Monday, 20 February 2017

ٹرمپ ، ایران اور عرب ممالک


ٹرمپ ، ایران اور عرب ممالک


#Trump_Iran_Arab_countries

از :ظفر اقبال

ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے سے اسرائیل تو خوش ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عرب ممالک تو سب سے زیادہ خوش ہیں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سب اعلان کرچکے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے مؤقف کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اگر کوئی ملک ڈونالڈ ٹرمپ سے پریشان ہوسکتا ہے تو وہ ایران ہے۔ اب تمام معاہدوں کو درکنار کرتے ہوئے سرے پھرے صدر نے تو معاہدے کو توڑنے اور جنگ کرنے تک کا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ سب سے زیادہ اگر کوئی خوش ہے تو وہ عرب ممالک ہیں۔ جو نام ونہاد حرمین شریفین کے ٹھیکدار بھی کہلاتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی زیر قیادت والی اتحادی فوج مسلسل دو برسوں سے بمباری کررہا ہے۔ لیکں اب تک وہ ایک ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ ایران بھی جنگ کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ ایران یقینا پہل نہیں کرے گا۔ لیکن دفاعی جنگ ایسی ہوگی جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ انشاء اللہ، لیکن اس جنگ کے بعد موجودہ مشرق وسطی کے کئی ممالک کا جغرافیہ بھی بدل جائے گا۔ فلسطین کے ساتھ جس قدر دھوکہ ان عرب ممالک نے کیا ہے۔ اس کا قرض بھی ان عرب ممالک پر چڑھ چکا ہے۔ فلسطین کے نام پر محض دھوکہ صرف دھوکہ اور کچھ روٹی کے ٹکڑے ہی انہیں ملے ہیں۔ اگر ایران نہ ہوتا تو حماس جیسی تنظیم کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ بیت المقدس ساری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے لیکن سنی دنیا جس کی قیادت اس وقت سعودی عرب کررہا ہے۔ انہوں نے بیت المقدس کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ابھی تہران میں فلسطین پر کانفرنس ہورہی ہے۔ ساری دنیا کے مسلم نمائندے خواہ شیعہ ہو یا سنی اس میں شرکت کرنے گئے ہیں۔ مشرق وسطی کی انارکی میں فلسطین کا مسئلہ ایسا لگتا ہے کہ کہیں گم ہوگیا ہے لیکن ایران مشرق وسطی میں شام، عراق، لبنان، یمن میں سب کی مدد بھی کررہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ فلسطین کی بھرپور مدد کررہا ہے، ابھی چند مہینے قبل غزہ پٹی میں برسراقتدار حماس کے سرکاری عملے کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ کئی کئی مہینوں کی لوگوں کی تنخواہ باقی تھی لیکں ایران نے اسے چھ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم بھیجوائی تھی۔ حماس جو فلسطین کے اصل ہیرو ہیں جنہیں نے فلسطین کی لاج بچارکھی ہے۔ اس کو یہ عرب ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ایک سنی دنیا کے ایک ترک صدر ہیں جو صدر کم خلیفۃ المسلمین بننے کے زیادہ خواہ ہیں۔ ان کی سیماب صف طبیعت ایسی ہے کہ کب ان کا موڈ بدل جائے۔ کبھی ان کا مؤقف کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ عید کے موقع پر انہوں نے غزہ پٹی کے عوام کے لئے اور بچوں کے لئے کھلونے اور کچھ کھانے پینے کے اشیاء بھیجوائے تھے۔ لیکن اسرائیل سفارت خانہ بھی انقرہ بھی قائم ہے۔ بیچارے غزہ پٹی کی عوام کے گیارہ ہزار مکانات 2014 کی جنگ میں اسرائیل نے تباہ کردیا تھا لیکن ان کے مکانات اب تک نہیں بن سکے ہیں۔ اروگان اس کے لئے کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں اور سعودی عرب یہ کوشش کیوں نہیں کرتا ہے کہ اٹھارہ لاکھ کی آبادی والا غزہ پٹی کی عوام کس طرح زندگی بسر کررہے ہیں۔ بہت ہی تکلیف دہ زندگی گذار رہے ہیں۔ مصر جو اپنی سرحد بند رکھا ہے، بیمارے حماس اور فلسطین کی بیشتر آبادی سنی ہے لیکں شیعہ ایران اس کی کس قدر مدد کررہا ہے۔ یہ تاریخ میں لکھ دینے کے قابل ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب فلسطین کی آزادی کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے۔
فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment