Tuesday, 21 February 2017

نجیب تم کہاں ہو؟

نجیب تم کہاں ہو؟


#Najeeb_Jnu

از :ظفر اقبال

نجیب جو جے این یو کے طالب علم ہیں۔ ان کا اچانک لاپتہ ہوجانا اور مہینوں گذر گئے لیکن اب تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہے؟ ابتدا میں اس معاملے کے سلسلے میں دہلی پولس نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی لیکن عدالت کے حکم کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی اور اس کے بعد نجیب کی تلاش شروع ہوئی۔ لیکن پولس کو اب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ نجیب کہاں ہے؟ نجیب زندہ بھی ہے کہ وہ مرچکا ہے۔یہ ایک معمہ ہے۔ جو اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ اب جب کہ پورا ہندوستان ہر سطح پر اس کو تلاش کررہا ہے اور اب دہلی پولس بھی واقعی اس کو سنجیدگی سے تلاش بھی کررہی ہے۔ اب پولس کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کہ نجیب اگر زندہ ہے تو ہے وہ کہاں اور اگر وہ ماردیا گیا ہے تو اس کی لاش کسی طرح اسے مل جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پولس نہ پہنچ سکے۔ ہاں یہ معاملہ پاکستان میں ہوا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ نجیب زندہ ہے۔ اس لئے کہ خود سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضاگیلانی کا بیٹا بھی تقریبا ایک سال تک دہشت گردوں کے قبضے میں رہ کر پھر آزاد ہوسکا۔ اسی طرح خود ایران کے ایک سفارت کار اپنی کار سے پشاورمیں اپنے گھر سے قونصلیٹ جارہے تھے تھے لیکن اچانک غائب ہوگئے لیکن دو سال کے وقفے کے بعد ایران کی خفیہ ایجنسی نے اپنے اس سفارت کار کو بازیات کرالیا۔ لیکن ہندوستان کی فضا اور یہاں کا ماحول دیگر ہے۔ یہاں جو سوسائٹی اور یہاں کے غنڈوں کی جو اہلیت ہے اس سے خود پولس اچھی طرف واقف ہے کہ یہاں کوئی بھی کسی کو اغواکرکے مہینوں تک نہیں رکھ سکتا ہے۔ یہاں تو پولس کے ذریعہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ واقعی ہندوستان میں قانون کے ہاتھ لمبے ہیں۔ دہلی پولس سنجیدگی سے نجیب کو ڈھونڈ رہی ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نجیب کو اغواکاروں نے مار دیا ہے۔ اب پولس یا کوئی شخص اس وقت تک اس کو زندہ تصور کرے گا جب تک اس کی لاش نہ مل جائے۔ کاش دہلی پولس نجیب کی ماں کو اس کے بیٹے کی لاش ہی حوالے کردے۔ یہ تو پولس کر ہی سکتی ہے۔ اگر پولس نہیں کرسکتی ہے تو اس کی اہلیت پر سوالات اٹھیں گے۔ مجھے نجیب کی ماں کو تڑپتے ہوئے اور روتے ہوئے دیکھا نہیں جاتا ہے۔ نجیب کی ماں نے اب تک جتنے آنسو بہائے ہیں وہ کسی بھی ذی شعور رکھنے والے افراد کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ نجیب کی ماں کو ایک مسلمان کہہ کر حکومت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ ماں ماں ہوتی ہے۔ چاہے کسی بھی مذاہب سے اس کا تعلق ہے ۔ حکومت کیسے اپنی ذمہ داری سے بچ سکتی ہے؟ دہلی پولس اور مرکزی وزارت داخلہ کو اس کا جواب دینا ہوگا۔

فون: 9958361526

No comments:

Post a Comment