Thursday, 29 September 2016

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا ذمہ دار اسامہ بن لادن نہیں

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا ذمہ دار اسامہ بن لادن نہیں

#9/11_Osama_destroyed
 ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی میں اسامہ بن لادن کا ہاتھ بالکل نہیں ہے بلکہ یہ کارنامہ انجام دینے والا سعودی عرب کی شاہی  اور وہابی حکومت ہے۔ جس کی مکاری کی وجہ سے افغانستان اور عراق جیسا ملک تباہ ہوگیا اور تقریبا دس لاکھ افراد مارے گئے۔
سعودی عرب نے جو جرائم کئے ہیں اس میں خود پھنس چکا ہے۔ اب آل سعود کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑےگی۔ اس کا برا وقت شروع ہوچکا ہے۔ ان کرمنلوں نے جو تباہی مچائی ہے جس کی وجہ سے افغانستان، عراق کو کھنڈر بننا پڑا اور پاکستان بھی دہشت گردی کی ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔ اس کے پس پردہ سعودی سازش تھی۔ 9/11 کے 19 حملہ آوروں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا اور دو کا تعلق یو اے ای سے تھا۔  یہ بات بھی پوری طرح واضح ہوچکی ہے سعودی شاہی خاندان کے افراد ان حملہ آوروں کو مسلسل حمایت دے رہے تھے اور ان کو مالی اور ٹریننگ دینے میں  اہم رول ادا کیا تھا۔  اب 9/11 میں مارے گئے تین ہزار سے زائد افراد کی جانوں کا ہرجانہ تو سعودی عرب کو دینا ہی ہوگا اس کے علاوہ امریکہ کو بھی افغانستان اور عراق کے لوگوں کو ہرجانہ دینا ہوگا۔ جس کی بمباری سے پورا ملک کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے اور لاکھوں لوگوں مارے گئے۔

Saturday, 24 September 2016

نائن الیون کے پس پردہ سعودی ہاتھ بھلے ہی صدر اوبامہ نے اس بل کو ویٹو کردیا

نائن الیون  کے پس پردہ سعودی ہاتھ بھلے ہی صدر اوبامہ نے اس بل کو ویٹو کردیا

#9/11_Saudi_US_Obama_Veto

9/11 واقعہ میں سعودی عرب کے ہاتھ ہونے کا الزام ثابت ہوچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ صدر ابامہ نے ملکی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے اس بل کو ویٹو کردیا تاکہ 9/11 کے متاثرین معاوضۃ کا مطالبہ سعودی عرب سے نہ کرسکیں۔ اس واقعہ میں خود سعودی عرب، اسرائیل اور امریکی حکومت بھی ملوٹ تھی، ان کو معلوم ہے کہ اگر ابامہ اس بل کو ویٹو نہیں کریں گے تو الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور تینوں ممالک کے سازشیں عوام کے درمیان آجائیں گے۔ وہ شازش کیا تھی جس کے لئے سعودی عرب اتنے بڑے واقعہ کو انجام دینے کے لئے مجبور ہوا۔ اس واقعہ کے پس منظر کے تعلق سے میرا مضمون تقریبا دو برس پہلے ہی آچکا تھا وہ مضموں دوبارہ ملاحظہ کریں تاکہ بات پوری سمجھ میں آجائے۔

سعودی عرب کا پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش

جب پاکستان نے 28مئی 1998میں ایٹمی تجربہ کیا تو عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت اور اس کی قدر بہت بڑھ گئی ، اس عہد کے مختلف ممالک کے میڈیا خاص طورسے مسلم ممالک کے اخباروں کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا دنیاکا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بن جانے پر زبردست خوشی کا اظہار کیا گیا، بلکہ عالم اسلام نے اس بات کا اطمینان بھی محسوس کیا کہ بالآخر پاکستان جو ہمارا برادر ملک ہے ایک ایٹمی طاقت ہے۔ جس سے عالم اسلام کی محبت پاکستان سے بہت بڑھ گئی۔ اس جوش کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے سابق جنرل اور صدر پرویز مشرف بھی پاکستان کو عالم اسلام کا کئی مرتبہ قلعہ قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان کا اس طرح ابھرنا اور عالم اسلام میں مقبول تر بن جانا سعودی عرب کو ایک آنکھ بھی نہیں بھایا ۔اسے ایسا محسوس ہوا کہ اگر پاکستان کی مقبولیت اسی بڑھتی رہی تو اس کی حیثیت صفر ہوجائے گی۔اس نے ایک سازش رچی ، اس سازش کی بھنک جنرل پرویز مشرف کو پہلے لگ گئی تب ہی اس نے نواز شریف کا تختہ پلٹ کر ملک کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔11ستمبر 2001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ، اس حملہ میں انیس حملہ آوروں میں سے 17حملہ آوروں کا تعلق سعودی عرب کا ہونا، ایک گہری سازش کا پتہ دیتا ہے۔ اس سازش میں اسرائیل ، امریکہ اور سعودی عرب پوری طرح ملوث ہیں، بلکہ سعودی عرب ہی اس ساز ش کا محرک نظر آتا ہے، سعودی عرب نے اسرائیل اور امریکہ کو یقین دہانی کرایا کہ کسی طرح پاکستان کو تم فوجی اعتبار سے ختمہ کردو اس سے میری حیثیت عالم اسلام میں پھر بڑھ جائے گا۔اسرائیل اور امریکہ، خاص طور سے اسرائیل کو اس سے یہ فائدہ تھا کہ پاکستان سے مستقبل میں جو خطرہ ہوسکتا ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا وہ اس لئے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ، جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، اس کا ابھرنا اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے،اس کا خاتمہ ہوجائے ۔
اس سازش کے تحت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور اس کا الزام القاعدہ پرلگایا گیا اور القاعدہ کا سربراہ اس وقت طالبان کی حکومت والے کابل میں موجود تھا، اس طالبان کی حکومت جس کو پاکستان تسلیم کرتا تھا۔ دراصل پاکستان کو گھیرنے کی یہ سعودی، اسرائیل اور امریکی سازش تھی۔اس سازش کو جنرل مشرف نے فورآ محسوس کرلیا ،جب امریکی صدر بش نے دھمکی آمیزفون کیا کہ’’ اگر تم میرا ساتھ نہیں دیتے تو تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچادیں گے۔‘‘داراصل امریکہ کی پاکستان کے ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرنے کی وہ سازش تھی جو سعودی عرب کے ایما پر امریکہ انجام دے رہا تھا۔لیکن جب قیادت بالغ ہوتی ہے تو قوم کو چھوٹی آزمائش سے گذار کر قوم کو مکمل تباہی سے بچالیتی ہے اسی کا ثبوت جنرل مشرف نے دیا، جب جنرل مشرف نے قوم کو چھوٹی آزمائش سے گذار کر بڑی تباہی سے بچالیا۔ کابل پر امریکہ کے قبضے کے بعد پاکستان کو پھر بھی چین سے نہیں رہنے دیا گیا اس پر مسلکی جھگڑے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا،۔ 2003میں ہزارہ شیعہ قبائل کا قتل عام،2007میں لال مسجد کا واقعہ اسی کا تسلسل ہے۔جو ہنوز ابھی تک مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ یہ تمام مسلکی جھگڑے سعودی عرب کے ایما پر ہورہے ہیں تاکہ پاکستان کبھی بھی اس کی قیادت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔
فون:9958361526


Friday, 23 September 2016

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی تقریر

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی تقریر

#UN_Netanyahu

بائیس ستمبر 2016 کواسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو یو این جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہہ رہے تھے کہ دیکھئے اس وقت اسرائیل کی شبیہ دنیا میں کتنی اچھی ہوگئی ہے ہندوستان، جاپان اور افریقی ممالک سے ہمارے تعلقات معمول پر آگئے ہیں اور حد تو یہ کہ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک سے بھی ہمارے تعلقات بہت ہی اچھے چل رہے ہیں۔ اب فلسطین اب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ یہ عرب ممالک خاص طور سے خلیجی ممالک نے جس طرح اپنے تعلقات اسرائیل سے اعلانیہ کررکھے ہیں اور اب تو کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہی۔سنی دنیا میں اسرائیل خود کو کتنا محفوظ تصور کرتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی سب سے بڑی پریشان یہ ہے کہ اس کی سرحد پر شام میں اسد حکومت، لبنان میں حزب اللہ اور خودفلسطین (غزہ)میں حماس برسراقتدار ہیں۔ ان حالات میں نیتن یاہو خود کو اور اپنی قوم کو کس قدر مطمئن محسوس کرتے ہیں وہ ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اسرائیل ہر وقت خوف میں رہتا ہے کہ ان تین ممالک شام،لبنان اور حماس کے پیچھے ایران جیسی عظیم شیعہ ملک ہے۔ جس کے سامنے خود امریکہ اور باطل طاقتوں کے پر جلتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ایران بہت ہی مضبوط بن کر ابھرا ہے۔ دنیا کے پانچ ممالک میں ان کے واضح اثرات دیکھے جاسکتے ہیں، عراق، شام، یمن، لبنان اور فلسطین ہے۔ ان ممالک میں ایران کا نفوذ کس قدر ہے حریف ممالک اسے بخوبی آگاہ ہیں۔ایران نے اپنے ہمنوا ممالک کے ذریعہ جس طرح دانتوں کے درمیان زبان کی حالت ہے اسی طرح اسرائیل بھی ان دانتوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اب تو حزب اللہ اور حماس اورشام کی فوجیں بھی بہت مضبوط ہوگئی ہیں۔ خاص طور سے حزب اللہ اور شامی علوی فوج کو صرف دفاعی جنگ کرنے کی عادت تھی لیکں اب نئے علاقوں کو فتح کرنے میں مہارت حاصل کرچکی ہے۔ اس سے اسرائیل بہت زیادہ پریشان ہے۔یہ سنی عرب ممالک تو دین فروش اور اسلام فروش حکمرانوں پر مشتمل ہے۔خاص طور سے سعودی عرب نے تو او آئی سی جو زیادہ تر سنی ممالک پر مشتمل ایک عالمی تنظیم ہے اس کو اپنے مفادات کے لئے یرغمال بنارکھا ہے۔ جس سے اس کی حیثیت بھی متنازعہ ہوگئی ہے۔

Monday, 19 September 2016

اردن کی حکومت کو حضرت جعفر بن ابی طالب (رضی) کی قبر کی زیارت کی اجازت شیعوں کو دینی چاہئے

اردن کی حکومت کو حضرت جعفر بن ابی طالب (رضی) کی قبر کی زیارت کی اجازت شیعوں کو دینی چاہئے 

#Jordan_shia_jafar

اردن کی راجدھانی عمان سے 140 کلومیٹر دور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مقبرہ ہے۔ جو جنگ موتہ میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر صحابیوں کی قبریں موجود ہیں۔ جو شیعہ حضرت کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن آل سعواور وہابیوں کے کہنے پر اردن کی حکومت ان ایرانی شیعوں اور دیگر ممالک کے شیعوں کو وہاں زیارت کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ یہ عرب کہتے ہیں کہ شیعہ سنی دونوں برابر ہیں اور ان کے ساتھ تعصب نہیں برتا جاتا ہے۔ اب ایران کی حکومت اور شیعہ جو ہمارے بھائی ہیں وہ پرامن طور سے چاہتے ہیں کہ وہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے مزارت کی زیارت کریں لیکں یہ عرب حکومت ان کی درخواست کو تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ دراصل یہ عرب امن پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ یہ دراصل تلوار کے سامنے ہی جھکتے ہیں۔ اب یہ پرامن طریقے سے اگر اس کی زیارت کی اجازت نہیں دیتے ہیں تو ایران اور شیعہ حضرات اس بات کا مذہبی حق رکھتے ہیں بطور طاقت اردن کی حکومت سے یہ حق چھین لیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی اردن کی حکومت نے نہیں چھوڑا ہے۔ آل سعود اور وہابی پرامن بقائے باہم پر یقین ہی نہیں رکھتے ہیں۔

Saturday, 17 September 2016

عدنان میندریس

عدنان میندریس

#Adnan_mendres#



شہید عدنان میندریس ترکی کے ایسے وزیراعظم ہیں، جن کو آج ہی کے دن 17 ستمبر 1961 کو پھانسی دے دی گئی۔ آپ جانتے ہیں پھانسی کیوں دی گئی۔ ان کو پھانسی اس لئے دی گئی کہ نئے ترکی کے معمار مصظفی کمار اتاترک نے ملک سے اسلام کو خارج کردیا تھا اور وہاں اذان بھی عربی کے بجائے ترکی زبان میں دی جانے لگی اور ملک کا قانون اسلام مخالف بنادیا گیا۔ جب عدنان میندریس ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنی کابینی فیصلے میں ترکی زبان میں اذان دینے کے بجائے عربی میں دینے کا فیصلہ لیا۔ جس کے بعد فوج نے ان کا تختہ پلٹ دیا اور ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر اس مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سیکولر اقدار کی خلاف ورزی کی ہے اور ترکی زبان میں جو اذان دی جاتی تھی اس کو عربی زبان میں دینے کی اجازت دے کرملک سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔

Monday, 12 September 2016

شام میں خانہ جنگی کی اصل وجوہات

شام میں خانہ جنگی کی اصل وجوہات

(22 نومبر 2015 کو شائع شدہ)

#Syria_crisis#

از:ظفر اقبال

اسد مخالف لوگوں کی رائے ہے کہ اگر اسد عہدے سے ہٹ جاتے ہیں توشام کا بھلا ہوگا اور شام ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائے گا۔ اگریہی بات کوئی سعودی عرب یا یو اے ای یا قطر یا بحرین کے حکمراں سے کہے کہ وہ عہدہ چھوڑ کر الگ ہوجائیں نہیں تو ہم لوگ تمہارے کے خلاف زبردست مظاہرہ کرکے تمہاری حکومت کا تختہ پلٹ دیں گے۔ تمہاری حکومت کے تختہ پلٹنے کی کوششوں میں جو خون بہے گا وہ بھی حکمراں کے کھاتے میں ہی جائے گا،حالانکہ یہ تمام حکمران ایسے ہیں جنہیں عوام نے منتخب نہیں کئے ہیں۔ لیکن بشار الاسد کو عوام نے ہی منتخب کئے ہیں۔جس طرح ساری دنیا اور خاص طور پرتیسری دنیا میں جمہوریت کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس میں بہت ساری خامیاں بھی ہیں تو اس میں اچھائیاں بھی ہیں۔
کیا کوئی ملک یا کوئی حکمران طبقہ اس کے لئے راضی ہوجائے گا؟ میری نظر میں ایسا کوئی حکمراں نہیں ہے جو اس کے لئے تیار ہوجائے۔ اب جب شام میں مظاہرے شروع ہوئے اسد حکومت نے ان مظاہریں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ساری دنیا کے حکمراں کرتے ہیں۔ مظاہرین کو ان کی فوج نے منتشر کردیا۔ اب ان مظاہرین کی مدد کے لئے سعودی عرب، قطر ، بحرین،یو اے ای اور امریکہ اور یوروپ آگئے۔ان سارے ممالک نے مل کر اسد مخالف لوگوں کو بھرپورٹریننگ اور اسلحہ دینا شروع کردیا۔ اسد مخالف باضابطہ ایک فوج تیار کرلی گئی، جو باضابطہ فوج سے ٹکر لینے لگی اور ان کو وہی ہتھیار مہیا کرائے گئے اور جو ایک طاقتور ملک کے فوج کو ہوتی ہے۔ اس طرح دونوں فریقوں میں مقابلہ آرائی شروع ہوگئی۔ان مقابلہ آرائی میں لاکھوں لوگوں بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں افراد جلاوطنی کے لئے مجبور کئے گئے۔اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ لوگ طرفین کے شام میں ہلاک ہوچکے ہیں، ان مرنے والوں میں ایک لاکھ اسدکی فوج بھی شامل ہے۔ اس جنگ کی حالت کیا ہوگی جس جنگ میں متعلقہ ملک کے فوجیوں کے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائے ، ان کا مقابلہ کس طرح کے دشمن سے ہوگا۔ اس طرح ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔
اسد مخالف لوگوں نے بہت سارے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اسی درمیان داعش نام کی ایک تنظیم مغرب اور عرب ممالک نے پیدا کی جنہوں نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوگئی۔ ان کی فکر ایسی تھی کہ ان کے مقبوضہ علاقے میں جومقبرے اور دوسرے فرقے کے لوگوں کے مقدس درگاہیں تھیں تمام کو مسمار کردی گئیں ۔ان مقبروں کو دھماکے سے تباہ کردیا گیا۔ شام میں تقریبا دس ہزار صحابی و صحابیات کے مقابر موجود ہیں۔ سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کا مقبرہ بھی دمشق میں ہے۔ اس طرح بہت سارے اہل بیت کے مقابر اور دیگر متبرک جگہیں شام میں موجود ہیں۔ان کو خاص طور پر اس جنگ میں ہدف بنایا گیا۔ سیدہ زینب (رضی)کے مقبرے پر متعدد بار راکٹوں اور میزائلوں سے حملے کئے گئے۔ اب یہ لڑائی شیعہ ۔ سنی کے درمیان ان وہابی مکتب فکر کے لوگوں نے بنادی۔
ان تمام حوادث کے بعد ایران کو اس جنگ کا حصہ بننا ہی تھا۔ اب یہ ان کے مسلک پر حملہ تھا۔ پہلے تو ایران نے اسد کا صرف اس لئے ساتھ دیا تھا کہ ان کے والد حافظ الاسد نے عراق۔ ایران کے درمیان ہوئے آٹھ سالہ جنگ میں انہوں نے ایران کی ہرطرح سے مدد کی تھی۔ اس لئے ایک دوست کا ساتھ دینا ضروری ویسے بھی ہوتا اور محسن کا احسان بھی چکانا ہوتا ہے۔ جب ایران کو محسوس ہوا کہ دراصل یہ بشار الاسد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسلکی لڑائی ہے ۔ جن میں وہابی شام کے تمام علاقوں میں اہل بیت کی جو نشانیاں موجود ہیں ان تمام کا صفایا کردینا چاہتے ہیں اور وہاں موجود شیعوں کو ملک سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔آج بھی اگر بشارالاسد سعودی عرب اور امریکہ کی بات مان لے تو اسد مخالف جتنی بھی وجہیں سب یک دم ختم ہوجائیں گی اور اسد چہیتا ہوجائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل کا اس میں مفاد یہ ہے کہ اگربشارالاسد کی حکومت گرجاتی ہے اور ان کے حامی برسراقتدار آجاتے ہیں تو اسرائیل زیادہ محفوظ ہوجائے گا۔ وہ اس لئے کہ شام کی سرحد لبنان سے ملتی ہے اور لبنان میں حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کا تعلق شیعہ فرقہ سے ہے۔ جو ایک طاقتور گوریلا بن چکی ہے۔ بلکہ لبنان کی فوج اس کے سامنے بونا ہے۔ حزب اللہ کی اسرائیل سے 2006 میں 33روزہ جنگ بھی ہوچکی ہے۔ جس میں اسرائیل کوئی مقاصد حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اسرائیلی فوج کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں ماری گئی تھی۔
اسد کو بچانا ایران کی منطقی ہی نہیں بلکہ مسلکی ضرورت ہے۔ اگر خدانہ خواستہ ایران بشارالاسد کی حکومت کو نہیں بچاپاتا ہے تو ایران کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہوگا۔ شیعہ مسلک کے لوگوں کو ایک بڑی تباہی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ جنگ ایران کے حیات و ممات سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ اس لئے ایران پوری کوشش کرے گا کہ اسد حکومت ہر حال میں بنی رہے اور اس کو کسی طرح کا خطرہ نہ ہو۔
لوگ کہتے ہیں کہ شام میں70فیصدسنی مسلمانوں کی آبادی ہے، پندرہ فیصد عیسائی کی اور پندرہ فیصد شیعوں کی آبادی ہے۔ مگر حکمران شیعہ ہے۔ لیکن اس کا اطلاق بحرین پر نہیں ہوتا ہے کہ بحرین میں 70 فیصد شیعہ آبادی ہے اور حکمراں ٹولہ سنی ہے۔ حالانکہ جو حکمراں ہے ان کو عوام نے منتخب نہیں کیا ہے ، تو یہ جواز بنتا ہے کہ بحرین میں الیکشن کرایا جائے کہ وہاں کی عوام کیا چاہتی ہے۔
اب روس نے شام کی حکومت کو بچانے کی جو کوششیں شروع کردی ہیں۔ روس اور مغرب کے درمیان یوکرین اور کریمیا کے مسئلے پر شدید اختلافات ہیں، بلکہ روس نے دوسال قبل کریمیا کو یوکرین سے الگ کر اپنا حصہ بنالیا تھا۔ جس سے مغرب سکتے میں آگیا تھا۔ یہ واقعہ اس طرح عجلت میں ہوا کہ مغرب کے ہوش ہی اڑگئے۔ جس کی وجہ سے مغرب نے روس پر بہت زیادہ پابندیاں لگادیں۔ اب روس پر ان پابندیوں کا کیا اثر ہورہا ہے کوئی خاص اثر تو نہیں دکھ رہا ہے۔ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مخالف ممالک پر اقتصادی پابندی لگاکر اپنی بات منوانے کے لئے مجبور کردیں گے۔ لیکن کبھی اسے کامیابی ملتی اور کبھی نہیں ملتی۔ جیسے لیبیا کے کرنل قذافی کو اقتصادی جکڑ بندی میں کس دیا تھا لیکن بالآخر مغرب نے قذافی کو اس کے باوجود ہلاک کروادیا۔ زمبابوے ، وینزوئیلا، شمالی کوریا اور اسی طرح کئی ایک ممالک مغرب کے اقتصادی پابندی کے شکار ہیں۔
روس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکہ جرمنی کے راستے پولینڈ اور بالٹک علاقے میں جو کبھی روس کا حصہ رہا تھا ان میں بڑے پیمانے پر ٹینکوں اور دیگر اسلحہ پہنچارہا ہے، شام دراصل روس کے لئے ایک پراکسی وار ہے۔ جس میں وہ مغرب اور امریکہ کو شکست دینا چاہتا ہے۔ ایران بھی امریکہ اور مغرب مخالف ہے اور روس بھی۔ اس طرح لامحالہ امریکہ اور مغرب کے دو دشمنوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایرا ن کے لئے حیات وممات کا مسئلہ ہے اور روس کے لئے یہ ایک پراکسی وار ہے۔
روس کے لئے ایک مسئلہ اور بھی ہے ہے کہ شام میں داعش کی جانب سے جو لوگ لڑر ہے ہیں، ان میں تقریبا سات ہزار ایسے لڑاکے ہیں جن کا تعلق چیچنیا سے ہے۔ یہ لڑاکے جب چیچنیا میں واپس جائیں گے تو روس کی مصیبتوں میں اضافہ کریں گے۔ اس لئے روس آنے والے مصیبتوں کو وہ شام میں ہی ختم کرناچاہتا ہے۔
حالیہ دنوں روس کے ایک مسافر جہاز کو مصر کے سینا علاقے میں داعش نے بم دھماکہ کرکے تباہ کردیا جن میں 224افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر کا تعلق روس سے تھا۔ اس واقعہ نے روس کے غصہ میں مزید اضافہ کردیا۔ روس اب نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آگیا ہے۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے تو جب وہ کسی کام کو کرنے کا تہیا کرلیتے ہیں جب تک اس کو تکمیل تک نہیں پہنچا دیتے چین سے نہیں بیٹھتے ہیں۔
اگر بالفرض اسد اپنے عہدے سے استعفے دے بھی دیتے ہیں تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ پورے ملک میں خانہ جنگی نہ شروع ہوجائے گی اور جو حشر ہم لیبیا میں دیکھ رہے ہیں وہی حشر شام کانہ ہو۔ اسرائیل ویسے بھی چاہے گا کہ اس کی سرحد پر اسد حکومت جیسی مضبوط کوئی حکومت نہ ہو وہ اس لئے کہ شام کے گولان پہاڑی پر وہ قبضہ کررکھا ہے اور عملا وہ اسے اپنے ملک میں ضم بھی کرچکا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے شام اور عراق میں آگ لگی ہوئی ہے۔
فون:9958361526
ای میل:zafarurduuni@gmail.com


