حافظ شیرازی کا پروردہ جرمن مفکر گوئٹے
اقبال کی مشہور زمانہ کتاب ’’پیام مشرق‘‘ کی تخلیق کا محرک گوئٹے کا ’’دیوان مغرب‘‘
از :ظفر اقبال
مشہور جرمن مفکر گوئٹے جن کی پیدائش 22اگست 1749کو جرمنی کے مشہور شہر فرنکفرٹ میں ہوئی اور وفات 22مارچ 1832میں ہوئی۔ جب 1812میں خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان کا مکمل ترجمہ جرمن زبان میں شائع ہو ا۔ جس کی اشاعت کے بعد جرمنی میں مشرقی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ حافظ شیرازی کی شاعری نے گوئٹے کو غیر معمولی متاثر کیا۔ گوئٹے نے ’’مغربی دیوان‘‘کے نام سے اپنی کتاب لکھی۔ گوئٹے کی سوانح حیات لکھنے والا مصنف کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہر بات میں اسے حافظ شیرازی کامثل پاتے ہیں۔‘‘
گوئٹے حافظ شیرازی کے علاوہ شیخ عطار اور شیخ سعدی کا بھی ممنون احسان مند تھا۔ جن کے افکار نے گوئٹے کے ذہن کو بالیدگی عطا کرنے میں زبردست کارہائے نمایاں انجام دیا۔ اقبال کی مشہور زمانہ کتاب ’’پیام مشرق‘‘ دراصل گوئٹے کی مشہور زمانہ کتاب ’’دیوان مغرب‘‘ کا جواب ہے۔ گوئٹے نے مشرقی ادب سے استفادہ کرنے کے بعد مغربی دیوان لکھا تھا۔ یہ ایک طرح سے گوئٹے نے اہل مشرق کو نذرانہ عقیدت پیش کیا تھا۔ جس مغربی دیوان کے نسبت ہائنا لکھتا ہے کہ ’’یہ گلدستہ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا تھا۔‘‘ اس نذرانہ عقیدت کا جواب علامہ اقبال جیسی عبقری شخصیت ہی دے سکتی تھی۔ جو انہوں نے 1923میں ’’پیام مشرق‘‘ لکھ کر اہل مشرق کی جانب سے اہل مغرب کو پیش کیا۔ مغرب جس طرح مادیت پرستی اور الحاد میں غرق تھا ، اس کی خرابی کو انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اجاگر کیا۔اقبال نے مغرب میں رہ کر ہر چیز کا خود قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ مغرب کی خرابی ان کے سامنے بالکل واضح انداز میں موجود تھی۔اس چیز نے ان کو بے چین کردیا۔ اقبال کی خواہش کی تھی کہ مغرب ہر چیز کو مادی زاویہ سے نہ دیکھے بلکہ وہ مشرق سے روحانیت بھی سیکھے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو عدم علم کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اب تک جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس کا کریڈٹ وہ مغرب کو دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مشرق تو بالکل تہی دامن ابتدا سے ہی رہا ہے۔ لیکن ان جیسے سطحی معلومات رکھنے والوں کا جواب دینا بھی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مغربی مفکرین نے جو بھی علمی کارنامہ انجام دیا ہے اس کے پس پشت یقیناًمشرق علوم بھی تھے جس سے مغرب کے دانشوروں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے جس کی وجہ سے ہی وہ بام عروج پر پہنچ سکے۔
فون: 9958361526
No comments:
Post a Comment