Monday, 27 February 2017
Friday, 24 February 2017
ایران کی ترقی سے اسرائیل دہشت میں مبتلا
ایران کی ترقی سے اسرائیل دہشت میں مبتلا
#Iran_Development_Israel_Tension
از: ظفر اقبال
اسرائیلی یعنی یہودی جو اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ذہن ترین اور متمول قوم
ہے۔ اس کی ذہانت کی تعریف ہر زمانے میں لوگوں نے کی ہے۔ آج تک دنیا میں جو
بھی پیش رفت ہوئی ہے اور ہورہی ہے اس میں ان یہودی قوم کا بہت بڑا عمل دخل
رہا ہے۔تجارت اور علم دونوں میں یہودیوں کو اعلی مقام حاصل ہے۔یہود ی
ہمیشہ اپنی ذہانت پر کبر میں مبتلا رہی ہے۔لیکں ماضی میں جب ان کی ذہانت کا
مقابلہ مسلمانوں سے ہوا، جو مقابلہ آرائی پہلی صدی ہجری سے سقوط بغداد تک
پر محیط ہے۔ وہاں وہ خود کو درماندہ محسوس کرتے ہیں۔ساری دنیا کو اپنی
ذہانت پر ہمیشہ نچانے والی یہودی قوم کا مقابلہ جب مسلمانوں سے ہوا تو وہ
حیرت زدہ رہ گئے۔ان کو تب احساس ہوا کہ دنیا میں ایسی قوم ہے جو ان کا
مقابلہ کربھی سکتی ہے اور ہمارے ہر حملے کا معقول انداز میں دفاع بھی
کرسکتی ہے۔ وہ ایرانی قوم تھی۔ وہ ایران جو جنگ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص
کی زیرقیادت فوج سے شکست سے دوچار ہوئے اور پھر پوری قوم ہی مسلمان ہوگئی۔
جو پارسی مذہب پر قائم رہنا چاہتے تو وہ پارسی اسی عہد میں ہندوستان ہجرت
کرگئے۔ ٹاٹا سنز اور مرکزی وزارت میں کپڑ وزیر محترمہ اسمرتی ایرانی وغیرہ
کا تعلق پارسی مذہب سے ہی ہے۔ اس عہد میں جتنے بھی بڑے نام ملتے ہیں جن کا
تعلق علمی پیش رفت سے ہے۔ ان میں بیشتر کا تعلق اہل فارس یعنی ایران سے رہا
ہے ۔ صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری سے طب کے امام ابوعلی سینا تک کا تعلق
ایران کی سرزمین سے رہا ہے۔ انہو ں نے اپنے علم کی بدولت اسلام کی بہت بڑی
خدمت کی۔
اب ہم موجودہ ایران کی طرف آتے ہیں ، ایران کے صدر ڈاکٹر حسن
روحانی اور وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف خود امریکہ کی یونیورسٹی سے فارغ
التحصیل ہیں۔ تیس لاکھ ایرانی اس وقت امریکہ میں موجود ہیں۔یہ ایرانی عام
طور پر علمی اور تحقیقی ادارے میں پڑھتے اور کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ
اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ یہ تو امریکہ کی حالت ہے ، یوروپ میں جرمنی، فرانس
اور برطانیہ اسی طرح یوروپ کے ستائس ممالک میں ایرانی بڑی تعداد میں بڑے
بڑے اور اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ یہ ان کی ذہانت اور تحقیقی کاوش ہے جس کی
وجہ سے دنیا میں کوئی قوم سب سے زیادہ پریشان ہے وہ اسرائیلی قوم ہے، ان کو
جس چیز پر فخر رہا ہے۔ دنیا میں واحد قوم ہے ایرانی جو اس کا معقول جواب
دے رہے اور اپنی علمی پیش رفت سے دنیا کے ایک بڑے حلقے کو اپنا پرستار
بنارہے ہیں۔ایرانی طلبہ اپنے ملک میں تو اعلی تحقیقی اداروں سے وابستہ تو
ہیں ہی ساتھ ہی ان کے طلبہ ساری دنیا کی یونیورسٹی میں بہت ہی اچھی
کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جس سے اسرائیلیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ
ایرانی انہیں بآسانی شکست سے دوچار کردیں گے،یہودی اس بات سے اچھی طرح واقف
ہیں کہ اگر دنیا میں اسلام کو شکست دینی ہے تو سب سے پہلے ایران کو اپنے
زیر اثر کرنا ضروری ہے۔ شاہ ایران رضاشاہ پہلوی تک اسرائیل نے بہت کوشش کی
کہ ایران کو اپنے دام فریب میں مبتلا رکھیں۔ اگر یہ قوم آزادانہ طور پر آگے
بڑھنے لگے تو ان کی ایک نہیں چلے گی۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1979میں ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب آیا جس کی وجہ
سے اسرائیل کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔ اسرائیل کو جس بات کا ڈر پہلے
سے تھا وہی ہونے جارہا ہے۔ اب موجودہ ایران کی علمی پیش رفت کے سامنے
اسرائیل بالکل بے بس نظر آرہا ہے۔ عنقریب دنیا جلدہیبحیثیت ایک اسٹیٹ
اسرائیل کو ختم ہوتے ہوئے دیکھے گی اور فلسطین کی ریاست جو پہلے سے موجود
تھی اب اس کو ایک نئی پہچان ملے گی۔
فون:9958361526
Tuesday, 21 February 2017
نجیب تم کہاں ہو؟
نجیب تم کہاں ہو؟
#Najeeb_Jnu
از :ظفر اقبال
نجیب جو جے این یو کے
طالب علم ہیں۔ ان کا اچانک لاپتہ ہوجانا اور مہینوں گذر گئے لیکن اب تک کسی
کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہے؟ ابتدا میں اس معاملے کے سلسلے میں
دہلی پولس نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی لیکن عدالت کے حکم کے بعد ایف آئی
آر درج کی گئی اور اس کے بعد نجیب کی تلاش شروع ہوئی۔ لیکن پولس کو اب تک
معلوم نہیں ہوسکا کہ نجیب کہاں ہے؟ نجیب زندہ بھی ہے کہ وہ مرچکا ہے۔یہ ایک
معمہ ہے۔ جو اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ اب جب کہ پورا ہندوستان ہر سطح پر اس
کو تلاش کررہا ہے اور اب دہلی پولس بھی
واقعی اس کو سنجیدگی سے تلاش بھی کررہی ہے۔ اب پولس کے لئے بھی ایک چیلنج
ہے کہ نجیب اگر زندہ ہے تو ہے وہ کہاں اور اگر وہ ماردیا گیا ہے تو اس کی
لاش کسی طرح اسے مل جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں
ہے جہاں پولس نہ پہنچ سکے۔ ہاں یہ معاملہ پاکستان میں ہوا ہوتا تو ہم کہہ
سکتے تھے کہ نجیب زندہ ہے۔ اس لئے کہ خود سابق وزیراعظم پاکستان یوسف
رضاگیلانی کا بیٹا بھی تقریبا ایک سال تک دہشت گردوں کے قبضے میں رہ کر پھر
آزاد ہوسکا۔ اسی طرح خود ایران کے ایک سفارت کار اپنی کار سے پشاورمیں
اپنے گھر سے قونصلیٹ جارہے تھے تھے لیکن اچانک غائب ہوگئے لیکن دو سال کے
وقفے کے بعد ایران کی خفیہ ایجنسی نے اپنے اس سفارت کار کو بازیات کرالیا۔
لیکن ہندوستان کی فضا اور یہاں کا ماحول دیگر ہے۔ یہاں جو سوسائٹی اور یہاں
کے غنڈوں کی جو اہلیت ہے اس سے خود پولس اچھی طرف واقف ہے کہ یہاں کوئی
بھی کسی کو اغواکرکے مہینوں تک نہیں رکھ سکتا ہے۔ یہاں تو پولس کے ذریعہ یہ
بات کہی جاتی ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ واقعی ہندوستان میں قانون
کے ہاتھ لمبے ہیں۔ دہلی پولس سنجیدگی سے نجیب کو ڈھونڈ رہی ہے لیکن مجھے
محسوس ہوتا ہے کہ نجیب کو اغواکاروں نے مار دیا ہے۔ اب پولس یا کوئی شخص اس
وقت تک اس کو زندہ تصور کرے گا جب تک اس کی لاش نہ مل جائے۔ کاش دہلی پولس
نجیب کی ماں کو اس کے بیٹے کی لاش ہی حوالے کردے۔ یہ تو پولس کر ہی سکتی
ہے۔ اگر پولس نہیں کرسکتی ہے تو اس کی اہلیت پر سوالات اٹھیں گے۔ مجھے نجیب
کی ماں کو تڑپتے ہوئے اور روتے ہوئے دیکھا نہیں جاتا ہے۔ نجیب کی ماں نے
اب تک جتنے آنسو بہائے ہیں وہ کسی بھی ذی شعور رکھنے والے افراد کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ نجیب کی ماں کو ایک مسلمان کہہ کر حکومت نظر انداز نہیں
کرسکتی۔ ماں ماں ہوتی ہے۔ چاہے کسی بھی مذاہب سے اس کا تعلق ہے ۔ حکومت
کیسے اپنی ذمہ داری سے بچ سکتی ہے؟ دہلی پولس اور مرکزی وزارت داخلہ کو اس
کا جواب دینا ہوگا۔
Monday, 20 February 2017
ٹرمپ ، ایران اور عرب ممالک
ٹرمپ ، ایران اور عرب ممالک
#Trump_Iran_Arab_countries
از :ظفر اقبال
ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے سے اسرائیل تو خوش ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عرب ممالک تو سب سے زیادہ خوش ہیں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سب اعلان کرچکے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے مؤقف کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اگر کوئی ملک ڈونالڈ ٹرمپ سے پریشان ہوسکتا ہے تو وہ ایران ہے۔ اب تمام معاہدوں کو درکنار کرتے ہوئے سرے پھرے صدر نے تو معاہدے کو توڑنے اور جنگ کرنے تک کا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ سب سے زیادہ اگر کوئی خوش ہے تو وہ عرب ممالک ہیں۔ جو نام ونہاد حرمین شریفین کے ٹھیکدار بھی کہلاتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی زیر قیادت والی اتحادی فوج مسلسل دو برسوں سے بمباری کررہا ہے۔ لیکں اب تک وہ ایک ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ ایران بھی جنگ کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ ایران یقینا پہل نہیں کرے گا۔ لیکن دفاعی جنگ ایسی ہوگی جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ انشاء اللہ، لیکن اس جنگ کے بعد موجودہ مشرق وسطی کے کئی ممالک کا جغرافیہ بھی بدل جائے گا۔ فلسطین کے ساتھ جس قدر دھوکہ ان عرب ممالک نے کیا ہے۔ اس کا قرض بھی ان عرب ممالک پر چڑھ چکا ہے۔ فلسطین کے نام پر محض دھوکہ صرف دھوکہ اور کچھ روٹی کے ٹکڑے ہی انہیں ملے ہیں۔ اگر ایران نہ ہوتا تو حماس جیسی تنظیم کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ بیت المقدس ساری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے لیکن سنی دنیا جس کی قیادت اس وقت سعودی عرب کررہا ہے۔ انہوں نے بیت المقدس کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ابھی تہران میں فلسطین پر کانفرنس ہورہی ہے۔ ساری دنیا کے مسلم نمائندے خواہ شیعہ ہو یا سنی اس میں شرکت کرنے گئے ہیں۔ مشرق وسطی کی انارکی میں فلسطین کا مسئلہ ایسا لگتا ہے کہ کہیں گم ہوگیا ہے لیکن ایران مشرق وسطی میں شام، عراق، لبنان، یمن میں سب کی مدد بھی کررہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ فلسطین کی بھرپور مدد کررہا ہے، ابھی چند مہینے قبل غزہ پٹی میں برسراقتدار حماس کے سرکاری عملے کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ کئی کئی مہینوں کی لوگوں کی تنخواہ باقی تھی لیکں ایران نے اسے چھ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم بھیجوائی تھی۔ حماس جو فلسطین کے اصل ہیرو ہیں جنہیں نے فلسطین کی لاج بچارکھی ہے۔ اس کو یہ عرب ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ایک سنی دنیا کے ایک ترک صدر ہیں جو صدر کم خلیفۃ المسلمین بننے کے زیادہ خواہ ہیں۔ ان کی سیماب صف طبیعت ایسی ہے کہ کب ان کا موڈ بدل جائے۔ کبھی ان کا مؤقف کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ عید کے موقع پر انہوں نے غزہ پٹی کے عوام کے لئے اور بچوں کے لئے کھلونے اور کچھ کھانے پینے کے اشیاء بھیجوائے تھے۔ لیکن اسرائیل سفارت خانہ بھی انقرہ بھی قائم ہے۔ بیچارے غزہ پٹی کی عوام کے گیارہ ہزار مکانات 2014 کی جنگ میں اسرائیل نے تباہ کردیا تھا لیکن ان کے مکانات اب تک نہیں بن سکے ہیں۔ اروگان اس کے لئے کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں اور سعودی عرب یہ کوشش کیوں نہیں کرتا ہے کہ اٹھارہ لاکھ کی آبادی والا غزہ پٹی کی عوام کس طرح زندگی بسر کررہے ہیں۔ بہت ہی تکلیف دہ زندگی گذار رہے ہیں۔ مصر جو اپنی سرحد بند رکھا ہے، بیمارے حماس اور فلسطین کی بیشتر آبادی سنی ہے لیکں شیعہ ایران اس کی کس قدر مدد کررہا ہے۔ یہ تاریخ میں لکھ دینے کے قابل ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب فلسطین کی آزادی کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے۔
فون: 9958361526
मुझे गर्व है कि मैं भारतीय हूँ
मुझे गर्व है कि मैं भारतीय हूँ
#I_feel_proud_I_am_Indian
जफर इकबाल
भारत ने अंतरिक्ष विज्ञान में प्रगति करते हुए वैज्ञानिक ने 104 उपग्रहों को अंतरिक्ष में भेजकर इतिहास रच दी। हमारा संबंध ऐसे देश है जिसका नागरिक होना हमारे लिए गर्व की बात है। मीर अरब को आई ठंडी हवा जहाँ से मेरा वतन वही है मेरा वतन वही है। यही वह देश है जो हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को ठंडी हवा पहुंची और भविष्य में और ठंडी हवा आएगी। मुझे लगता है कि यह ठंडी हवा विचारधारा और विचारों की है। अल्लामा इक़बाल का संबंध भी इसी मीर अरब काे आई ठंडी हवा जहां से, की नगरी से है। चाहे आर्य भट्ट या रवींद्रनाथ टैगोर या एपीजे अबदुल कलाम, शाह वलीउल्लाह मुहद्दिस देहलवी हो या मजददीद अलफसानी, तुलसीदास हो या सर सैय्यद अहमद खान या मिर्जा असदुल्लाह खां गालीब या मौलाना अल्ताफ हुसैन हाली या सैयद अमीर अली इन सभी लोगों ने भारत के विकास में और भारत में नए विचारों और उपलब्धियों से एक नई दुनिया का निर्माण किया। जिन से एक जहां ने लाभ उठाया और अपने जीवन को संवारने का काम किया। इन सभी लोगों ने दुनिया के विचारों में नई हलचल पैदा की। उन लोगों ने दुनिया की बहुत सारी थ्योरी को बदल कर रख दी। गौरतलब है कि इमाम खुमैनी रहमतुल्लाह अलैह का संबंध भी इसी भारत की नगरी से है। यानी वह मुल रुप से कश्मीरी हैं।
Sunday, 19 February 2017
लाल शाहबाज कलंदर की दरगाह खून में डुबी
लाल शाहबाज कलंदर की दरगाह खून में डुबी
Lal # shahbaz_qalander_shrine-bomb_Blast
जफर इकबाल