Thursday, 8 September 2016

Syria is front line state against Israel

 Syria is front line state against Israel

#Syria_Israel# 

Any government can not afford State within the State.What could be separated Mumbai from India. Aleppo is an important city of Syria. What Syria can be completed without Aleppo. Nearly three lac people have been killed in Syria since 2011. Are you sure you are aware that the death toll of Syrian troops in the nearly one lac Soldiers. It is estimated that these fighters are dangerous people. Syria is front line state against Israel. US, Israel and Arab allies continuously support anti Assad Rebels and ISIS.

Tuesday, 6 September 2016

ایران،عراق،شام اورحزب اللہ(یعنی شیعوں) پر زبردست ذمہ داری

ایران،عراق،شام اورحزب اللہ(یعنی شیعوں) پر زبردست ذمہ داری

#Iraq_Iran_shiism#

(انیس نومبر 2016 کو تحریر کردہ مضمون)

ابھی حالیہ دنوں میں پیرس میں ہوئے متعدد بم دھماکوں میں تقریبا 150 فرانسیسیوں کی ہلاکت کےبعد فرانس بہت زیادہ جذباتی ہوگیا ۔ بشار الاسد کی اجازت سے اس نے د اعش کے کنٹرول والے علاقے جس کی راجدھانی رقہ ہے، اندھا دھند بمباری شروع کردی۔ اس نے اسی علاقے پر بمباری کی جس کو روس پہلےہی تباہ کرچکا ہے۔ روس تقریبا ڈیڑھ ماہ سے مسلسل بمباری کررہا ہے، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک گراؤنڈ فورسیز بھیجنے سے بچ رہے ہیں۔ جب تک آپ گراؤنڈ فورسیز نہیں بھیجیں گے آپ کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہیں گی، وہ اس لئے کہ داعش اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ رہائشی علاقے میں چھپے ہوئےہیں۔ رہائشی علاقوں پر بے تحاشہ بمباری کی گئی تو ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں پہنچ جائے گی۔
روس جو ڈیڑھ مہینے سے بمباری کررہا ہے، اس سے یقینا داعش کا بہت نقصان ہوا ہے محض بمباری سے اس کو شکست نہیں دی جاسکتی، ایسا محسوس ہوتا ہے روس بھی سمجھ گیا ہے کہ جب تک ہم زمینی کارروائی نہیں کریں گے ، بمباری معاون کا رول تو ادا کرسکتی ہے ،حتمی جیت اس سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتے، وہ اس لئے کے ایک فریق مرنے مارنے پر اتارو ہو۔ اگر ہم داعش کے علاقے میں گراؤنڈ فورسیز بھیجتے ہیں ،تو ہمیں اس کے لئے تقریبا دو برس درکار ہوں گے۔ جس میں آپ کو اس لڑائی میں کم از کم ایک سے دو لاکھ فوجیوں کی قربانی دینی ہوگی تب ہی آپ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ورنہ نہیں۔ آپ کو ہر گلی ہر چوراہے پر لڑائی لڑنی ہوگی۔ اسٹریٹ فائٹ کرنی ہوگی۔گاؤں گاؤں میں لڑنی ہوگی۔
مغرب اس بات کو سمجھ رہاہے لیکن کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اب یہ کام ایران ، عراق ، شام اور حزب اللہ کو ہی کرنا ہوگا نہیں تو داعش کا وجود انسانیت کے لئے ایک عذاب ثابت ہوگا، تب ہی انسانیت بچ سکتی ہے ، امت مسلمہ بھی اپنی رسوائی سے بچ سکتی ہے، ان مذکورہ بالا ممالک کو امت مسلمہ کی طرف سے یہ کفارہ ادا کرنا ہی ہوگا۔

