Monday, 12 September 2016

شام میں خانہ جنگی کی اصل وجوہات

شام میں خانہ جنگی کی اصل وجوہات

(22 نومبر 2015 کو شائع شدہ)

#Syria_crisis#

از:ظفر اقبال

اسد مخالف لوگوں کی رائے ہے کہ اگر اسد عہدے سے ہٹ جاتے ہیں توشام کا بھلا ہوگا اور شام ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائے گا۔ اگریہی بات کوئی سعودی عرب یا یو اے ای یا قطر یا بحرین کے حکمراں سے کہے کہ وہ عہدہ چھوڑ کر الگ ہوجائیں نہیں تو ہم لوگ تمہارے کے خلاف زبردست مظاہرہ کرکے تمہاری حکومت کا تختہ پلٹ دیں گے۔ تمہاری حکومت کے تختہ پلٹنے کی کوششوں میں جو خون بہے گا وہ بھی حکمراں کے کھاتے میں ہی جائے گا،حالانکہ یہ تمام حکمران ایسے ہیں جنہیں عوام نے منتخب نہیں کئے ہیں۔ لیکن بشار الاسد کو عوام نے ہی منتخب کئے ہیں۔جس طرح ساری دنیا اور خاص طور پرتیسری دنیا میں جمہوریت کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس میں بہت ساری خامیاں بھی ہیں تو اس میں اچھائیاں بھی ہیں۔
کیا کوئی ملک یا کوئی حکمران طبقہ اس کے لئے راضی ہوجائے گا؟ میری نظر میں ایسا کوئی حکمراں نہیں ہے جو اس کے لئے تیار ہوجائے۔ اب جب شام میں مظاہرے شروع ہوئے اسد حکومت نے ان مظاہریں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ساری دنیا کے حکمراں کرتے ہیں۔ مظاہرین کو ان کی فوج نے منتشر کردیا۔ اب ان مظاہرین کی مدد کے لئے سعودی عرب، قطر ، بحرین،یو اے ای اور امریکہ اور یوروپ آگئے۔ان سارے ممالک نے مل کر اسد مخالف لوگوں کو بھرپورٹریننگ اور اسلحہ دینا شروع کردیا۔ اسد مخالف باضابطہ ایک فوج تیار کرلی گئی، جو باضابطہ فوج سے ٹکر لینے لگی اور ان کو وہی ہتھیار مہیا کرائے گئے اور جو ایک طاقتور ملک کے فوج کو ہوتی ہے۔ اس طرح دونوں فریقوں میں مقابلہ آرائی شروع ہوگئی۔ان مقابلہ آرائی میں لاکھوں لوگوں بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں افراد جلاوطنی کے لئے مجبور کئے گئے۔اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ لوگ طرفین کے شام میں ہلاک ہوچکے ہیں، ان مرنے والوں میں ایک لاکھ اسدکی فوج بھی شامل ہے۔ اس جنگ کی حالت کیا ہوگی جس جنگ میں متعلقہ ملک کے فوجیوں کے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائے ، ان کا مقابلہ کس طرح کے دشمن سے ہوگا۔ اس طرح ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔
اسد مخالف لوگوں نے بہت سارے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اسی درمیان داعش نام کی ایک تنظیم مغرب اور عرب ممالک نے پیدا کی جنہوں نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوگئی۔ ان کی فکر ایسی تھی کہ ان کے مقبوضہ علاقے میں جومقبرے اور دوسرے فرقے کے لوگوں کے مقدس درگاہیں تھیں تمام کو مسمار کردی گئیں ۔ان مقبروں کو دھماکے سے تباہ کردیا گیا۔ شام میں تقریبا دس ہزار صحابی و صحابیات کے مقابر موجود ہیں۔ سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کا مقبرہ بھی دمشق میں ہے۔ اس طرح بہت سارے اہل بیت کے مقابر اور دیگر متبرک جگہیں شام میں موجود ہیں۔ان کو خاص طور پر اس جنگ میں ہدف بنایا گیا۔ سیدہ زینب (رضی)کے مقبرے پر متعدد بار راکٹوں اور میزائلوں سے حملے کئے گئے۔ اب یہ لڑائی شیعہ ۔ سنی کے درمیان ان وہابی مکتب فکر کے لوگوں نے بنادی۔
ان تمام حوادث کے بعد ایران کو اس جنگ کا حصہ بننا ہی تھا۔ اب یہ ان کے مسلک پر حملہ تھا۔ پہلے تو ایران نے اسد کا صرف اس لئے ساتھ دیا تھا کہ ان کے والد حافظ الاسد نے عراق۔ ایران کے درمیان ہوئے آٹھ سالہ جنگ میں انہوں نے ایران کی ہرطرح سے مدد کی تھی۔ اس لئے ایک دوست کا ساتھ دینا ضروری ویسے بھی ہوتا اور محسن کا احسان بھی چکانا ہوتا ہے۔ جب ایران کو محسوس ہوا کہ دراصل یہ بشار الاسد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسلکی لڑائی ہے ۔ جن میں وہابی شام کے تمام علاقوں میں اہل بیت کی جو نشانیاں موجود ہیں ان تمام کا صفایا کردینا چاہتے ہیں اور وہاں موجود شیعوں کو ملک سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔آج بھی اگر بشارالاسد سعودی عرب اور امریکہ کی بات مان لے تو اسد مخالف جتنی بھی وجہیں سب یک دم ختم ہوجائیں گی اور اسد چہیتا ہوجائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل کا اس میں مفاد یہ ہے کہ اگربشارالاسد کی حکومت گرجاتی ہے اور ان کے حامی برسراقتدار آجاتے ہیں تو اسرائیل زیادہ محفوظ ہوجائے گا۔ وہ اس لئے کہ شام کی سرحد لبنان سے ملتی ہے اور لبنان میں حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کا تعلق شیعہ فرقہ سے ہے۔ جو ایک طاقتور گوریلا بن چکی ہے۔ بلکہ لبنان کی فوج اس کے سامنے بونا ہے۔ حزب اللہ کی اسرائیل سے 2006 میں 33روزہ جنگ بھی ہوچکی ہے۔ جس میں اسرائیل کوئی مقاصد حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اسرائیلی فوج کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں ماری گئی تھی۔
اسد کو بچانا ایران کی منطقی ہی نہیں بلکہ مسلکی ضرورت ہے۔ اگر خدانہ خواستہ ایران بشارالاسد کی حکومت کو نہیں بچاپاتا ہے تو ایران کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہوگا۔ شیعہ مسلک کے لوگوں کو ایک بڑی تباہی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ جنگ ایران کے حیات و ممات سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ اس لئے ایران پوری کوشش کرے گا کہ اسد حکومت ہر حال میں بنی رہے اور اس کو کسی طرح کا خطرہ نہ ہو۔
لوگ کہتے ہیں کہ شام میں70فیصدسنی مسلمانوں کی آبادی ہے، پندرہ فیصد عیسائی کی اور پندرہ فیصد شیعوں کی آبادی ہے۔ مگر حکمران شیعہ ہے۔ لیکن اس کا اطلاق بحرین پر نہیں ہوتا ہے کہ بحرین میں 70 فیصد شیعہ آبادی ہے اور حکمراں ٹولہ سنی ہے۔ حالانکہ جو حکمراں ہے ان کو عوام نے منتخب نہیں کیا ہے ، تو یہ جواز بنتا ہے کہ بحرین میں الیکشن کرایا جائے کہ وہاں کی عوام کیا چاہتی ہے۔
اب روس نے شام کی حکومت کو بچانے کی جو کوششیں شروع کردی ہیں۔ روس اور مغرب کے درمیان یوکرین اور کریمیا کے مسئلے پر شدید اختلافات ہیں، بلکہ روس نے دوسال قبل کریمیا کو یوکرین سے الگ کر اپنا حصہ بنالیا تھا۔ جس سے مغرب سکتے میں آگیا تھا۔ یہ واقعہ اس طرح عجلت میں ہوا کہ مغرب کے ہوش ہی اڑگئے۔ جس کی وجہ سے مغرب نے روس پر بہت زیادہ پابندیاں لگادیں۔ اب روس پر ان پابندیوں کا کیا اثر ہورہا ہے کوئی خاص اثر تو نہیں دکھ رہا ہے۔ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مخالف ممالک پر اقتصادی پابندی لگاکر اپنی بات منوانے کے لئے مجبور کردیں گے۔ لیکن کبھی اسے کامیابی ملتی اور کبھی نہیں ملتی۔ جیسے لیبیا کے کرنل قذافی کو اقتصادی جکڑ بندی میں کس دیا تھا لیکن بالآخر مغرب نے قذافی کو اس کے باوجود ہلاک کروادیا۔ زمبابوے ، وینزوئیلا، شمالی کوریا اور اسی طرح کئی ایک ممالک مغرب کے اقتصادی پابندی کے شکار ہیں۔
روس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکہ جرمنی کے راستے پولینڈ اور بالٹک علاقے میں جو کبھی روس کا حصہ رہا تھا ان میں بڑے پیمانے پر ٹینکوں اور دیگر اسلحہ پہنچارہا ہے، شام دراصل روس کے لئے ایک پراکسی وار ہے۔ جس میں وہ مغرب اور امریکہ کو شکست دینا چاہتا ہے۔ ایران بھی امریکہ اور مغرب مخالف ہے اور روس بھی۔ اس طرح لامحالہ امریکہ اور مغرب کے دو دشمنوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایرا ن کے لئے حیات وممات کا مسئلہ ہے اور روس کے لئے یہ ایک پراکسی وار ہے۔
روس کے لئے ایک مسئلہ اور بھی ہے ہے کہ شام میں داعش کی جانب سے جو لوگ لڑر ہے ہیں، ان میں تقریبا سات ہزار ایسے لڑاکے ہیں جن کا تعلق چیچنیا سے ہے۔ یہ لڑاکے جب چیچنیا میں واپس جائیں گے تو روس کی مصیبتوں میں اضافہ کریں گے۔ اس لئے روس آنے والے مصیبتوں کو وہ شام میں ہی ختم کرناچاہتا ہے۔
حالیہ دنوں روس کے ایک مسافر جہاز کو مصر کے سینا علاقے میں داعش نے بم دھماکہ کرکے تباہ کردیا جن میں 224افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر کا تعلق روس سے تھا۔ اس واقعہ نے روس کے غصہ میں مزید اضافہ کردیا۔ روس اب نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آگیا ہے۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے تو جب وہ کسی کام کو کرنے کا تہیا کرلیتے ہیں جب تک اس کو تکمیل تک نہیں پہنچا دیتے چین سے نہیں بیٹھتے ہیں۔
اگر بالفرض اسد اپنے عہدے سے استعفے دے بھی دیتے ہیں تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ پورے ملک میں خانہ جنگی نہ شروع ہوجائے گی اور جو حشر ہم لیبیا میں دیکھ رہے ہیں وہی حشر شام کانہ ہو۔ اسرائیل ویسے بھی چاہے گا کہ اس کی سرحد پر اسد حکومت جیسی مضبوط کوئی حکومت نہ ہو وہ اس لئے کہ شام کے گولان پہاڑی پر وہ قبضہ کررکھا ہے اور عملا وہ اسے اپنے ملک میں ضم بھی کرچکا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے شام اور عراق میں آگ لگی ہوئی ہے۔
فون:9958361526
ای میل:zafarurduuni@gmail.com


No comments:

Post a Comment