पाकिस्तान में दस वर्षों से अधिक समय से आतंकवादियों के खिलाफ सैन्य अभियान जारी है। लेकिन पाकिस्तानी सेना को इस ऑपरेशन का काम दिया गया है। अपनी सारी क्षमता के बावजूद और दुनिया की बेहतरीन सेनाओं में शुमार होने वाली सेना आतंकवादियों को खत्म करने में नाकाम रही। हर कुछ दिनों के बाद एक नया सिलसिला शुरू हो जाता है। ऐसा लगता है कि पाकिस्तान एक परमाणु देश न हो बल्कि कोई Banana State हो। जिसे हर कोई आसानी से निशाना बना लेता है। दस वर्षों से अधिक अरसे से पाकिस्तानी सेना के कई ऑपरेशन के बावजूद कोई पर्याप्त लाभ नहीं मिल सकी। दुनिया की कोई भी सेना का दस्ता कोई अभियान शुरू करता है तो अगर महीनीों में न सही लेकीन एक दो साल की अवधि में जरूर सफल हो जाती है। लेकिन पाकिस्तान का मामला पूरी तरह अलग है। पाकिस्तान की असली समस्या यह है कि वह अपने दुश्मन की पहचान ही नहीं कर सका। पाकिस्तान की सरकार और सेना जो खुद एक समानांतर सरकार चलाती है उसे पता ही नहीं है उसका दुश्मन कौन है। हम आपको बताते हैं कि असल मामला क्या है। सबसे पहले हम पाकिस्तान के दुश्मनों की सूची तय करते हैं जो क्रमश मोसाद, सीआईए और एमआई .6 आदि हैं, हम जब और हर संवेदनशील व्यक्ति उनके प्रदर्शन का निरीक्षण करता है तो उस पर यह बात प्रकट होती है कि इन सभी उपरोक्त एजेंसियों का एक विशेष लक्ष्य होता है। यानी वे विशेष दुश्मन पर निशाना बांधकर ही हमला करते है, आम जगहों पर हमला करना जिससे केवल आम आदमी मारे जाते है, यह सभी एजेंसियों की कोई परंपरा नहीं पहले कभी थी और न अब है। अाम आबादी को लक्ष्य बनाकर हमला करना ही चरमपंथी समूह का काम हैं जिन्हें सऊदी अरब, संयुक्त अरब अमीरात और कतर जैसे देश फंडिंग कर रहे हैं। इन सल्फ़यों के निकट शिया और सूफी और बरेलवी काफ़िर हैं। उनके आम लोगों का मानना कि सभी लाेग काफिर हैं। जिन्हें मारना अचछा काम है। उनके बड़े लोग निजी महफील में खुलकर शिया, सूफी और बरेलवी को काफिर करार देते हैं बल्कि देवबंदी को भी काफ़िर करार देते हैं। अब देवबंदी से सल्फ़यों काे बहुत काम लेने हैं इसलिए दीबंदीों काे इस श्रेणी में नहीं रख रहे हैं। देवबंदी विचारधारा के लोग विशेष रूप से पाकिस्तान के देवबंदी विचारधारा के लोग सल्फ़यों के फ़रेब में आ चुके हैं। पाकिस्तान में हर हमले या तो शिया पर होता है या बरेलवी या सूफियों पर हो रहा है। इसके पीछे प्रेरणा देने वाले सऊदी अरब, संयुक्त अरब अमीरात और कतर है, जब तक पाकिस्तान अपने दुश्मन को पहचान नही पाता तब तक वे शवों को उठाता रहेगा, अभी तक आम लोगों की मौत बारह चौदह वर्षों में एक लाख हो गई है और पंद्रह हजार से अधिक सैनिक मारे जा चुके हैं और बीसियों हजार सैनिक अपाहिज हो चुके हैं। उन्हें तब यह बात समझ में आएगी जब पाकिस्तान बहुत कुछ खो चुका होगा।
फोन: 9958361526
Friday, 17 February 2017
لعل شہباز قلندر کی درگاہ خون میں نہائی
لعل شہباز قلندر کی درگاہ خون میں نہائی
Lal#shahbaz_qalander_shrine-bomb_Blast
از:ظفر اقبال
پاکستان میں دس برسوں سے زائد عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے۔ لیکن پاکستانی فوج کو اس آپریشن کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اپنی تمام تر اہلیت کے باوجود اور دنیا کی بہتریں فوجوں میں شمار ہونے والی فوج ان دہشت گردوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ۔ ہر کچھ دنوں کے بعد ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک نیوکلیائی ملک نہ ہو بلکہ کوئی Banana Stateہو۔ جس کو ہر ایرا غیرا آسانی سے نشانہ بنالیتا ہے۔ دس برسوں سے زائد عرصوں سے پاکستانی آرمی بہت سارے آپریشن کرنے کے باوجود بشمول آپریشن ضرب عضب کے باوجود کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں حاصل کرسکی۔ دنیا کی کوئی بھی فوج کا دستہ کوئی آپریشن شروع کرتا ہے تو اگر مہینیوں میں نہ سہی لیکں ایک دو سال کے عرصے میں ضرور کامیاب ہوجاتی ہے۔ لیکن پاکستان کا معاملہ بالکل دیگر ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے دشمن کی شناخت ہی نہیں کرسکا ہے۔پاکستان کی حکومت اور فوج جو خود ایک متوازی حکومت چلاتی ہے اسے معلوم ہی نہیں ہے اس کا دشمن کون ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ سب سے پہلے ہم پاکستان کے دشمنوں کی فہرست طے کرتے ہیں جو بالترتیب موساد، سی آئی اے اور ایم آئی۔6 وغیرہ ہیں،ہم جب اور ہر ذی شعور شخص ان کی کارکردگی کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ ان تمام مذکورہ بالا ایجنسیوں کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ یعنی وہ خاص دشمن پر نشانہ باندھ کر ہی حملہ کرتا ہے، عام جگہوں پر حملہ کرنا جس سے صرف عام آدمی کی جانیں ضائع ہوتی ہوں، یہ تمام ایجنسیوں کی کوئی روایت نہ پہلے کبھی تھی اور نہ اب ہے۔ خالص عام انسانی آبادی کو ہدف بناکر حملہ کرنا صرف تکفیری گروپ کررہے ہیں جن کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک فنڈنگ کررہے ہیں۔ ان سلفیوں کی نزدیک شیعہ اور صوفی اور بریلوی کافر ہیں۔ ان کے عام افراد تو اعلانیہ ان تمام لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ جن کو مارنا احسن کام ہے۔ ان کے بڑے لوگ نجی محفلوں میں کھل کر شیعہ ، صوفی اور بریلوی کو کافر قرار دیتے ہیں بلکہ دیوبندی کو بھی کافر قرار دیتے ہیں۔ اب دیوبندی سے سلفیوں کو ابھی بہت کام لینے ہیں اس لئے دیوبندیوں کر اس زمرے میں نہیں رکھ رہے ہیں۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے افراد خاص طور سے پاکستان کے دیوبندی مکتب فکر کے لوگ سلفیوں کے فریب میں آچکے ہیں۔ پاکستان میں ہر حملہ یا تو شیعہ پر ہوتا ہے یا بریلوی یا صوفیوں پر ہورہا ہے۔ اس کے پس پردہ محرک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر ہے، جب تک پاکستان اپنے دشمن کی شناخت کرکے کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تب تک وہ لاشوں کو اٹھاتا رہے، ابھی تک عام لوگوں کی موت ان بارہ چودہ برسوں میں ایک لاکھ ہوگئی ہے اور پندرہ ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور بیسیوں ہزار فوجی اپاہج ہوچکے ہیں۔ ان کو اس وقت یہ بات سمجھ میں آئے گی جب پاکستان بہت کچھ کھو چکا ہوگا۔
فون:9958361526
Thursday, 16 February 2017
مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستانی ہوں
مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستانی ہوں
India#satellite_ISRO
از : ظفر اقبال
ہندوستان نے خلائی سائنس میں پیش رفت کرتے ہوئے سائنس داں نے 104 سیٹلائٹس کو خلا میں بھیج کر تاریخ رقم کردی۔ ہمارا تعلق ایسے ملک سے ہے جس کا شہری ہونا ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔ میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے، میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۔ یہی وہ ملک ہے جس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھنڈی ہوا پہنچی اور مستقبل میں اور ٹھنڈی ہوا آئے گی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹھنڈی ہوا افکار کی اور خیالات کی ہے۔ علامہ اقبال کا تعلق بھی اسی میر عربﷺ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے، کی نگری سے ہے۔، چاہے آریہ بھٹ ہو یا رابندر ناتھ ٹیگور یا اے پی جے عبداالکلام، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہو یا مولانا سید ابوالاعلی مودودی، تلسی داس ہو یا سرسید احمد خان یا مرزا اسد اللہ خان غالب یا مولانا الطاف حسین حالی یا سید امیر علی ان تمام افراد نے ہندوستان کی ترقی میں اور ہندوستان میں نئے خیالات اور کارناموں سے ایک نئی دنیا تعمیر کی۔ جن سے ایک جہاں نے فائدہ اٹھایا اور اپنی زندگی کو سنوارنے کا کام کیا۔ ان تمام لوگوں نے دنیا کے افکار میں نئی ہلچل پیدا کی۔ ان لوگوں نے دنیا کی بہت ساری تھیوری کو بدل کر رکھ دی۔ واضح رہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق بھی اسی ہندوستان کی نگری سے ہے۔ یعنی وہ کشمیر النسل ہیں۔
Monday, 13 February 2017
مولانااشرف علی تھانوی ’’بہشتی زیور‘‘ کی روشنی میں
مولانااشرف علی تھانوی ’’بہشتی زیور‘‘ کی روشنی میں
Bahishti_zewar_Ashraf_ali_Thanvi#
از :ظفر اقبال
مولانا اشرف علی تھانوی جن کی پیدائش 1863میں اور وفات 1943میں ہوئی،
محتاج تعارف نہیں ہیں۔ ان کے افکار وخیالات سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں
برصغیر میں پائے جاتے ہیں۔دیوبندی مکتہ فکر سے وابستہ افراد میں ان کا نام
نمایاں ہے۔انہوں نے بہت ساری کتابیں تحریر کیں اور ترجمہ قرآن ان کا اہم
کام ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی سب اہم کتاب جو انہوں نے خاص طور سے
خواتین کو سامنے رکھ کر لکھی وہ کتاب ’’بہشتی زیور ‘‘ ہے۔ اس بہشتی زیور سے
کم از کم 80برس لوگوں نے خوب خوب استفادہ کیا۔ ان کی اہمیت غیر معمولی ہے۔
انہوں نے بہشتی زیور میں خواتین کے تمام فقہی مسائل کے ساتھ کھانا بنانے
کا طریقہ اور سلائی کڑھائی کے طریقے بھی انہوں نے اس کتاب میں تحریر کی
ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت دوگنی ہوجاتی ہے۔ لیکن آج کم از کم دس
پندرہ برسوں سے مسلمانوں میں تعلیم کے تعلق سے بیداری زیادہ آئی ہے۔ مسلم
خاندان کی لڑکیاں اسکول اور کالج جانے لگی ہیں اور یہ چیز بہت ہی خوش آئند
ہے۔ جس کی وجہ سے ’’بہشتی زیور‘‘ کی معنویت تھوڑ ی کم ہوگئی ہے۔ کچھ خواتین
جو زیادہ پڑھی لکھی ہیں وہ اب ’’بہشتی زیور‘‘ کی معنویت پر اعتراض کرتی
ہیں۔ ان پڑھی لکھی خواتین سے میرا کہنا ہے کہ آپ کا اعتراض بہشتی زیور‘‘ پر
بیجا ہے وہ اس لئے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کا تعلق جس عہد سے ہے ۔ اس
عہد میں ہندوستان میں خواندگی کی سطح بہت ہی کم تھی۔ ہندوستان جب آزاد ہوا
تھا اس وقت ہندوستان میں خواندگی کی شرح محض تیرہ فیصد تھی۔ اس سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ ان تیرہ فیصد ہندوستانیوں میں مسلمانوں کی فیصد کتنی
ہوگی۔ یعنی ہم اس اعدادوشمار کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں
مسلمانوں کے درمیان خواندگی ’’بہشتی زیور‘‘ کی تحریر کے وقت بمشکل تین سے
چار فیصد رہے گی اور ان میں خواتین کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔
اس طرح کے حالات میں مولانا نے ایک ایسی جامع کتاب تحریر کی کہ کوئی بھی
اردو زبان سے آشنا خاتون محلوں کی عورتوں کو اکٹھا کرکے ان کو مسئلہ ومسائل
پڑھ کر سمجھاتی تھیں۔ آج سے بیس پچیس برس قبل تک محلے کی خواتین کی ہفتے
یا مہینے میں ایک دو پروگرام اس طرح کے ضرور ہوتے تھے جس میں ’’بہشتی
زیور‘‘ اور ’’سیدہ کا لال‘‘ جیسی کتابیں اجتماعی طور پر کوئی پڑھی لکھی
خاتون ان ناخواندہ خواتین کے درمیان پڑھتی تھیں جس کی وجہ سے ان ناخواندہ
خاتون بہت سارے مسئلہ ومسائل سے واقف ہوجاتی تھیں اور وہ کھل کر خواتین کے
درمیان بہت سارے مسئلے پوچھتی تھیں۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اب تعلیمی
بیدار ی نے تمام پرانی رسم وروایات کا خاتمہ کرکے رکھ دیا ہے۔ زمانہ جس طرح
آگے بڑھے گا اسی طرح بہت سارے طریقہ کار ٹوٹ جائیں گے۔ یہ ٹوٹنا خوش آئند
ہے۔ اس لئے اب زیادہ تر خواتین محتاج نہیں رہیں اب تو اردو کے ساتھ ساتھ
ہندی زبان میں بھی بہت ساری کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ہندی
جاننے والی خواتین اب مسئلہ ومسائل کی کتابیں بہت ہی احسن طریقہ سے پڑھ رہی
ہیں اور سمجھ بھی رہی ہیں۔ انگریزی زبان میں تو پہلے سے ہی بہت ساری
کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’بہشتی زیور‘‘ ایک
بہت ہی اہم کتاب ہے لیکن رفتار زمانہ کے اعتبار سے اس کتاب میں ٹھہراؤ
اآگیا ہے اور اب بہت ساری نئی نئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں جس سے آپ بہت کچھ
استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنے زمانے کے اعتبار سے بہشتی زیور نے جو خدمات
انجام دی ہیں۔ اس کا اجر انہیں صرف خدائے واحد لاشریک ہی دے سکتا ہے۔ واضح
رہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ مسلم لیگ کے حامی تھے اور
پاکستان کی تشکیل میں ان کا بھی نام نمایاں رہا ہے۔
فون: 9958361526
Saturday, 11 February 2017
سعودی عرب نے حرمین شریفین کو امریکی اور اسرائیلی تحویل میں دے دیا ہے
سعودی عرب نے حرمین شریفین کو امریکی اور اسرائیلی تحویل میں دے دیا ہے
#Saudi_USA-OIC-Harmain_Security
از: ظفر اقبال
