Thursday, 9 February 2017

قائد اعظم محمد علی جناح پر بے تکے الزامات

قائد اعظم محمد علی جناح پر بے تکے الزامات


Muhammad_Ali-Jinnah#

از: ظفر اقبال


قائد اعظم محمد علی جناح (1948-1869) کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ انہی کی قیادت میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جن کی کامیاب قیادت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ محمد علی جناح مسلم پس منظر رکھتے ہیں اور وہ بھی خوجہ شیعہ پس منظر، لیکن حریف نے ان کے کیریکٹر کو مجروح کرنے کی بے پناہ کوشش کی۔ بلکہ ہندوستان میں ان کے تعلق سے بہت ساری باتیں پھیلائی گئیں جیسے کہ وہ شراب پیتے تھے اور سور کا گوشت بھی کھاتے تھے اور ان کے تعلق سے یہ باتیں بھی بہت ہی شدومد سے پھیلائی گئیں کہ اسلام کے تعلق سے ان کی معلومات بہت ہی سطحی تھی بلکہ ان کو نماز بھی پڑھنے نہیں آتی تھی۔ لیکن ان کی قسمت دیکھئے کہ اتنے بڑے ملک کے بابائے قوم کہلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم اپنے حریف کی زبردست مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن کسی کی کردار کشی بدیانتی پر مبنی ہویہ سراسر اخلاقی سے گری ہوئی بات ہے جس سے ہمیں حتی الامکان پرہیز کرنا چاہئے۔محمد علی جناح پر میں کئی مہینے سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن کسی وجہ سے نہیں لکھ پارہا تھا۔ لیکن چند مہینہ قبل نیشنل ٹی ویژن چینل پر ہندوستان کی قدیم سیاسی پارٹی کے ترجمان جو سیاست داں سے پہلے صحافی اور پھر سفارت کار بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے جب مباحثے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے تعلق سے مذکورہ بالا باتیں کیں تو مجھے نہیں رہا گیا۔ اس طرح کی باتیں جس کے تعلق سے کوئی پختہ ثبوت بھی نہ ہو، آزادی کے بعد کسی نے ان کے تعلق سے یہ باتیں بدنیتی سے پھیلادیا ہو اور ہم لوگ اسے بالکل آمنا وصاقنا کے مصداق قبول بھی کرلیتے ہیں۔ یہ سراسر انصاف کے تقاضے کی نفی کرتی ہے، جس سے ہمیں حتی الامکان گریز کرنا چاہئے۔
محمد علی جناح کا تعلق گجرات کے خوشحال تجارتی گھرانے سے تھاجو کراچی میں آکر بس گیاتھا۔ اس لئے ان کی پیدائش کراچی میں ہوئی۔اس عہد میں بلکہ دس پندرہ سال قبل تک عام مسلمان گھرانوں کے بچے سب سے پہلے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پہلے اگر کوئی زمیندار اور تجارت سے وابستہ گھراناہوتا تھا تو ایک مولوی صاحب یا ٹیچر ان کے گھر مستقل ہوتے تھے جو گھروں کے بچوں اور بچیوں کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی دیتے تھے۔ اس کے بعد ہی بچے اسکول جاتے تھے۔یہ باتیں برصغیر میں عام تھیں۔ محمد علی جناح اسی معاشرے کے پروردہ تھے ۔ بعد میں انہوں نے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کی۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں وہ کلی طور سے اسلام کے تمام رسوم سے واقف تھے۔بلکہ سندھ کے مدرسۃ الاسلام میں انہوں نے اپنی پڑھائی کی اس کے بعد وہ کرسچن مشینری سوسائٹی اسکول میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے بمبئی سے میٹرک کیا۔برطانیہ سے انہو ں نے بیرسٹری کی۔ وہ بہت ہی ذہین تھے۔ بلکہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اپنی وکالت کے دوران کوئی کیس کبھی نہیں ہارے تھے۔ وہ برطانوی راج کے چند بڑے وکیلوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ہندوستان کے ہر وکیل کو ویسے بھی ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے عائلی اور طلاق کے مسئائل کے تعلق سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس طرح ہم ان دلیلوں کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسلام سے بہت زیادہ واقف تھے۔ جب ان کی دوستی علامہ اقبال جیسی شخصیت سے ہو تو اسلام کے تعلق سے ان کی معلومات سے کوئی بے وقوف ہی انکار کرسکتا ہے۔علامہ اقبال کو 1936میں ہی احساس ہوگیا تھا کہ اب ان کے چل چلاؤ کا وقت ہے ، وہ اب تک ایک ہی آنکھ سے دنیا دیکھ رہے تھے لیکن 1938آتے آتے ان کی واحد بچی ہوئی آنکھ کی روشنی بہت تک تقریبا ختم ہوگئی۔ اس لئے انہوں نے اس مسلم اسٹیٹ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اس کی باگ ڈور محمد علی جناح کو سپرد کرنا چاہتے تھے، علامہ اقبال کا مسٹر راغب احسن کے نام 23ستمبر 1937کو تحریر کردہ ایک خط میں یہ کہنا کہ ’’اس وقت مسلمانوں کے لئے یہی راہ عمل کھلی ہے کہ وہ مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی تنظیم کریں۔ مجھ کو ان کی دیانت پر مکمل اعتماد ہے۔‘‘ علامہ اقبال کا انتخاب کم از کم اتنی لایعنی تو ہرگز نہیں ہوسکتی جو مسلمانوں کا لیڈر ہو لیکن اسلام سے کچھ واقفیت نہ رکھتا ہو، ہاں ان کی لائف اسٹائل ضرور انگریزوں جیسی تھی۔ ہوسکتا کہ ان کا انگریزی لائف اسٹائل اپنانا بھی کسی حکمت عملی کا حصہ ہو۔ وکیل تو بہر حال وکیل ہوتا ہے جو جنگ کبھی نہیں ہارنا چاہتا۔اس خط کا عکس آپ کی نذر کررہا ہوں تاکہ سند رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے ۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment