علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند
AMU_Deoband#
از:ظفر اقبال
(جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری اور وچارک (دانشور) عبدالحمید نعمانی کی جانب سے مولانا عبیدا للہ سندھی کے دعوی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی. اس چیز نے مجھے مضطرب کردیا۔ وہ مولانا عبیداللہ سندھی جو غلام ہندوستان میں چند آزاد مومن تھا۔وہ بھی تقریبا سواسو سال بعد بغیر کسی دلیل کے، یہ چیز تحقیقی دیانت داری کے خلاف بھی ہے۔ مجھے ان سے ایسی امید نہیں تھی۔ واضح رہے کہ مولانا عبیدا للہ سندھی مجوزہ ہندوستان کی جلاوطن آزاد حکومت میں وزیر خارجہ بھی تھے۔ میں نے اس مضمون میں ، جو دراصل میں نے اپنی پہلی کتاب ’’اقبال کے سیاسی افکار‘‘ سے اخذ کیاہے۔ میری کتاب کو آپ ریختہ آن لائن کے ذریعہ پڑھ سکتے ہیں میں اپنی کتاب میں شیخ محمد اکرام کی مشہور زمانہ کتاب ’’موج کوثر‘‘ سے اقتباس لیا ہے۔ واضح رہے کہ شیخ محمد اکرام سابق انڈین سول سروس( آئی سی ایس) آفیسر بھی تھے۔)
دیوبند تحریک برصغیر کی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ علماء کی جماعتوں نے جس طرح ہندوستان میں دینی علوم کو بچانے کی کوششیں کی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی جو دارالعلوم کے بانی ہیں۔ دارالعلوم کے فارغین انہیں کی نسبت سے قاسمی کہلاتے ہیں۔دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ۳۰ مئی ۱۸۶۷ء میں ڈالی گئی تھی۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی مولانا مملوک علی نانوتوی کے جو دہلی کالج کے مدرس ہوگئے تھے شاگرد تھے۔ان کے اہم شاگردوں میں سرسید احمد خاں علی گڑھ کالج کے بانی، رشید احمد گنگوہی سرپرست دارالعلوم دیوبند اور مولانا احمد علی محدث سہارنپور اور ان کے صاحبزادے مولانا محمد یعقوب نانوتوی جیسے صاحب علم و فضل شامل ہیں۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی کی حیثیت مناظروں کی وجہ سے تھی۔ اس زمانے میں عیسائیوں اور ہندوؤں کے مذہبی معاملے میں مناظرے ہوتے تھے۔اسی عہد میں قصبہ دیوبندضلع سہارنپور میں مدرسہ قائم ہوا تھا۔آپ وہاں گئے اور مدرسے کی سرپرستی شروع کردی۔ ان دنوں پادری اسلام کے خلاف جابجا تقریریں کرتے تھے۔ منصور علی دہلوی کے سوائے کوئی ان تقریروں کاجواب دینے والا نہیں تھا۔ منصور علی دہلوی کو انجیل تقریباً زبانی یاد تھی۔ ایک دفعہ ۱۲۹۳ھ میں ضلع شاہجہاں پور کے ایک تعلقہ دار نے ہندوؤں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ایک مباحثے کا انتظام کیا۔ جس میں انہوں نے ابطال تثلیث و شرک اور اثبات توحید میں گفتگو کی۔ جس کی وجہ سے آپ ہر چہار جانب مشہور ہوگئے۔ مولانا قاسمی کو زیادہ جینا نصیب نہیں ہوا بلکہ وہ پچاس سے کم عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
شیخ محمد اکرام موجِ کوثر میں رقمطراز ہیں کہ
’’مولانا محمد قاسم مدرسہ دیوبند کے اصل بانی نہ تھے، لیکن مدرسہ کو ایک شاندار دارالعلوم بنانے کا خیا ل آپ کا تھا۔ جن قابل عزت بزرگوں نے اس مدرسے کو شروع کیا۔ شاید ان کا منتہائے مقصود ایک مکتب سے زیادہ نہ تھا، جو جامع مسجد کی سہ دریوں میں بھی جاری رہ سکتا تھا۔ لیکن مولانا محمد قاسم نے شروع ہی سے اپنا تخیل بلند تررکھا اور مدرسے کی بنیادیں اس قدر وسیع اور بلند رکھیں کہ ان پر دارالعلوم کی عالیشان عمارت تعمیر ہوسکی۔‘‘
دارالعلوم کا ابتدائی نظم و ضبط آپ نے ہی مرتب کیا تھا۔علی گڑھ بھی اسی زمانے میں قائم ہوا تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کی دنیوی پستی کو دور کرنا اور انہیں جدید تعلیم سے روشناس کرنا تھا جس سے کہ وہ اپنی ہم وطن قوموں سے پیچھے نہ رہیں لیکن دیوبند کے مقاصد ٹھیک اس کے برعکس تھے مولانا نے جو اصول مسلمانوں کے دینی مدرسے کے لئے مرتب کئے ان میں روحانی مصلحتوں کو مادی مصلحتوں پر ترجیح دی گئی تھی۔ ان کا بنیادی اصول بقول شیخ محمد اکرام کے جو موجِ کوثر میں رقمطراز ہیں:
’’اس مدرسے میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں۔ جب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرطِ توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہ، تجارت یاکسی امیر محکم القول کا وعدہ۔توپھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجاء جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی۔ کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا۔ القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک قسم کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔ سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔
مدرسہ دارالعلوم کو سب سے زیادہ تقویت اس وقت ملی جب مولانا رشید احمد گنگوہی کے بعد مولانا محمود الحسن دارالعلوم کے صدر مدرس ہوئے۔یہ وہی شیخ الہند مولانا محمود الحسن ہیں ، جن کے مبارک ہاتھوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی پروقار ادارہ کی بنیاد پڑی۔وہ ۱۸۵۱ء میں پیدا ہوئے۔ دیوبند میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پہلے وہ مدرس اور اس کے بعد۱۸۸۸ء میں صدر مدرس ہوئے اور ۳۳ سالوں تک صدر مدرس کی حیثیت سے اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔
ان کے عہد میں ایک خاص بات اور ہوئی کہ سرسید کے علی گڑھ کالج اور دیوبند کے درمیان جو اختلافات تھے وہ انہی کی زمانے میں کم ہوئے۔دیوبند اور علی گڑھ کے بانیوں کا آخری سرچشمہ فیض ایک تھا وہ شاہ ولی اللہ کے خاندان کی تعلیم تھی۔ ان دونوں کے درمیان مقاصد اور طریقہ کار کا فرق تھا۔ ایک دنیوی ترقی کے زیادہ مسلمانوں کا عروج چاہتے تھے اور دوسرے کا مقصد دینوی تعلیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو اس تنزل سے نکالنے چاہتے تھے۔ سرسید کی بنیادی خواہش تھی کہ علما جو مسلمانوں کی سیاسی برتری اور حکومت کے سائے میں صدیوں سے علم دین کا کام کرتے چلے آرہے تھے ان کی خواہش تھی کہ وہ سیاسی چھتری پھر وہ علماء کو میسر آجائے جس کے سائے تلے وہ دین کا کام بحسن و خوبی انجام دیتے رہیں۔
مولانا محمود الحسن کو سرسید سے کم اختلاف نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ محسوس کرتے تھے کہ سرسید نے اپنی تفسیر میں کچھ بھی لکھیں لیکن علی گڑھ میں مذہب اوردینیات کا شعبہ تو ارباب دیوبند کے سپرد ہے۔جو لوگ اس زمانے میں ناظم دینیات تھے وہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کے داماد اور مولانا مملوک علی کے نواسے تھے۔ اس طرح وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن تھے ۔اسی طرح شیخ الہند اس بات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے کہ ان کے ہم خیال لوگ اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ہیں، جس طرح مدرسوں اور خانقاہوں میں ہیں۔ اس لئے آپ نے ان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔آپ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تاسیس کے موقع پر جو تقریر کی وہ زبردست اہمیت کی حامل ہیں۔واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد علی گڑھ میں ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء میں پڑی۔ ان کی تقریر کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اے نونہالان وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اُس درد کے غمخوار، جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی تھیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔‘‘
شیخ محمد اکرام مزید رقمطراز ہیں کہ:
’’شیخ الہند نے اس سلسلے میں پہلا قدم جو اٹھایا وہ ۱۹۰۶ء میں جمعیت الانصار کا قیام تھا ۔ جس کے جلسوں میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔اس سلسلے میں علی گڑھ کالج سے یہ معاہدہ بھی ہواتھاکہ انگریزی خواندہ طلبہ جو تبلیغ کا شوق رکھیں وہ دارالعلوم دیوبند میں جاکراسلامی علوم حاصل کریں۔دارالعلوم اس کا خاص انتظام کرے گی۔ اسی طرح علی گڑھ کالج ان طلبہ کو خاص انتظام کے ساتھ انگریزی کی تعلیم دے گی جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر علی گڑھ کالج جائیں گے۔‘‘
ریشمی رومال تحریک کے نا م سے مشہور ہوئے واقعہ کے اصل ہیرو دراصل شخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولاناعبیداللہ سندھی تھے۔اس سلسلے میں وہ ملک سے باہر چلے گئے اورریشمی رومال تحریک کی ناکامی کے بعد شیخ الہند گرفتار ہوکر مالٹا میں اسیر ہوئے اس کے بعد وہ ۱۹۲۰ء میں ہندوستان لوٹے لیکن ان کے ہندوستان میں غیر حاضری کی وجہ سے علی گڑھ اور دیوبند کا جو رشتہ انہو ں نے قائم کیا تھا وہ ٹوٹ گیا اور وہ غلط فہمی پھر برقرار رہی جو ان کی کوششوں سے ختم ہوگئی تھی یا بہت حد تک کم ہوگئی تھی۔ جب ۱۹۲۰ء میں شیخ الہند ہندوستان آئے تو وہ دق کے مریض تھے وہ اسی سال ۳۰ نومبر ۱۹۲۰ء کو ڈاکٹر انصاری کے دہلی میں واقع مکان پر انتقال کرگئے اوران کی تدفین دیوبند میں عمل آئی۔
فون:9958361526
No comments:
Post a Comment