آج 11 فروری 2017 کے العربیہ (اردو) میں یہ خبر جو انہیں کا چینل اور ویب سائٹ نیوز پورٹل بھی ہے۔ اس میں یہ خبر بہت ہی نمایاں طور پر شائع کی گئیں ہیں بلکہ متعدد تصاویر بھی چسپاں کی گئیں ہیں۔ جن تصاویر میں سعودی عرب کے ولی عہد اپنی خدمات کے عوض امریکہ کی انٹلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے ڈائرکٹر کے ہاتھوں اپنی خدمات کے صلے میں ایوارڈ وصول کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن نائف بن عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا امریکہ کے ساتھ تزویراتی تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک امریکہ اور سعودی عرب کی تقدیریں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ ان کی سیکورٹی ہماری سیکورٹی ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں۔ حرمین کے پاسبان ہمارے نہیں بلکہ وہ باطل کا حصہ بن چکے ہیں۔ حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے۔ اب تو سعودی عرب اعلانیہ اپنی خباثت کے ساتھ منظر عام آچکا ہے۔ اب امریکی، اسرائیلی اور سعودی دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔
امریکہ نے سعودی عرب کو یہ یقین دہانی کرادی ہے کہ جس طرح اسرائیل کی سیکورٹی اہم ہے اسی طرح سعودی عرب کی سیکورٹی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اگر آپ کے خلاف کسی طرح کی کوئی فوجی مہم جوئی ہوتی ہے تو ہم پوری طرح سے آپ کا دفاع کریں گے۔آپ کو یمن کے خلاف جنگ میں ہرطرح کے اسلحے اور فوجی معاونت فراہم کریں گے اور ہدف کا تعین کرنے میں بھی آپ کی مدد کریں گے۔ قرآن میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ باطل اس وقت آپ سے راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کی مکمل طور سے پیروی نہ کریں۔ اگر کوئی اور مسلم ملک امریکہ کے زیر عاطفت ہوتا تو درگزر کا پہلو نکل سکتا تھا لیکن سعودی عرب جہاں حرمین بھی واقع ہے۔ ان کے حکمراں اگر باطل سے ہاتھ ملالیں۔ یہ چیز امت مسلمہ کو ہرگز قبول نہیں ہے۔ حرمین شریفین ہمارے لئے سرخ لکیر ہے۔ اس کی سیکورٹی کم از کم امریکی اور اسرائیلی کریں ہمیں یہ قبول نہیں ہے۔ اسرائیل کا نام میں اس لئے لے رہا ہوں کہ تمام اسرائیلی کے پاس امریکی پاسپورٹ بھی ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں اپنے ملک کا پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں امریکی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے اب کم از کم سعودی عرب کا حکمراں ٹولہ حرمین شریفین کے انتظامات سے دستبردار ہوجائے۔ حرمین کا منیجمنٹ تنظیم اسلامی کانفرنس (او ٓآئی سی) سنبھالے۔ یہی چیز امت مسلمہ کے لئے بہتر ہے۔ اگر سعودی عرب اس کے لئے راضی نہیں ہوتا ہے تو امت مسلمہ کو چاہئے کہ آل سعود سے حرمین شریفین کی سیکورٹی کے انتظامات بزور طاقت چھین لیں اور سعودی عرب میں الیکشن کرائے جائیں اور وہاں کی عوام ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں وہ کس طرح کی حکومت چاہتے ہیں۔
اس اسٹریٹیجک تعاون کے تعلق سے ایک تاریخی مثال کے ذریعہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں۔ جب حضرت علی(رض) اور حضرت معاویہ (رض)کے درمیان خلافت کے تعلق سے جنگ ہونے لگیں تو اس دوران قیصر روم نے حضرت معاویہ (رض)کے پاس اپنا سفیر بھیجا اور یہ پیشکش کی کہ میں آپ کی حضرت علی (رض)کے خلاف ہونے والی جنگ میں فوجی مدد کرسکتا ہوں لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہلابھیجا کہ اگر تم نے حضرت علی (رض)کے خلاف حملہ کرنے کوشش کی تو ہم دونوں کے درمیان دشمنی کے باوجود ،میں حضرت علی (رض)کی جانب سے تم سے جنگ لڑوں گا۔یہ ہوتی ہے حمیت اور امت مسلمہ کے تعلق سے باہمی اخوت۔ دشمنی کے باوجود بھی جب بات مسلمان کی آتی ہے تو وہ کسی بھی صورت میں باطل کا ساتھ اور حمایت لینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ان عربوں کے عقلوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ ان عرب حکمرانوں کی تقدیر بھی بہت جلد اسرائیل کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ان شاء اللہ۔
Friday, 10 February 2017
سید امیر علی
سید امیر علی
syed#amir_aliاز:ظفر اقبال
سید امیر علی جن کی پیدائش 1849میں کٹک (اڑیسہ) میں ہوئی اور وفات 1928میں سسکس(برطانیہ) میں ہوئی۔ انہوں نے غیر معمولی کارنامہ انجام دیا تھا۔ سید امیر علی کا تمام علمی سرمایہ انگریزی میں ہے۔ اس لئے اردو دنیا ان سے کم ہی واقفیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جو علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس پر امت مسلمہ بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔ ان کا شمار اس عہد کے اعلی مصنفوں میں ہوتا تھا اور آج بھی ان کی کتاب سند کا درجہ رکھتی ہے۔
انہو ں نے کلکتہ یونیورسٹی سے 1867 میں گریجویشن کیا اور 1868 میں تاریخ میں ایم اے آنرس کیا۔ اسی کے ساتھ 1869 میں ایل ایل بی بھی کیا اور انہوں نے اسی سال سے کلکتہ میں پریکٹس کا آغاز بھی کردیا۔
سید امیر علی کا 1873میں کلکتہ کے پریسیڈنسی کالج میں اسلامک لا پر لیکچرر دینے کے لئے ان کا انتخاب کیا گیا۔ انہوں نے 1877 میں سینٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔اس ایسوسی ایشن کے بینر تلے انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بالیدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کی وجہ سے مسلم دنیامیں سیاست کے تئیں رغبت پیدا ہوئی۔1890 میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج بنائے گئے۔ ہندوستان میں پرسنل لا آف محمڈن انہی کا بنایا ہوا قانون ہے۔ ان کی کتاب پرسنل لا آف محمڈن 1880 میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب اسپرٹ آف اسلام ان کی دوسری تصنیف ہے، جو رسول اللہ کی حیات طیبہ ہے، جس سیرت کے اندر انہوں نے اسلام کے تمام شعبوں کو بہت ہی احسن طریقے سے احاطہ کیا۔جو 1891 میں شائع ہوئی، جو متعدد زبانوں میں شائع ہوچکی ہے۔
ان کی تیسری کتاب Ethics of Islam جو 1893 میں شائع ہوئی، ان کی چوتھی کتاب Islamجو 1906 میں شائع ہوئی، The Legal Position of Women in Islam یہ ان کی چوتھی کتاب جو 1912میں شائع ہوئی، ان کی سب سے زیادہ مشہور کتاب A Short History of Saracen ہے، جو 1898 میں شائع ہوئی، یہ کتاب آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے، جو تاریخ کی بہت ہی اہم کتاب ہے جو تاریخ،حضرت آدم علیہ اسلام سے شروع ہوتی ہے اور سقوط بغداد پر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں ہونے کے باوجود جگہ جگہ عربی کے الفاظ آپ کو اس کتاب میں ملیں گے۔
واقعی ہم اپنے اس قدر مشہور مصنف کے نام سے واقف تک نہیں ہیں لیکں ایک طبقہ ان کے علم سے مسلسل مستفید ہورہا ہے اور ہم اپنی تنگ گلیوں میں جی رہے ہیں۔ ان کا شمار عالم اسلام کے بڑے اسلامک اسکالر میں ہوتا ہے۔علامہ اقبال سے بھی ان کے گہرے تعلقات تھے۔ علامہ اقبال جب برطانیہ میں زیر تعلیم تھے تو سید امیر علی برطانیہ میں مسلم لیگ کے صدر تھے اور اقبال سکریٹری تھے۔ واضح رہے کہ سید امیر علی 1906 میں تشکیل کردہ مسلم لیگ کے بنیادی ارکان میں سے بھی ہیں۔
فون: 9958361526
Thursday, 9 February 2017
قائد اعظم محمد علی جناح پر بے تکے الزامات
قائد اعظم محمد علی جناح پر بے تکے الزامات
Muhammad_Ali-Jinnah#
از: ظفر اقبال
قائد اعظم محمد علی جناح (1948-1869) کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ انہی
کی قیادت میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جن کی کامیاب قیادت سے کوئی انکار
نہیں کرسکتا۔ محمد علی جناح مسلم پس منظر رکھتے ہیں اور وہ بھی خوجہ شیعہ
پس منظر، لیکن حریف نے ان کے کیریکٹر کو مجروح کرنے کی بے پناہ کوشش کی۔
بلکہ ہندوستان میں ان کے تعلق سے بہت ساری باتیں پھیلائی گئیں جیسے کہ وہ
شراب پیتے تھے اور سور کا گوشت بھی کھاتے تھے اور ان کے تعلق سے یہ باتیں
بھی بہت ہی شدومد سے پھیلائی گئیں کہ اسلام کے تعلق سے ان کی معلومات بہت
ہی سطحی تھی بلکہ ان کو نماز بھی پڑھنے نہیں آتی تھی۔ لیکن ان کی قسمت
دیکھئے کہ اتنے بڑے ملک کے بابائے قوم کہلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم اپنے
حریف کی زبردست مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن کسی کی کردار کشی بدیانتی
پر مبنی ہویہ سراسر اخلاقی سے گری ہوئی بات ہے جس سے ہمیں حتی الامکان
پرہیز کرنا چاہئے۔محمد علی جناح پر میں کئی مہینے سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا
لیکن کسی وجہ سے نہیں لکھ پارہا تھا۔ لیکن چند مہینہ قبل نیشنل ٹی ویژن
چینل پر ہندوستان کی قدیم سیاسی پارٹی کے ترجمان جو سیاست داں سے پہلے
صحافی اور پھر سفارت کار بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے جب مباحثے میں قائد اعظم
محمد علی جناح کے تعلق سے مذکورہ بالا باتیں کیں تو مجھے نہیں رہا گیا۔ اس
طرح کی باتیں جس کے تعلق سے کوئی پختہ ثبوت بھی نہ ہو، آزادی کے بعد کسی
نے ان کے تعلق سے یہ باتیں بدنیتی سے پھیلادیا ہو اور ہم لوگ اسے بالکل
آمنا وصاقنا کے مصداق قبول بھی کرلیتے ہیں۔ یہ سراسر انصاف کے تقاضے کی نفی
کرتی ہے، جس سے ہمیں حتی الامکان گریز کرنا چاہئے۔
محمد علی جناح کا تعلق گجرات کے خوشحال تجارتی گھرانے سے تھاجو کراچی میں آکر بس گیاتھا۔ اس لئے ان کی پیدائش کراچی میں ہوئی۔اس عہد میں بلکہ دس پندرہ سال قبل تک عام مسلمان گھرانوں کے بچے سب سے پہلے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پہلے اگر کوئی زمیندار اور تجارت سے وابستہ گھراناہوتا تھا تو ایک مولوی صاحب یا ٹیچر ان کے گھر مستقل ہوتے تھے جو گھروں کے بچوں اور بچیوں کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی دیتے تھے۔ اس کے بعد ہی بچے اسکول جاتے تھے۔یہ باتیں برصغیر میں عام تھیں۔ محمد علی جناح اسی معاشرے کے پروردہ تھے ۔ بعد میں انہوں نے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کی۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں وہ کلی طور سے اسلام کے تمام رسوم سے واقف تھے۔بلکہ سندھ کے مدرسۃ الاسلام میں انہوں نے اپنی پڑھائی کی اس کے بعد وہ کرسچن مشینری سوسائٹی اسکول میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے بمبئی سے میٹرک کیا۔برطانیہ سے انہو ں نے بیرسٹری کی۔ وہ بہت ہی ذہین تھے۔ بلکہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اپنی وکالت کے دوران کوئی کیس کبھی نہیں ہارے تھے۔ وہ برطانوی راج کے چند بڑے وکیلوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ہندوستان کے ہر وکیل کو ویسے بھی ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے عائلی اور طلاق کے مسئائل کے تعلق سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس طرح ہم ان دلیلوں کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسلام سے بہت زیادہ واقف تھے۔ جب ان کی دوستی علامہ اقبال جیسی شخصیت سے ہو تو اسلام کے تعلق سے ان کی معلومات سے کوئی بے وقوف ہی انکار کرسکتا ہے۔علامہ اقبال کو 1936میں ہی احساس ہوگیا تھا کہ اب ان کے چل چلاؤ کا وقت ہے ، وہ اب تک ایک ہی آنکھ سے دنیا دیکھ رہے تھے لیکن 1938آتے آتے ان کی واحد بچی ہوئی آنکھ کی روشنی بہت تک تقریبا ختم ہوگئی۔ اس لئے انہوں نے اس مسلم اسٹیٹ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اس کی باگ ڈور محمد علی جناح کو سپرد کرنا چاہتے تھے، علامہ اقبال کا مسٹر راغب احسن کے نام 23ستمبر 1937کو تحریر کردہ ایک خط میں یہ کہنا کہ ’’اس وقت مسلمانوں کے لئے یہی راہ عمل کھلی ہے کہ وہ مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی تنظیم کریں۔ مجھ کو ان کی دیانت پر مکمل اعتماد ہے۔‘‘ علامہ اقبال کا انتخاب کم از کم اتنی لایعنی تو ہرگز نہیں ہوسکتی جو مسلمانوں کا لیڈر ہو لیکن اسلام سے کچھ واقفیت نہ رکھتا ہو، ہاں ان کی لائف اسٹائل ضرور انگریزوں جیسی تھی۔ ہوسکتا کہ ان کا انگریزی لائف اسٹائل اپنانا بھی کسی حکمت عملی کا حصہ ہو۔ وکیل تو بہر حال وکیل ہوتا ہے جو جنگ کبھی نہیں ہارنا چاہتا۔اس خط کا عکس آپ کی نذر کررہا ہوں تاکہ سند رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے ۔
فون: 9958361526
فون: 9958361526
Monday, 6 February 2017
حافظ شیرازی کا پروردہ جرمن مفکر گوئٹے
حافظ شیرازی کا پروردہ جرمن مفکر گوئٹے
اقبال کی مشہور زمانہ کتاب ’’پیام مشرق‘‘ کی تخلیق کا محرک گوئٹے کا ’’دیوان مغرب‘‘
از :ظفر اقبال
مشہور جرمن مفکر گوئٹے جن کی پیدائش 22اگست 1749کو جرمنی کے مشہور شہر فرنکفرٹ میں ہوئی اور وفات 22مارچ 1832میں ہوئی۔ جب 1812میں خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان کا مکمل ترجمہ جرمن زبان میں شائع ہو ا۔ جس کی اشاعت کے بعد جرمنی میں مشرقی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ حافظ شیرازی کی شاعری نے گوئٹے کو غیر معمولی متاثر کیا۔ گوئٹے نے ’’مغربی دیوان‘‘کے نام سے اپنی کتاب لکھی۔ گوئٹے کی سوانح حیات لکھنے والا مصنف کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہر بات میں اسے حافظ شیرازی کامثل پاتے ہیں۔‘‘
گوئٹے حافظ شیرازی کے علاوہ شیخ عطار اور شیخ سعدی کا بھی ممنون احسان مند تھا۔ جن کے افکار نے گوئٹے کے ذہن کو بالیدگی عطا کرنے میں زبردست کارہائے نمایاں انجام دیا۔ اقبال کی مشہور زمانہ کتاب ’’پیام مشرق‘‘ دراصل گوئٹے کی مشہور زمانہ کتاب ’’دیوان مغرب‘‘ کا جواب ہے۔ گوئٹے نے مشرقی ادب سے استفادہ کرنے کے بعد مغربی دیوان لکھا تھا۔ یہ ایک طرح سے گوئٹے نے اہل مشرق کو نذرانہ عقیدت پیش کیا تھا۔ جس مغربی دیوان کے نسبت ہائنا لکھتا ہے کہ ’’یہ گلدستہ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا تھا۔‘‘ اس نذرانہ عقیدت کا جواب علامہ اقبال جیسی عبقری شخصیت ہی دے سکتی تھی۔ جو انہوں نے 1923میں ’’پیام مشرق‘‘ لکھ کر اہل مشرق کی جانب سے اہل مغرب کو پیش کیا۔ مغرب جس طرح مادیت پرستی اور الحاد میں غرق تھا ، اس کی خرابی کو انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اجاگر کیا۔اقبال نے مغرب میں رہ کر ہر چیز کا خود قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ مغرب کی خرابی ان کے سامنے بالکل واضح انداز میں موجود تھی۔اس چیز نے ان کو بے چین کردیا۔ اقبال کی خواہش کی تھی کہ مغرب ہر چیز کو مادی زاویہ سے نہ دیکھے بلکہ وہ مشرق سے روحانیت بھی سیکھے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو عدم علم کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اب تک جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس کا کریڈٹ وہ مغرب کو دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مشرق تو بالکل تہی دامن ابتدا سے ہی رہا ہے۔ لیکن ان جیسے سطحی معلومات رکھنے والوں کا جواب دینا بھی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مغربی مفکرین نے جو بھی علمی کارنامہ انجام دیا ہے اس کے پس پشت یقیناًمشرق علوم بھی تھے جس سے مغرب کے دانشوروں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے جس کی وجہ سے ہی وہ بام عروج پر پہنچ سکے۔
فون: 9958361526
Saturday, 4 February 2017
بانو قدسیہ ہمارے درمیاں نہیں رہیں
بانو قدسیہ ہمارے درمیاں نہیں رہیں
#Banu_qudsia_death
بانو قدسیہ ہمارے درمیان نہیں رہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ انہیں جنت الفردوس کے اعلی مقام پر فائز کرے۔ ان کی پیدائش 1928 میں ہوئی اور وفات 4 فروری2017 کو ہوئی۔ انہوں نے برصغیر جیسے پسماندہ سوسائٹی جہاں خواتیں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں اپنے قلم سے جو شمع روشن کیا اور خواتین کو اعلی مقام دلانے میں جو مدد کی اور خود کو ثابت کرکے دکھایا کہ اگر خواتین کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے تو ہر وہ مقام حاصل کرسکتی ہے جس پر اب تک مردوں کا غلبہ رہا ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ بچوں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے لیکن عملا عالم اسلام میں اب تک جو ہوتا رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ اب تک پہلی درسگاہ علم سے خالی ہی رہی ہے۔ جو اسلام کی روح کے منافی ہے۔ انہوں نے اس بیڑیوں کو توڑ کر جو اعلی اقدار اور مثال قائم کی جس کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بانو قدسیہ کے والدین کے لئے بھی دعا گو ہیں جنہوں نے اپنی بچی کو اعلی تعلیم سے آراستہ کرنے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا اللہ انہیں آخرت میں اجر سے نوازے۔
Thursday, 2 February 2017
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند
AMU_Deoband#
از:ظفر اقبال
(جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری اور وچارک (دانشور) عبدالحمید نعمانی کی جانب سے مولانا عبیدا للہ سندھی کے دعوی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی. اس چیز نے مجھے مضطرب کردیا۔ وہ مولانا عبیداللہ سندھی جو غلام ہندوستان میں چند آزاد مومن تھا۔وہ بھی تقریبا سواسو سال بعد بغیر کسی دلیل کے، یہ چیز تحقیقی دیانت داری کے خلاف بھی ہے۔ مجھے ان سے ایسی امید نہیں تھی۔ واضح رہے کہ مولانا عبیدا للہ سندھی مجوزہ ہندوستان کی جلاوطن آزاد حکومت میں وزیر خارجہ بھی تھے۔ میں نے اس مضمون میں ، جو دراصل میں نے اپنی پہلی کتاب ’’اقبال کے سیاسی افکار‘‘ سے اخذ کیاہے۔ میری کتاب کو آپ ریختہ آن لائن کے ذریعہ پڑھ سکتے ہیں میں اپنی کتاب میں شیخ محمد اکرام کی مشہور زمانہ کتاب ’’موج کوثر‘‘ سے اقتباس لیا ہے۔ واضح رہے کہ شیخ محمد اکرام سابق انڈین سول سروس( آئی سی ایس) آفیسر بھی تھے۔)
دیوبند تحریک برصغیر کی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ علماء کی جماعتوں نے جس طرح ہندوستان میں دینی علوم کو بچانے کی کوششیں کی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی جو دارالعلوم کے بانی ہیں۔ دارالعلوم کے فارغین انہیں کی نسبت سے قاسمی کہلاتے ہیں۔دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ۳۰ مئی ۱۸۶۷ء میں ڈالی گئی تھی۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی مولانا مملوک علی نانوتوی کے جو دہلی کالج کے مدرس ہوگئے تھے شاگرد تھے۔ان کے اہم شاگردوں میں سرسید احمد خاں علی گڑھ کالج کے بانی، رشید احمد گنگوہی سرپرست دارالعلوم دیوبند اور مولانا احمد علی محدث سہارنپور اور ان کے صاحبزادے مولانا محمد یعقوب نانوتوی جیسے صاحب علم و فضل شامل ہیں۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی کی حیثیت مناظروں کی وجہ سے تھی۔ اس زمانے میں عیسائیوں اور ہندوؤں کے مذہبی معاملے میں مناظرے ہوتے تھے۔اسی عہد میں قصبہ دیوبندضلع سہارنپور میں مدرسہ قائم ہوا تھا۔آپ وہاں گئے اور مدرسے کی سرپرستی شروع کردی۔ ان دنوں پادری اسلام کے خلاف جابجا تقریریں کرتے تھے۔ منصور علی دہلوی کے سوائے کوئی ان تقریروں کاجواب دینے والا نہیں تھا۔ منصور علی دہلوی کو انجیل تقریباً زبانی یاد تھی۔ ایک دفعہ ۱۲۹۳ھ میں ضلع شاہجہاں پور کے ایک تعلقہ دار نے ہندوؤں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ایک مباحثے کا انتظام کیا۔ جس میں انہوں نے ابطال تثلیث و شرک اور اثبات توحید میں گفتگو کی۔ جس کی وجہ سے آپ ہر چہار جانب مشہور ہوگئے۔ مولانا قاسمی کو زیادہ جینا نصیب نہیں ہوا بلکہ وہ پچاس سے کم عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
