Monday, 13 February 2017

مولانااشرف علی تھانوی ’’بہشتی زیور‘‘ کی روشنی میں

مولانااشرف علی تھانوی ’’بہشتی زیور‘‘ کی روشنی میں


Bahishti_zewar_Ashraf_ali_Thanvi#


از :ظفر اقبال


مولانا اشرف علی تھانوی جن کی پیدائش 1863میں اور وفات 1943میں ہوئی، محتاج تعارف نہیں ہیں۔ ان کے افکار وخیالات سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں برصغیر میں پائے جاتے ہیں۔دیوبندی مکتہ فکر سے وابستہ افراد میں ان کا نام نمایاں ہے۔انہوں نے بہت ساری کتابیں تحریر کیں اور ترجمہ قرآن ان کا اہم کام ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی سب اہم کتاب جو انہوں نے خاص طور سے خواتین کو سامنے رکھ کر لکھی وہ کتاب ’’بہشتی زیور ‘‘ ہے۔ اس بہشتی زیور سے کم از کم 80برس لوگوں نے خوب خوب استفادہ کیا۔ ان کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ انہوں نے بہشتی زیور میں خواتین کے تمام فقہی مسائل کے ساتھ کھانا بنانے کا طریقہ اور سلائی کڑھائی کے طریقے بھی انہوں نے اس کتاب میں تحریر کی ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت دوگنی ہوجاتی ہے۔ لیکن آج کم از کم دس پندرہ برسوں سے مسلمانوں میں تعلیم کے تعلق سے بیداری زیادہ آئی ہے۔ مسلم خاندان کی لڑکیاں اسکول اور کالج جانے لگی ہیں اور یہ چیز بہت ہی خوش آئند ہے۔ جس کی وجہ سے ’’بہشتی زیور‘‘ کی معنویت تھوڑ ی کم ہوگئی ہے۔ کچھ خواتین جو زیادہ پڑھی لکھی ہیں وہ اب ’’بہشتی زیور‘‘ کی معنویت پر اعتراض کرتی ہیں۔ ان پڑھی لکھی خواتین سے میرا کہنا ہے کہ آپ کا اعتراض بہشتی زیور‘‘ پر بیجا ہے وہ اس لئے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کا تعلق جس عہد سے ہے ۔ اس عہد میں ہندوستان میں خواندگی کی سطح بہت ہی کم تھی۔ ہندوستان جب آزاد ہوا تھا اس وقت ہندوستان میں خواندگی کی شرح محض تیرہ فیصد تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تیرہ فیصد ہندوستانیوں میں مسلمانوں کی فیصد کتنی ہوگی۔ یعنی ہم اس اعدادوشمار کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان خواندگی ’’بہشتی زیور‘‘ کی تحریر کے وقت بمشکل تین سے چار فیصد رہے گی اور ان میں خواتین کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔ اس طرح کے حالات میں مولانا نے ایک ایسی جامع کتاب تحریر کی کہ کوئی بھی اردو زبان سے آشنا خاتون محلوں کی عورتوں کو اکٹھا کرکے ان کو مسئلہ ومسائل پڑھ کر سمجھاتی تھیں۔ آج سے بیس پچیس برس قبل تک محلے کی خواتین کی ہفتے یا مہینے میں ایک دو پروگرام اس طرح کے ضرور ہوتے تھے جس میں ’’بہشتی زیور‘‘ اور ’’سیدہ کا لال‘‘ جیسی کتابیں اجتماعی طور پر کوئی پڑھی لکھی خاتون ان ناخواندہ خواتین کے درمیان پڑھتی تھیں جس کی وجہ سے ان ناخواندہ خاتون بہت سارے مسئلہ ومسائل سے واقف ہوجاتی تھیں اور وہ کھل کر خواتین کے درمیان بہت سارے مسئلے پوچھتی تھیں۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اب تعلیمی بیدار ی نے تمام پرانی رسم وروایات کا خاتمہ کرکے رکھ دیا ہے۔ زمانہ جس طرح آگے بڑھے گا اسی طرح بہت سارے طریقہ کار ٹوٹ جائیں گے۔ یہ ٹوٹنا خوش آئند ہے۔ اس لئے اب زیادہ تر خواتین محتاج نہیں رہیں اب تو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان میں بھی بہت ساری کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ہندی جاننے والی خواتین اب مسئلہ ومسائل کی کتابیں بہت ہی احسن طریقہ سے پڑھ رہی ہیں اور سمجھ بھی رہی ہیں۔ انگریزی زبان میں تو پہلے سے ہی بہت ساری کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’بہشتی زیور‘‘ ایک بہت ہی اہم کتاب ہے لیکن رفتار زمانہ کے اعتبار سے اس کتاب میں ٹھہراؤ اآگیا ہے اور اب بہت ساری نئی نئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں جس سے آپ بہت کچھ استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنے زمانے کے اعتبار سے بہشتی زیور نے جو خدمات انجام دی ہیں۔ اس کا اجر انہیں صرف خدائے واحد لاشریک ہی دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ مسلم لیگ کے حامی تھے اور پاکستان کی تشکیل میں ان کا بھی نام نمایاں رہا ہے۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment