل بیت کے بہت سارے مقابر اور ہزاروں صحابیوں کی قبریں ہیں جس کوو ہابی بم دھماکہ سے اڑاسکتے تھے اور شام نے جس طرح کے احسانات ایران پر کئے تھے اس کے چکانے کا وقت آگیا تھا ۔ اسرائیل کے تعلق سے شام اور ایران کا یکساں مؤقف شروع ہی سے تھا کہ وہ مقصد تھا اسرائیل کی تباہی۔ایران نے شام کی مدد سے لبنان میں حزب اللہ کو تیار کیا۔ حزب اللہ بنیادی طور سے شیعہ گوریلا گروپ ہے لیکن اس گروپ میں عیسائی بھی شامل ہیں۔ پچھلے سال حزب اللہ کا ایک عیسائی کمانڈرجس کا نام سمیر قنظار تھا جو اسرائیل کے جیلوں میں کافی عرصے مقید تھا لیکں ایک ڈیل کے ذریعہ اسرائیل کو چھوڑنا پڑا تھا جس کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے پچھلے سال ہلاک کردیا تھا۔ ایران نے حماس کو ہر طرح سے عسکری مدد دی جس کے باعث ہی وہ اسرائیل کے خلاف جنگ لڑنے کی متحمل ہوسکی جس کا ہیڈکوارٹر چند سال پیشتر تک دمشق میں ہی تھا۔ شام میں جو بھی خانہ جنگی ہورہی ہے اس کا ایک ہی خاص مقصد ہے کہ اسرائیل کو ہر حال میں محفوظ بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اسرائیل اپنی سرحد پر اردن اور مصر کی طرح اپنے تابعدار ممالک کو چاہتا ہے جس سے اسرائیل پوری طرح محفوظ ہوجائے۔سنی دنیا کا چودھری سعودی عرب کو اسرائیل سے کبھی پرابلم ہی نہیں رہی۔ لیکن اب اسرائیل کی قسمت اچھی نہیں ہے۔ اب حافظ الاسد کا بیٹا بشار الاسد کی حکومت پوری طرح محفوظ ہوچکی ہے۔ حزب اللہ اب گوریلا گروپ سے ایک پوری فوج میں تبدیل ہوگئی ہے اور حماس بھی ایک زبردست عسکری طاقت بن چکی ہے جو فی الحال غزہ پٹی میں برسراقتدار ہے۔ ایران کی فی الحال مشرق ووسطی کے چار ممالک پر حکومت چل رہی ہے۔ وہ ممالک ہیں عراق، یمن ، شام اور لبنان ۔دشمنوں کی ساری کوششیں اور ساری جنگی مشینری ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ اب انشااللہ اسرائیل اور امریکہ کے حواریوں کی شکست یقینی ہوچکی ہے۔
فون:9958361526


No comments:

Post a Comment