Sunday, 4 September 2016

زید حامد کی گرفتاری وسزا امت مسلمہ کے لئے ایک تازیانہ

زید حامد کی گرفتاری وسزا امت مسلمہ کے لئے ایک تازیانہ

(4جولائی 2015 کو شائع شدہ مضمون)
 #zaid_hamid_Muslim_Ummah_Saudi_Arabia#

سعودی عرب میں پاکستانی صحافی اور دانشور زید حامد کی گرفتاری اور اس کو اپنے ملک کی بہتری کی حمایت کی سزا جو ۱ایک ہزار کوڑوں اور آٹھ سال کی قید کی صورت میں دی گئی ہے ، یہ سزا خود انسانیت اور پاکستان کی حکومت کے لئے باعث ننگ ہے اور صحافی برادری کے لئے ایک تازیانہ سے کم نہیں ہے۔ زید حامد پاکستان کے مشہور صحافی اوردانشور ہیں۔جب یمن پر سعودی عرب نے اپنے حلیفوں کے ساتھ حملہ کردیا تو سعودی عرب نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا ہر طرح سے ساتھ دے خاص طور سے فوجی اعتبار سے ہمارا ساتھ دے۔ اس مطالبے کے آنے کے بعد پاکستان میں ایک بحث چھڑ گئی کے کیا پاکستان کو سعودی عرب کے ناجائز جنگ میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں ، لیکن سعودی عرب کو نہ سننے کی عادت ہے ، پاکستان میں اس سلسلے میں کافی ہنگامہ آرائی ہوئی اور سعودی عرب حرمین کی آڑ میں چاہتا تھا کہ پاکستان ہر صورت میں اس کی جنگ کا حصہ ہو لیکن پاکستانی پارلیمنٹ نے اس کے برعکس قرارداد پاس کرکے سعودی عرب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ، جس سے سعودی عرب اورپاکستان کے درمیان سرد جنگ جیسی تلخی دیکھی گئی۔ٹی وی پر بحث پر زید حامد نے کھل کر سعودی عرب کے اس مطالبے کی مخالفت کی اور حکومت پاکستان سے کہا کہ وہ امت مسلمہ کی اس جنگ میں نہ الجھے ، اسی کی سزا زید حامد کو دی گئی اور اس پر جو لایعنی الزامات لگاکر جو سزا دی گئی وہ باعث ننگ ہے، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کی طرز حکومت پر نکتہ چینی کی تھی ، واضح رہے کہ یہ نکتہ چینی انہوں نے پاکستان میں کی تھی نہ کہ سعودی عرب کی سرزمین پر جن پر آل سعود کی حکومت ہے، ان کو جو سزا دی گئی وہ ایک ہزار کوڑے یعنی دس زانیوں کے برابر سزا ہے اور آٹھ سال کی سزا مزید ہے۔
مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ زید حامد کی گرفتاری پر خود پاکستان میں بھی کوئی بحث نہیں ہوئی یہ سراسر پاکستان کے تمام صحافیوں اور ساری دنیا کے صحافیوں کے حقوق کے خلاف سزا ہے ، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
زید حامد کی گرفتاری امت مسلمہ کے لئے ایک چیلنج بھی ہے کہ کوئی صحافی یا دانشور جو سعودی عرب کی طرز حکومت کا ناقد ہووہ حج یا عمرہ نہیں کرسکتا ہے۔حج وعمرہ عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کا پیدائشی حق ہے ، امت کے کسی فرد سے اس کے حق کو جو چھینے گا اس کے شہنشاہیت جو اسلام کے خلاف اور جمہوری حق کے منافی ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہے۔ سعودی عرب میں جمہوریت کی بحالی ہونی چاہئے ۔ جب تک آل سعود کی حکمرانی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ امت مسلمہ اسی جیسی مصیبت سے دوچار ہوتی رہے ۔
واضح رہے کہ یمنی عوام سعودی عرب سے اپنے تین صوبوں نجران، جازان اور عسیر کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ صوبہ 1934کے طائف معاہدہ کے رو سے ساٹھ برسوں کے لئے سعودی عرب نے یمن سے پٹے پر لیا تھا یہ معاہدہ 1993میں ختم ہوگیا ، اس طرح یہ صوبے خود بخود یمن کو منتقل ہوجانے چاہئے لیکن منتقل کرنے کے بجائے اس نے مزید علاقوں پرقبضہ کرنے اور یمن کو اپنا باجگذار ریاست بنانے کے لئے اپنے حلیفوں کے ساتھ حملہ کردیا۔ چند دن پہلے نجران کے عوام نے ریاض حکومت کے خلاف بغاوت کردی ہے اور نجران کے ائرپورٹ پریمنی گروپ کا قبضہ ہوگیا ہے۔
فون:9958361526





امام خمینی (رح) ٰفلسطین کے افسانوی قائد یاسر عرفات کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

 امام خمینی (رح) ٰفلسطین کے افسانوی قائد یاسر عرفات کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

#Khomeini_Yasir_arafar#

امام روح اللہ خمینی الموسوی فلسطین کے افسانوی قائد یاسر عرفات کے ساتھ خوشگوار موڈ میں اور امام خمینی کے بیٹے یاسر عرفات کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ نادر تصویر جس سے یہ بات عیاں ہے کہ ایران فلسطین کی آزادی کا کس قدر حامی ہے





Saturday, 3 September 2016

اسرائیل کے نقشہ کا تجزیہ اور اس کے عزائم

اسرائیل کے نقشہ کا تجزیہ اور اس کے عزائم

star_of_David_Israel#

اسرائیل کے جھنڈے کے درمیان میں اسٹار آف ڈیوڈ (ستارے داؤد)ہے اور اسکے اوپر اور نیچے دو نیلی لائنیں ہیں، بین الاقوامی میپ میں نیلے رنگ کا مطلب پانی کا ہوتا ہے اور اگر وہ لائنیں لمبی اور ترچھی ہوں اس کا مطلب وہ ندی ہے۔ اسرائیل کے جھنڈے میں دو نیلی لائنیں ہیں ، اس کا مطلب دو ندی ہے، ایک ندی دریا نیل ہے اور دوسری ندی دریائے فرات ہے۔ خود اسرائیل کی پارلیمنٹ کے پیشمانی پر یہ تحریر ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ اسرائیل اپنا علاقہ تسلیم کرتا ہے، فی الحال اس کے حالات ناموافق ہیں اس لئے اس کے قبضے میں نہیں ہے لیکن تصوارتی طور سے وہ اسے اپنا علاقہ تسلیم کرتا ہے۔اب مشرق وسطی کے نقشہ کو ملاحظہ کریں : ایک طرف لبنان دوسری طرف شام، تیسری طرف اردن, چوتھی طرف مصر اور پانچویں طرف آبی اعتبار سے سعودی عرب کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے۔ اسرائیل کو اگر اپنے عزائم کی تکمیل کرنی ہے تو اسے ان علاقوں میں کسی ایک علاقہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔اردن سے اس کا معاہدہ پہلے ہی معاہدہ ہوچکا ہے،سعودی عرب کو اسرائیل سے کوئی پریشانی کبھی رہی نہیں، مصر سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوچکا ہے اور اس کے عوض اسے دو بلین امریکی ڈالر سالانہ امداد کے طورپر دی جارہی ہے۔ اب رہا شام اور لبنان، شام میں پہلے حافظ الاسد تھے اور اب ان کا بیٹا بشار الاسد برسراقتدر ہیں، لبنان میں حزب اللہ ہے، دونوں کے ساتھ اسرائیل حالت جنگ میں ہے ، 1967میں شام سے ہتھیائے گئے شامی علاقہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، کوئی معاہدہ شام کا نہ ہونے کی وجہ سے تکنیکی طور سے شام اور اسرائیل حالت جنگ میں ہیں۔ اسی طرح جنوبی لبنان پر حزب اللہ کے ساتھ 2006میں جنگ ہوچکی ہے اور وقتا فوقتا اسرائیل سے جھڑپ ہوتی رہتی ہے۔اسرائیل کی توسیع پسندی میں اور اس کے خوابوں میں رنگ بھرنے کی راہ میں دو ہی حائل ہیں اوروہ ہے حزب اللہ اور شام کی بشار الاسد کی حکومت ۔ اگر خدانخواستہ اگر شام میں بشار الاسد اور اسکے حلیف حزب اللہ کی شکست ہوگئی تو پھر اسرائیل سے عالم اسلام کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور سنی دنیا خاص طور سے پکے ہوئے پھل کی طرح اسرائیل کی جھولی میں گرجائے گی ۔ مگر انشا اللہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس تباہی کی تمام تر ذمہ داری سنی دنیا خاص طور سے سعودی عرب کے حامی خلیجی ممالک اور ترکی پر ہوگی۔
فون: 9958361526










Friday, 2 September 2016

ولایت فقیہ سید آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت

ولایت فقیہ سید آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت

 #Khamenie_Iran

ایرانی فوج کے طاقتور جنرل سید آیت اللہ خامنہ ای کے سامنے زانوئے تلمذ طے کررہے ہیں۔ ان کی ایک ایک باتوں کو غور سے سن رہے ہیں اور ان کے حکم کے ہر دم منتظر رہتے ہیں۔ اصل پیشوائی کیا ہوتی ہے اگر دیکھنی ہے تو وہ ایران میں دیکھے۔ علماء جب حکمراں ہوتے ہیں تو حکومت احسن طریقے سے چلتی ہے اورایران میں علماء کی حکومت اسی تسلسل کا حصہ ہے جس کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ختم ہوگئی۔ آیت اللہ خامنہ ای اسی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین ہیں۔ بیچ میں تقریبا تیرہ سو برسوں کا خلا ہے جس میں جاہ پرست لوگوں اس دنیا پر قابض رہے الا ماشاء۔
ایک پروگرام میں  مجلس میں موجود اپنے فوجی جنرلوں سے مخاطب ہرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں مسلح فوج کی دوسری قسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مسلح افواج کے اس گروہ کے پاس لڑنے کی کافی مہارت اور توانائی ہوتی ہے لیکن یہ میدان میں انسانی سوز حرکتوں اوربے رحمی کا ارتکاب کرتے ہیں جیسا کہ امریکی فوج نے عراق پر مسلط ہونے کے لئے بھیانک اور بےرحمانہ جرائم کا ارتکاب کیا۔
انہوں نے فرمایا کہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فوج ہی ایسی فوج ہے جس کے پاس لڑنے کی اعلی مہارت بھی موجود ہے جو مکتبی بھی ہے اور معنوی محرکات سے بھی سرشار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی مسلج افواج فوجی مہارت کے ساتھ ساتھ ایمانی ،انسانی اور اخلاقی اقدار سے بھی بہرہ مند ہے۔
صالح اقدار ایرانی فوج میں صرف اس لئے ہے کہ ان کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای جیسے عالم دین ہیں۔ جنہوں نے اسے کندن بنادیا ہے۔

Thursday, 1 September 2016

امام خمینی (رح) حضرت علی (رض) کے نعم البدل تھے

امام خمینی (رح) حضرت علی (رض) کے نعم البدل تھے

Imam_Khumaini_Ali_RA#
امام خمينى رحمہ اللہ عليہ حضرت على ،امام حسن اور امام حسين رضى اللہ عنھما کے نعم البدل تھے۔
امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کو دیکھ کر دنیا محو حیرت ہے۔ اس لئے کہ ماضی میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اگر ابتداسے ہی حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم جو خود اپنی ذات میں ایک نبی و رسول کے ساتھ ساتھ حکمراں بھی تھے۔ ان کے وصال کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت علی کرم اللہ رضی اللہ تعالی بلکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ تک اپنی ذات میں ایک زبردست عالم کے ساتھ ساتھ ایک مدبر سیاست داں بھی تھے اس لئے دنیا کا کاروبار حیات صحیح اسلامی نہج پر چلتا رہا لیکن جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی اور دنیا دو طبقوں میں تقسیم ہو گئی ایک جاہ پرست لوگوں کاطبقہ جو حکمرانی کے منصب پر فائز تھااور دوسرا علماء کا گروپ جو مسند ارشاد پر فائز ہوگیا اس تقسیم نے عالم اسلام کوتباہی سے دوچار کردیا۔ اسی تصور کا نتیجہ تھا کہ پوری اسلامی تاریخ خاک و خون میں نہائی ہوئی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے۔اللہ نے حکمرانی کے لئے جو اصول و قواعددنیا والوں کو دےئے تھے وہ طاق نسیان میں رکھ دئیے گئے تھے۔
اسی طرز حکمرانی کی امام خمینی نے احیاء کی جو حضرت علی کی شہادت کے ساتھ کہیں کھوگئی تھی۔ یہ تاریخ میں عدیم المثال واقعہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد پہلی مرتبہ علماء کسی ملک کے حکمراں ہیں۔ یہ وہ نعمت ہمارے لئے ہے کہ ایران اس وقت بام عروج پر پہنچ رہا ہے اور وہ اس لئے کہ خدا کے نزدیک علم جب تقوی سے وابستہ ہو تبھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے نہیں تو ابلیس اسے اپنی راہ سے بھٹکادیتا ہے۔
علم کو ابتدائی عہد کے علماء نے دو قسموں میں تقسیم کردیا تھا ایک علم دنیااور دوسرا علم دین لیکن یہ تمام تقسیم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہوئی اس سے پہلے اس طرح کی تقسیم کی کوئی نظیر ہمیں نہیں ملتی ہے۔ اسی تقسیم نے ہمیں علمی اعتبار سے پستی سے دوچار کردیا۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس تقسیم کو مسترد کردیا۔ اس طرح ایران میں امام خمینی کے صحیح اسلامی نظریہ کے تناظر میں ۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب آیا۔حضرت آدم علیہ السلام کو جن اسماء کا علم دیا گیااہل ایران ان اسماء کا انکشاف کرکے اس دنیا میں حقیقی وارث بننے کے جستجو میں ہیں۔

مودی کے دورہ ایران سے بدی کے محور ممالک پریشان

مودی کے دورہ ایران سے بدی کے محور ممالک پریشان

#Modi_iran_axis_of_evil#

(23 مئی 2016 کا تحریر کردہ)

مودی کا دورہ ایران axis of evil (بدی کے محور)ممالک سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کو تناؤ میں مبتلا کردیا ہے۔یہ ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ ہندوستان ترقی کرے۔ ہندوستان کا ایران کے چا بہار پورٹ میں سرمایہ کاری کرنا اور گیس فیلڈ کے تعلق سے معاہدہ اور ان ممالک کو بہت ہی برا لگ رہا ہے۔ ہندوستان اور ایران کے درمیان بارہ معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ ان ممالک کے ہاں ہاں میں ملانے میں ہندوستانی میڈیا زی ٹی وی اور سرکاری دوردرشن کو چھوڑ کر تقریبا پورے چینل ایران کے تعلق سے خبروں کو بلیک آؤٹ کررہے ہیں۔ یہ چینل والے کس کے اشارے پر کام کررہے ہیں۔ میں کل رات ساڑھے نوبجے سے تقریبا ساڑھے گیارہ بجے رات تک ان دو چینلوں کے علاوہ دیگر چینلوں میں مودی کے دورہ ایران کے تعلق سے خبریں تلاش کرتا رہا لیکں بیشتر چینل نے بلیک آؤٹ ہی رکھا۔ صرف زی چینل اور دوردرشن نے تفصیل سے خبر نشر کی۔
اب میں اس پر آتا ہوں کہ ہندوستان کو ایران سے معاہدے کرنے سے کیا حاصل ہونے جارہا ہے۔ ہندوستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو اسے چا بہار پورٹ کے تعلق سے معاہدہ از حد ضروری ہے۔ ہندوستان کو افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی کا سب سے آسان راستہ یہی ہے۔ یہیں سے ہندوستان کی قسمت کے تالے کھلنے والے ہیں۔ جو لوگ یا جو گروپ اس معاہدے کی مخالفت کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے اشارے پر ملک کے ترقی کے خلاف کام کررہے ہیں۔ ہندوستان کی ترقی کا راستہ چاہ بہار سے ہوکر گذرتا ہے۔ہندوستان کو ایران سے گیس اور وسط ایشیا تک رسائی کا راستہ حاصل ہوجائے گاجس سے ہندوستان کو بہت فائدے ہونے والے ہیں اور ہندوستان کی قسمت کھل جائے گی اور یہاں کی عوام کے اچھے دن آسکتے ہیں۔ ہندوستان اور ایران کے درمیان قربت ایشیا میں ایک نئی سمت متعین کردے گی۔
فون:9958361526







آل سعود نے او آئی سی کو یرغمال بنالیا ہے

آل سعود نے او آئی سی کو یرغمال بنالیا ہے


Ale_saudi_OIC#

(19 اپریل 2016 کا تحریر کردہ)

سعودی عرب کی اس بات کی مذمت کی جانی چاہئے کہ اس نے ایران اور حزب اللہ کے خلاف جو معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے اور سعودی عرب نے او آئی سی کو جس طرح سے یرغمال بنالیا ہے۔ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ او آئی سی کا اجلاس اس لئے بلایا گیا تھا کہ امت کے درمیان باہمی اتحاد پیدا کیا جائے لیکن ٹھیک اس کے برعکس امت کے درمیان تفرقہ بازی کا جس قدر زبردست مظاہرہ کیا گیا ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے۔
سعودی عرب بہت سارے سنی ممالک کو بلیک میل کررہا ہے جیسے تیونیسیا کی مثال دیتا ہوں کہ تیونسیا کے ایک وزیرنے یہ بات بتائی ہے کہ ایران اور تیونیسیا کے درمیان پچھلے دو برسوں میں دو سو کے قریب تجارتی معاہدے ہوئے ہیں لیکن سعودی عرب کی دباؤ کی وجہ سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ یہ بلیک میلنگ کی سیاست کب تک چلتی رہے گی۔ جو خود کسی ملک کی کٹ پتلی ہو اس کی بساط کیا ہوسکتی ہے۔ ایران کی طرف پے درپے بہت سے دیگر ممالک تجارت کے لئے آرہے ہیں۔ چاہے ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج ہو یا یوروپین یونین کی سیاسی سربراہ فیڈرک موگرینی ہو یا اٹلی کے وزیر اعظم ہو یا یکم مئی کو جنوبی کوریا کی صدر بھی ایران کے دورے پر جانے والی ہیں۔ اس کی وجہ سے ایران کا قد بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکں آل سعود کے رویہ کی وجہ سے اس کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ظالم آل سعود اپنی معاندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے اس طرف جارہا ہے جہاں ایک کھائی اس کی منتظر ہے۔

ہندوستانی وزیر خارجہ کا رویہ احسن قدم ہے

ہندوستانی وزیر خارجہ کا رویہ احسن قدم ہے

#Indian_foreign_Minster_Iran#
(18 اپریل 2016 کا تحریر کردہ) 

ہندوستانی وزیر خارجہ سر ڈھک کر ایران میں قدم رنجا فرمائیں۔یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے۔ہر ملک کی اپنی اخلاقی قدریں ہوتی ہیں اس کی پاسداری کرنی چاہئے اور میزبان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہاں میزبان کا مطالبہ مہمان کے مذہب سے تصادم نہ رکھتا ہو۔
ہندوستان کو ایران سے زبردست تجارت چاہئے، بحیرہ کیسپئن میں پہنچنے کے لئے اسے ہر حال میں ایران کی ضرورت ہے۔ ایران تو اسرائیل کا جانی دشمن اور ہندوستان تو اسرائیل کے لئے جان حاضر کرنے کے لئے بیتاب۔ کہاں مماثلت، بعد المشرقین۔ ہاں ایک بات ضرورت پے ہے کہ ایران ہمارا سابق پڑوسی ملک رہ چکا ہے۔ ایک بات اور کہ ایران نے اپنی سرزمین کو خواتین کے لئے حرم بنادیا ہے۔ کسی بھی ممالک کی خاتون ہو کسی بھی درجے کی ہو، چاہے سرکاری ہو اس کو اسکارف کا خیال تو رکھنا ہی ہوگا۔ ابھی دو دن پہلے یوروپین یونین کی پولیٹیکل سربراہ فیڈرک موگرینی بھی ایران کا دو روزہ سرکاری دورہ کرچکی ہیں۔ وہ بھی اسکارف میں تھیں۔ اب یکم مئی 2016 کو جنوبی کوریا کی صدر جو ایک خاتون ہیں ایران کے دورے پر جانے والی ہیں۔ وہ بھی اسکارف میں ہی ہوں گی۔







شیعہ اور سنی اتحاد میں سعودی عرب حائل

 شیعہ اور سنی اتحاد میں سعودی عرب حائل

 #shia_sunni_Unity#

(یہ آرٹیکل 2 مئی 2016 کو تحریر کیا گیا تھا)

عالم اسلام خاص طور سے سنی دنیا ایران کے تعلق سے جس قدر متنفر کردی گئی ہے ۔ آل سعود اور جعلی خادم الحرمین الشریفین نے سنی دنیا کو مختلف لالچ اور خوف دے کر یرغمال بنالیا ہے۔ تاکہ سنی دنیا ایران سے کسی طرح کے معاملات نہ رکھ سکیں اور ان کی معیشت تباہ ہوجائے، آل سعود کو اس بات کی امید ہے کہ اس موہوم خوف کی وجہ سے ایران سعودی عرب کے گھٹنے پر سر رکھ کر اپنی جان کی بھیک مانگے گا۔ جو لوگ ایرانی تاریخ سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایران صرف اسلام سے شکست کھایا ہے ایک جنگ قادسیہ میں اور دوسری مرتبہ امام خمینیؒ کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کی دوبارہ احیا کی شکل میں۔
ایران کی طاقت اور اس کی سطوت کے لئے یہ نام ونہاد آل سعود کے یرغمال بنائے گئے احمق کی جنتوں میں رہنے والے حکمراں کیا خطرہ بنیں گے۔ ایرانیوں کی اعلی اخلاق اور اس کی صلاحیت کی دنیا معترف ہے۔ ادھر میں تقریبا ایک ماہ سے خاص طور سے مشاہدہ کررہا ہوں کہ عالم اسلام کا تیسرے درجہ کا بھی تجارتی وفد ایران نہیں پہنچا ہے لیکن اس ایک ماہ میں یوروپین یونین کی پالیٹکل سربراہ فیڈرک موگرینی، اٹلی کے وزیراعظم، ہندوستان کی سشما سوراج، جنوبی کوریا کی صدر وغیرہ بہت سارے غیر مسلم ممالک کے سربراہ پے درپے ایران کا دورہ کررہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے کررہے ہیں۔ یہ اللہ کی نصرت ہے۔ اس نصرت میں ایران کے حاسد خاص طور سے آل سعود کی موت واقع ہے۔ دنیا آل سعود کی انتشار کا تماشہ بھی بہت جلد دیکھنے والی ہے۔
شیعہ اور سنی کے اتحاد میں صرف ایک ملک ہی حائل ہے وہ ہے سعودی عرب۔ اگر سعودی عرب کی حکومت کی ہوا نکل جائے تو عالم اسلام پھر سے متحد ہوجائے گا۔ حکومتیں آجاتی رہتی ہیں اور عوام قیامت تک رہے گی۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ایران نے ساری دنیا کی خواتین کے لئے اپنے ملک کو مانند حرم بنادیا ہے۔ جہاں خواتین کی عزت کی جاتی ہے ان کے دامن کو چاک نہیں کیا جاتا ہے۔ پورے ایران میں کسی بھی ممالک کی خواتین یا کسی بھی سطح کی ہو ان کو حجاب پہننا ہوتا ہے۔ یہ جبر نہیں ان کی توقیر ہے اور ان کی توقیر میں ایران کی توقیر پنہا ہے۔

سعودی عرب میں قنوت نازلہ پڑھنے پر پابندی عائد

سعودی عرب میں قنوت نازلہ پڑھنے پر پابندی عائد

 #Suadi_Arabia_qanoot_e_Nazla#

یہ آرٹیکل 6 مئی 2016 کو شائع ہوا تھا۔ اسی تناظر میں اسے پڑھیں)
 آج جب میں پارلیمنٹ کے بالمقابل جامع مسجد ، نئی دہلی میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو خطیب محترم اپنے خطبہ جمعہ میں قنوت نازلہ پڑھ رہے تھے، شاید امام محترم کو دہلی میں 4 مئی 2016کو ہوئے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری نے مہمیز کا کام کیا ہو۔ یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کی جتنی بھی گرفتاری پچھلے 25برسوں کے درمیان ہوئی ہے, ان میں بیشتر افراد چودہ چودہ یا اس سے بھی زیادہ برسوں تک جیلوں کی سلاخوں میں رہنے کے بعد باعزت بری ہوگئے اور ان پر کوئی الزامات ثابت نہ ہوسکا۔ خیر یہ مسلمانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی ایک گہری سازش ہے تاکہ ہندوستانی مسلمان خود کو ہمیشہ عدم تحفظ محسوس کریں، یہ این آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کی نفسیاتی حربہ ہے جسے ہندوستانی مسلمان باآسانی مسترد کرسکتے ہیں۔ قنوت نازلہ ہم اس وقت پڑھتے ہیں جب ہم اجتماعی بڑی مصیبتوں کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔امام کے خطبہ جمعہ میں قنوت نازلہ پڑھنے پر ہمیں اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ ہم دعا ؤں میں اللہ سے مدد مانگ سکتے ہیں لیکن سعودی عرب میں عرصے سے قنوت نازلہ پڑھنے پر پابندی عائد ہے، وہاں معاش کے سلسلے میں عرصے سے رہ رہے لوگوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی قنوعت نازلہ کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن پھر اچانک ایک سرکولر جاری کردیا جاتا ہے کہ آج سے قنوت نازلہ نہیں پڑھی جائے گی۔ وہ اس لئے کے یہ درخواستیں اسرائیل کی جانب سے ہوتی ہیں۔ وہاں کے باشندوں کو فلسطین میں ہورہے مظالم پر اسرائیل کو بددعا دینے کی بھی اجازت نہیں ہے،حالانکہ اس دعا میں براہ راست کسی کا نام نہیں لیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بددعا ئیں ہمیں ہی دی جارہی ہیں۔ وہ اس لئے کہ اسرائیل نے اپنے یہاں قانون بنارکھا کہ اگر کوئی بھی فلسطینی کسی اسرائیل کو قتل کردیتا ہے تو اس کو تو قتل کیا جائے گا ہی ساتھ ہی اس کے گھر ڈھادیا جائے گاچاہے وہ گھر اس کے نام ہو یا اس کے والدین کے نام ہو۔ ان فلسطیینیوں کو سامان نکالنے کی بھی مہلت نہیں دی جاتی ہے۔ بس فورا ہی اس کے گھر کو ڈائنامائٹ کے ذریعہ یا جے بی سی مشین کے ذریعہ ڈھادی جاتی ہے۔ یہ قاتل کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کو اجتماعی سزا دی جاتی ہے۔قنوت نازلہ کی دعاؤں میں گھر کو ڈھانے کا خاص طور پر ذکر ہے۔ ایسا دشمن جو اس کے گھر کو مسمار کردے اس سے نجات کی دعا مانگی گئی ہے۔