شیخ محمد اکرام موجِ کوثر میں رقمطراز ہیں کہ
’’مولانا محمد قاسم مدرسہ دیوبند کے اصل بانی نہ تھے، لیکن مدرسہ کو ایک شاندار دارالعلوم بنانے کا خیا ل آپ کا تھا۔ جن قابل عزت بزرگوں نے اس مدرسے کو شروع کیا۔ شاید ان کا منتہائے مقصود ایک مکتب سے زیادہ نہ تھا، جو جامع مسجد کی سہ دریوں میں بھی جاری رہ سکتا تھا۔ لیکن مولانا محمد قاسم نے شروع ہی سے اپنا تخیل بلند تررکھا اور مدرسے کی بنیادیں اس قدر وسیع اور بلند رکھیں کہ ان پر دارالعلوم کی عالیشان عمارت تعمیر ہوسکی۔‘‘
دارالعلوم کا ابتدائی نظم و ضبط آپ نے ہی مرتب کیا تھا۔علی گڑھ بھی اسی زمانے میں قائم ہوا تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کی دنیوی پستی کو دور کرنا اور انہیں جدید تعلیم سے روشناس کرنا تھا جس سے کہ وہ اپنی ہم وطن قوموں سے پیچھے نہ رہیں لیکن دیوبند کے مقاصد ٹھیک اس کے برعکس تھے مولانا نے جو اصول مسلمانوں کے دینی مدرسے کے لئے مرتب کئے ان میں روحانی مصلحتوں کو مادی مصلحتوں پر ترجیح دی گئی تھی۔ ان کا بنیادی اصول بقول شیخ محمد اکرام کے جو موجِ کوثر میں رقمطراز ہیں:
’’اس مدرسے میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں۔ جب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرطِ توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہ، تجارت یاکسی امیر محکم القول کا وعدہ۔توپھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجاء جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی۔ کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا۔ القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک قسم کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔ سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔
مدرسہ دارالعلوم کو سب سے زیادہ تقویت اس وقت ملی جب مولانا رشید احمد گنگوہی کے بعد مولانا محمود الحسن دارالعلوم کے صدر مدرس ہوئے۔یہ وہی شیخ الہند مولانا محمود الحسن ہیں ، جن کے مبارک ہاتھوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی پروقار ادارہ کی بنیاد پڑی۔وہ ۱۸۵۱ء میں پیدا ہوئے۔ دیوبند میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پہلے وہ مدرس اور اس کے بعد۱۸۸۸ء میں صدر مدرس ہوئے اور ۳۳ سالوں تک صدر مدرس کی حیثیت سے اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔
ان کے عہد میں ایک خاص بات اور ہوئی کہ سرسید کے علی گڑھ کالج اور دیوبند کے درمیان جو اختلافات تھے وہ انہی کی زمانے میں کم ہوئے۔دیوبند اور علی گڑھ کے بانیوں کا آخری سرچشمہ فیض ایک تھا وہ شاہ ولی اللہ کے خاندان کی تعلیم تھی۔ ان دونوں کے درمیان مقاصد اور طریقہ کار کا فرق تھا۔ ایک دنیوی ترقی کے زیادہ مسلمانوں کا عروج چاہتے تھے اور دوسرے کا مقصد دینوی تعلیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو اس تنزل سے نکالنے چاہتے تھے۔ سرسید کی بنیادی خواہش تھی کہ علما جو مسلمانوں کی سیاسی برتری اور حکومت کے سائے میں صدیوں سے علم دین کا کام کرتے چلے آرہے تھے ان کی خواہش تھی کہ وہ سیاسی چھتری پھر وہ علماء کو میسر آجائے جس کے سائے تلے وہ دین کا کام بحسن و خوبی انجام دیتے رہیں۔
مولانا محمود الحسن کو سرسید سے کم اختلاف نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ محسوس کرتے تھے کہ سرسید نے اپنی تفسیر میں کچھ بھی لکھیں لیکن علی گڑھ میں مذہب اوردینیات کا شعبہ تو ارباب دیوبند کے سپرد ہے۔جو لوگ اس زمانے میں ناظم دینیات تھے وہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کے داماد اور مولانا مملوک علی کے نواسے تھے۔ اس طرح وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن تھے ۔اسی طرح شیخ الہند اس بات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے کہ ان کے ہم خیال لوگ اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ہیں، جس طرح مدرسوں اور خانقاہوں میں ہیں۔ اس لئے آپ نے ان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔آپ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تاسیس کے موقع پر جو تقریر کی وہ زبردست اہمیت کی حامل ہیں۔واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد علی گڑھ میں ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء میں پڑی۔ ان کی تقریر کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اے نونہالان وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اُس درد کے غمخوار، جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی تھیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔‘‘
شیخ محمد اکرام مزید رقمطراز ہیں کہ:
’’شیخ الہند نے اس سلسلے میں پہلا قدم جو اٹھایا وہ ۱۹۰۶ء میں جمعیت الانصار کا قیام تھا ۔ جس کے جلسوں میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔اس سلسلے میں علی گڑھ کالج سے یہ معاہدہ بھی ہواتھاکہ انگریزی خواندہ طلبہ جو تبلیغ کا شوق رکھیں وہ دارالعلوم دیوبند میں جاکراسلامی علوم حاصل کریں۔دارالعلوم اس کا خاص انتظام کرے گی۔ اسی طرح علی گڑھ کالج ان طلبہ کو خاص انتظام کے ساتھ انگریزی کی تعلیم دے گی جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر علی گڑھ کالج جائیں گے۔‘‘
ریشمی رومال تحریک کے نا م سے مشہور ہوئے واقعہ کے اصل ہیرو دراصل شخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولاناعبیداللہ سندھی تھے۔اس سلسلے میں وہ ملک سے باہر چلے گئے اورریشمی رومال تحریک کی ناکامی کے بعد شیخ الہند گرفتار ہوکر مالٹا میں اسیر ہوئے اس کے بعد وہ ۱۹۲۰ء میں ہندوستان لوٹے لیکن ان کے ہندوستان میں غیر حاضری کی وجہ سے علی گڑھ اور دیوبند کا جو رشتہ انہو ں نے قائم کیا تھا وہ ٹوٹ گیا اور وہ غلط فہمی پھر برقرار رہی جو ان کی کوششوں سے ختم ہوگئی تھی یا بہت حد تک کم ہوگئی تھی۔ جب ۱۹۲۰ء میں شیخ الہند ہندوستان آئے تو وہ دق کے مریض تھے وہ اسی سال ۳۰ نومبر ۱۹۲۰ء کو ڈاکٹر انصاری کے دہلی میں واقع مکان پر انتقال کرگئے اوران کی تدفین دیوبند میں عمل آئی۔
فون:9958361526
Subscribe to:
Posts (Atom)